ہَوا

ہَوا

جاوید نہال حشمی

”امّی، اس بار گپتا انکل کے یہاں سے درگا پوجا کے موقع پر رس گلّے نہیں آئے؟“نازلی نے کہا۔
”اس سال ان کے یہاں مہمانوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے بھول گئے ہوں۔“ میں نےبازار سے آئے پھلوں کو باسکٹ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”لیکن وہ ہمارے یہاں امسال افطار کی دعوت میں بھی تو نہیں آئے؟“
”بتایا تو تھا انھوں نے کہ اس دن وہ اپنے ایک رشتے دار کے یہاں بھی مدعو تھے … اور پھر ہم نے کسی اور دن انھیں دوبارہ مدعو کرنے کی کوشش بھی تو نہیں کی۔“ میں نے کہا۔
پھر اسی شام، میں برانڈڈ لچھے سوئیوں کا ایک پیکٹ لے کر اپنے پڑوسی گپتا جی کے گھرپہنچ گئی۔
”اوہ، بھابھی، معاف کرنا۔ گزشتہ ہفتے کے بلڈ ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ انہیں بھی شوگر ہو گیا ہے۔ اور آپ کو پتہ ہی ہے میں آگے سے ہی ڈائے بیٹک ہوں۔“ مسز گپتا نے دروازے پر کھڑے کھڑے ہی معذرت چاہ لی۔
”تو پھر پائل تو کھا ہی سکتی ہے۔ اسے لچھے بہت پسند ہیں۔“
”درست کہا، مگر وہ بہت ویٹ گین کر چکی ہے اور ڈاکٹر نے سخت ڈائٹنگ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔“
”تو پھر اسے اپنی کام والی بائی کو دے دیں۔“میں نے قدرے توقف کے بعد پیکٹ ان کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا۔
انہوں نے تذبذب کے عالم میں پیکٹ تھام لیا۔
”میں اپنی بیٹی کی نگاہ میں ہارنا نہیں چاہتی۔“
میں انہیں ہکّا بکّا چھوڑ کر شکست خوردہ سی لوٹ گئی۔

جاوید نہال حشمی کی یہ تخلیق بھی پڑھیں : قینچی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے