دوسری ہجرت : ایک جائزہ

دوسری ہجرت : ایک جائزہ

ڈاکٹر سید شاہد اقبال (گیا)

سرور غزالی کایہ ناول”دوسری ہجرت“ ایک خاندان کی آپ بیتی بھی ہے اورجگ بیتی بھی۔ اس کی پوری کہانی بہار کے ایک خوش حال زمین دار خاندان کے افراد کی دل خراش داستان ہے جس نے ہجرت در ہجرت کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ؎
رنج کا خوگر ہوا انسان تومٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئی
اس ناول کے مرکزی کردار اطہر اور ان کی اہلیہ آسیہ ہیں جب کہ بزرگ لوگوں میں امجد حسین اور احمد صاحب نمایاں ہیں۔ اس کی کہانی تقسیم ہند کے المیہ سے شروع ہو کر تقسیم پاکستان (یعنی قیام بنگلہ دیش) تک کے خون فشانی واقعات پرمحیط ہے۔ اس کہانی میں گردش سیاست دوراں کے شکار لاکھوں بے گناہ انسان ہوئے جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ بے قصور تھے۔
اس ناول کے مرکزی کردار اطہر صاحب ایک ریلوے افسر (I.O.W) تھے. تقسیم ہند کے بعد ان کا تبادلہ مشرقی بنگال ہوگیا۔ ان کی تقرری سب سے پہلے شہر پاکسی (Paksey) میں ہوئی۔ اس کے بعد اطہر صاحب کا مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا۔ ان میں راج شاہی، ڈھاکا، چاٹگام اور ایشورڈی شامل ہیں۔ آخری بار قیام بنگلہ دیش سے قبل اطہر دوبارہ پاکسی (Paksey) پہنچ گئے لیکن قتل وغارت گری سے قبل اطہر اپنے خاندان کے ساتھ ڈھاکا چلے گئے تھے اس لئے محفوظ رہے۔
اس ناول کی کہانی میں شہر پاکسی (Paksey) کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ پاکسی دریائے پدما (گنگا) کے کنارے بساہوا ایک خوب صورت شہر ہے. اس کا ضلع پبنا (PABNA)ہے، یہاں ایسٹ بنگال ریلوے کا علاقائی دفتر بھی تھا، جسے انگریزوں نے ہل اسٹیشن بنا دیا تھا۔ ریلوے کے بڑے بڑے افسران یہاں رہتے تھے۔
پاکسی میں دریائے پدما پرایسٹ بنگال ریلوے کا 1.80 Km لمبا ہارڈنگ برج ہے۔ جس کا افتتاح لارڈ ہارڈنگ نے یکم جنوری ١٩٢٥ کو کیا تھا اس کے بن جانے کے بعد کلکتہ سے دارجلنگ تک براہ راست رابطہ قائم ہوگیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد یہ رابطہ منقطع ہوگیا۔
سرور غزالی نے شہر پاکسی کی خوب صورتی کا تذکرہ بہت ہی دل کش اندازمیں کیاہے ……
”……پاکسی ایک نہایت ہی چھوٹا ساقصبہ تھا جہاں ریلوے کے ہی اسٹاف کی کالونی میں شاید اِکادُکا کوئی شہری رہتا تھا۔ نہایت سبزہ زار اور گھنے درختوں سے پُر بہت پُر فضا اور خوب صورت جگہ تھی جیسے کوئی ہل اسٹیشن ہو……دریائے پدما کا کنارا، جہاں یہ ندی اپنی شوخی اور سرمستی کے علم میں اٹکھیلیاں کرتا گذرتا تھا تازہ ہلسا مچھلی پاکسی کی خاص سوغات تھی۔
(بحوالہ:دوسری ہجرت صفحہ نمبر۔۴۸)
سرورٖ غزالی نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اطہر صاحب مشرقی بنگال کیوں گئے تھے، انھیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ تقسیم ملک سے قبل تمام سرکاری مسلمان ملازمین (جن میں ریلوے، ڈاک و تار، بینک اور پولس ملازمین شامل تھے) سے آپشن OPTION لیا گیا تھا کہ وہ ہندستان میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان جانا چاہتے ہیں؟ دوئم یہ کہ انھیں بھی لکھ کر دینا تھا کہ وہ عارضی طور پر(چھ ماہ کے لیے) جاناچاہتے ہیں یا مستقلاً؟ واضح رہے کہ عارضی طور پر جانے والے چھ ماہ کے اندر واپس آکر دوبارہ اپنی سابقہ جگہ پر بحال ہوگئے ……جب کہ یوپی کے ہزاروں مسلمان ملازمین کو پنڈت جواہرلال نہرو نے (باوجود مستقل آپشن دینے کے) واپس آنے کے بعد دوبارہ بحالی کا پروانہ جاری کیا تھا۔
سرور غزالی نے ایک جگہ یہ بھی غلط لکھاہے۔
ہندستان کے صوبہ بہار کے بنگال سے قریب ہونے کے سبب یہاں سے زیادہ ترلوگ نئے ملک پاکستان کے مشرقی حصہ کی طرف ہجرت کرر ہے تھے، جب کہ یوپی کے لوگ پاکستان کے مغربی حصے کی طرف جارہے تھے۔
(دوسری ہجرت صفحہ نمبر۔ ٨٢)
شاید مصنف کو تاریخ کاعلم نہیں ہے. ان کویہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ میاں ممتاز دولتانہ پاکستان کا وزیر برائے آبادکاری تھا۔ جس نے یوپی کے مسلمانوں سے بھری تین تین ریل گاڑی کئی ماہ تک باڈر پرکھڑے رکھا اور پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کو پنجاب میں تبادلہ آبادی کامسئلہ درپیش ہے اس لیے دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو وہ داخلے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
لہٰذا یہ ریل گاڑیاں دوبارہ مشرقی بنگال کی طرف بھیج دی گئیں۔
اطہر صاحب کی ملازمت کے ٢٥/ سال کے دوران ان کا تبادلہ مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوتا رہا۔ لیکن آخری بار جب وہ دوبارہ پاکسی پہنچے …… اس بار پاکسی کا منظرنامہ بدل گیا تھا، اب ہرچیز اسے اجنبی لگ رہی تھی. سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا تھا۔ ایک مارشل لا کے بعد دوسرا مارشل لا……؟ انتخابات ہوئے اور قوم پرست لیڈر مجیب الرحمن کی پارٹی عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوگئی لیکن فوجی جرنیلوں نے اسے وزیراعظم نہیں بننے دیا……اس کے بعد کیا ہوا، اسے دنیانے دیکھا؟ سرور غزالی کا یہ ناول اس خونی داستان سے پُر ہے جسے پڑھ کرخون کے آنسو رونا پڑتا ہے ……!
اس ہنگامے میں اطہرصاحب نے حج پرجانے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے اہل خاندان کو ڈھاکا پہنچادیا۔ لہٰذا ان کا خاندان اس سانحہ سے محفوظ رہا۔ جب وہ حج سے واپس آئے تو سیاسی فضا مکدر ہوچکی تھی. اب اطہر صاحب کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح مشرقی بنگال سے راہ فرار اختیار کی جائے لیکن اتنی بڑی فیملی کی کفالت کس طرح ہوگی، یہ ایک اہم مسئلہ تھا. انھوں نے اپنے جملہ اثاثہ کو فروخت کردیا او رراہ فرار اختیار کی اور کراچی پہنچ گئے، جسے مصنف نے دوسری ہجرت کانام دیا ہے؟ 

سرور غزالی نے ہندستانی فوج کی تعریف کی ہے کہ اس نے تیرانوے ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت نہ صرف تحفظ فراہم کیا، بلکہ ہندستان اپنے ساتھ لے گئے۔(دوسری ہجرت صفحہ نمبر۔١٤٢)
یاد رہے کہ تاریخی شملہ  سمجھوتہ (١٩٧٢ء) کے بعد پاکستانی جنگی قیدیوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا گیا……
سرور غزالی کا یہ ناول خود اس کے خاندان کی داستان الم ہے، لیکن انھوں نے کرداروں کے نام بدل دیے ہیں. اگر وہ کرداروں کو اس کے اصل نام سے متعارف کراتے تو یہ تاریخی حیثیت کی حامل ہوتی ……سچ تو یہ ہے کہ یہ ناول ایک خاندان کی المیہ داستان ہے جو مشرقی پاکستان کے قتل و غارت گری سے کسی طرح محفوظ رہا. انھوں نے جوکچھ دیکھا اور سنا ان سب کو نہایت خوب صورتی سے صفحہ قرطاس پر محفوظ کردیا ہے۔
اس طرح ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی تباہی عالمی سیاست کا بدترین سانحہ ہے. مکتی باہنی کے مظالم نے درندگی کی ایک نئی تاریخ لکھ دی. جسے دیکھ کر ہلاکو اور چنگیز کی روحیں بھی شرمسار ہوگئیں …… تاہم طاہر نقوی نے مکتی باہنی کے ان مظالم کو ردعمل کے طور پر پیش کیا ہے۔ (دوسری ہجرت،پیش لفظ صفحہ نمبر۔۷)
مجھے حیرت ہے کہ طاہر نقوی جیسا جہاں دیدہ ادیب تاریخ سے نابلد ہے یا پروپگنڈہ سے گمراہ ہواہے. 
طاہر نقوی کو میرا مشورہ ہے کہ انھیں اپنی معلومات کے لیے ڈاکٹر شرمیلا بوس کی مشرقی پاکستان پر تحقیقاتی رپورٹ دیکھنا چاہئے. اطلاعاً عرض ہے کہ یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ڈاکٹر شرمیلا بوس کیمبریج یونی ورسیٹی (لندن) میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
غور فرمائیے! ان پر کیا گذری ہوگی جن کے عزیزواقارب شہید ہوئے اورجن کے خون سے دریائے پدما کا پانی دجلہ و فرات کی طرح سرخ ہوگیا ؎
ہمارے بعد یہ خون شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیب عنوان ہم نہیں ہوں گے
دراصل اس ناول میں جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ تقسیم ہند سے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے تک (١٩٤٧ء سے ١٩٧١ء) آگئی ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے پس منظر میں لاکھوں انسانوں کے خون بہے، بے شمار گھر نیست و نابود ہوگئے۔ بہار میں بہت سے گھرانے ایسے تھے جو اس سانحہ سے کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوئے۔ تاہم یہ کرب و بلاکی داستان فکشن کی صورت میں دوسری بار (دوسری ہجرت) منظر شہود پر آئی ہے۔ اس سے قبل عبدالصمد کا ناول ’دوگززمین‘ (١٩٨٨) میں منظرعام پر آچکا تھا جسے ہندستان میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ (١٩٩٠) بھی مل چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سرور غزالی کا یہ ناول”دوسری ہجرت“ کسی انعام کی مستحق ٹھہرتا ہے یا نہیں…؟
سرور غزالی کا یہ ناول ٢٥٥/ صفحات پرمشتمل ہے اور ٢٠١٣ میں برلن (جرمنی) سے شایع ہوا ہے. اس پرقیمت درج نہیں ہے۔
Dr.S.SHAHID IQBAL, M.A., Ph.D
AT/-ASTANA-E-HAQUE
ROAD NO.10 (WEST-BLOCK)
NEW KRIMGANJ
GAYA (BIHAR)823001
Mob. 09430092930
E-mail:drsshahidiqbal@gmail.com
٭٭٭
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: ‘وفیات اطباے ہند و پاک` پر ایک طائرانہ نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے