غزل جب سے وہ گنگنانے لگے ہیں

غزل جب سے وہ گنگنانے لگے ہیں

شعیب سراج 

غزل جب سے وہ گنگنانے لگے ہیں
شجر کوئلوں کو اڑانے لگے ہیں

مجھے اس طرح وہ منانے لگے ہیں
مرے خواب میں آنے جانے لگے ہیں

شب ہجر کی آتشوں میں ستم گر
ترے خط کو ہم بھی جلانے لگے ہیں

میں گم ہو گیا تھا خودی میں کہیں پھر
مجھے ڈھونڈھنے میں زمانے لگے ہیں

قمر کی جو پوچھی تھی تعریف ان سے
وہ عارض سے گیسو ہٹانے لگے ہیں

نہیں اب ضرورت ہے ساغر کی ساقی
وہ آنکھوں سے ہم کو پلانے لگے ہیں

تری زلف سے جب بھی برسا ہے پانی
تو ساون کے موسم ٹھکانے لگے ہیں

جو کہتے تھے ہردم کہ میں آپ کا ہوں
سراج اب وہ نظریں چرانے لگے ہیں

شعیب سراج کی گذشتہ غزل 

پھولوں میں اب وہ پہلی سی رنگت نہیں رہی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے