جگہ مطلوب برائے موت اور دیگر…

جگہ مطلوب برائے موت اور دیگر…

احمد نعیم
مالیگاؤں، مہاراشٹر، بھارت
میں مرنے کے بعد اپنے جسم کو کھدیڑوانا نہیں چاہتا تھا، میں مرنے کے لیے اِن گدھوں سے دور ایک جاے امان بعد از مرگ چاہتا تھا، میں بھاگ رہا تھا؛ جسم ساکت تھا رات کا اندھیرا، اوپر سے جرثومے گرتے اور گدھ بن جاتے، مردہ جسموں کو نوچتے؛ زندوں کا سر بھی اوپر سے نوچ کر کھانے لگتے؛ پھر بھربھراجاتے____
میں ایسی جگہ مرنا چاہتا تھا جہاں یہ سب کچھ نہ ہو _ میں کھڑے کھڑے بدحواسی میں بھاگ رہا تھا؛ گدھ بڑھتے جاتے، اندھیرا بڑھ رہا تھا، رفتار تیز تر ہورہی تھی بدحواسی بڑھ رہی تھی رات رُک گئی، سیاہی مزید گہری ہوگئی _________پھر میرا بدن بھاگتے میں رُک گیا – آنکھوں میں رات تیرنے لگی، پلکوں سے گدھِ لٹک رہ تھے.

تخلیق کار کا مختصر خود تعارف :
احمد نعیم
مالیگاؤں، مہاراشٹر، بھارت
(بلاگر موت ڈاٹ کام مالیگاوں)
احمد نعیم کی تعلیم کم ہے مگر مطالعہ اول درجہ کا کرتے ہیں ان کی چند نظمیں اور مایکروفکشن عربی سندھی. پنجابی، انگریزی، پستو، وغیرہ میں شایع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں. شوشل میڈیا کے تمام اہم اور منفرد ایونٹ میں شرکت رہی ہے. ریڈیو اسٹیشن آکاش وانی پہ بھی اپنی کہانی سنا چکے ہیں. فی الحال تو پورے برصغیر میں علامتی اور تجریدی فکشن سے جانے جاتے ہیں.
وجودی ناول نگار خالد جاوید، دہلی اور بلراج مین را صاحب کے فین ییں. احمد نعیم کی دیوانگی کا منہ بولتا ثبوت ان کی فیس بک وال ہے. پیشہ سے ایک کپڑا بننے والے مزدور ہیں جو راتوں کو پاور لوم پہ کپڑا بنتے ہیں اور دن میں کہانیاں لکھتے ہیں.

انٹرویو : (یہ انٹرویو آپ کی بات کے تحت فرحان وارثی نے احمد نعیم سے کیا ہے) 

مجھے جھوٹ پر مبنی اور فرسودہ ادب سے نفرت ہے
برصغیر میں مالیگاؤں ، احمد نعیم اور’ موت ڈاٹ کام ‘ کےہیں چرچے

’ موت‘ احمد نعیم کا پسندیدہ موضوع ہے۔اسی لیے انھیں خالد جاوید کا ناول ’ موت کی کتاب‘ بے حد پسند ہے۔میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کو موت سے اس قدر والہانہ عشق کرتے دیکھا ہے، ورنہ عموماً لوگ باگ موت سے خائف رہتے ہیں اور زندگی کی تسبیح پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ جدید افسانہ نگار، شاعر، بلاگر اور مائیکروفکشن کے دلدادہ احمد نعیم کا تعلق پاورلوم کے شہر مالیگاؤں سے ہے اور وہ خود بھی پاورلوم مزدور ہیں۔ انھیں اس محنت شاقہ کے عوض جو محنتانہ ملتا ہے، اس میں سے کچھ رقم نکال کر وہ اپنی من پسند کتاب کی خریداری کرتے ہیں، اور اگر کتاب کی قیمت ان کی بساط سے باہر ہوتی ہے، تو وہ دکان دار کو راضی کر کے کتاب حاصل کر لیتے ہیں اور قسطوں میں پیسے ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے اسی طرح ابھی حال ہی میں سٹی بُک ڈپو سے رفاقت حیات کا مقبول ناول ’ میرواہ کی راتیں ‘ خریدا ہے، اور ناول کی قیمت کا معمولی حصہ ادا کیاہے۔ ادب کے تئیں ان کا یہ جنون قابل ستائش ہے۔
احمد نعیم پچھلے دنوں اپنی نظم ’ ماچس ‘ کےحوالے سے خبروں کی زینت بنے تھے. اس نظم کا عربی اور انگلش سمیت کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوا تھا جس سے احمد نعیم اور ان کی وجہ سے مالیگاؤں کا نام روشن ہوا تھا۔ اس بار وہ اپنے بلاگ اسپاٹ ’ موت ڈاٹ کام مالیگاؤں ‘ کے سبب لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے تو بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ان دنوں مالیگاؤں برصغیر میں ان کے کارناموں کے سبب پہچانا جا رہا ہے۔
بلاگ اسپاٹ کا نام ’ موت ڈاٹ کام ‘ رکھنے کا جواز پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا:’ موت کا مفہوم ہی زندگی ہے ۔اگر موت کا وجود نہیں ہوتا تو زندگی کی اتنی قدر نہیں ہوتی۔ ایک سال پہلے میں، منصور اکبر اور چند دوست جمع ہوئے تھے۔ اس محفل میں طے کیا گیا تھا کہ جب کبھی ویب سائٹ یا بلاگ اسپاٹ کا آغاز کیا جائے گا تو اس کا نام ’ موت ڈاٹ کام ‘ رکھا جائے گا۔ اس وقت میں خالد جاوید کا ناول ’ موت کی کتاب ‘ کا مطالعہ کر رہا تھا اور میں جہاں بھی جاتا تھا، میرے بغل میں یہ ناول دبا ہوتا تھا۔ اس ناول نے مجھ پر سحر طاری کر رکھا تھا۔ میں نے ان دنوں موت پر کئی کہانیاں لکھی تھیں۔‘
انھوں نے لفظ موت میں دل چسپی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: ’مجھے زندگی سے کوئی اُنس نہیں ہے۔ کیونکہ زندگی میں پل پل مرنا پڑتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ حساس آدمی منافقت اوڑھ کر نہیں جی سکتا ہے۔ بھیونڈی کے فرقہ وارانہ فساد کے موقع پر علی میاں ندوی صاحب نے تاریخی تقریر کی تھی جو پڑھنے جیسی ہے۔ میں نےفیس بک کے اپنے وال پر اس تقریر کا ایک اقتباس لگایا تو کسی نے شکایت کردی اور میرا فیس بُک اکاؤنٹ تین روز کے لیے بلاک کر دیا گیا، اور ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے۔ وہ اقتباس یہ ہے :’’ اب آپ ہی بتائیں کہ کسی ملک میں مسلمان ایک ہزار برس سے ہوں اور وہ مسلمان نہ اپنا تعارف کر سکیں، نہ ان کو متاثر کر سکیں تو بتائیے یہ کوتاہی ہے یا نہیں ؟؟؟‘‘۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کہاں کروں؟ میں گھٹن محسوس کر رہا ہوں۔ اب بولنے، لکھنے اور جینے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے اور اس ظلم میں کوئی ایک مذہب یا فرقے کےعناصر شامل نہیں ہیں، بلکہ ہر مذہب اور ہر فرقے میں ایسے افراد موجود ہیں، اور انھیں قوت حاصل ہے۔‘
مذکورہ بلاگ اسپاٹ کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے بتایا: ’ میں نے اول درجے کا ادب، اور اچھا اور سچا متن، قاری تک پہنچانے کی نیت سے ’موت ڈاٹ کام ‘ کا قیام کیا ہے۔ مجھے جھوٹ پر مبنی اور فرسودہ ادب سے حد درجہ نفرت ہے۔ میری تعلیم ضرور کم ہے لیکن مطالعہ وسیع ہے۔ آج ادب میں بھی تنگ نظری کا دور دورہ ہے اور بیش تر لکھاری آئینہ دیکھنے اور دکھانے سے بچ رہے ہیں۔ میری کوشش ہے کہ قاری کے روبرو اپنے بلاگ اسپاٹ کے توسط سے اچھا اور سچا ادب پیش کروں۔ حقیقت پر مبنی متنازع نگارشات سامنے لاؤں جسے ممنوع قرار دے کر چھپادیا گیا ہے۔جنس کی لذت میں سب کو دل چسپی ہے مگر آج جنس کو زہریلا بنا دیا گیا ہے۔ دوہری زندگی جینے کا چلن پنپ رہا ہے۔ میں نے اب تک ناول کے اقتباسات، افسانے، شاعری، تنقید، مصوری، موسیقی اورجنس کے بارے میں مضامین اور دیگر موضوعات کو پیش کیا ہے اور اس بلاگ اسپاٹ کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے کوشاں ہوں۔ میں نے ابھی تک برصغیر کے نامور قلم کاروں مثلاً سید محمد اشرف، خالد جاوید، ذکیہ مشہدی، محمد فیضان رضا، اجمل کمال، اطہر حسین، تنویر قاضی، ابصار فاطمہ، زاہد امروز، اسفند جاوید مہر، سعید ابراہیم اور دیگرکی تحریریں اپنے بلاگ اسپاٹ کی زینت بنائی ہیں۔ سوشل میڈیا پر مالیگاؤں کا کوئی بھی قلمکار اتنا فعال نہیں ہے۔ کوئی اچھا لکھنے والا بھی نہیں ہے۔ ایک زمانے میں ’ جواز ‘ اور سید عارف صاحب تھے ۔’توازن‘ اور عتیق احمد عتیق صاحب بھی تھے۔ لکھنے والوں میں سلطان سبحانی، سجاد عزیز، مجید انور اور احمد عثمانی کے علاوہ کچھ اور بھی نام مل جائیں گے، مگر آج نئے لکھنے والوں میں کون ہے؟ یہ سوال میں اپنے آپ سے، یا دوسروں سے اکثر پوچھتا ہوں ۔نہ میرے پاس کوئی جواب ہے ، اور نہ دوسروں کے پاس۔ میں مالیگاؤں کو برصغیر میں مقبولیت کے پائیدان پر سب سے اوپر دیکھنا چاہتا ہوں۔ خلوص دل سے محنت کر رہا ہوں، آگے پروردگار کی مرضی۔‘

مائکروفکشن :

سرکاری اسپتال کے مردہ خانے سے

بڑی حسرتوں کے ساتھ وہ دانہ زمین میں گیا- نمو پانے کے لیے، بالیدہ ہونے کے لیے، نہال ہونے کے لیے – بحال ہونے کے لیے –
بحال کرنے کے لئے -!
تاکہ وہ نہال ہوسکے – نہال کرسکے –
مگر یہ کیا
کہ ______دانے کا منہ کھلتے ہی اُس زمین پر چلنے والے بے راہ رو
بےتوجہ خالی دماغ کے لوگوں نے روند دیا –
یہ دانہ نو نہال ہوتا ____
نہال کرتا _____!
بحال کرتا ____!!
سوال کرتا ____!!
کمال کرتا _____!!
مگر یہ کیا ____!
اُسے جاہل بےترییت قدموں نے روند دیا –
روندتے رہے
____
کوئی بات نہیں __!!
یہ دانہ روندے جانے کے غم سے زیر زمین بڑھ رہا ہے – نمو پا رہا ہے
پھل پھُول رہا ہے –
بڑھ رہا ہے –
پروموٹ ہو رہا ہے –
زیرِ زمین دھیان رہے – ____!!!
زیرِ زمین اُس کی توانا جڑیں، زیرِ زمین بڑھ رہی ہیں – زمینوں پر پھل پھُول رہی ہیں –
قدم–______ وہ کالے قدم
اُسے روند رہے ہیں –
دھیان رکھو ___!!
نئی روشنی، نئے درخت اور نئے پھلوُں والے اِس دانے کی نمو زیرِ زمین بڑھ رہی ہے کبھی ایسا بھی ہوگا کہ اِن بڑھتی جڑوں کے غول میں یہ بے بنیاد روندتے قدم جڑوں کے شکنجے میں آکر اپنا غم توڑ دیں گے –
روندتے قدم ____مر جائیں گے –
پھیلتی جڑوں کو زیرِ زمین راس نہیں آئے گی- زمین کم پڑ جائے گی –
یہ بڑھتی جڑیں زمین پر پھیل کر یا لامتناہی سلسلہ اختیار کرکے اِن انسانوں کو خدا سے ملا دے گی –
تب تم کیا کرو گے –
اے روندنے والو____!
اے ______تماشا دیکھنے والو
اے بے توجہی کے شکار سوچ والو _____
میں زیرِ زمین پڑا وہ دانہ تم سے سوال کرتا ہوں
کیا _______میں نمو پاؤں __؟؟!
نہال ہوجاؤں _____!!!
بحال کر جاؤں ______*یا*___
حد سے گزر جاؤں
(5/2/2020
شب دو بجے)

مائکروفکشن :

منَ وتَو

اُس کا بابا مر رہا تھا –
وہ بھاگا ___
مندر بند تھا __!
مسجد پر تالے ___!
گرجا پر پردہ گرا تھا، گردوارہ لاک تھا -!
یہ تمام مقامات بند پاکر وہ بےخیالی میں رُک گیا –
پھر اُسے مرتے بابا کا خیال آیا – تمام مقامات بند ہونے کا افسوس لیے وہ گھر کی طرف بھاگا –
اُس کا بابا جی اٹھا –

مائکروفکشن 

قبر سے موت پر ایک ڈاکیو مینٹری

لوگوں نے زندگی کے ہر رنگ دیکھے –
میں نے موت کے بےشمار رنگ دیکھے – مگر میری موت کا پس منظر یہ ہوگا ____
یہ نہ کبھی کسی نے دیکھا ____-نہ سنا ہوگا –
رکیے _______!! رکیے
"میں ابھی ابھی تو مرا ہوں" __!!
ہاں مجھے لکھنے کی بڑی عجلت رہتی ہے –
"میرے پاس ہمیشہ بھیڑ رہتی تھی – میرے لوگ مجھ پر جان نچھاور کرتے تھے – میرے مرنے پر بہت بڑی تقریب ہونے والی تھی – کچھ لوگ تو میرے مرنے پر میرا مزار بھی بنانے والے تھے –
یہ تھا _______
وہ تھا ________
کتنا _____تھا ___!
اتنا تھا ______
نہ جانے کتنا کیا کیا ______کتنا تھا -!
موت مجھ سے آخر کیا چھنتی میری استطاعت موت سے زیادہ تھی –
میری موت کا چرچا ہونے والا تھا – میری آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ہونے والی تھی –
خوش ہوتا تھا کہ میرے جلوس جنازہ میں زیادہ سے زیادہ لوگ ہوں گے تو میری بخشش کا سامان ہوگا –
میں مر رہا ہوں _______!
ایسا مجھے کیا ہوگیا ہے – میرے اپنے مجھ سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھ رہے ہیں –
یہ کیسی موت ___؟؟؟
کہ میرے جنازہ کو کسی نے چھُوا بھی نہیں اور میں قبر میں آگیا –
یہ بھی کیا احتیاط ہوا –
آرزو تھی کہ کالی کملی کا ٹکڑا کفن کو ملے ___-!! مگر یہ کیا مجھے اسپتال کے کمیکل آلود پلاسٹک میں لپیٹ دیا گیا –
نہ برگہ ملا _____نا مرنے پر چھت ملی- گہرے گڈھے میں میری لاش کو چھوڑ کر مٹی ڈال دی گئی –
میری موت کا اعلان کرنے پر سزا کا حکم دے دیا گیا – موت سے بڑے اسباب بھی میرے کام نہ آئے –
وہ تو بھلا ہوا کہ فرشتے میری قبر میں آگئے ورنہ انسان تو قبرستان تک بھی نہیں آئے –
مرنے سے پہلے جو لوگ میرے رابطہ میں آئے – اُن لوگوں کو پرسہ دینے کے بجائے کورنٹائین کردیا گیا –
لوگوں کے مرنے پر اُن کے گھروں میں لوبان جلے –
میرے مرنے پر میرے گھر میں جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا گیا –
لوگوں کے مرنے پر لوگوں نے مرنے والوں سے اپنی نسبت ظاہر کی میرے مرنے پر مجھ سے پلہّ جھاڑ لیا ___!
لوگوں کو زندگی میں اُچھوت ہوتے تو میں نے دیکھا – مگر مرنے کے بعد اگر کوئی اُچھوت ہوا ہے تو وہ "میں” تھا –
آتما کتھا تو لوگوں نے بہت پڑھی ہوگئی – مگر یہ موت کتھا جس میں راوی کو اپنی موت پر اطمینان نہیں ہے –
موت کی آغوش میں یہ کون سا سرَاب ہے – جس میں آنکھ کھولتے ہی سارا سرَاب اُس دیے کی لوَ میں آب حیات لگ رہا ہے.

نظم:

ماچس

نہ جانے کب
کسی آوارگی کے دوران
دبے پاؤں اس کی مددگار بن گئی
ایک ماچس
کبھی کسی نظم
کا بیج اگانے کے لیے
کبھی کسی کہانی کا عنوان
کھوج لانے کے لیے
کبھی کوئی شعر سلگانے کے لیے
یا پھر ٹھٹھرتی سردی میں محض
الاؤ دہکانے کے لیے
اور کبھی کبھی خود کو مکمل جلانے کے لیے
کتنی کارآمد ہے
یہ ماچس
جو اُس کے دل کے دائیں جیب [میں ہے] 
یہ صرف
وہ ہی جانتا ہے
کہ اس تجوری کی چابی رگڑنے سے اندر کی روشنی باہر نکل آتی ہے

نظم ماچس کا عربی ترجمہ :

للشاعراحمد نعیم مالیگاؤں مہاراشٹر ممبئی بھارت
قامت بالترجمة
الدكتورة خورشيد نسرين المعروفة باسم أمواج الساحل

الثقاب
من يدري متى
أثناء التجول على غير هدى
أصبحت تساعده بعد أن تسللت إليه بالخطا
فعلبة أعواد الثقاب هذه أحياناً
تسعمل لإنبات
قصيدة ما
وأحياناً لإحضار
عنوان لقصة ما
وأحياناً لإشعال شعر من الأشعار
أو في برد يرتعش في الشتاء
لزيادة توهج النار الدافئة
وحيناً آخر لاستكماله لنفسه الفانية
كم من فوائد تأخذ الألباب
من هذا الثقاب
الذي يكمن في جيبه الأيمن من الفؤاد
تمنح الدفء والوداد
وكم من قصائد وقصص وأشعار
يخبئها في العلبة الفارغة
ولا يعرف إلا هو
أن احتكاك هذه الخزنة بمفتاحها
يسبب انبعاث الضوء من داخلها إلى الخارج.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے