مسلمانوں میں تعلیمی بیداری: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد

مسلمانوں میں تعلیمی بیداری: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد

مظفر نازنین، کولکاتا

1857ء کی بغاوت تاریخ ہند میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بغاوت 1857ء ناکام ہوئی۔ لیکن اس سے ہندستانیوں کو آزادی حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی اور ہندستانیوں نے یہ ٹھان لیا کہ اب وطن عزیز ہندستان میں غلام بن کر نہیں رہا جا سکتا۔ اس زمانے میں ہندستان میں بہت عظیم مصلح پیدا ہوئے جیسے راجہ رام موہن رائے، ایشور چندر ودیاساگر، سوامی دیانند سرسوتی، جیوتی راؤ پھولے، سوامی وویکا نند۔ اسی اثنا میں سرزمین ہند میں ایک عظیم مصلح سر سید احمد خان نے جنم لیا۔ جنھوں نے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔ سر سید اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ سرسید کی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ انگریزوں سے قبل یہاں یعنی ہندستان میں ہندوؤں کی ابتدائی تعلیم کے لیے پاٹھ شالے تھے۔ جب کہ مسلمانوں کے لیے مدرسے اور مکتب تھے۔ لیکن ہندستانی انگریزی اور مغربی تعلیم سے نابلد تھے۔ مٹھی بھر ہندستانی ایسے تھے جنھوں نے بیرون ممالک جا کر تعلیم حاصل کی تھی اور جو ہندستانی ہندستان میں مقیم تھے انھیں انگریز صرف اس غرض سے تعلیم دیتے اور ان کی تعلیم کے لیے پیسے صرف کرتے تھے کہ انھیں معمولی درجے کا کلرک ملے جو انھیں انگلینڈ سے لانے میں زیادہ پیسے صرف کرنے پڑتے۔ زیادہ اخراجات اٹھانے پڑتے۔ لیکن جن ہندستانیوں نے بیرونی ممالک جا کر تعلیم حاصل کی تھی، وہ شعوری طور پر بیدار ہو چکے تھے اور سمجھ چکے تھے کہ تعلیم کے بغیر ان کی حیثیت نامکمل ہے۔ اور پھر رفتہ رفتہ انہیں Nationalism کا احساس ہوا۔ اور وہ وطن عزیز کو آزاد کرانے کی فکر کرنے لگے۔ اس زمانے میں سر سید احمد خاں جو عظیم مصلح تھے وہ سمجھ چکے تھے کہ ہندستان بالخصوص مسلمانوں کے لیے مشرقی علوم و فنون کے ساتھ مغربی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ تب ہی آزاد ہندستان کی تشکیل ممکن ہے۔ انھوں نے تعلیم نسواں پر زور دیا اور اس کی پر زور حمایت کی اور ہندستانیوں کو اس بات سے روشناس کرایا کہ تعلیم نسواں کے بغیر ہندستان کی آزادی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے سر سید نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد ڈالی۔ جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی (علی گڑھ، اتر پردیش) کے نام سے نہ صرف ہندستان بلکہ جنوبی ایشیا میں مقبول ہوئی۔ آج ہندستان کی مختلف ریاستوں سے طلبا و طالبات علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جاتے اور اپنی تشنگیِ علم کو بجھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بیرون ممالک سے بھی طلبا و طالبات یہاں آتے ہیں۔ مسلم یونی ورسٹی کا شمار ہندستان کی اچھی یونی ورسٹی میں ہوتا ہے۔ یہ امر حقیقت ہے کہ اس یونی ورسٹی سے ہندستان اور بر صغیر کی نامور شخصیات نے جنم لیا۔ اور بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایک شاخ ریاست مغربی بنگال کے مرشد آباد میں زیر تعمیر ہے۔[فی الوقت یہ شاخ اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے. مدیر] بنگال وہ ریاست ہے جس کے بارے میں رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ ”بنگال جاگتا ہے تو ہندستان سوچتا ہے“ یہ حقیقت ہے۔ ہماری ریاست مغربی بنگال علم و فن کا گہوار ہ ہے۔ تعلیم و تہذیب کا مزکر ہے۔ بنگال کی مٹی میں پلنے والا ہر ذرہ نیر اعظم ہوتا ہے۔ سر زمین بنگالہ میں بہت ہی عظیم شخصیتوں نے جنم لیا۔ جسٹس امیر علی، حاجی محمد محسن، سہروردی برادران، فضل الحق جن کی ملی اور قومی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں رقیہ بیگم اور سخاوت حسین کے اسماے گرامی قابل ذکر ہیں۔ جنھیں ملت کی بچیوں کی فکر ستاتی ہے اور انہی کی کوششوں کا ثمرہ سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول آج بھی شہر کلکتہ کے لارڈ سنہا روڈ پر واقع ہے۔ جو بنگلہ اور اردو تہذیب کا منارہ نور ہے۔
آزادی کے بعد اعلا تعلیم مسلمانوں کے جس طبقے میں آئی وہ تھی Professional Class. غریبوں کی خستہ حالی اس قدر تھی کہ اشیاے خورد و نوش مہیا کرنے میں ہی وہ مصروف رہے۔ تو اپنے بچوں کی تعلیم ان کے لیے محال تھی۔ اور اعلا تعلیم تو ان کے بس سے باہر تھی۔ آج سے پچیس سال قبل ایسی تنظیم بھی نہیں تھی جو غریب بچوں کو اسکالرشپ مہیا کرتی اور پھر سب سے زیادہ کمی جس بات کی تھی وہ تھا گھر کا ماحول اور والدین کی تعلیم کے تئیں لاشعوری۔ امیروں کے یہاں دولت تھی لیکن علم کی اہمیت اور افادیت سے نا آشنا تھے اور غریب یہ سوچتے کہ اعلا تعلیم پر پیسے نہ خرچ کر کے اس پیسے سے لڑکی کی شادی کر دی جائے تو منزل آسان ہے۔ اور وہ اپنے فرض سے سبک دوش ہو جائیں گے۔ اور یہی وجہ تھی کہ کمر عمری کی شادی کو تقویت ملی۔ ایک ہی ماحول میں پرورش پانے کے باوجود لڑکے اور لڑکیوں میں امتیاز ہوا کرتا تھا۔ ایک ہی چراغ میں تعلیم حاصل کرتے لیکن لڑکوں کو جو روشنی ملتی اس میں والدین کی حوصلہ افزائی ہوتی اور لڑکیوں کو جو روشنی ملتی اس میں والدین کی پست ہمتی ہوئی۔ لیکن الحمدللہ اب والدین میں بیداری آئی ہے مگر مزید بیداری کی ضرورت ہے۔ اور آج بیش تر تنظیمیں ہیں جو طلبا و طالبات کو اسکالرشب فراہم کر رہی ہیں تاکہ ہونہار طلبا و طالبات اعلا تعلیم حاصل کریں اور ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہو جائے۔
آج ثنا خوان تقدیس مشرق اور ہم دردان قوم کی ضرورت ہے۔ آج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن زہر افشانی کرنے والوں کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ مجاہدین آزادی میں بیش تر مسلمان تھے۔ اشفاق اللہ خاں اور حولدار حمید وہ مسلمان تھے جنھوں نے اپنے خونِ جگر سے سر زمین ہند کی آبیاری کی۔ آج ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت ہے تب ہی ایک عظیم اور مستحکم ہندستان کی تشکیل ممکن ہے۔ مہاتما گاندھی ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی ہندو مسلم یکجہتی کے لیے وقف کر دی۔ ہندستان ایک قوس و قزح کی مانند ہے۔ اور قوس و قزح سات رنگوں سے مکمل ہوتا ہے۔ اس میں ایک رنگ بھی غیر نمودار ہو تو اس کی خوب صورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ یہی کیفیت وطن عزیز ہندستان کی ہے Different languages but one nation کے مصداق آج ہندستان آزاد ہے۔ ہمیں وطن کی خاک پسند ہے۔ اسی وطن کی خاک کے لیے شاعر نے کہا:
ہے جوئے شیر ہم کو نور سحر وطن کا
علامہ اقبال نے 1904 ء میں لکھا تھا:
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
ہندستان کی تہذیب، یہاں کی ثقافت، وراثت، دوسرے تمام ممالک سے جدا گانہ۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہندو مسلم اتحاد قائم رہے۔ جو تہذیب و ثقافت ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ اس کا تحفظ ہمارے لیے لازمی ہے اور وہ تب ہی ممکن ہے جب مشترکہ تہذیب کا پاس رہے۔ ہماری گنگا جمنی تہذیب سلامت رہے۔ جس طرح اردو زبان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔ اردو زبان صرف مسلمانوں کی ہی زبان نہیں، ہندوؤں اور سکھوں نے بھی اسے گلے لگایا اور اس کے اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ پنڈت برج نارائن چکبست، راجندر سنگھ بیدی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، دیاشنکر نسیم، منشی پریم چند جیسے عظیم شعرا و ادبا گزرے ہیں۔ اسی طرح ہندو مسلم اتحاد قائم رکھنے پر ہی ہندستان مکمل ہے۔ آج اعلا تعلیم کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہندستان متحد ہو سکتا ہے۔ گوکہ ہمارے روحانی عقائد مختلف ہیں۔ ہندومندر میں گھنٹی بجائیں۔ مسلمان مسجد میں نماز پڑھیں، سکھ گرودوارے میں گرو گرنتھ صاحب پڑھیں یا عیسائی گرجا گھروں میں Prayerکریں۔ لیکن باور ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں۔”Our India is great and we are Indians” کے مصداق ہم سب ایک ہیں۔ اور اپنی پستی کو ختم کر کے اپنے رہنماؤں کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ سیکولر ہندستان کو ہندو مسلم اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ بلا تفریق مذہب و ملت نئی نسل کو تعلیم سے روشناس کرایا جائے۔ قوم و ملت کے لیے حوصلہ بلند ہو تو جدید ہندستان کی تشکیل ممکن ہے۔ بقول شاعر :
ناقوس کی فغاں میں ہے جنت کا رنگ اب تک
کشمیر سے عیاں ہے جنت کا رنگ اب تک
اب تک وہی کڑک ہے بجلی کے بادلوں میں
پستی سی آگئی ہے پر دل کے حوصلوں میں

Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com

مظفر نازنین کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: Iqbal and His Mission ایک اہم کتاب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے