سیدفخرالدین بلے: ادب و ثقافت کاقطب مینار

سیدفخرالدین بلے: ادب و ثقافت کاقطب مینار

ڈاکٹر امام اعظم
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)، کولکاتا ریجنل سینٹر

مصرعۂ اقبال ’’ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہاں گیری‘‘ اگر کسی پر صادق آتا ہے، تو وہ تھے سید فخر الدین بلّے صاحب جن کے ذوقِ جدت سے کبھی ترکیب پایاتھا مزاجِ روزگار— روایت ہے کہ سلطان الاولیاء خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اپنے صاحب زادہ فخر الدین کو پیار سے ’بلّے‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہاپوڑ ضلع میرٹھ کے ایک خانوادۂ چشتیہ میں 6؍ اپریل 1930ء کو جو لڑکا تولد ہوا، اس کے والد سید غلام معین الدین چشتی نے اپنے جد امجد کی روایت تازہ کرتے ہوئے اپنے بچے کا نام سید فخر الدین رکھا اور ’بلّے‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ لہٰذا بلّے ان کے نام کا جزو لاینفک ہوگیا۔ حضرت خواجہؒ سے خوش عقیدگی کی اس نسبت نے سید فخر الدین بلّے کودنیائے علم و ادب، ثقافت و صحافت اور ایوانِ اقتدار تک میں ’’بلّے بلّے‘‘ کردیا۔ ہاپوڑ دو چیزوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے؛ ایک پاپڑ اور دوسرے بابائے اردو مولوی عبدالحق لیکن بلّے صاحب کے لازوال کارناموں نے بھی ہاپوڑ کے دامنِ شہرت میں ایک تیسرا ستارہ ٹانک دیا۔
بلّے صاحب نے مقامی اسکول کے ذریعہ ۱۹۴۲ء میں الٰہ آباد سیکنڈری بورڈ سے میٹرک کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے جہاں سے ۱۹۵۲ء تک تعلیم حاصل کرکے ایم ۔ایس ۔سی (جیالوجی) اور جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا۔ تقسیم ہند سے قبل تحریک پاکستان کی آندھی چلی، اس میں بلّے صاحب ایسے بہے کہ تحریک پاکستان کے اجتماعات میں مقبول چائلڈ اسپیکر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ پھر آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے تحریک کو تقویت دیتے رہے اور فراغتِ تعلیم کے بعد17نومبر 1952ء کو ہجرت کرکے کراچی، پاکستان پہنچ گئے۔ 1953ء میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے آفیسر کی حیثیت سے بہاولپور میں پہلی پوسٹنگ ہوئی۔ یوں تو عہدہ جاتی تبادلوں اور ترقی نے انھیں محکمہ در محکمہ گھمایا۔ یہاں تک کہ مقتدر اعلا کے درباروں تک پہنچایا مگر شہرِ اولیا ملتان انھیں زیادہ بھایا۔ اس لیے 1990 میں سبکدوشیِ ملازمت کے بعد یہیں مقیم رہے اور 28؍جنوری 2004 کو انتقال کیا لیکن پہلی سکونت گاہ بہاولپور ہی ان کی آخری قیام گاہ ٹھہرا اور یہیں مدفون ہوئے۔
موصوف کا تعلق خانوادۂ صوفیا سے ہے ۔اس لیے تصوف کا درک موروثی تھا۔ ان کا خانوادہ سرسید تحریک اور پھر آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش رہا۔ لہٰذا انھیں بچپن سے زعمائے ملت و قوم اور ادبا و شعرا مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا حسرت موہانی، بابائے اردو مولوی عبدالحق، پروفیسر رشید احمد صدیقی، جگر مرادآبادی، تلوک چند محروم، علامہ نیاز فتح پوری، علامہ سیماب اکبرآبادی، سر شاہ نواز بھٹو، مولانا عبدالسلام نیازی سمیت نامور و قد آور شخصیات کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فیض پانے کے مواقع ملے۔ اس وجہ سے سائنس کے طالب علم ہونے کے باوجود ان کے مطالعے کا دائرہ علم و ادب و فنون لطیفہ کے متعدد شعبوں میں محیط تھا اور ان کے تفنن طبع نے بھی شوقِ مطالعہ کو تنوع بخشا۔ اس لیے ان کو تقریر و تحریر دونوں پر ایسی قدرت حاصل ہوئی کہ طلبا، اساتذہ اور اکابرین کے طبقے میں مقبول رہے۔ اس بابت ممتاز ناقد ڈاکٹر وزیرآغا نے جو تحریر ثبت کی، اس پر کہیں بھی انگلی رکھنا ممکن نہیں کہ ڈاکٹر وزیرآغا نے لکھا ’’قدرت نے انھیں اعلا ذوقِ نظر ہی عطا نہیں کیا، دل کی بات کو لفظوں میں ڈھالنے کا گُر بھی سکھایا ہے۔ ان کی نثر اتنی پختہ، نین نقش کی اتنی صحیح اور لفظوں کے انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت مزاج ہے کہ کسی فقرے پر تو کجا، ان کے استعمال کردہ لفظ پر بھی انگلی رکھنا بہت مشکل ہے۔ اس پر مستزاد ان کا وسیع مطالعہ ہے۔ انھوں نے کتابوں کو خود پر لادا نہیں بل کہ انہیں ہضم کیا ہے اور پھر ان کے مطالبہ کو اپنی سوچ سے ہم آہنگ کرکے بڑے خوب صورت انداز میں لفظوں کے حوالے کردیا ہے۔"
خوش مزاجی اور خوش لباسی انھیں باوقار اور پُرتمکنت بناتی تھی تو ان کی خوش گفتاری ایسی تھی کہ جو ان سے ملتا گرویدہ ہوجاتا، جس اسٹیج سے خطاب کرتے مجمع کو مسحور کردیتے، تواضع ان کا خاصّہ اور مروّت و رواداری ان کا شعار رہی۔ اس طور فعال و باغ و بہار زندگی انھوں نے گذاری۔
بیت بازی کے چسکے نے شعری شعور پیدا کیا تو ۱۹۴۴ء سے شاعری شروع کردی۔ شعری مقابلوں اور مشاعرہ میں پُرجوش شرکت کی. مشق میں تخلیقی جوہر کھلے تو مروجہ تمام شعری اصناف پر مشقِ سخن کیا اور خوب کیا۔ ریاضت نے فنی ترفع عطا کیا تو سات سو سال بعد امیر خسروؒ کی مروجہ دو صنف ’’قول ترانہ‘‘ اور ’’رنگ‘‘ کی تجدید کی اور عصری شاعری کو ’’نیاقول‘‘ اور ’’نیارنگ‘‘ دیا۔ صوفیانہ قوالی میں ’’قول ترانے‘‘سے قوالی کا آغاز ہوتا ہے اور ’’رنگ‘‘ پر اختتام ہوتا ہے۔ بلّے صاحب نے اپنی جدّتِ طبع سے حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے عرس میں گائی جانے والی قوالیوں کو نئے رنگ و آہنگ سے آراستہ کیا۔ اپنے عہد کے خاصے پرگو شاعر تھے۔ صوفیت کے خمیر نے ان سے خاصی قوالیاں، قطعات، حمد، نعت اور مناقب بھی لکھوائیں۔ ان کے علاوہ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے ’’سوچ سفر‘‘۔ اس مجموعہ میں خوش گوار، پرزور اور پردرد نظمیں ہیں۔ کلاسیکی اور نئے آہنگ و رنگ کی نظمیں ہیں تو آزاد نظمیں اور ہائیکو بھی ہیں۔ انھوں نے شاہ کار نظمیں بھی دی ہیں، ’’بھیگی صبح‘‘ بھی ایک خوب صورت نظم ہے۔ جب کہ نظم ملتانِ ما میں ملتان کی تاریخی حیثیت کو دل کش انداز میں اجاگر کیا ہے۔ نظم ’’بارانِ کرم‘‘ کوئٹہ کی برف باری سے متاثر ہوکر لکھی۔ اس میں منظر نگاری اور روانی و نغمگی غضب کی ملتی ہے۔ اس نظم کے آخری چار مصرعے دیکھیں:
یہ برف ہے یا مرگ و قیامت کی نشانی
بے رنگ، ہو جیسے کسی بیوہ کی جوانی
واللہ کہ ایمان لرزتا ہے دلوں میں
آتش کدے آباد مساجد میں گھروں میں
اس سے ہی اس نظم کے تیور کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی آزاد نظموں میں ’’تسخیر‘‘ بھی ہے۔ ان کی نظمیں پابند ہوں یا آزاد، ان میں لفظ و خیال کا رچاؤ ایسا ہوتا ہے کہ قلب و ذہن کو مسخر کر لیتا ہے۔نظم ’’نزول قرآن‘‘ اس کی تابندہ مثال ہے۔
ایسے ہی عنوان پر مبنی ان کی غزلوں کا مجموعہ ’”سوچ رنگ‘‘ بھی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ بقول بلّے صاحب:
سوچ کے آسماں سے اتری ہے
دل کے آنگن میں چاندنی چپ چاپ
ان کی غزلوں میں عشق مجازی، عشق حقیقی، ناز وغمزے، مسائل تصوف، مسائل روزگار، کش مکش حیات کی ترنگیں، عصری حسّیت کی لہریں، بدلتی اقدار اور تہذیبی تصادم کی عکسیں، قدیم و جدید دونوں رنگوں میں جلوہ گر ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے ۱۹۷۹ء میں سرگودھا سے ان کے تبادلہ پر منائی گئی ایک شام میں پڑھے مضمون میں لکھا تھا:
’’پچھلے دنوں مجھے ان کی بیاض دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں ان کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا لیکن میں چوں کہ جدیدیت کا والہ و شیدا ہوں اس لیے میں ان کی جدید رنگ کی غزلوں پر سر دُھنتا رہا۔ ابھی تک میں اُن کی غزلوں کے سحر سے باہر نہیں آسکا۔‘‘
بلّے صاحب کا اشہب قلم اتنا برق رفتار تھا کہ تصوف، تخلیق، تنقید، صحافت و کالم نگاری، تمثیل نگاری اور اسٹیج و آرٹ کے میدانوں کو سر کرتا چلا گیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد ان کی تصنیفات و تالیفات ہیں۔ روحانی بزرگوں پر مدون کتابیں اور مذہبی موضوعات و فنون لطیفہ پر مقالات انھیں تصوف پر اتھارٹی اور معتبر ادیب ثابت کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم‘‘ مستند تحقیقی علمی سرمایہ تسلیم کی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف ’’اسلام اور فنون لطیفہ‘‘ کو فکرانگیز اور اہم قرار دیا گیا ہے۔ انھوں نے متعدد مضامین میں اردو اور قائد اعظم محمد علی جناح کو جن تحقیقی شواہد کی بنیاد پر ملتانی قرار دیا ہے، اس کی ابھی تک نکیر نہیں کی جاسکی ہے۔موصوف گہری سیاسی بصیرت رکھتے تھے. جس کے گواہ ان کے قطعات ہی نہیں بل کہ وہ بے شمار تقریریں بھی ہیں جو انھوں نے پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم، صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے لئے لکھی تھیں۔ اسی پر بس نہیں رہا یہ اپنے متعلقین کو بھی صاحبِ تالیف و تصنیف بنانے میں بڑے فیاض تھے۔
صحافت سے یہ دورانِ تعلیم علی گڑھ میں ہی وابستہ ہوگئے تھے۔ پندرہ روزہ ’’دی یونین علی گڑھ‘‘ کے ایڈیٹر شپ سے آغاز کیا تو بانی ایڈیٹر ماہنامہ ’’جھلک ‘‘علی گڑھ، جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ ’’نوروز‘‘ کراچی، جوائنٹ ایڈیٹر ’’بہاولپور ریویو‘‘، ایڈیٹر ماہنامہ ’’لاہور افیرز‘‘، ایڈیٹر ہفت روزہ ’’استقلال‘‘ لاہور، ایڈیٹر ماہنامہ ’’ویسٹ پاکستان‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ’’فلاح ‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنا مہ ’’اوقاف‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’ہم وطن‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’یارانِ وطن‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ ’’مسلم لیگ نیوز‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’نوائے بلدیات لاہور‘‘ اور بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’ہمارا ملتان‘‘ رہے۔ جن شعبوں، اداروں اور محکموں سے وابستہ رہے۔ ان کے کتابچے، سوینیرز اور بروشرز ان پر مستزاد ہیں۔
انھوں نے پرفارمنگ آرٹس پر قابل توجہ اور اہم کام کیا ہے۔ انھیں تمثیل نگاری اور ڈرامے سے ایسی دل چسپی تھی کہ جب ملتان آرٹس کونسل کے سربراہ تھے تو انھوں نے 1982ء میں 25؍روزہ جشن تمثیل کا انعقاد کیا اور اس میں روزانہ نئی ٹیم، نئی اسکرپٹ اور نئے سیٹ پر مختلف قسم اور طرز کے ڈرامے پیش کئے۔ اس جشن کی بین الاقوامی طور پر شہرت ہوئی۔ اسے جس نے دیکھا اس کو تھیٹر کی دنیا کا عجوبہ قرار دیا۔ اس عظیم الشان کارنامے کے صلہ میں انھیں’محسنِ فن‘ اور ’مین آف دی اسٹیج‘ کا خطاب دیا گیا۔ درگاہ عالیہ حضرت غوث بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے سجادہ نشیں اور پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ’’سید فخر الدین بلّے نے ملتان میں ایسی بہت سی چیزوں کی بنیاد رکھی ،جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے علاوہ انھوں نے ۲۵؍روزہ جشنِ تمثیل کا دھماکہ کرکے اسٹیج کی دنیا کے لوگوں کو ہی نہیں بل کہ فنون و ثقافت کے دلدادگان کو بھی چونکا دیا۔ ان کی خدمات کو دنیا کے لوگ اوراہلِ ملتان فراموش نہیں کرسکتے۔‘‘
موصوف حد درجہ تعمیری ذہن کے حامل تھے۔ انھوں نے تخلیق کاروں، فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کی ایک تنظیم ’’قافلہ‘‘ کے نام سے بنائی تھی۔ جس کی نشستیں لاہور اور ملتان میں خود ان کی اقامت گاہ پر دس برس تک ہوتی رہیں. ان کی خواہش پر اب قافلے کے پڑاؤ بہاول پور میں تابش الوری کی رہائش گاہ پر ہوتے ہیں۔ انھوں نے یہ دیا بجھنے نہیں دیا۔ سرائیکی ویب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ، فن کاروں کی حوصلہ افزائی، مختلف شعبوں میں ’’جوہر قابل‘‘ کی دریافت اور پذیرائی کے لیے ’’پنجند اکادمی‘‘ بنائی۔ اس کے قیام پر جو کتابچہ شائع کیا ۔اس کی ایک ایک سطر میں بلّے صاحب کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ غیر معروف قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس کا نام اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ’’معین اکادمی‘‘ رکھا اور اس کے تحت متعدد ادیبوں کی کتابیں شائع کیں۔
لہٰذا بلّے صاحب کا شمار بلند و بالا علمی و ادبی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی شخصیت کے متعدد رخ تھے اور ہر رخ روشن اور اہم تھا۔ وہ ممتاز شاعر، قلم کار، صحافی، ماہر تصوف، ماہر اقبالیات، ماہر ارضیات اور بیوروکریٹ بھی تھے۔ انھوں نے علم، ادب، صحافت اور ثقافت کے میدانوں میں انمٹ نقوش ثبت کئے۔ جہاں رہے، جس مقام اور عہدہ پر رہے، لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ ایسی شخصیتیں زمانے میں خال خال پیدا ہوتی ہیں، جو اپنے کارناموں کی بدولت مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں۔ لہٰذا موصوف خود اپنے اس شعر کی مصداق ہیں:
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے با وجود
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے