ٹیچرس ڈے ہندستان کی عظیم ثقافت !

ٹیچرس ڈے ہندستان کی عظیم ثقافت !

محمد اشفاق عالم نوری فیضی
خطیب و امام، نہالیہ جامع مسجد دکھن نارائن پور، کولکاتا۔136
رابطہ نمبر: 9007124164

کسی شاعر نے اساتذہ کرام کے تعلق سے بہت عمدہ کہا ہے ؀

دست معصوم کو یہ لوح و قلم دیتا ہے
نو نہالوں کو یہ قندیلِ حرم دیتا ہے
روشنی بانٹتا پھرتا ہے سورج کی طرح
ڈوبتا ہے تو ستاروں کو جنم دیتا ہے

وطن عزیز یوں تو اپنے رنگا رنگ تہواروں اور تقریبات کی بنیاد پر پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ہندستان جیسے جمہوری ملک میں ہر مذہب وملت والے اپنا تہوار اپنی تقریبات آزادانہ طور پر مناتے آرہے ہیں۔ مذہب وملت میں کچھ یادگار دن ایسے بھی ہیں جو سب کوئی اتحاد اور اتفاق رائے سے مناتے ہیں انہی میں سے ایک یومِ اساتذہ کرام بھی ہے جسے پورے ملک کے اسکول و کالج، یونیوسٹیوں کے بچے بچیاں ہر سال 5/ستمبر کو جناب سروپلی رادھا کرشنن کے جنم دن کے موقع سے ان کو یاد کر کے اس دن یومِ اساتذہ کرام کے طور پہ مناتے ہیں. بچے بچیاں خوش ہوکر اپنے اساتذہ کرام کو تحفہ وتحائف پیش کرتے ہیں اور اساتذہ کرام فرحت و انبساط سے طلبا وطالبات کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو جب کہ یہیں اساتذہ کرام سے علم و تربیت پاکر مستقبل میں وطن عزیز کے اونچے اور اعلا عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔

آج کے جدید ٹیکنالوجی، کمپیوٹراور سوشل میڈیا کے دور میں جہاں چاروں طرف بد اخلاقی، بدکرداری، بدامنی، بے شرمی، بے حیائی، بے راہ روی عام ہے، نئ نسلیں تباہی و بربادی کی راہ پر گام زن ہیں. آج کے تعلیمی ادارے اسکول کالجز ومراکز میں بچوں کو انسان بنانے کے بجائے انھیں ایک مشین بنایا جارہا ہے. طلبا تو در کنار خود اساتذہ و معلیمن بھی اخلاقی زوال کے آخری سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ کیوں ؟ آج ہمارے اندر غیبت، چغل خوری، حسد، کینہ اور الزام تراشی جیسی خصائل رذیلہ گھر کر چکی ہیں. مصرع: میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو ۔کیا اس کا تعلق صرف پڑھنے سے رہ گیا ہے ؟ عمل سے نہیں مصرع: زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری۔ آج ہماری زندگی اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں پندرہ سے بیس سال علم حاصل کرنے کے بعد بھی غیب وچغل خوری، حسد و کینہ سے بچ نہیں پاتے۔ آخر کیوں؟ ہمارے لیے رابندرناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام، سوامی ویویکا نند، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہرلال نہرو، سرسیداحمد خان اور سروپلی رادھا کرشنن وغیرہ شخصیات کی زندگی کافی نہیں ہے، حیرت بالائے حیرت تو اس وقت ہوتی ہے کہ جب ہمارے طلبا وطالبات اور اساتذہ کرام اسکول کے احاطے میں ہندستان کے قومی ترانہ گانے کے بعد شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی لکھی ہوئی دعا؀

لب آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیاکی میرے دم سے اندھیرا ہوجاے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہے اس رہ پہ چلانا مجھ کو

متذکرہ دعا ہر روز گاتے ہیں یا پڑھتے ہیں. لیکن آج تک ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی الا ماشاءاللہ ۔ آج جو ٹیچر کے عہدے پر فائز ہیں کل وہ بھی یہی ترانہ پڑھا کرتے تھے اور آج بھی پڑھ رہے ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ کل طالب علم کی صورت میں پڑھا کرتے تھے اور آج معلم کی صورت میں پڑھ رہے ہیں۔ اور نیت یہ رہتی تھی کہ ہر برائی سے بچاکر میری زندگی مثل شمع ہوجائے لیکن آج تک ایسا نہیں ہوپایا ہے۔ اور کیا طوطے کی طرح پڑھ لینے سے کام چل جائے گا؟ یا اس پر عمل کرکے ہمیں بھی اپنے آپ کو دکھانا ہوگا؟ اگرہم طالب علم ہیں تو متذکرہ اشعار کی شکل میں ڈھلنے کی اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں اور اگر ٹیچر کی صورت میں ان بچوں اور بچیوں کے ساتھ ترانہ پڑھتے ہیں تو ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا کہ ٹیچرکے عہدے پر فائز تو ہوچکے ہیں لیکن ایک ٹیچر کے اندر کیا کیا خوبی ہونی چاہیے وہ خوبی ہمارے اندر بھی ہے یا نہیں؟ ایک ٹیچر کو کلا س روم میں کیسے رہنا چاہیے بچوں کو درجنوں کتابیں پڑھا دینا ایک ٹیچر کی بہادری اور کمال نہیں ہے بلکہ کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو تہذیب و تمدن سے آراستہ و پیراستہ کرنا یہ ایک ٹیچر کے لیے کمال ہے. آپ کے سامنے جو بچے ہیں وہ گیلی مٹی کے مانند ہیں. آپ جس طرح چاہیں اس کو زیور علم اور تہذیب و تمدن سے آراستہ و پیراستہ کرسکتے ہیں۔
آپ نے کمہار کو دیکھا ہوگا اگر ان کو مٹی دیں گے تو وہ اپنی کاریگری اور کمال سے برتن بنادیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کے پاس اسی کا ہنر ہے تو بلاشبہ ایک ٹیچر کو اس کمہار سے سبق حاصل کرناچاہیے کہ اس کے پاس اگر مٹی کو سجانے اور سنوارنے کا ہنر ہے تو ہمارے پاس بچے اور بچیوں کے مستقبل سنوارنے کا ہنر کیوں نہیں؟
اخلاقی نقطہ نظر سے ہم زوال کا شکار صرف اس لیے ہیں کہ ہمارے پاس ڈھیروں علم ہونے کے باوجود ہم اپنی زبان پر کنٹرول نہیں کر پا رہے ہیں۔ آج بھی بہت سارے اساتذہ بدکلامی کا شکار ہیں۔ نہ ہی اس میں صحیح طور پر کلام کرنے کا سلیقہ ہے نہ ہی نشست و برخواست کا سلیقہ، بچوں سے بد تہذیبی انداز میں بات کرنا اور ان کے والدین کو برا بھلا کہہ دینا یہ بچوں کے ذہن پر غلط اثرات مرتب کرتے ہیں۔
جب کہ زمانہ قدیم سے ہی اساتذہ کرام کو ملک اور قوم و ملت کا معمار سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بہتر سماج کی تشکیل کے لیے اساتذہ کرام کا اہم رول رہاہے ۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی سماج کی ترقی کے لیے اساتذہ (معلمین) کا کردار نہایت ہی اہم ہے. لہذا بہت سے دانشور اور مفکرین نے اساتذہ کے کردار کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات و خیالات کا اظہار اکثر و بیش تر دینی تقریروں اور تحریروں میں کیا ہے. مہا تما گاندھی جی کی نظر میں اساتذہ کی بڑی اہمیت ہے. ان کا ماننا ہے کہ اساتذہ کے اندر بہت سی خوبیوں کا ہونا بے حد ضروری ہے. مگر اچھے اخلاق و کردار ہونا چاہیے تاکہ سماج میں اچھائیاں پیدا کرسکیں۔

اساتذہ ملک میں تمام معیار کی تعلیم کے نظام کو فروغ دینے کی وجہ سے ہیں اور اس کے بغیر ملک اور قوم وملت تاریکی میں رہ جائے گی۔ اساتذہ طالب علموں کو بہت احتیاط سے اور اخلاقی طور پر صرف اپنے بچوں کی طرح سکھاتا ہے. یہ اچھی طرح سے کہا جاتا ہے کہ اساتذہ والدین سے بہت اچھے ہیں. والدین بچے کو جنم دیتے ہیں جب کہ اساتذہ اپنے کردار کو شکل دیتے ہیں اور مستقبل کو روشن کرتے ہیں. استاد اپنے شاگردوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور ان کے اخلاقی تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے. جبھی تو ہر سال پانچ ستمبر کو استاد کے اعزاز میں ٹیچرس ڈے منایا جاتاہے. استاد کیا ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ ہم سکندر اعظم کے قول سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سکندر اعظم نے کہا۔۔۔۔۔۔۔”میں زندگی جینےکے لیے اپنے والدین ک اقرض دار ہوں لیکن اچھی زندگی جینے کے لیے اپنے استاد کا قرض دار ہوں۔"
دوستو! ہندستان کی سرزمین پہ بہت ساری عظیم شخصیتوں کو دیکھا جنھوں نے اپنے ملک اور قوم و ملت کے لیے بہت کچھ کیا. انہی میں سے ایک ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن بھی ہیں. جن کی زندگی طالب علم اور استاد کے لیے کھلی کتاب ہے. اپنی محنت اور جدوجہد سے ٹیچر کے عہدے سے صدر جمہوریہ کے عہدے پر کس طرح پہنچے یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے. اور ٹیچرس ڈے انہی کی مرہون منت ہے جو آج پورا ہندستان جوش وخروش سے مناتا ہے اور مناتا رہے گا۔

ہندستان کے سب ہی طلبا و طالبات کے لیے ٹیچرس ڈے ان کے مستقبل کے نقطہ نظر سے کافی اہمیت و افادیت رکھتا ہے. آج کے دن ہر ایک طالب علم کے من کی بات زبان پر کھل کر آتی ہے. طالب علم بھی علم کی قدر و قیمت اور ٹیچرز کی اہمیت کو سمجھنے لگتا ہے۔ پھر اس طرح جو محنت طلبا پر کی جاتی ہے. آج اس کا نتیجہ ملتا ہے۔ معلم بھی مستقبل میں اور بھی بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے سے اپنے کاموں کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں. اگر ہم سماج کی طرف دیکھیں اورسماج کے اندر موجودہ پیشوں کا اگر جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ٹیچر کا پیشہ سب سے بہتر اور عمدہ پیشہ ہے. ایک دوسرے سے بہت گہرا ربط ہوتا ہے. استاد کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کے بعد ہی طالب علم اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ سماج کی تعمیر صرف اور صرف اسکول اور استاد سے ہی ممکن ہے. تعلیم کے ذریعہ سے انسان اچھے اور برے کی تمیز کرنا سیکھ لیتا ہے. فیصلہ لینے کی صلاحیت انسان میں پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی خدمات اور ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں. ہمیشہ کے لیے ان کی قربانیوں کو یاد کرکے ان کے جنم کے موقع سے ٹیچرس ڈے کی صورت میں ان کے لیے خراج عقیدت پیش کیا جاتاہے اور کیا جاتا رہے گا۔

جس نے علم وادب سکھایا جس نے سکھایامجھے کلام
میرے ، ہر استاد کو دل سے میری دعا سلام

خدا کی رحمت ان پہ برسے ہر لمحہ ہر صبح و شام
میرے ہر استاد کو دل سے میری دعا سلام

غلطیوں پر ڈانٹ پلائی اچھائی پر دیا انعام
میرے ہر استاد کو دل سے میری دعا سلام
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:یومِ عاشورہ کے فضائل وبرکات !

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے