کریم لگا بسکٹ اور چوینٹیاں: تاثرات

کریم لگا بسکٹ اور چوینٹیاں: تاثرات

کریم لگا بسکٹ اور….

افسانہ : کریم لگا بسکٹ اور چوینٹیاں 
مشتاق مومن
تاثرات : نثارا نجم
یہ ایک بیانیہ افسانہ ہے ۔
دھاراوی کا رہنے والا ایک جاں بلب کفیل  اپنی کفالت کا فرض ادا کرتے ہوئے اپناوجود فنا کر کے گھر والوں کے لیے حیات بخش موت کا سامان بن جاتا ہے۔
یہ ایک نیم جان مزدور کے وہ احساسات ہیں جس کی دم توڑتی ہوئی زیست کی انچ انچ قریب آتی ساعتوں میں اب بھی ہاری ہوئی زندگی حالات کے ڈرینکر اپراٹس پر سانسیں گن رہی ہے جو اپنی سانسوں کا قرض چکا کر زیست کا سامان اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔
کریم لگا بسکٹ زندگی کی بنیادی ضرورت کے لیے ایک استعارہ ہے۔
بسکٹ پر کریم بالائی ایک بہتر زندگی کا سامان اوپر اٹھنے کی کوشش ہے۔
چیونٹی جدوجہد اور کوشش مسلسل کی علامت، سماجی طور پر ایک جگہ گروہ بنا کرایک کالونی میں رہنے والی چیونٹیوں کے یہاں ایک سپر ہیومن طاقت ہے۔ یہ دس سے پچاس گنا زیادہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
انسان کے کام کے تقابلی جائزے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا کام ایسے ہے جیسے ایک جوان کا اپنے سر پر کار ڈھونے کے برابر ۔
کریم کی طر ف بڑھنے والی چیونٹیاں مادہ مزدور چیونٹیاں ہیں. کسی ایک کالونی، بستی کی یہ مزدور ہیں. ان کا کام ہے ملکہ چیونٹی اور اس کے لاروے کے لیے غذا جمع کرنا۔
یہ دھرابی چال کے مزدور ہیں جس کا نمائندہ راوی ہے۔ مادہ چیونٹی کے پر نہیں ہوتے۔ نر اور ملکہ چیونٹی کے پر ہوتے ہیں۔ مصنف نے جاں بلب شخص کا موازنہ ان مزدور چیونٹیوں سے کیا ہے جو بے پر والی ہیں۔ جو ببسکٹ میں لگے کریم تک پہنچنے کے لیے اڑ نہیں سکتے ۔
راوی نے بھی خود کو سمینٹ لگی اینٹ کی دیوار میں  چنا ہوا بتایا ہے۔
زندگی کے کریم تک پہنچنے کے لیے وسائل کی سیڑھیاں نہیں ہیں۔ دھرابی چال کی زندگی خود کو نئ معاشرت سے مطابقت رکھنے کے لیے، بقا کے اصولوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنی اہلیت اور قابلیت کو پروان چڑھانے سے رہ گئے۔ تام چینی پلیٹ میں پانی ایک بہتر زندگی تک پہنچنے کے راستے میں حائل دشواریاں ہیں جو دھارابی چال کی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
دو سوکھی ہوئی روٹیوں سے اوپر اٹھنے اور بہتر زندگی تک پہنچنے کے لیے فطری صلاحیت کی کمی ماحول سے عدمِ مطابقت، اہلیت کا فقدان شامل ہے۔
ایک جماعت کی بڑی قربانی کے بعد اپنے وجود کو ختم کر دینے کے بعد نئ نسلوں کے لیے ایک ایسا پل بن جاتا ہے جہاں مسلسل جدو جہد کے بعد زندگی اپنے کریم منزل کو پا لیتی ہے۔ وہ پل علم کا ہے، زندگی کو نئے ماحول کے تقاضے کے مطابق ڈھال لیںنے میں ہے. خود کو زمانے کے ساتھ بدل لینا ہے۔
دھارابی چال والی زندگی” سروائول آف دی فیٹیسٹ" کے قانون سے نابلد ہے۔
جلے ہوئے آدمی کا چیونٹیوں کے ساتھ پانی کا کھیل نٹشے کا سپر مین والا کھیل ہے۔
اذیت پسندی سے لذت لینا، دنیا ہٹلر کے گیس چیمبر کی شکل میں اس کا نمونہ دیکھ چکی ہے ۔
وہاں ایک فرد تھا یہاں ایک اجتماعی فکر ہے۔
ان ملکہ چیونٹیوں کے خلاف  ایک بھرپور زندگی میں بیلین billions انڈے دیتی ہیں۔ اوران بیلین انڈوں اور انکے لاروے کے لیے یہ مزدور چیونٹیاں غذا فراہم کرنے کے کام پر مامور ہیں۔
چیونٹی کے کان نہیں ہوتے۔ یہ اپنے پاؤں کے ارتعاش سے سنتی ہیں۔
دھرابی چال والی زندگی میں زمانے کی بدلتی آواز پر کان نہیں دھرتے۔
وینٹی لیٹر پر پڑی زندگی جس کی سانس Drinker اپپراٹس پرٹنگی ہیں۔ اصل زندگی سے کٹ کر ایک نئی زندگی کی سانس اختیار میں پڑی ہے۔ سانس بیج بن کر حالات کی نئی زمین میں اتر خود کو فنا کرکے تدریجی عمل سے گزرتے ہوئے زمین کی چھاتی چیر دوبارہ سایہ دار پھل دار درخت بننے کی قوت رکھتی ہیں ۔
معاش کی فراہمی کے لیے ذہنی اذیت جھیلنے والے فرد کا المیہ ہے جس میں اجتماعیت سانسیں لے رہی ہے۔ ایک irony جو افسانے میں ڈھل گیا ہے ۔
نثارانجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں : بجوکا (مع تجزیہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے