ریاست یوپی کے عوام تبدیلی کیوں چاہتے ہیں؟

ریاست یوپی کے عوام تبدیلی کیوں چاہتے ہیں؟

محمد قاسم ٹانڈؔوی
09319019005
یوپی کے اسمبلی الیکشن کی تاریخیں گرچہ باضابطہ طور پر متعین و مقرر نہیں ہوئی ہیں، مگر الیکشن کی تیاریاں پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہیں، جس میں حصہ لینے والی سبھی چھوٹی بڑی پارٹیوں سے وابستگی رکھنے والے افراد اور خود کو سیکولر و غیرسیکولر کا دعوی کرنے والے لوگ بھی زمینی سطح پر محنت کرنے میں منہمک و مصروف نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف برسر اقتدار حکومت کے اپنے چھوڑے ہوئے کارندے و سرکاری افسران عوامی مفاد پر مبنی نئی نئی اسکیمیں لاکر ریاستی عوام کے ذہن و دماغ کو اپنی طرف پھیرنے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش اور بھرپور جستجو کرنے میں فی الوقت مشغول ہیں۔ اب انھیں اپنے اس مشن اور مشغلہ میں کتنی کامیابی حاصل ہوگی اور الیکشن کی تاریخیں متعین ہوتے ہوتے حالات کس کروٹ رخ کرتے ہیں، اور عوامی ذہن میں کتنا رد و بدل ہوتا ہے؛ یہ سب باتیں وقت طے کرےگا۔ فی الحال تو عوام کا موڈ موجودہ حکومت کی طرف سے آف ہے اور وہ اقتدار کی تبدیلی و انتقال چاہتے ہیں۔ چنانچہ ریاستی عوام کا ایسا سوچنا ریاست کے موجودہ حالات و تقاضے کے عین مطابق و موافق ہے۔ جنھیں یہاں رقم کیا جاتا ہے۔ انتقال و تبدیلی کی چند وجوہات و اسباب:
1)ملک ہو یا ریاست؛ عوام یکساں ترقی و خوش حالی کے خواہاں ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ذمہ دار و سربراہ کا ذہن علاقائی نفرت و تشدد اور مذہبی شدت پسندی سے خالی ہو اور اس کی حکمرانی میں کسی خاص طبقہ اور برادری کو فوقیت و برتری نہ ہو، وہ اپنے ماتحت عوام کو ایک نظر اور زاویہ سے دیکھنے کا عادی ہو، کسی بھی برادری اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والا اس کے راج میں ظلم و بربریت اور ناانصافی کا شکار نہ ہوتا ہو۔ غریب مزدور اور سخت معذور قسم کے افراد اس کی خاص عنایات و توجہات کے مستحق ہوتے ہوں نیز پریشان حال لوگوں کی رسائی بآسانی اور بالواسطہ اس کے دربار تک ہوتی ہو؛ یہ باتیں ایک کامیاب و سنجیدہ حکمراں اور عوام کے دکھ درد میں ساتھ و شریک رہنے والے حاکم کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہوتی ہیں، لیکن اگر اس حکومت کے کام کاج پر نظر ڈالی جائے اور روز اول سے اب تک کے حالات کا بہ غور جائزہ لیا جائے تو بیش تر امور میں آپ کو اس بات کا احساس ہوگا کہ یہ حکومت اور اس کے افسران کی اکثریت کا مزاج اس کے برعکس ہے اور ان کے کام کاج کا طریقہ و ڈھنگ اور عوام سے ان کے تعلق و واسطہ کے معاملات میں برادرانہ نفرت و تشدد اور مذہبی عصبیت کا عنصر غالب ہوتا نظر آئےگا۔
2)اقتدار کی منتقلی کی دوسری اہم وجہ ہے ریاست کا ماحول اور اس میں تیزی سے پنپنے والی مذہبی شدت پسندی؛ جس کو ریاستی سرکار کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور اس کام پر اوباش و بدمعاش قسم کے لڑکوں پر مشتمل حملہ آور گروہ کو لگا دیا گیا ہے، یہ گروہ جہاں چاہتا ہے وہاں کسی بھی تنہا اور بےسہارا شخص کو دیکھ کر مذہب کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، جسے عوامی بھاشا میں "موب لنچگ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال بریلی، ہردوئی اور اناؤ میں پیش آئے واقعات ہیں۔ جہاں غریب مزدور اور پھیری کرنے والوں کو مذہب کی بنیاد پر زد و کوب کیا گیا اور زبردستی اپنے مذہب کے ‘نعرے` و مخصوص الفاظ کہنے پر مجبور کیا گیا۔ سوال ہوتا ہے کہ: کیا اس طرح زبردستی اپنے مذہب کےلیے نعروں پر غیر مذہب والے کو مجبور کرنا اور نہ کہنے کی صورت میں اس کے ساتھ مار پیٹ کرنا، اسے موت کے گھاٹ اتار دینا؛ کیا ایک سنجیدہ اور سچا مذہبی برداشت کر سکتا ہے؟ اور کیا اس طرح کی نازیبا حرکتیں کرنے کا ہمارے ملک کا آئین و دستور اجازت دیتا ہے؟ دستور و مذہب کا مطالعہ اور سیکولر عوام کی طرف سے بلند ہونے والی صدائیں ان دونوں سوالات کا جواب نفی اور نہیں میں دیتے ہیں، اور ہمارے حکمران و افسران اس بات کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے بھی ہیں؛ مگر چونکہ مذہب کا لبادہ اور اقتدار کا نشہ ایسی چیز ہوا کرتے ہیں جو اچھے برے کی تمیز ذہنوں سے خارج کر دیتے ہیں اور عوام کی طرف سے ہونے والے ہر ردعمل پر آنکھیں موندنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک دو نہیں بلکہ الگ الگ مقامات پر وقفہ وقفہ سے جو موب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے واقعات مسلسل رونما ہو رہے ہیں اور جو باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے؛ کیوں اس پر کارروائی نہیں کی جارہی ہے؟ یا جو لوگ اس میں کسی بھی اعتبار سے ملوث ہیں، ان کو پابند سلاسل کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟ کیا ان نازیبا، غیر مناسب اور انسانیت سوز مظالم و حرکات سے ہماری جگ ہنسائی نہیں یو رہی ہے اور کیا اس تحریک کے پنپنے سے مستقل ریاست کا ماحول پراگندہ، یہاں کا امن و امان غارت اور لوگوں میں خوف و ہراس کی لہر نہیں پائی جا رہی ہے؟
3)تیسری وجہ اور سبب ریاستی وزیراعلا کا خود بھی مذہبی شدت پسند ہونا اور دیگر اقلیتوں کے تئیں جارحانہ و متعصبانہ رویہ اختیار کرنا ہے۔ ان کا مزاج دوسروں کے کیے گئے کام کو برداشت نہ کرنا اور سابقہ حکومت کے مثبت و تعمیری اور ترقیاتی امور کی طرف سے دلی بغض و عناد کا اظہار کرنا، ان کی شناخت کو مٹانا اور انتقامی جذبہ سے لبریز سیاست پر زیادہ یقین رکھتے ہیں، وہ ہر شخص کے نام اور کام کے دشمن ہیں، جہاں سے اقلیتی فرقہ کا تعلق وابستہ ہو، جسے وہ بہر صورت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ: ایسا کرکے وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، خود اپنی ذات کے امر ہونے کا یا اپنی پارٹی اور حکومت کو دوام بخشنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ انھیں معلوم نہیں ہے کہ حکومت و وزارت کے عہدوں پر فائز شخصیات جب آئین و دستور کی ڈگر سے ہٹ کر اپنی من مانی پر اتر آتی ہیں تو ان کی طرف سے عوام کے مزاج و ذہن میں جلد ہی کھوٹ بھر جاتا ہے اور وہاں کے عوام اسے میدان سیاست سے باہر کا راستہ دکھاتے دیر نہیں لگاتے؟ حکومت جس کی اولین ذمہ داری اپنے عوام کے جان و مال کا تحفظ اور ان کے آئینی و مذہبی امور کی پاسداری ہوتا ہے اور ان پر ہونے والے کسی بھی ظلم و ستم کا سد باب کرنا ہوتا ہے، موجودہ ریاستی حکومت عوامی حقوق و تحفظات میں ناکام اور مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے والی ثابت ہوئی ہے، جس سے ریاست کی ترقی بھی متاثر ہوئی ہے اور ریاست اترپردیش کا نام بھی عالمی سطح پر بدنام ہوا ہے۔ یہی وہ اسباب و وجوہات اور ریاست کے مذکورہ حالات ہیں، جو اپنے ہوش مند و باشعور باشندوں کو اقتدار کی منتقلی پر آمادہ کیے ہوئے ہیں۔ باقی جیسے جیسے الیکشن قریب آتا جائےگا، ہمیں امید ہی نہیں ریاست کے عوام سے یقین کامل ہے کہ ان کے اس بدلاؤ کے جذبے میں مزید پختگی آئےگی اور نئی سرکار نئے سربراہ کے ساتھ منتخب کریں گے۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : ملک کے پرآشوب حالات اور دو اہم سیاست داں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے