اردو مرثیے کا ایک معتبر نام: علامہ جمیل مظہری

اردو مرثیے کا ایک معتبر نام: علامہ جمیل مظہری

محمد منظر حسین
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، مولانا آزاد کالج، کولکاتا

علامہ جمیل مظہری مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا شمار ایک قادرالالکلام شاعر اور صاحب طرز نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ جمیل مظہری کے بارے میں صرف یہ کہنا کہ وہ بنگال کے بہت بڑے شاعر و ادیب ہیں کافی نہیں۔ جمیل مظہری کا شمار ہندستان و پاکستان کے مشاہیر شعرا و ادبا میں ہونا چاہئے۔ جہاں تک ادب اردو کا تعلق ہے، بنگال میں ان کے مقابل بہت کم لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کے تقریباً تمام اصناف سخن میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ جمیل مظہری نے اتنا ادبی سرمایہ چھوڑا ہے کہ انھیں کلیات کی شکل میں یکجا کیا گیا ہے اور یہ کل پانچ حصوں پر مشتمل ہونے کے با وجود مکمل نہیں ہے۔ ابھی بھی ان کے کچھ ادبی ذخیرے تلاش وجستجو چاہتے ہیں۔ جمیل مظہری کی مر ثیہ نگاری کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہے کہ مرثیہ کے فن سے بھی مختصراً واقفیت حاصل کر لی جائے۔
مرثیہ عربی لفظ رثاء سے مشتق ہے جس کے معنی میت پر رونے کے ہیں۔ چنانچہ ہم مرثیہ شاعری کی اس صنف کو کہتے ہیں جس میں رثائی  وصف ہو اور کسی مرنے والے کی تعریف کی گئی ہو اور اس کی موت پر اظہار غم کیا گیا ہو۔ مرثیے کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) کربلائی مرثیہ اور (۲) شخصی مرثیہ۔ جس مرثیے میں کربلا کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں اسے کربلائی مرثیہ کہتے ہیں جب کہ ایسے مرثیے جس میں کسی شخص کا ذکر ہو اسے شخصی مرثیہ کہتے ہیں۔ ابتدائی زمانے میں مرثیہ دو بیتی، مربع، مثلث، مخمس کی شکل میں بھی لکھے گئے لیکن مرثیہ کو مسدس کی شکل میں سب سے پہلے مرزا محمد رفیع سودا نے متعارف کرایا۔ اور آج مرثیہ کی یہی شکل سب سے زیادہ معروف ہے۔ کچھ تخلیق کاروں نے شخصی مرثیے کے لیے غزل کا فارم بھی استعمال کیا ہے۔ جب اردو مرثیہ اپنا سفر طے کرتے ہوئے لکھنو پہنچی تو میر ضمیر نے اسے اجزائے ترکیبی سے مزین کر دیا۔ مرثیہ کے اجزائے ترکیبی اس طرح ہیں (۱)چہرہ (۲)سراپا (۳) رخصت (۴) آمد (۵)رجز (۶) جنگ (۷) شہادت اور (۸) بین۔ سبھی مرثیہ نگاروں نے ان اجزائے ترکیبی کی پابندی اپنے مرثیوں میں کیا ہے۔ لیکن انیس و دبیر کے ساتھ بہت سے مرثیہ نگاروں نے کبھی کبھی ان اجزائے ترکیبی سے گریز بھی کیا ہے۔ لیکن اس سے مرثیہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
اردو مرثیے کی تاریخ میں علامہ جمیل مظہری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے اوروں کی طرح اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل سے نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا سلام سے کیا۔ سات، آٹھ برس کی عمر میں ہی ان کے والد نے انھیں ایک سلام زبان زد کرا کر پڑھنے کے لیے منبر پر بٹھا دیا۔ اور یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا جس کی وجہ سے اتنا مشق ہو گیا کہ جب وہ چودہ برس کی عمر کو پہنچے تو انھوں نے ایک ایسا سلام پڑھا جس میں کچھ خود ان کے اشعار تھے اور کچھ ان کے والد کے تھے۔ اس تعلق سے جمیل مظہری اپنے مضموں ”غبار کارواں“ میں رقم طراز ہیں۔
”جب سات آٹھ سال کی عمر ہوئی تو والد نے ایک سلام رٹوا کر مجھے منبر پر پہنچا دیا۔ اس وقت سے عنفوان شباب تک برابر محرم میں مرثیہ خوانی کرتا رہا اور چودہ سال کی عمر میں میری شاعری کی ابتدا غزل سے نہیں سلام سے ہوئی جس میں کچھ اشعار میرے اور کچھ اشعار میرے والد مرحوم کے ہوتے۔ “
(”غبار کارواں“ آجکل، نئی دہلی مئی ۰۷۹۱؁ء)

ان کی پہلی ادبی تخلیق ١٩٢٣ء میں نظم ”حور کا خیر مقدم“ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ان کی پہلی ادبی تخلیق رسالہ ” حور“ کے پہلے شمارے ستمبر ١٩٢٣ میں ہوئی۔ رسالہ کا بھی پہلا شمارہ اور ان کی بھی پہلی تخلیق لیکن مرثیہ لکھنے کے لیے انہیں کافی دن انتظار کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنا پہلا مرثیہ ایم۔ اے کے طالب علمی کے زمانے میں لکھا۔ اس وقت ان کی عمر ٢٦ برس تھی۔ ان کا پہلا مرثیہ  ١٩٣٠ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد وہ وقفہ وقفہ سے مرثیہ لکھتے رہے لیکن اس میں کبھی بھی تسلسل پیدا نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اپنی پوری ادبی زندگی میں صرف گیارہ  مرثیے ہی لکھ سکے۔ ممکن ہے وہ اس صنف میں پوری طرح اس لیے شامل نہیں ہونا چاہتے تھے کہ انھیں اس بات کا علم تھا کہ انیس اور دبیر اس صنف کو بام عروج عطا کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نظم اور غزل کی طرح مرثیہ کی جانب پوری توجہ نہیں دی۔ اور اسی چیز نے پروفیسر عبدالمغنی جیسے ناقد کو ان کے تعلق سے اس طرح کی رائے قائم کرنے پر مجبور کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
” بلا شبہ جناب جمیل مظہری کے مرثیوں میں گہرائی ان کے ہم عصروں سے زیادہ ہے۔ لیکن مجموعی اور عمومی طور پر ان کے مرثیے اس وفور اور جوش کے حامل نہیں جو انیس کے یہاں ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جناب جمیل مظہری مرثیہ نگاری کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکے ہیں اور ان کی چند کوششیں ان کی شاعری کے ثانوی مشغلے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ “
(جمیل مظہری کی مرثیہ نگاری، پروفیسر عبدالمغنی۔ کائنات۔ جمیل مظہری نمبر، صفحہ۔ ٣٣٢)
عبدالمغنی کے اس قول سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمیل مظہری کے مرثیے میر انیس کی طرح وفور اور جوش سے بھر پور نہیں ہوتے ہوئے بھی اپنے ہم عصروں کے مقابلے گہرائی و گیرائی سے رکھتے ہیں۔ اور ان مرثیوں کا جب گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مرثیوں کے ذریعہ اس فن میں جدت پید اکرنے کوشش کی ہے۔ ان کی اس نئی جدت نے انیس و دبیر کے شعری مزاج کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے مرثیہ کو ایک نئی جہت اور نیا سمت عطا کیا۔ اسی جدت طرازی نے جمیل مظہری کو مرثیہ کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام عطا کیا ہے۔ ان کی اس جدت طرازی کے تعلق سے ڈاکٹر ہلال نقوی اپنے مضمون ”جمیل مظہری کے حوالے سے“ لکھتے ہیں:
” بیسویں صدی میں فکری اعتبار سے جدید مرثیے کی سب سے بڑی اور سب سے سنجیدہ آواز علامہ جمیل مظہری کی آواز ہے۔ انھوں نے روایت اور جدت کو سمو کر کشت مرثیہ میں سے ایک نئی فصل شعر لگائی ہے جس میں انیس اور غالب کے گندھے ہوئے مزاج شعری کی مہک فضائے مرثیہ کو نئے زاویوں سے معطر کر رہی ہے۔ ان کے مضامین سب سے جدا ہیں. ان کے مباحث فکری کے سب سے اہم انسان کی علت غائی ہے۔ ان کے مرثیے میں وہ چونکا دینے والا عنصر نہیں ہے جو سنسنی خیزی کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک بہت گہری اور بہت سنجیدہ فکر کی لہر ان کے مرثیوں کی فضا میں دور تک اپنا ایسا نقش بناتی ہوئی چلی جاتی ہے، جو غالب کے فکری میراث کا دامن نہیں چھوڑتی۔“
(جمیل مظہری کے مرثیے : ڈاکٹر ہلال نقوی، صفحہ۔ ۸ تا ۹، مطبوعہ کراچی)
١٩٣٠ء میں جمیل مظہری کا پہلا مرثیہ عرفان عشق شائع ہوا، جس کا پہلا مصرع ہے ”عشق کیا ہے غم ہستی سے رہا ہو جانا“۔ یہ مرثیہ انھوں نے مولانا آزاد کی تقاریر اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر لکھا۔ اس مرثیہ میں انھوں نے عشق کے جذبہ کو بیان کیا ہے کہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر چیز کو تسخیر کر لیتا ہے۔ حضرت امام حسین کا جذبہ عشق ہی تھا جس نے انھیں کربلا کے میدان میں جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کر دیا۔دراصل واقعہ کربلا عشق کی ہی کی تفسیر ہے جسے جمیل مظہری نے اپنے اس مرثیہ میں کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے عشق کے صفات واضح ہو جاتے ہیں۔

عشق کیا ہے غم ہستی سے رہا ہوجانا
اور رہا ہو کے گرفتار بلا ہو جانا
بے پئے مست مئے جام فنا ہو جانا
بس کہ دشوار ہے پابند وفا ہوجانا
قید یہ اس میں بڑی ہے کہ دل آزاد رہے
فکر انجام نہ ہو کوشش برباد رہے
اہل دل عشق کو اک مشق فنا کہتے ہیں
گرمی انجمن کو ارض و سما کہتے ہیں
عرفا قلب مقدر کو صفا کہتے ہیں
ہم مسلماں ہیں محبت کو خدا کہتے ہیں
وہ محبت نہیں جو ایک سے بدنام رہے
وہ محبت جو خدائی کے لیے عام رہے
مرثیہ کا اصل مقصد ہی آہ وبکا ہے۔ مرثیہ کا یہ وہ حصہ ہے جس کا براہ راست تعلق روح سے ہوتا ہے۔ اس موقع پر مرثیہ نگار درد و اثر پیدا کرنے کے لیے پوری قوت صرف کر دیتا ہے تاکہ حسین اور ان کے رفقائے کار کی شہادت پر جو بین کی مجلس سجے وہ پر تاثیر ہو۔ جمیل مظہری نے بھی پر تاثیر بین لکھے ہیں لیکن انھوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ شہدائے کربلا کی سیرت مبارک پر کسی طرح کی آنچ نہ آئے۔ انھوں نے مرثیہ ”افسانہ ہستی“ میں حضرت زینب کی دونوں اولاد کی شہادت کے بعد بین کے منظر کو اس طرح پیش کیا ہے۔

شہ مرداں کی شجاعت کے نمونے دکھلائے
ماں کے اقبال سے پروان چڑھے خوں میں نہائے
سرخرو ہو کے پھرے بل بھی جبینوں پہ نہ لائے
ہے یہ راوی کا بیاں سامنے لاشے جب آئے
دل پہ اس کوکھ جلی ماں نے بڑا جبر کیا
جس پہ تاریخ کو حیرت ہوئی وہ صبر کیا
بیٹھ کر لاش پہ آنسو نہ بہایا اس نے
صبر مخدومہ کونین دکھایا اس نے
صحن میں آن کے سجادہ بچھایا اس نے
سجدۂ شکر میں سر اپنا جھکایا اس نے
مامتا دل کو مسلنے جو لگی بات یہ کی
تھر تھراتے ہوئے ہونٹوں سے مناجات یہ کی
مرزا محمد رفیع سودا نے اردو مرثیہ میں مسدس کی ہئیت کو متعارف کریا اور پھر اسی ہئیت میں مرثیے لکھے جانے لگے۔ اس ہئیت میں ہر بند کے پہلے چار مصرعے ہم ردیف ہوتے ہیں لیکن جمیل مظہری نے اس میں بھی جدت طبع سے کا م لیا ہے۔ انھوں نے ایسے مرثیے بھی لکھے ہیں جو ان پابندیوں سے آزاد ہیں۔ انھوں نے ہر بند کے تیسرے مصرعے کو ردیف سے آزاد کر دیا ہے اور ان چار مصرعوں کو اگر الگ کر کے دیکھا جائے تو رباعی کا گمان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل بند کا مطالعہ کیجئے:
مجلسیں بھی نہ بنیں مدرسۂ بیداری
وہی افسانہ گری اور وہی افسوں کاری
تعزیوں کا یہ تجمل یہ جلوسوں کا شکوہ
اور زنجیروں کی جھنکار میں ماتم داری
سوچو! کیا تم نے دیا دیدۂ بینا کے لیے
ہاں تماشا تو بنے چشم تماشا کے لیے
تم نے عیساؤں کے دل بھی کبھی برمائے
ایک ہندو کے بھی تم آنکھ میں آنسو لائے
جنگ سرمایہ و محنت ہو کہ جنگ احرار
کبھی عباس کا لے لے کے علم تم آئے
اس کی جو مانگ ہے پنجوں کی زبانی بھی سنائی
ان علامات سے وابستہ کہانی بھی سنائی
(وجدان جمیل)
اردو ادب میں مرثیے کا ذکر ہو اور میر انیس کا ذکر نہ آئے ممکن ہی نہیں ہے۔ جمیل مظہری نے بھی مرثیے میں میر انیس سے کسب فیض کیا ہے۔ انھوں نے تخلیقی سطح پر میر انیس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہی ساتھ تنقیدی مضامین لکھ کر بھی اینس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ جمیل مظہری نے کہیں میر انیس کا ایک شعر لکھ کر نہایت ہی بلیغ انداز میں اس کی تضمین کی ہے تو کہیں میر انیس کے لب و لہجہ اور فکر و فن کو اختیار کیاہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دیکھئے۔
میر انیس کا شعر:
در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے
سر جہاں رکھتے ہیں سب ہم واں قدم رکھتے ہیں
اس شعر پر جمیل مظہری کی تضمین دیکھئے۔
مال و زر رکھتے نہیں جاہ و حشم رکھتے نہیں
کوئی دولت ہاتھ میں ہم جز قلم رکھتے نہیں
ہم ہیں شاعر سر بسر اخلاص سر تا پا نیاز
دل میں رکھتے ہیں لچک، گردن میں خم رکھتے نہیں

در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے
سر جہاں رکھتے ہیں سب ہم واں قدم رکھتے نہیں

جمیل مظہری نے اس طرح کی تضمینیں کئی جگہوں پر کی ہیں۔ ذیل کے اشعار میر انیس کی یاد دلاتے ہیں۔
جنبش سے میرے خامۂ افسوس طراز کی
کھلتی ہے آنکھ اس گرہ نیم باز کی
دم جس کا گھٹ رہا تھا کشاکش میں راز کی
مصرعے نہیں شکن ہیں حجابات ناز کی
دل کے دیے جلیں گے محبت کے دیس میں
نکلا ہے حسن لفظ و معانی کے بھیس میں
آواز میں بھی حسن ہے اور خامشی میں بھی
تنظیم میں بھی حسن ہے آشفتگی میں بھی
یوں تو ظہور حسن کا ہے راستی میں بھی
اک بانکپن ضرور ہے لیکن کجی میں بھی
سچ پوچھئے اگر تو بصیرت میں حسن ہے
آنکھوں میں روشنی ہو تو ظلمت میں حسن ہے
لیکن جمیل مظہری نے اکثر و بیش تر اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ان کے مرثیوں میں انیس کے آہنگ سے زیادہ غالب کا آہنگ ہے اور انیس کے انداز فکر سے کہیں زیادہ غالب کا انداز فکر نمایاں ہے۔ اس بات کی وضاحت ان کے پہلے مرثیے سے ہی ہو جاتی ہے بند ملاحظہ ہو۔
عشق کیا ہے غم ہستی سے رہا ہوجانا
اور رہا ہو کے گرفتار بلا ہو جانا
بے پئے مست مئے جام فنا ہو جانا
بس کہ دشوار ہے پابند وفا ہوجانا
قید یہ اس میں بڑی ہے کہ دل آزاد رہے
فکر انجام نہ ہو کوشش برباد رہے
آدمی زاد کب انساں ہے بقول غالب
استواری ہی میں ایماں ہے، بقول غالب
سوز دل راز چراغاں ہے بقول غالب
درد خود معنی درماں ہے بقول غالب
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے، دوا ہو جانا
جس شاعر کے اشعار میں غالب کا آہنگ پایا جاتا ہو۔ اس کہ یہاں فکر و فلسفہ کا عنصر پیدا ہو جانا لازمی امر ہے۔ جمیل مظہری کے یہاں بھی فکر و فلسفہ کا عنصر نمایاں ہے اور جا بجا اس کی مثالیں ہمیں ان کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔ ان کے یہاں فکر و فلسفہ کیسے شاعری بن جاتی ہے اور شاعری کس طرح فکر و فلسفہ بن جا تی ہے قاری کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ اور یہی خوبی جمیل مظہری کو دوسرے شعرا میں ممتاز کرتی ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر مجتبیٰ حسین کا قول نقل کرنا بے محل نہ ہو گا کہ :
”جمیل مظہری کے مرثیوں میں فکر اور جذبہ ایک ہو گیا ہے۔ فلسفہ کس طرح شاعری بن جاتا ہے اور شاعری کس طرح فلسفہ بن جاتی ہے اگر یہ دیکھنا ہو تو جمیل مظہری کا کلام اردو میں اس کی درخشاں مثال ہے۔“
(کائنات، جمیل مظہری نمبر، صفحہ۔ ۶۲۳)
جمیل مظہری کے مرثیہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں:
تول میزان عدالت میں ذرا رب جلیل
اک طرف صبر حسین ایک طرف عزم خلیل
شرط انصاف ہے اے خالق افکار جمیل
اس طرف عون و محمد ہیں ادھر اسماعیل 
ذبح فرزند پہ راضی بہ ارادہ تو نہ تھیں
ہاجرہ صبر میں زینب سے زیادہ تو نہ تھیں
خم بہ خم کاکل ہستی کا فسانہ ہے عجیب
اس کے بننے کا بگڑنے کا بہانہ ہے عجیب
حیرت بے کسی آئینہ خانہ ہے عجیب
اک گرہ بھی نہ کھلی قسمت شانہ ہے عجیب
گتھیاں اور بھی بڑھتی گئیں سلجھانے سے
زلف الجھتی رہی کچھ بن نہ پڑا شانے سے
انیس و دبیر کی حیثیت اردو مرثیے میں کافی نمایاں ہے۔ گرچہ مذکورہ دونوں شعرا کے بعد بہت سے مرثیہ گو نظر آتے ہیں ۔لیکن ان مرثیہ نگاروں کی فہرست میں جمیل مظہری کو اہم مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ جہاں دوسرے مرثیہ نگاروں نے اپنے مرثیے کے ذریعہ قوم کو رلانے کا کام لیا ہے وہیں جمیل مظہری نے اپنے مرثیوں کے ذریعہ اپنی قوم کو جگانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہمیشہ اس بات بھی کا خیال بھی رکھا کہ کہیں بھی مرثیہ کے رثائی پہلو مجروح نہ ہوں. 

نبض جاں تیز رہے مقصد فطرت ہے یہی
دل دھڑکتا رہے سینوں میں محبت ہے یہی
آدمی غم سے نہ گھبرائے شجاعت ہے یہی

دل پہ قابو رہے شرط بشریت ہے یہی
نشہ ہو بے خودی شوق میں ہشیاری کا
زندگی نام ہے جذبات کی بیداری کا
جائے عبرت ہے ترے حال پہ قوم مغفور
رخ پہ نکبت کا اثر دل میں غلامی کا سرور
نہ اخوت کی تڑپ ہے نہ سیاست کا شعور
نہ خرد ہے نہ جنوں، نہ حیا ہے نہ غرور
زندگی میت احساس ہے دل مردہ ہیں
جتنے جذبات ہیں قومی وہ سب افسردہ ہیں
جمیل مظہری کے یہاں شخصی مرثیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ انھوں نے جن اہم شخصیتوں کے شخصی مرثیے لکھے ہیں، ان میں گاندھی جی، مولانا آزاد، پروفیسر محفوظ الحق، جواہر لال نہرو، ذاکر حسین، لال بہادر شاستری، رضا علی وحشت، سجاد ظہیر اور اختر اورینوی کے مرثیے قابل ذکر ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جمیل مظہری کے مرثیوں میں وہ تمام خوبیاں موجو ہیں جو ایک مرثیہ میں ہونا چاہئے۔ انھوں نے اپنے قلمی جوہر سے مرثیہ میں خوب ہنر مندی  دکھائی ہے۔ اور اس میں جدت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن انھوں نے مرثیہ کے فن پر کبھی بھی پوری توجہ نہیں دی بلکہ انھوں نے اس صنف کو ہمیشہ ثانوی حیثیت کا درجہ دیا۔ اگر جمیل مظہری نے مثنوی کی جانب پوری توجہ صرف کی ہوتی تو نہ صرف اس صنف کو مزید تقویت حاصل ہوتی بلکہ انہیں بھی مرثیہ کی تاریخ میں مزید اونچا مقام حاصل ہوتا۔ جمیل مظہری کے مرثیوں کے حوالے سے مشہور ناقد شمس الر حمن فاروقی  اسکے قول پر اتفاق ہمارے لیے نا گزیر ہے کہ:
” یہ تو بالکل واضح ہے کہ اگر جمیل مظہری نے مرثیے پر اپنی پوری قوت صرف کی ہوتی تو مرثیے کے زوال کی بحث آج بے معنی ہوتی کیوں  کہ ان میں اعلا درجے کے مرثیہ نگار کی حیثیت سے کئی او صاف موجود تھے اور ان کی مرکزی بصیرت میں اتنی قوت تھی کہ وہ مرثیے کو ایک نئی وحدت عطا کر سکتی تھی۔ ممکن ہے کہ جمیل مظہری اگر کثرت سے اور پوری توجہ کے ساتھ مرثیے کہتے تو آہستہ آہستہ ایک نئی طرح کا مرثیہ ارتقا پزیر ہونے لگتا۔“
(شب خون: اگست تا نومبر ۶۸۹۱؁ء)

صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش: دلتوں کا مسیحا : پریم چند

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے