قطرۂ خوں ہے یا شرر کوئی

قطرۂ خوں ہے یا شرر کوئی

افضل الہ آبادی

قطرۂ خوں ہے یا شرر کوئی
مجھ میں اتری ہے دوپہر کوئی

اک نئی شکل روز دیتا ہے
میری مٹی کو چاک پر کوئی

لامکانی ہی لامکانی ہے
کوئی دیوار ہے نہ در کوئی

آئینہ بدحواس رہتا ہے
چھوڑ کر یوں گیا نظر کوئی

اک نئی جان پھونک کر مجھ میں
ہو گیا مجھ سے بے خبر کوئی

ہر کسی پر عیاں نہیں ہوتا
ہے بظاہر نظر نظر کوئی

ہوتی رہتیں ہیں لغزشیں مجھ سے
کرتا رہتا ہے درگذر کوئی

گر فراموش تو نہیں کرتا
آج ہوتا نہ دربدر کوئی

جس طرح میں بکھر گیا افضل
ایسے بکھرے نہ ٹوٹ کر کوئی

افضل الہ آبادی کی یہ غزل بھی پڑھیں :اب اس کے بارے میں کیا بتاؤں جو یاد ہے وہ بتا رہا ہوں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے