”سیاہ و سفید“ پر ایک طائرانہ نظر

”سیاہ و سفید“ پر ایک طائرانہ نظر

پروفیسر محمد محفوظ الحسن (گیا)

”سیاہ وسفید“خالد حیدر کے ١٥/ مضامین کامجموعہ ہے جن کی مدتِ تحریرلگ بھگ بیس سالوں پرمحیط ہے۔ اس سے یہ اندازہ تو لگایاہی جاسکتاہے کہ مصنف کوچھپنے چھپانے کاشوق نہیں ہے۔ وہ تب ہی لکھتے ہیں جب ان کے اندر کا لکھاری انھیں کچھ لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بہت مناسب ہے کہ ان کی تحریر ضخامت میں اگرچہ کم تر ہے مگر قیمت میں یقیناً برتر ہے کہ ہرمضمون سے کسی نئے نکتے کی دید و دریافت کا شعلہ سا لپکتا محسوس ہوتا ہے۔
امتیاز احمدنے خالد حیدر اور ان کی کتاب کا تعارف کراتے ہوئے بہت صحیح لکھاہے کہ”سیاہ وسفید“ ڈاکٹر خالد حیدر کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جولگ بھگ گذشتہ بیس برسوں میں انھوں نے سپرد قلم کیے ہیں۔ اس اعتبار سے غورکریں توان کے لکھنے کی رفتار بہت سست ہے اور یہی بات ان کے حق میں جاتی ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو Prolific Writing سے محفوظ رکھاہے“
امتیاز احمدنے خالد حیدر کی تحریر کی بہت ساری خوبیوں پرروشنی ڈالی ہے جن میں میرے خیال میں ان کی یہ رائے خالد حیدر کی انفرادیت کوزیادہ نمایاں کرتی ہے کہ
”ان تحریروں کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ”یہ نہیں“ کے دورمیں ”ہاں“ اور’ہاں‘ کے دور میں ’نہیں‘ کہنے کا حوصلہ دلاتی ہیں“۔
”اعتراف“ کے تحت دو صفحات میں خالد حیدر نے پڑھنے اور لکھنے کے درمیان جو فرق ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے کم لکھنے کے اسباب بیان کیے ہیں نیز کم چھپنے کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ آج کے مصلحت پسندانہ ماحول میں ایک کھرے آدمی کی پہچان کتنا دشوار ہے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ خالد حیدر نے بڑی بے باکی سے اس پردے کو اٹھایا بھی ہے اور اس طرح اٹھایا ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہوئے افراد و اشخاص کے چہرے صاف نظر آنے لگتے ہیں۔
ان دنوں ایک سوال باربار کیا جاتا ہے کہ ہم خود ادب کیوں پڑھیں؟ بچوں کو کیوں پڑھائیں؟ ادب کا پڑھنا معاشی استحکام نہیں دیتا۔ اس ترقی یافتہ اور کمپیوٹر ایج (Computer Age) میں زبان و ادب کا مطالعہ گویاتضیعِ اوقات تصور کیاجاتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں بہت پہلے ڈاکٹر یش پال کا ایک انٹرویو دور درشن پر سنا تھا جس میں وہ بھاشا و ساہتیہ کی اہمیت بتاتے ہوئے سائنس وٹکنالوجی کے اس عہد میں بھی زبان و ادب کی اہمیت بچوں کو بتارہے تھے۔ ان کے اس انٹرویو میں یہ خاص بات مجھے محسوس ہوئی تھی کہ علم کوئی بھی آپ اگرحاصل کرتے ہیں تو بغیر ادب و زبان کے اس سے کماحقہ مستفید ہونا ممکن نہیں ہے۔ خالد حیدر نے بھی ادب کے مطالعہ کو ایک سادھنا کہا ہے۔ ان کے خیال میں سود و زیاں کے تصورسے اوپر اٹھ کر ہی ادب کا مطالعہ سودمند ہوسکتا ہے۔ وہ خود ادب کا مطالعہ کیوں کرتے ہیں اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں۔
میرے لیے ادب کامطالعہ ایک سادھنا ہے اور سادھنا میں کسی چیز کی تمنا کسی شے کو حاصل کرنے کی آرزو شامل ہوجائے تووہ سادھنا نہیں رہ جاتی، واسنا بن جاتی ہے،“
مزیدلکھتے ہیں۔”میں ادب کیوں پڑھتا ہوں۔ اس کا مختصر جواب تو بس اتنا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے۔“
آپ خالد حیدرکے خیال سے اتفاق کریں نہ کریں یہ آپ کی مرضی مگر خالد حیدر نے اپنے مطالعہ ادب کا جوجواز پیش کیا ہے اس سے کیا کوئی انکار کرسکتا ہے؟
اس کے بعد مضامین کاسلسلہ شروع ہوتا ہے، جو تین شقوں میں ہے. پہلے مرحلے میں انھوں نے پریم چند کے تعلق سے ۶/ مضامین رکھے ہیں۔ دوسرے حصے میں مختلف عنوانات سے ۵/ مضامین ہیں اور پھر تیسرے مرحلے میں ۴/ مختلف مضامین شامل کئے گئے ہیں، یہ سارے کے سارے مضامین ادب اور ادبی شخصیات و ادارہ جات کے تعلق سے ہیں. اس لیے ان میں ایک باہمی ربط و تسلسل بھی ہے. آئیے باری باری سے ان مضامین سے روبرو ہوا جائے۔
”پریم چندکی معنویت“ کے عنوان سے جومضمون ہے اس میں مصنف لکھتے ہیں۔
”اس چھوٹے سے مضمون میں صرف اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ پریم چند نے اپنے زمانے کے عصری مسائل کو کن نظروں سے دیکھا ہے اور کیا یہ مسائل آج موجود نہیں اور اگر یہ مسائل آج بھی موجود ہیں تو کیا پریم چند کی ان تحریروں یا ان جیسی تحریروں کا Relevence آج بھی باقی نہیں؟“
پریم چند کے دوافسانوں ”تالیف اورجبل“ کے حوالے سے پرمغز اور مدلل گفتگو کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ پریم چند کی معنویت آج بھی برقرار ہے کہ جو مسائل ان کے عہد اور معاشرے کو درپیش تھے ملک جن حالات سے گذر رہا تھا آج بھی ویسے ہی مسائل ہمارے سامنے منہ پھاڑ کے کھڑے ہیں اور ملک کی سیاسی سماجی، معاشرتی و اقتصادی صورت حال آج بھی اس طرح اطمینان بخش نہیں جس طرح ان کے عہد میں تھی. لہٰذا پریم چند اور ان کی تصنیفات آج بھی ہمارے لیے اتنی ہی معنویت کی حامل ہیں جتنی کل تھیں، دونوں افسانوں کا تجزیہ جس فن کارانہ مہارت اور ناقدانہ جز رسی اور دوربینی سے کیا گیا ہے وہ قابل قدرہے۔
دوسرامضمون ”پریم چندکے افسانوں کاغالب رجحان“ ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے پریم چند کے تمام مطبوعہ افسانوں کو تین حصوں میں منقسم کرکے پریم چند کے تعلق سے رائج بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ پریم چند کو صرف دیہاتی زندگی کا ترجمان بتانا ان کے ساتھ انصاف نہیں ہے، واضح رہے کہ انھوں نے اپنی گفتگو محض افسانوں کے مطالعہ تک محدود رکھی ہے اور نتائج کا استنباط ان ہی افسانوں کی روشنی میں کیا ہے۔
افسانوں کاتفصیلی مطالعہ انھیں اس نتیجہ تک پہنچاتاہے کہ”ان تمام ١٩٦/ افسانوں کوتین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے“  ان تین درجوں کی تقسیم وہ اس طرح کرتے ہیں۔
”پہلے درجے میں ٧٣/ افسانے ہیں جن کو رومانی افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے. یہ ایسے افسانے ہیں جن میں آدرش واد رومانیت کے غالب اسلوب کے ساتھ موجود ہے. اگرچہ اس میں جزوی حقیقت نگاری بھی ہے لیکن یہ حقیقت نگاری محض سماجی زندگی کی جھلکیوں تک محدودہے۔“
”دوسرا درجہ ان  افسانوں پرمشتمل ہے جن میں آدرش واد نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ایسے افسانوں کی تعداد ٦٤/ ہے۔ ان افسانوں میں آدرشواد کو اولیت حاصل ہے۔“

تیسرے درجے کے افسانوں کی تعداد ٥٩/ ہے ان افسانوں میں حقیقت نگاری کا رنگ نظرآتا ہے اس کی ابتدا ”اندھیرا“ (١٩١٣ء) سے ہوتی ہے اور اس کا سلسلہ کفن (١٩٣٥ء) تک جاری رہتا ہے۔ ان تینوں اقسام کے افسانوں پرگفتگو کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پریم چند کے افسانوں میں رومان آدرش اورحقیقت نگاری کی تثلیث نظر آتی ہے اور یہی پریم چندکے افسانوں کا غالب رحجان قرار دیا جاسکتا ہے۔
تیسرامضمون ”پریم چند کے عہد میں ان کاحلقہ اثر“ کے عنوان سے ہے۔ عنوان سے ہی یہ ظاہر ہو جاتاہے کہ مضمون نگار کا عندیہ کیا ہے، اس سلسلے میں انھوں نے اس عہد کے مختلف فن کاروں کے فکری رویے پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے دیوندر اسر اور اس قبیل کے دوسرے ناقدوں کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ”کرشن چندر سے جوگندرپال تک سب اسی روایت کا حصہ ہیں جن کی ابتدا پریم چند سے ہوئی تھی. معاصر افسانوں میں اگر دیہی زندگی مفقود ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیہات کے بدلے ہوئے تناظر میں آج کا افسانہ نگار اس روایت کو نئے سیاق و سباق میں دریافت کرنے میں ناکام ہے“
”جنگ آزادی اور پریم چند کے افسانے“ کا لب لباب یہ ہے کہ پریم چند نے افسانوں کے ذریعہ ہمیشہ اپنے عہد کی ضرورتوں کے مطابق سماج کو بیدار کرنے کا کام کیا ہے۔ سوز وطن کے افسانوں کے علاوہ دیگر افسانے بھی اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں کہ ان کے ذریعہ آزادی کے جذبات کو بیدار کرنے کا کہیں پر براہ راست اورکہیں بالواسطہ کام لیا گیا ہے۔
پریم چند کے مختلف افسانوں اوران کے خطوط کے حوالوں کے ذریعہ اپنی بات کو مدلل طریقے سے بیان کرتے ہوئے آخر میں عبدالماجد دریا بادی کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ:
”ہندوستان میں تحریک وطنیت کی تاریخ مورخ کا قلم جب آج سے سو پچاس برس بعد لکھے گا تواس میں تیس بتیس برس کی تاریخ کیلئے جہاں گاندھی جی، موتی لال، جواہرلال، داس، محمدعلی، انصاری اور ابوالکلا م آزاد کی تقریریں و تحریریں پڑھنی لازمی ہوں گی وہیں پریم چند کے افسانے بھی ناگزیر ہوں گے۔“
"منترایک جائزہ“ طویل مضمون ہے. اس مضمون میں پریم چند کے افسانہ منترکا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے. موضوع، اسلوب، کردار نگاری، انسانی نفسیات کا پریم چند کا مطالعہ اور اس کی پیش کش پر تجزیاتی اور تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے اور آخرمیں اس نتیجے پر افسانہ کے جائزہ کا اختتام ہوا ہے کہ اس افسانے کو پریم چند کے کامیاب ترین افسانوں میں ایک افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ کا آخری مضمون شکیل الرحمن کی تصنیف ”پریم چندکافن“ پر مختصر لیکن خوب صورت تبصرہ ہے۔ شکیل الرحمن کی اس تصنیف (جو بہت پہلے وجود میں آئی تھی لیکن زیور طبع سے بہت بعدمیں آراستہ ہوئی) کو سراہا بھی ہے اور اسے پریم چند کی تفہیم میں ایک نئی پہل قرار دیا ہے لیکن جہاں جہاں ان سے متفق نہیں ہیں وہاں اپنی الگ رائے کے اظہار سے چوکے بھی نہیں ہیں. اس مضمون میں بھی مصنف نے تبصرہ نگاری کاحق ادا کرنے کی ایمان دارانہ کوشش کی ہے ”بچوں کا ادب اورترقی پسند ادیب“ میں بچوں کے لیے جو ادب تخلیق کیا جارہا ہے یا کیا گیا ہے اس میں کیا کیا دشواریاں اور خامیاں پریشانیاں ہیں اس کی نشان دہی کرتے ہوئے ادارہ پیام تعلیم کے ذریعہ شائع کردہ کتابوں کے مصنفین کی ایک فہرست دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ یہ سب کے سب آج کے عہد کے لوگ نہیں ہیں. ترقی اردو بیورو کے ذریعہ جو کتابیں شائع کی گئی ہیں ان کی خامیوں کی جانب بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ خالد حیدر کا خیال ہے کہ بیش تر مصنفین کے یہاں بچوں کے ادب کی تخلیق میں ان کی عمر کا خیال نہیں رکھا گیا ہے جب کہ مختلف عمر کے بچوں کے مختلف گروپ کے لیے ان کے ذہن و شعور کے مطابق تصنیفات کی تخلیق کی کمی بے حد کھٹکتی ہے۔ اردو کے جو ترقی پسند ادیب ہیں انھوں نے بھی بچوں کے لیے اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔ اس سلسلے میں تین ترقی پسند ادیب کا انتخاب انھوں نے کیا ہے جن میں بیدی، عصمتؔ اورکرشن شامل ہیں۔ ترقی پسند ادیبوں کے انتخاب کی وجہ انھوں نے یہ بتائی ہے۔
”ترقی پسند ادیبوں کے انتخاب کاخیال اس لیے آیا کہ ترقی پسند ادیب اس بات پر زیادہ اصرار کرتے ہیں کہ ادب کو اپنے معاشرے کا عکاس ہونا چاہیے۔ دیکھنے کی بات یہی ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے جو کچھ لکھا ہے کیا وہ اس کی ترجمانی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔“
اس سلسلے میں بیدی ؔ کی ایک کہانی ”مقدس جھوٹ“ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کہانی میں جس طرح کی عالمانہ باتیں کی گئی ہیں وہ چھ آٹھ سال کے بچوں کے ذہن و شعور کے مطابق نہیں ہیں۔
عصمت ؔ کے ایک ناول ”تین اناڑی“ اور ایک کہانی“، ”سفید جھوٹ“ پر گفتگو کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ عصمت نے بھی بیدی کی باتوں کو اپنی گرہ میں باندھ رکھا ہے، مگر اس فرق کے ساتھ کہ عصمت اس ناول کے ذریعے ننھے ننھے کرداروں کے ذریعہ بچوں کو ایجوکیٹ بھی کرتی ہیں. مصنف کے خیال میں ان کے ناول میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے یکساں دل چسپی اورسبق کا سامان موجود ہے۔ انھیں اس بات کا افسوس ہے کہ نہ جانے کیوں عصمت نے ادب اطفال کے لیے زیادہ وقت نہیں نکالا۔
کرشن چندر کے ”گنڈک کابھوت“ اور "الٹادرخت“ پر گفتگو کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کرشن چندر کے ناولوں میں دیگر باتوں کے علاوہ ترقی پسندانہ نظریات بھی نظرآتے ہیں۔ جن کا مذکورہ فن کاروں کے یہاں فقدان ہے۔ کرشن چندر کے نظریات سے ہم اتفاق کریں یانہ کریں ان تصنیفات کے حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مافوق الفطرت عناصرکا استعمال کر کے عصری صورت حال سے بھی بچوں کے ذہن و شعور کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کیا جا سکتا ہے۔
”سردارجعفری کی تخلیقی نثر“ میں مصنف نے سردار جعفری کو ان کی مختلف نثری تخلیقات مثلاً افسانوی مجموعہ ”منزل“ سوانحی اور تاثراتی مضامین کا مجموعہ ”لکھنؤ کی پانچ راتیں“ اور طویل تاثراتی مضمون ”لمحوں کے چراغ“ پر تجزیاتی گفتگو کرتے ہوئے ایک منفرد نثرنگار کی حیثیت سے سردار جعفری کی نثر نگاری میں تخلیقی عناصرکی دید و دریافت کی گئی ہے اور سردار جعفری کے اسلوب کو ان کا انفرادی اسلوب بتاتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
”میکش آگرہ اورآگرہ والے“ کے عنوان کا جو مضمون ہے اس میں میکش اکبرآبادی نے آگرہ کی تہذیب و ثفاقت کو جس طرح پیش کیا ہے اس کی سراہنا کی گئی ہے۔ مصنف کاخیال ہے کہ آگرہ جو میر، ؔ غالب ؔ، نظیر کا شہر ہے، جس کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی سیماب اکبرآبادی جیسے نابغۂ عصر کو پیش کرنا چاہیے تھا اسے میکش اکبرآبادی نے اپنی کوششوں سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے. اگر میکش نے یہ کوشش نہیں کی ہوتی تو شاید اکبر آبادی تہذیب وثقافت سے کماحقہ واقفیت نہیں ہوتی۔ اس لحاظ سے میکش کی یہ تصنیف انتہائی اہم ہے کہ اس کے ذریعہ انھوں نے آگرہ کی تہذیب کی قلم بندی کرکے ایک مٹتے ہوئے کلچر کے آثار کو محفوظ کردیا ہے۔ مصنف کایہ خیال بھی ہے کہ اگر شرر کی طرح میکش کو بھی فراغ حاصل ہوتا تو ممکن ہے کہ گذشتہ لکھنؤ کی طرح کی کوئی یادگار میکش بھی چھوڑ جاتے اور جس طرح شرر نے لکھنؤ کوزندہ کردیا ہے ممکن ہے میکش بھی اکبرآباد کو حیات دوام بخش دیتے۔
ایک اعلا پولس افسر بیبھوتی نارائن مشر کا ناول ”شہرمیں کرفیو“ پر مختلف جتہوں سے مختصراً گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ شہر میں کرفیو کا موضوع خواہ جو بھی رہا ہو وبیبھوتی نرائن مشر اس لحاظ سے ایک کامیاب مصنف کہے جاسکتے ہیں کہ انھوں نے مسائل پر گفتگو ضرور کی ہے. مگر اس کا کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے ایک سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ اس سوالیہ نشان کا جواب تلاش کرنا قاری، ملک اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ بہرحال ناول میں ”ہندوستانی معاشرے کے بدلتے ہوئے رحجانات اور طبقاتی (اور مذہبی بنیاد پر) سطح پر پیدا ہونے والی کش مکش کو ناول کے ابواب میں نیز سعیدہ کی کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے جو اس طبقہ کی زندگی کا المیہ ہے۔“
تسلیمہ نسرین کی تصنیف ”لجا“پر گفتگو کا عنوان ہے ”لجا۔ادب یاخبرنگاری۔“ عنوان سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ مصنفہ کا یہ ناول اور کچھ ہونہ ہو ادب ہرگز نہیں ہے۔ ”علی گڑھ کی ادبی تحریک“ کے عنوان سے جو مضمون ہے اس میں ابتداے علی گڑھ تحریک کے بنیادی مقاصد سے روشناس کراتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ کس طرح ایک سیاسی تحریک ادبی تحریک میں تبدیل ہوئی اور اس نے زبان وادب ہی نہیں ملک و معاشرے میں بھی ایک نئی روح پھونک دی، وہ لکھتے ہیں:
”علی گڑھ تحریک کی ابتدا چاہے سیاسی حالات کے نتیجے میں ہوئی ہو لیکن جس طرح فورٹ ولیم کالج اردو نثرکے ارتقا میں باوجود اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے اہم رول ادا کرتا ہے اسی طرح علی گڑھ تحریک کی ابتدا کا پس منظر چاہے جو بھی ہو آج اردو نثر کی بیش تر اصناف اس کی رہین منت ہیں۔اردو شاعری میں نئے خیالات اور بیسویں صدی میں غزل کا نیا اسلوب علی گڑھ کی اس ادبی تحریک کی دین ہے۔“
”فروغ اردو اور ہمارے رویوں کا تضاد“حقیقت پر مبنی ایک تفصیلی تحریر ہے جس میں اٹھائے گئے بعض سوالات جواب طلب ہیں۔ بعض غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور بعض مسائل کے حل کی طرف چند اشارے بھی کرتے ہیں۔
آخری دو مضامین کا تعلق خاکہ نگاری سے ہے. گذشتہ نصف صدی میں خاکہ نگاری کے تعلق سے کیا کیا کام ہوئے ہیں اور ان کو کس حد تک خاکہ نگاری کہا جا سکتا ہے ان دونوں مضامین کا موضوع ہے. اس سلسلے میں مصنف نے اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کیا ہے. یہ مضمون معلوماتی ہے. بحث و تمحیص کے دروازے وا کرتاہے۔
مذکورہ سطورمیں جوکچھ بھی عرض کیا گیا ہے وہ دوسو تیرہ صفحات پرمشتمل سیاہ وسفید میں خالد حیدر نے بیان کیے ہیں۔ میں یہ چاہتاہوں کہ اس کتاب منتھن کے بعد جو کچھ بھی نتیجہ نکال سکا ہوں وہ بھی پیش کردوں۔ توعرض ہے کہ
(۱) مذکورہ مضامین کاخالق بڑی بے باکی سے بے لاگ لپیٹ اور بلا تعصب اپنی بات کہنے کا ہنر جانتا ہے۔
(۲) مرعوبیت (بڑے ناموں سے) اس کی سرشت میں نہیں۔
(۳) تخلیقات کا مطالعہ کسی خاص عینک سے نہیں کرتا ہے بلکہ ادب کے مطالعہ میں ادبی اقدار اور جمالیاتی حسن و حس کی تلاش کرتا ہے۔
(۴) ادب کے افادی پہلو کا قائل ہے مگر ادبی پیرائے میں بات کہنے کو ہنرمندی گردانتا ہے۔
(۵) اس کے خیال میں ادب کے ذریعہ ذہنی تربیت کی جاتی ہے اور ہوتی ہے مگر اس کا انداز ناصحانہ اسے پسندنہیں۔ بالواسطہ گفتگو اس کے خیال میں زیادہ متاثر کرتی ہے۔
(۶) وہ بلاوجہ تنقیص یاکیڑے نکالنے کے ہنر سے ناواقف ہے مگر فن کی جزئیات پر اس کی نظر گہری ہے اور حسن و قبح کا فیصلہ فنی اقدار کے پیش نظر کرتا ہے۔
(۷) مصنف کا اسلوب شگفتہ اور نثررواں دواں ہے۔ خیالات کے اظہارمیں گنجلک پن نہیں. اپنی باتیں صاف صاف اور برجستہ کہنے کے ہنر سے واقف ہے۔
اگرمیں یہ کہوں کہ ان مضامین میں کوئی خامی نہیں ہے تویہ نا انصافی ہوگی۔
پریم چند کے تعلق سے جتنے مضامین ہیں ان میں تکرار خیال نظر آتاہے (ممکن ہے ایسا اس لیے ہوا ہو کہ یہ مضامین مختلف اوقات میں مختلف رسالوں کے لیے تحریر کیے گئے ہوں اور اب ان کی یکجائی کی وجہ سے یہ کمی کھٹکنے لگی ہو) بعض مضامین کچھ زیادہ محتاج توجہ تھے جہاں وہ سرسری گذر گئے ہیں، بہ حیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ مصنف / مضمون نگار نے بعض کمیوں کے باوجود اپنی باتیں بڑی خوش اسلوبی سے اپنی زبان میں کہہ دی ہے۔ ان کا تنقیدی شعور انھیں بہکنے نہیں دیتا. تمام مضامین کسی نہ کسی نئے نکتے سے روشناس ضرور کراتے ہیں. ممکن ہے یہ باتیں پہلے بھی کہی گئی ہوں مگر مضمون نگار نے انھیں اپنے انداز میں اپنے شعور و فکر میں حل کرکے پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ان سے زبان وادب کو کچھ اور زیادہ امید یں وابستہ ہیں۔
PROF. MD. MAHFUZUL HASAN
(Ex- Head,P.G.Deptt. of Urdu MAGADH UNIVERSITY)
Resi-ROAD. NO. 3, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001(BIHAR)
MOBILE-09430840627.
٭٭٭

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے