مرحبا آمد مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم!

مرحبا آمد مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم!

جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

یوں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہم پر بے شمار احسان اور انعام و اکرام ہے، یعنی اللہ رب العالمین کے احسانات و انعامات کو شمار نہیں کیا جاسکتا اور یہ ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں وہیں ہم پر سب سے بڑا انعام سید الکونین مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہے. اور یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کسی بھی انعام و اکرام کا احسان نہیں جتایا لیکن جب شمع بزم ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو احسان جتایا. گویا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ولادت اللہ کی طرف سے بندوں کے لیے سب سے بڑا انعام ہے. دنیا کا نظام رسول پاک کے صدقے میں چل رہا ہے. دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں رسول پاک کے صدقے میں ہی وجود میں آئی ہیں. محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم ہر مخلوق کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں. پوری کائنات کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو نبی بنایا ہے. نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم جو دین لے کر آئے اس دین کا نام اسلام ہے اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین دینِ اسلام ہی ہے. اس کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی ہے اور اب دنیا و آخرت میں وہی شخص کامیاب ہوگا جو دین اسلام پر عمل پیرا ہوگا. کیونکہ رسول پاک کے آنے کے بعد کوئی اور دین اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے. اللہ نے اپنے محبوب کو امام الانبیاء، سید الانبیاء، خاتم الانبیاء بنایا ہے. اور آپ کو جو کتاب دی وہ کتاب بھی آخری کتاب ہے، جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے، جس میں رائی کے دانے کے برابر بھی شک نہیں کیا جاسکتا، شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے. اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے. اس کا تذکرہ بھی قرآن میں موجود ہے. اسلام ایک سچا مذہب ہے. دنیا کی باطل طاقتیں چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں لیکن نہ وہ اسلام کو مٹاسکتی ہیں اور نہ اسلام کے ماننے والے کو مٹا سکتی ہیں. ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت دی تو اس زمانے میں بھی نبی کریم کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن نبی کریم اس مقدس ذات کے محبوب ہیں جس کے حکم سے دنیا وجود میں آئی ہے اور جس کے حکم سے دنیا فنا بھی ہوگی. جو خود زندگی اور موت کا مالک ہو اس کے محبوب کو کوئی ختم کردے ایسا ممکن ہی نہیں ہے. لوگوں نے آپ کی تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی، اس میں بھی ناکام رہے اور آج بھی دین اسلام اور نظام مصطفیٰ کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور آج بھی ناکامیوں کا ہی سامنا کرنا پڑ رہا ہے. اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے کہہ دیا ہے کہ اب تیرے ہی دین کا ڈنکا بجے گا، کیونکہ تم نے دین کو مکمل کردیا اور ہم نے دین مکمل ہونے کا اعلان کردیا. آپ کے قریب جانے سے روکا گیا، آپ کی بات سننے سے منع کیا گیا لیکن آپ نے وہ اخلاق اور ایسا عظیم الشان کردار پیش کیا اور ایسی بے نظیر و بے مثال تعلیم دی کہ لوگوں کے دل منور ہوگئے، دنیا سے ظلمت کا خاتمہ ہوگیا اور آپ کے اسوۂ حسنہ سے پوری دنیا جگمگا اٹھی. دور جاہلیت کی ساری رسمیں کافور ہو گئیں. دشمنان اسلام اور دشمنان نبی ذلیل اور رسوا ہوئے. ابو جہل اور ابو لہب کے خواب چکنا چور ہوگئے. پوری دنیا میں اسلام کا ایسا نور پھیلا کہ اس کی کرنوں سے پوری دنیا ہی روشن ہوگئی. آج بھی اہل حق کو ہی کامیابی حاصل ہوگی. اس لیے کہ اہل حق کبھی ذلیل و خوار ہوہی نہیں سکتا. اہل حق کو لاکھ ستایا جائے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جائے اس پر عرصہ حیات تنگ کیا جائے قدم قدم پر روکاوٹیں پیدا کی جائیں مگر کامیاب اہل حق ہی ہوں گے. کیونکہ اہل حق کے ساتھ نصرت خداوندی ہوتی ہے. اس لیے وہ اہل حق پریشان ہو سکتا ہے لیکن ناکام نہیں ہوسکتا. آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب اسلام کے پیغام صداقت کو عام کیا جائے اور تعلیمات نبوی و صحابہ کرام کے کارناموں سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے اور پیغام توحید سمجھایا جائے. آج دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو معرفت الہی سے نابلد ہیں. ان کو بتایا جائے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی دنیا کا نظام چلارہا ہے. پوری کائنات کا نظام اسی کے حکم سے چل رہا ہے اور اس کے فرمان کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ہی دونوں جہان میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے. اللہ نے بہت اچھے انداز میں دنیا کو بنایا. ہر وہ چیز پیدا فرمائی جو بنی نوع انسان کے لیے ضروری ہے. اس کے علاوہ لاکھوں انبیاے کرام علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا تاکہ بندے اور رب کے درمیان تعلق قائم ہوسکے، جنھوں نے دنیا والوں کو توحید کا پیغام دیا اور ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی. ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہی دعوت لے کر آئے جس کا سلسلہ پہلے ہی سے انبیاے کرام کے ذریعے چلا آرہا تھا. نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ عالم انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے. پوری دنیا کے لیے فلاح و کامیابی کی ضمانت ہے. دنیا کا سب سے باوقار و عظیم الشان عنوان کا نام سیرت رسول ہے. دنیا کا بڑے سے بڑا مقرر، مفکر، محدث آپ کی سیرت کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا. سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو جہالت کا بول بالا تھا، انسانیت دم توڑ رہی تھی، لہو و لعب میں ڈوبی ہوئی رسم و رواج کا دور دورہ تھا، جوا اور شراب نوشی عام تھی، بیواؤں کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا، یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں تھا، کم زور اور بے سہارا لوگوں کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا، خود خانہ کعبہ میں بتوں کی پوجا ہوتی تھی، لڑکیاں زمین میں زندہ دفن کی جاتی تھیں. رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ جیسی بیوہ عورت سے نکاح کرکے بیوہ عورتوں کے مقام و مرتبہ کو بلند کردیا. خانہ کعبہ سے بتوں کو نکال پھینکا اور پاک و صاف کیا. ایسی پرنور تعلیم دی کہ سرزمین مکہ کو ام القریٰ کا درجہ حاصل ہوگیا. سسکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کو سکون میسر ہو گیا. پوری دنیا میں حق و صداقت کی روشنی پھیل گئی. غرضے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سراپا رحمت ہے. رسول پاک نے نکاح کو آسان بنایا، یتیموں کو نیا لباس پہنایا، انگلی پکڑ کر عیدگاہ لے گئے، جنگ میں ملا ہوا مال غنیمت یتیموں کو دے دیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے محبوب کی زندگی کو ماڈل اور نمونہ بنایا. بارگاہ خداوندی میں وہی اعمال قابل قبول ہوں گے جو نبی کریم علیہ السلام کے طریقے کے مطابق ہوں گے. افسوس آج ہم نے نکاح کو مشکل بنا دیا، سچ بولنے سے ڈرنے لگے، گھبرانے لگے، زندگی کے ہر شعبے میں جھوٹ کا سہارا لینے لگے، سچ کو زہر کا گھونٹ سمجھنے لگے، شادی اور نکاح کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا تو ہم پٹاخہ پھوڑ کر، جہیز مانگ کر، مہنگی سے مہنگی شادیوں کا انعقاد کرکے لذت اندوزی والی شادی کرنے لگے، نبی نے فرمایا کہ مومن وہ ہے کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرے وہی چیز اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے. مگر ہم امیروں اور غریبوں کے لیے دسترخوان الگ الگ سجانے لگے. ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نکاح شادی کو اگر نصف ایمان کہا گیا ہے تو لذت اندوزی والی شادی کو حرام بھی قرار دیا گیا ہے. اب مسلمان ساڑھے چودہ سو سال پہلے والی شادی کی تقریبات کو دیکھے اور آج کے حالات پر نظر ڈالے اور تخیل کی شاہ راہ پر سوار ہو کر غور کرے کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں کیا جائے گا. صرف کارڈ پر مسنون کا لفظ تحریر کردینے سے سنت ادا نہیں ہوجاتی. بلکہ سنت وہ ہے جس پر طریقہ مصطفیٰ کی مہر لگی ہو. ساڑھے چودہ سو سال پہلے سستی شادیاں ہوتی تھیں. آج تک اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور اس تذکرے سے ایمان تازہ ہوتا ہے. آج مہنگی شادیاں کی جاتی ہیں. پھر بھی محبت میں کمی رہتی ہے، تعلقات شکوک و شبہات کی چادر اوڑھے ہوئے رہتے ہیں، معاملات عدالت تک پہنچتے ہیں، رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایک عیسائی مؤرخ مائکل ہارٹ کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے کامیاب ترین انسان کا نام محمد صل اللہ علیہ وسلم ہے. وہ سید البشر ہیں. ان کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا کامیابی کی ضمانت ہے. یقیناً رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی اصل ایمان ہے، لیکن زبانی نہیں عملی طور پر محبت ہونی چاہیے اور جسے بھی رسول سے سچی محبت ہوگی وہ دنیا کے سامنے نام و نمود و شہرت حاصل کرنے کے لیے بیتاب نہیں ہوگا بلکہ وہ رسول پاک کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنی زندگی بسر کرےگا اور تمام تقریبات کا انعقاد بھی سنتِ محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہی کرے گا –  
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :جو کرے اتحاد کی بات : پوچھو اس سے مسلک کیا ہے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے