نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچپن میں ہی شہادت کی شہرت!

نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچپن میں ہی شہادت کی شہرت!

جاوید اختر بھارتی

نواسہ رسول حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی بھی شہرت عام ہوگئی تھی. حضرت علی، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہ کرام و اہل بیت کے جاں نثار رضی اللہ تعالیٰ عنہم؛ سبھی لوگ آپ کے زمانہ شیر خوارگی ہی میں جان گیے کہ یہ فرزند ارجمند ظلم و ستم کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا اور ان کا خون نہایت ہی بے دردی کے ساتھ سرزمین کربلا میں بہایا جائے گا-
حضرت ام الفضل بنت حارث یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کی گود میں دیا، پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے عرض کیا، یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے اور کیوں ہے؟ فرمایا میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے یہ خبر پہنچائی کہ میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی. حضرت ام الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا اس فرزند کو شہید کردے گی؟ حضور نے فرمایا ہاں، پھر جبریل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹی بھی لائے- اور ابن سعد و طبرانی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل نے مجھے خبر دی ان ابنی الحسین یقتل بعدی بارض الطف – میرا بیٹا حسین میرے بعد ارض طف میں قتل کیا جائے گا اور جبریل میرے پاس وہاں کی یہ مٹی لائے اور مجھ سے کہا کہ یہ حسین کی خواب گاہ (مقتل) کی مٹی ہے. طف، قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں-
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی، اجازت ملنے پر وہ فرشتہ جب بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور نبی کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ امام حسین کو چومنے اور پیار کرنے لگے، فرشتہ نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں؟ حضور نے فرمایا ہاں، فرشتے نے کہا کہ آپ کی امت حسین کو قتل کردے گی. اگر آپ چاہیں تو میں ان کے قتل گاہ کی مٹی آپ کو دکھا دوں، پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا اور ایک روایت میں ہے کہ نبی پاک نے فرمایا کہ اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کردیا گیا، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو شیشی میں بند کرلیا جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دن خون ہوگئی. اور ابن سعد حضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گذر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اس زمین کا نام دریافت کیا، لوگوں نے کہا کہ اس زمین کا نام کربلا ہے، کربلا کا نام سنتے ہی آپ زار و قطار رونے لگے پھر فرماتے ہیں کہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک روز حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ رورہے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کیوں رورہے ہیں؟ فرمایا ابھی میرے پاس جبریل آئے تھے اور انھوں نے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ پر شہید کیا جائے گا جس جگہ کو کربلا کہا جاتا ہے. اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قافلہ گذر رہا ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ شہیدوں کے اونٹ بیٹھانے کی جگہ ہے اور اس مقام پر ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہائے جائیں گے، آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے جوان اس میدان میں شہید کئے جائیں گے اور زمین و آسمان روئیں گے. ان تمام روایات سے یہ واضح طور پر معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہید ہونے کی بار بار اطلاع دی گئی اور نبی نے بھی اس کا بار بار ذکر فرمایا اور یہ شہادت عہد طفلی میں ہی خوب مشہور ہو چکی تھی اور سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کے شہید ہونے کی جگہ کربلا ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کو معلوم تھا کہ میرا نواسہ شہید کردیا جائے گا تو اللہ سے دعا کیوں نہیں کی کہ اے اللہ میرے نواسے کو بچالے، حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بھی بیٹے کی شہادت کی خبر پہلے سے ہی معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں رد نہیں ہوں گی پھر ان لوگوں نے نبی سے دعا کرنے کے لیے کیوں نہیں کہا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ دین کو بچانے کے لیے صبر و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے اور دین کو پھیلانے کے لیے کرامت کی ضرورت ہوتی ہے اور نانا کے دین کو بچانے کے لیے نواسے نے اپنا گھرانہ قربان کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ آگے چل کر میرے دین کو جھٹلانے کی کوشش کی جائے گی ، قرآن مجید کی بے حرمتی کی جائے گی، دین اسلام کے اصول و ضابطوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اس وقت میرے نواسے سے کہا جائے گا کہ تم بھی بیعت کرو اور اگر میرا نواسہ بیعت کرلے گا تو دین اسلام کی شبیہ بگڑ جائے گی پھر آنے والی نسلیں کہیں گی، جب نبی کی شریعت کو بدلا جارہا تھا تو خود نبی کے نواسے نے مخالفت نہیں کی، گویا ظالموں کے لیے وہ سند بن جائے گی اور پھر دین اسلام کی تصویر بگڑتی چلی جائے گی، اس لیے نبی نے آنکھوں سے آنسو بہایا لیکن دعا کے لیے ہاتھ نہیں اٹھایا اور آج ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ظلم و بربریت، جاہلیت و دہشت گردی کے خلاف سب سے پہلے اور سب سے بڑی جنگ نانا محمد الرسول اللہ اور نواسہ امام حسین نے لڑی ہے – (مشکوٰۃ/ خصائص کبریٰ/ صواعق محرقہ)***
جاوید اختر بھارتی (محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی)
رابطہ:8299579972

صاحب تحریر کی پچھلی نگارش : حضرت عمر فاروق اعظم عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے