اردو پر شب خون؟

اردو پر شب خون؟

جاوید نہال حشمی

ہندوستان میں ”اسلام خطرے میں“ ہو یا نہ ہو، اردو خطرے میں ضرور ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تعداد کے اعتبار سے اردو شاعر اور افسانچہ نگار مشروم (Mushroom) کی طرح اُگ رہے ہیں۔ لیکن یقین مانیں ان کی ایک بڑی اکثریت فطرتاً بھی مشروم ہی ہے جو غذا تیار کرنے کی بجائے غذا کشید کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اردو کو فیضیاب کرنے کی بجائے اردو سے فیض کشید کر رہی ہے …عہدہ، طاقت، تعلقات، پیسہ اور پیروی کی بنا پر سیمیناروں اور مشاعروں میں دعوتیں، تصانیف پر ایوارڈس، کتابوں کی اشاعت پر مالی تعاون وغیرہ وغیرہ۔ شعری و افسانوی مجموعوں کی ایک بڑی تعداد کے معیار کا حال سب کو معلوم ہے۔ بیش تر نیا ”تحقیقی“ مقالہ کئی پرانے تحقیقی مقالوں کی کاک ٹیل ہوا کرتا ہے۔ تنقید کا تو اور بُرا حال ہے۔ بیش تر نئے تنقید نگار تنقید کے بنیادی اصولوں سے ہی ناواقف ہیں، تاثرات تبصرہ اور تجزیہ کو ہی تنقید سمجھے بیٹھے ہیں۔ لیکن خیر، ان سب باتوں کا یہ موقع نہیں۔ ان پر تو بات اس وقت اچھی لگے گی جب اردو زبان کی بقا یقینی ہو جائے گی۔
آپ کہہ سکتے ہیں اردو ہندستان ہی نہیں، دنیا کی مقبول ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ تسلیم، لیکن آپ جان لیں اردو کو قتل کرنے کے لیے اردو کے الفاظ پر حملہ نہیں کیا جائے گا کیوں کہ اردو کے الفاظ تو بالی ووڈ کی سرپرستی میں بالکل محفوظ ہیں، اور اتنے محفوظ ہیں کہ ہندی والے فکر مند ہو رہے ہیں۔شب خون اس کے رسم الخط پر مارا جائے گا۔ بلکہ شروعات ہو چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر (اور پرنٹ میڈیا میں بھی) کئی شاعروں نے اپنی غزلیں فارسی رسم الخط کے ساتھ دیوناگری اور رومن اردو میں بھی پابندی سے شیئر کرنا شروع کر دیا ہے۔ مقصد؟ زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچنا۔ آج سوشل میڈیا پر اردو پڑھنے والوں کی تعداد غنیمت ہے۔ لیکن کل کی نئی نسل جب اردو سے ہی نابلد ہوگی (اور ہوگی ہی لکھ لیجئے اگر یہی حال رہا، ہمارے اپنے گھروں کا ماحول اس کا indicator ہے) تو آہستہ آہستہ یہ غزلیں صرف اور صرف دیوناگری اور رومن اردو میں ہی پوسٹ ہونے لگیں گی۔
اردو کا قاری سیمیناروں اور مشاعروں میں نہیں پیدا ہوتا۔ یہ صرف اور صرف مدرسوں اور مکتبوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اور میری اس پوسٹ سے اتفاق کرنے اور اختلاف کرنے والے، دونوں ہی طبقوں میں سے ایک بھی بندہ ایسا نہیں ملے گا جو اس بات پر اتفاق نہ کرے کہ ہندستان میں اردو اسکولوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے اور جو بچ بھی گئے ہیں ان میں طلبا کی تعداد اس سے بھی زیادہ تیزی سے گھٹ رہی ہے۔
آج کل اردو علاقوں میں گلی گلی اردو کے ”ادارے“ قائم ہیں جو بڑی پابندی سے نشستیں، مشاعرے اور استقبالیہ تقاریب برپا کرتے ہیں۔ کتنے ادارۂ فلاں، محفلِ فلاں، حلقۂ فلاں اور بزمِ فلاں نے اپنے علاقے کے اردو اسکولوں کی حالتِ زار پر توجہ کی ہے؟ کئی اسکولوں میں برسوں سے کئی ٹیچروں کے عہدے خالی پڑے ہیں، کتنوں نے سب کمیٹی بنا کر متعلقہ سرکاری شعبوں کو مکتوب لکھے، احتجاج کیا، دھرنا دیا، آر ٹی آئی داخل کی؟ اگر طلبا کی تعداد بہت کم ہے تو اس کے بھی ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ بات پھر وہی ہو جائے گی کہ پہلے مرغی یا پہلے انڈا۔ ہمیں ہر زاویے سے جدو جہد کرنی ہوگی لیکن فوکس ہر حال میں اسکول اور مدرسے ہی ہوں گے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ آپ شاعری کرنا چھوڑ دیں، افسانے لکھنا ترک کر دیں یا مشاعرے منعقد کرنا بند کر دیں۔ لطف کشید کریں، فائدے اٹھائیں مگر فرض بھی نبھائیں۔ پودے ماحول سے جتنا لیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ دیتے ہیں۔
ریشم کے کیڑوں کو ان کے کوکون (cocoon) کے اندر ہی گیس (بھاپ) دے کر مار دیا جاتا ہے تاکہ ان کے کوکون سے ریشم کے لمبے لمبے ریشے حاصل کیے جا سکیں۔ اگر وہ سوراخ کر کے باہر نکل گئے تو دھاگوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے اور وہ کسی کام کے نہیں رہیں گے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ ریشم حاصل کرنے کے چکر میں اگر ہم تمام کیڑوں کو مار کر سبھی کوکون سے ریشم حاصل کریں گے تو پھر بچے پیدا کرنے کے لیے ایک بھی کیڑا نہیں بچے گا اور ہم ہمیشہ کے لیے ریشم سے محروم ہو جائیں گے۔ اردو کے تعلق سے بھی ہمیں حظ اور فرض دونوں میں توازن بنائے رکھنا ہوگا۔
اب آئیں دوسرے مرحلے یعنی اردو اسکولوں کے معیار کی طرف ….
اپنے اسکولوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہو گیا ہے … انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی تربیت، دونوں محاذ پر بیک وقت جی جان لگا کر کام کرنا ہے۔ ہماری قوم میں، معاشرے میں متمول اور مخیّر حضرات کی کمی نہیں۔ انھیں بس ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایوارڈس اور تقریبات سے ہم اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتے۔ سو میں سے تین چار ٹاپرس کی ”مزید“ حوصلہ افزائی پر ساری توجہ مرکوز ہو اور باقی چورانوے کی کوئی فکر نہ کی جائے تو کوئی معاشرہ، کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ یہ چند ٹاپرس اپنی فیملی، اپنے اسکول کا نام تو روشن کر سکتے ہیں مگر اس طرزِ فکر سے پوری قوم کی بھلائی ممکن نہیں۔
ایک اور اہم بات،
ارود اسکولوں کا معیار جتنا بھی بلند کر لیں، اگر فارغین کی انگریزی کم زور ہوئی تو پھر وہ دیگر اقوام کے بچوں سے مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ تمام مضامین اردو میں پڑھائیں مگر اردو ، اردو کے چکر میں انگریزی سے غفلت بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ ہم پاکستان میں نہیں، ہندستان میں ہیں۔ اگر اردو اسکولوں کے طلبا کی انگریزی اتنی اچھی ہو کہ دوسرے مشکل سے یقین کریں کہ یہ اردو اسکول کا پروڈکٹ ہے تو یقین کر لیں کوئی بھی گارجین اپنے بچوں کو اردو اسکول میں داخل کروانے میں نہیں ہچکچائے گا کیوں کہ وہ انگریزی میڈیم کے طلبا کی طرح ہی employable ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں، اردو اسکولوں کی بقا کا انحصار ان کے طلبا کی انگریزی کی استعداد پر بھی ہے۔
اور ہاں، اردوکی خدمت کریں، عبادت نہیں۔LCM کو ایل سی ایم ہی پڑھائیں، ”ذواضعاف اقل“ نہ کہیں ورنہ طلبا کی ”عقل“ ماری جائے گی !
جاوید نہال حشمی کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو :ہَوا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے