نام کتاب: نقش فریادی

نام کتاب: نقش فریادی

نام کتاب: نقش فریادی
مصنف : راجہ یوسف
نوعیت : افسانہ / افسانچے / مائکروفکشن
صفحات: 252
مبصر : ایس معشوق احمد

داستان گو جب کوئی کہانی سناتا ہے سامعین وہ کہانی تب ہی غور سے سنتے ہیں جب داستان گو جادو بیانی اور سحر انگیز باتیں کرنا جانتا ہو، لہجے کے اتار چڑھاؤ اور لفظوں کو برتنے کی خوبی سے بھی آشنا ہو۔ زمانہ نے کروٹ لی اب کہانی سنائی نہیں جاتی بلکہ مختصر کہانیاں افسانوں کی صورت میں لکھی جاتی ہیں۔ اس افسانہ نگار کا افسانہ بہت جلد مقبول ہوتا ہے جو منفرد اسلوب، انوکھا بیان، بہترین تخیل اور زبان پر اچھی قدرت رکھتا ہو۔کشمیر میں بہت سارے افسانہ نگاروں نے عالم گیر شہرت پائی اور اپنے فن کے جوہر افسانے میں دکھا کر عمر جاوداں پائی۔ نوجوان لکھاریوں کی بھی کمی نہیں جنھوں نے اپنی صلاحیت اور قابلیت، منفرد انداز بیان اور کہانی لکھنے کے مخصوص انداز سے ادبی حلقوں میں نام پیدا کیا۔ ایسے ہی ادیبوں میں ایک منفرد نام راجہ یوسف کا ہے جو عرصے سے افسانے کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف ہیں۔ افسانہ نگاری کے حوالے سے راجہ یوسف کی اب تک دو کتابیں ” کاغذی پیرہن" 1988ء اور ” نقش فریادی" 2021 ء منظر عام پر آئی ہیں۔
نقش فریادی ایک ضخیم افسانوی مجموعہ ہے جس میں تنتیس(33) افسانے اور ستائس(27) افسانچے/ مائکروفکشن کے علاوہ وادی کشمیر کے معروف ناقد ڈاکٹر ریاض توحیدی کا مضمون "راجہ یوسف کی افسانہ نگاری" شامل ہے۔ افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہ "نقش فریادی" اور آخری افسانچہ "بو" ہے۔ کتاب کو جی این کے پبلکیشنز نے چھاپا ہے۔ کتاب کا بیک فلپ حقانی القاسمی نئی دہلی نے لکھا ہے. معروف افسانہ نگار نور شاہ کے تاثرات کے علاوہ کہانی کار راجہ یوسف نے اپنے مختصر ادبی سفر پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے افسانوں کے محرکات اور موضوعات کے بارے میں لکھا ہے۔ ساتھ ہی وادی کی خوب صورتی اور دگرگوں حالات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ راجہ یوسف نے کتاب کا انتساب والد مرحوم محمد شعبان بٹ کے نام کیا ہے اور لکھا ہے کہ "جو ادب سمجھانے اور سکھانے میں میرے پہلے استاد تھے"۔
ہر فرد کی چاہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جیے، وہی کرے جو اس کا من چاہے۔ اس کی مرضی کے خلاف جب دوسرے اس پر اپنی مرضی تھوپتے ہیں تو اجتجاج کی لے جنم لیتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض دفعہ نادانی میں ہمیں علم نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی کے جس راستے پر ہم چلنا چاہتے ہیں وہ پر خطر اور گم راہ کن ہے۔ افسانہ "نقش فریادی" میں بچہ اسکول نہیں جانا چاہتا. اسے لگتا ہے کہ اس کی ماں کو اس سے دور کیا جارہا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف اسے اسکول لے جانا اس کے دل میں احتجاج کا احساس جگاتا ہے۔ افسانہ احتجاجی لے، بچپن کی شوخی اور شرارتوں، پنسل توڑنے، بک پھاڑنے سے شروع ہوکر جوانی کے دنوں، جوش، جذبے، چاہت اور محبت، آنکھوں کی مستی اور گالوں کی چاشنی، شوخیاں، چھیڑ چھاڑ، قدرت کے حسین نظاروں کی سیر سے ہوتے ہوئے بوڑھاپے کے آثار، کم زور اور نحیف جسم، لاغر بدن، چہرے پر پریشانی اور جھریوں کے نشانات پر ختم ہوتا ہے۔ افسانے میں بچپن سے جوانی اور بوڑھاپے تک کی کہانی رومانوی اور دل چسپ زبان میں بیان ہوئی ہے۔
مجموعے میں شامل افسانوں میں کشمیر کے خوب صورت خطے کے دل فریب نظاروں، پہاڑوں، جھرنوں، شفاف پانی اور خوب صورت مقامات کا عکس راست بیانی میں اور کرب ناک صورت حال کی عکاسی راجہ یوسف نے علامتی اسلوب اور استعاروں کے سہارے کی ہے۔ راجہ یوسف نے چیل چنار چوزے، گورکن، جنگل راج اور روشنی کے لٹیرے جیسے افسانوں میں کشمیر کی زمینی صورت حال اور یہاں کے ابتر حالات کا نوحہ علامتی پیرائے اظہار میں لکھا ہے۔ افسانہ جنگل راج کی شروعات دیکھیں_
” وہاں اندھیر نگری چوپٹ راج تھا۔ لومڑیاں شیروں کا شکار کررہی تھیں۔ حال یہ تھا کہ شیر کٹتے جارہے تھے، مارے جا رہے تھے لیکن وہ بے دست و پا لگ رہے تھے۔ جنگل کے سارے چرند پرند انگشت بدنداں تھے لیکن کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔"
” کوئی بات کیوں نہیں کر رہا تھا."
کیوں سب کو اپنی جان کی پڑی تھی۔ کوئی بھی دوسروں کے لیے اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا"۔
افسانہ ” جنگل راج_ صحفہ 85

ہمارا معاشرہ تہذیب و تمدن، خدمت خلق کا جذبہ، روایات کی پاس داری اور ایمان داری سے جینے کا ڈھنگ بھول گیا ہے۔ انسان اب دیانت دار، خلوص مند، بے لوث محبت کرنے والا، دردمند دل رکھنے والا، سادگی پسند اور انسانیت کے تئیں ہمدردی رکھنے والا نہیں رہا بلکہ لالچی، بے ایمان، جعل ساز، خود غرض، بد دیانت ہو گیا ہے۔ یہ حسد بھی کرتا ہے اور رشوت خور بھی ہے۔ اب یہ عزت کا رکھوالا نہیں بلکہ آبرو کا لٹیرا بن گیا ہے۔ یہ مذہب کے نام پر فساد بھی کرتا ہے اور کرتا پاجامہ پہن کر جسم پر بارود باندھ کر مسجد پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایک پل میں انسان اور دوسرے پل شیطان کا روپ دھارن کر لیتا ہے۔ اب انسان تلاش کرنا مشکل ہے۔ انسان نے اپنی کرتوتوں سے شیطان کو پیچھے ہی نہیں چھوڑا بلکہ اب شیطان انسان کی حرکات کو دیکھ کر شرمندہ ہو رہا ہے۔ افسانہ "ایک فیصدی کا انسان" میں راجہ یوسف نے موجودہ دور کے انسان کو موضوع بنایا ہے جو جعل ساز، دغا باز، حسدی، لالچی اور خود غرض ہے۔اب انسان اشرف المخلوقات نہیں رہا بلکہ بقول مصنف انسان اقرار کرتا ہے کہ:
"میں نناوے فی صد شیطان ہوں۔ شیطان کیا میں شیطان کا گرو ہوں اور وہ میرا چیلا۔ ہر صبح کام پر نکلنے سے پہلے شیطان مجھ سے ملنے آجاتا ہے۔ ہاتھ جوڑ کر مجھ سے آگیا مانگتا ہے۔ گرو مہاراج آج میں کہاں سے شروع کروں، کس کا بیڑا غرق کردوں، کس کی نیا پار لگادوں۔ جب میں اجازت دیتا ہوں تبھی کام پر نکل جاتا ہے"۔
افسانہ ” ایک فیصدی کا انسان _صفحہ_120

افسانچہ افسانہ کے باطن سے ہی پھوٹا ہے۔ افسانے میں اختصار سے کام لیا جاتا ہے اور افسانچے میں چند لفظوں میں بہت کچھ کہنا ہوتا ہے۔ افسانچہ لفظوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا بلکہ اس میں کم لفظوں میں اپنے تخیل سے جزو میں کل کو بڑی مہارت اور کامیابی سے پیش کرنا پڑتا ہے۔ کتاب میں شامل افسانچوں کی خوبی یہ ہے کہ کوئی لفظ زائد نہیں بلکہ تنکوں سے عمارت بنانے کے گر سے راجہ یوسف واقف ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم "آدمی نامہ کا بند ہے کہ:
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نمازیاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں

جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نظیر اکبر آبادی نے مزاحیہ انداز میں نمازیوں کے ایک دوسرے کے جوتے چرانے کا موضوع باندھا ہے جو پڑھنے میں دل چسپ لگتا ہے لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ خدا کے گھر میں چوری ہوتی ہے۔ جوتا چوری ہونے کے ڈر سے بعض لوگ گھر میں پرانا جوتا رکھتے ہیں جو نماز کے وقت یا جعمہ کے دن مسجد تک پہن کر جاتے ہیں۔ اس موضوع کو راجہ یوسف نے افسانچہ "یادیں" میں برتا ہے۔ مدت کے بعد مساجد نمازیوں کے لیے کھل رہی ہیں تو والد اپنی بیٹی کو آواز دیتا ہے کہ مجھے وہ جوتا ڈھونڈ کر لادو جو میں مسجد پہن کر جاؤں۔ افسانچے میں تیز کی کاٹ ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہماری ذہانت اور رویے پر بھی چوٹ کی گئی ہے۔
بیٹن کا کہنا ہے کہ کہانی لکھنا دیا سلائی کے تنکوں سے عمارت بنانا ہے اور اس عمل میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب ایک مزید تنکا اڑا اڑا دھم کرکے سب کو گرا سکتا ہے۔ راجہ یوسف کو علم ہے کہ مجھے کیا لکھنا ہے، کہاں قلم کو جنبش دینی ہے اور کہاں قلم روک لینا ہے۔ یہی علم اس کو ایک کامیاب افسانہ نگار بناتا ہے۔
مجموعے کی قیمت سات سو پچاس روپے ہے. جو میری نظر میں بہت زیادہ ہے۔ یہ قیمت اس مجموعے کو قارئین سے دور رکھ سکتی ہے۔ ایک عام طالب علم اس کو خریدن کر نہیں پڑھ سکتا۔ دوسری اہم بات کہ اکثر افسانوں میں رموز و اوقاف کا خیال نہیں رکھا گیا ہے جو چاند پر گرہن کی مانند ہے۔ رموز و اوقاف کا خیال رکھا جاتا تو افسانے عمدہ سے عمدہ تر ہوجاتے۔ اس افسانوی مجموعے میں قارئین کی دل چسپی کے لیے بہت کچھ ہے۔ کہانی سے شغف رکھنے والوں کو اس افسانوی مجموعے کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
آپ یہ بھی پڑھیں :شخصیت : راجہ یوسف

شخصیت : شیخ بشیر احمد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے