بلی کو پھانسی

بلی کو پھانسی

سیدعارف سعید بخاری، پاکستان 
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com
ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کی اس دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے کہ جہاں قوم کی بہو، بیٹیاں اور بچے بچیاں گھر کے باہر اور نہ ہی گھروں کے اندر محفوظ ہیں۔ حتیٰ کہ معصوم بے زبان جانور بھی ہمارے ظلم اور درندگی سے محفوظ نہیں رہے۔ گذشتہ روز اسلام آباد کے بحریہ ٹاؤن کے علاقے میں راجہ عبدالقیوم نامی سفاک و ناہنجار شخص نے ایک بلی کو محض اس بات پر پھانسی دے کر مار ڈالا اور اس کی لاش اپنے گھر کے باہر لٹکا دی کہ وہ اسے تنگ کر رہی تھی۔ بلی کی پھانسی کی وڈیو وائرل کیے جانے اور ایک خاتون انیلہ عمیر کی تحریری درخواست پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے فوری نوٹس لیا اور ملزم کو گرفتار کروا دیا۔ ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 429 اینیمل ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیاہے۔ ڈپٹی کمشنر نے ایک احسن اقدام اٹھایا ہے۔ ایسے ملزم کسی معافی کے مستحق نہیں ہوتے۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے بھی واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی ہے. 
اس ظلم کا حساب تو راجا صاحب کو دینا ہے۔ بے چاری یہ معصوم سی بلی اگر تنگ بھی کر رہی تھی تو ایک بے زبان کا یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے مار ہی ڈالا جائے۔ اس معصوم اور کمزور سی جان کا اس”مرد مجاہد“سے کوئی مقابلہ نہ تھا کہ اس نے اس کی جان لے لی۔ ہمیں تو راجا صاحب کی دماغی حالت پر ہی شک ہونے لگا ہے۔ایسا ظلم کہ جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس ظلم پر ہمیں ایک اور واقعہ بھی یاد آیا۔ ایک خوب صورت عورت اپنے صحن میں کام کر رہی تھی۔ ایک بلی اسے بار بار تنگ کر رہی تھی۔ پاس ہی تندور پر روٹیاں لگائی جا رہی تھیں۔ اس خوب صورت خاتون کا پارہ چڑھا تو اس نے بلی کو پکڑ کر جلتے تندور میں ڈال دیا۔ بلی جل کر کوئلہ ہو گئی. عزیز و اقارب نے اسے بہت لعن طعن کی لیکن جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اس خاتون کا حسن مانند پڑنے لگا اور بلی کو زندہ تندور میں پھینکنے والی گاؤں کی اس سب سے حسین اور لمبے قد اور توانا جسم کی مالک عورت کا رنگ بھینس کی مانند کالا ہو نے لگا۔ وزن کم ہونے لگا۔ اس کے ناپ کے جوتے نہیں ملتے تھے۔ پھر اسے عام جوتا بھی پورا آ جاتا تھا۔ اس کا رنگ کالا ہوجا نا اللہ کی پکڑ اور اہل علاقہ کے لیے باعث عبرت تھی۔
اسلامی تعلیمات میں جانوروں سے صلہ رحمی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بدنصیب ہے وہ شخص جو بے زبان جانوروں پر ظلم ڈھائے. سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک بار ایک شخص راستے میں چلا جا رہا تھا، اس کو شدید پیاس لگی، اسے کنواں ملا، وہ اس میں اترا اور پانی پیا جب وہ باہر نکلا تو اس کے سامنے ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا تھا اور کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا ”اس کتے کو بھی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی. چنانچہ وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھرا، پھر اس کو منہ سے پکڑا، یہاں تک کہ اوپر چڑھ آیا، اس نے کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی قدردانی کی اور اس کو بخش دیا۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”ایک عورت بلی کے معاملے میں جہنم میں ڈال دی گئی جسے اس نے باندھ رکھا تھا۔ نہ اس نے اس کو کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جانور کھا لیتی حتی کہ وہ لاغر ہو کر مرگئی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ محکمہ اطلاعات میں ایک اعلا آفیسر کے خلاف بعض حلقوں نے طویل مہم چلائی کہ انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے لیکن اس قدر مخالفت کے باوجود کوئی ان کا بال بھی بانکا نہ کر سکا۔۔وہ کئی برس ایک ہی عہدے پر فائز رہے۔ ایک دن مجھے ان کے دوست نے بتایا کہ موصوف ایک دن آفس آئے تو باربار گھر فون کرتے اور پوچھتے کہ بتاؤ، بلی کیسی ہے۔ تو دفتر والا دیگر سٹاف ان کا مذاق اڑاتا کہ یہ ظالم شخص پتہ نہیں کس بلی کی خیریت معلوم کر تا ہے۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ موصوف صبح اپنی گاڑی پر آفس آ رہے تھے کہ انہیں ر استے میں ایک زخمی بلی نظر آ گئی۔ موصوف گاڑی سے اترے، بلی کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور اسے گھر لے گئے۔ اسے دودھ پلایا۔ اس کی مرہم پٹی کی اور آفس آگئے۔ بلی کی حالت چونکہ زیادہ خراب تھی اس لیے موصوف بے چینی میں باربار فون کرکے اس کی خیریت دریافت کرتے۔ یہ واقعہ جب ان کے ایک ساتھی نے مجھے سنایا تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ”واقعی گریٹ مین“۔۔اسی لیے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس قدر مخالفت کے باوجود بھی یہ صاحب اپنے عہدے پر کام کرتے رہے۔ یہ سب اللہ کا اس بندے پر کرم ہے۔ جو بندہ ایک زخمی بلی کے لیے اس قدر بے چین ہوسکتا ہے اس کا خیال رکھتا ہے ایسے انسان کا رکھوالا اللہ ہے۔ بے شک! انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں سے حسن سلوک کرنے والے زندگی کے کسی میدان میں ناکام نہیں ہوسکتے۔ ان کا نام اللہ کے ہاں بہترین انسانوں، انسانیت کے خدمت گاروں میں لکھا جاتا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جنھیں مرنے کے بعد بھی لوگ بھلا نہیں سکتے۔
بلی پر تشدد کرنا اور پھر پھانسی دے کر سرعام لٹکانا شاہد پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک واقعہ ہے۔ کتنے ہی لوگ اس قسم کے جرم کا ارتکاب کرتے ہوں گے لیکن راجا صاحب کا جرم اس لئے سامنے آگیا کہ انھوں نے اس بے زبان پر ظلم بھی کیا اور اسے سرعام گھر کے باہر لگے جنگلے کے ساتھ لٹکا بھی دیا۔ اس ظلم کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اس بے زبان کی بد دعا یقیناً عرش تک جائے گی اور مکافات عمل کی صورت راجا صاحب اس کی سزا دنیا میں ضرور بھگتیں گے۔ ڈپٹی کمشنر اور حکومت کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ اس بے زبان پر ظلم کے بدلے اس شخص کو بھی اسی طرح بیچ چوراہے  میں لٹکا دیا جائے، جس طرح اس نے اس بے زبان کو سرعام لٹکایا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ شخص بھی کچھ ”چمک“ کے زور پر اور کچھ قانونی سقم کے باعث سزا سے بچ جائے۔ لیکن ملزم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ربّ جو انسانوں پر ظلم سے بھی روکتا ہے، وہ کس طرح اپنی بے زبان اور کم زورمخلوق پر ظلم ڈھانے والے کو معاف کر دے گا۔ ساری قوم اس ظلم پر ہم آواز ہے کہ مجرم کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں، یہی انصاف ہے۔ اور یہی ہماری ذمہ داری ہے۔

گذشتہ نواے دل یہاں پڑھیں : ٹک ٹاکر خاتون اور بچہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے