واقعہ کربلا : دین کی بقا اور اسلام کی سربلندی

واقعہ کربلا : دین کی بقا اور اسلام کی سربلندی

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
موبائل: 09279996221

محرم: اسلامی تقویم (Calendar) کا پہلا مہینہ ہے.
اس سے سنہ ہجری کا نقطۂ آغازہے۔ اسلامی سال نو کا وہ مقدس اور متبرک مہینہ ہے جسے رب کریم نے حرمت، عظمت اور امن کا ’’شہر حرام‘‘ قرار دیا ہے. ان عدۃ الشہور۔۔۔۔۔(القرآن:سورہ توبہ۔ آیت 36) ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا۔ ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہ سیدھا دین ہے. تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔ یہ ان چار اسلامی مہینوں میں سے ایک ہے جنھیں خداوند قدوس نے’’ اشہر حرم‘‘ قرار دیا ہے. امن کا مہینہ قرار دے کر اس کے تقدس، احترام پر مہر تصدیق ثبت فرمائی۔
ماہ محرم الحرام، اسلامی سنہ ہجری کی شروعات:
اسلامی تاریخ سنہ ہجری کے آغاز کے حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں، تاہم مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنہ ہجری کا باقاعدہ ایجاد و نفاذ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں 20 جمادی الثانی بروز جمعرات ۱۷ہجری کو عمل میں آیا. سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے اسلامی کلینڈر کا شمار واقعہ ہجرت مدینہ کی بنیاد قرار پایا. جب کہ خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے محرم الحرام کو نئے اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا (رحمۃ للعٰلمین۔جلد2، صفحہ392: قاضی محمد سلیمان منصور پوری )۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی کلینڈر کی شروعات واقعہ ہجرت نبوی سے ہے۔ جو رحمۃ للعٰلمین اور آخرالانبیاء علیہم السلام اور صحابۂ کرام کی زندگیوں میں مشرکین مکہ کے ظلم و جبر کی انتہا ہوئی اور پھر پہلے مظلوم مسلمانوں اور آخر کار سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کو بھی ہجرت کا حکم ملا، ہجرت کا حکم پاتے ہی سرکار دوجہاں ﷺ اپنے ہم دم و جاں نثار، یار غار و مزار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کا شانے پر پہنچے اور انھیں بھی ہجرت کے حکم سے آگاہ فرمایا. چناں چہ ایک سنہ ہجری مطابق 622 ؁ء کو ایک اونٹنی پر پیغمبر اعظم اور دوسری پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سوار ہو کرسفر ہجرت پر روانہ ہو گئے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ’’ہجرت نبوی‘‘ انقلابی تحریک کا مقدر بن گئی. یہ بھی ایک تاریخی سچائی ہے کہ اسلامی سال کا آغاز ’’محرم الحرام‘‘ سے ہوتاہے جو اپنے دامن میں غم و حزن اور رنج و الم کی داستان سموئے ہوئے ہے. چناں چہ یکم محرم الحرام کو امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم کا یوم شہادت بھی ہے جب کہ عاشورۂ محرم جگر گوشہ حضرت علی و بتول سیدنا حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما و بہتر نفوس قدسیہ شہدائے کر بلا کی شہادت عظمیٰ کی داستان رنج وا لم و ظلم و ستم لیے ہوئے ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے. یہ جرأت و شجاعت، تسلیم و رضا اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہونے کا وہ پیغام ہے جس کی اہمیت کبھی کم نہ ہوگی۔
سانحۂ کربلا حق و باطل کا تاریخ ساز معرکہ:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ و شہدائے کربلا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اسلام کی بقا اور دین کی سر بلندی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا بے مثال درس دیا.
حضور خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہٰ است حسین
ایک وقت ایسا آیا کہ یزید جیسا شخص نواسۂ رسول امام حسین سے اپنی حکومت کی تائید کے لیے بیعت مانگ رہاتھا، آپ کی تربیت رسول اکر م ﷺ نے فرمائی تھی، حضرت امام حسین نے ایسے مشکل حالات میں وقت کی نزاکت اور اسلام کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کی ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا : میں نے نہ بغاوت کی نیت سے خروج کیا ہے اور نہ فساد کے لیے اور نہ ہی ظلم کے لیے بل کہ میرا تو ایک ہی مقصد ہے، وہ یہ کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کروں اور امت محمدی کی اصلاح کروں. حضرت محمد ﷺ کی سنت اور سیرت کو زندہ کروں. آپ نے میدان عمل میں کتاب اللہ پر عمل کرتے ہوئے عدل و انصاف و حق کی قدر و قیمت بتائی اور کر بلا کے مختلف مراحل میں خدا کے حضور بے انتہا خشوع و خضوع کا مظاہرہ فرماکر بتا دیا کہ کیسے ذات خدا کے لیے اپنے وجود کو وقف کیا جاتا ہے اورشہادت کا جام نوش کیا جاتا ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل:
آپ کے فضائل میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں، بہت سی حدیثیں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی حدیث کے ذخائر میں موجود ہیں. آپ انتہائی شریف، کم گو اور کثرت سے نماز، حج، صدقہ اور دیگر امور خیر ادا فرماتے. آپ رضی اللہ عنہ نے پیدل چل کر پچیس حج ادا کیے. (برکات آل رسول ،ص145) ترمذی شریف کی حدیث ہے، حضرت یعلٰی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی حضور پر نور ﷺ نے فرمایا ’’حسین منی و انامن الحسین‘‘ حسین مجھ سے ہیں میں حسین سے ہوں. حسین رضی اللہ عنہ کو حضور سے اور حضور کو حسین سے انتہائی قرب ہے. گویا کہ دونوں ایک ہیں تو حسین کا ذکر حضور کا ذکر ہے حسین سے دوستی حضور سے دوستی ہے حسین سے دشمنی حضور سے دشمنی ہے اور حسین سے لڑائی کرنا حضور سے لڑائی کرناہے ﷺ و رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ آقا ﷺ فرماتے ہیں. احب اللہ من احب حسینا۔ جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔ (مشکوٰۃ شریف ، ص571)۔
نبی اکرم ﷺنے فرمایا حسن و حسین رضی اللہ عنھما جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ( مشکوٰۃ شریف ،ص570 )۔
شہیدوں کی فضیلت قرآن مجید میں اور احادیث مبارکہ میں وارد ہیں. انھی فضیلتوں میں یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت شہیدوں کو ایسی لذت عطا فرماتا ہے جو اور کسی نعمت میں نہیں ہے. دنیا کی بے شمار نعمتوں سے انسان لذت حاصل کر تا ہے، کسی نعمت کو کھاتا ہے کسی کو پیتا ہے کسی کو دیکھتا ہے. کسی کو سونگھتا ہے۔ غرض کہ بے شمار نعمتوں سے انسان ذائقہ لیتا ہے لیکن شہید کو شہادت سے جو لذت ملتی ہے اس کے سامنے دنیا کی لذتیں ہیچ ہیں. آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی جنت اور وہاں کی نعمتوں کو چھوڑ کر آنا پسند نہ کرے گا کہ جو چیزیں زمین میں حاصل تھیں پھر مل جائیں۔ مگر شہید تمنا کرے گا کہ دنیا میں لوٹے اور ۱۰ مرتبہ قتال کیا جائے. (بخاری و مسلم ۔ مشکوٰۃ ص330)
یوم عاشورہ و شہادت امام حسین اور ہماری ذمہ داریاں:
ماہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ نہایت برکت والا ہے۔ ۱۰ محرم الحرام جس کو اسلامی تاریخ میں ’’یوم عاشورہ ‘‘ کہتے ہیں، تاریخ اسلام میں اس کو ایک اہم مقام حا صل ہے۔ یوم عاشورہ کو یوم زینت بھی کہا جاتا ہے، اس دن کا یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن ۱۰ انبیائے کرام علیہم السلام کو دس عظمتوں سے نوازا تھا (غنیہ الطالبین ، جلد2 ، ص 55 ).
یوم عاشورہ کا روزہ بہت فضیلت رکھتا ہے. یوم عاشورہ کا روزہ اسلام سے قبل اہل مکہ اور یہودی لوگ بھی رکھا کرتے تھے۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: قریش زمانہ جاہلیت میں اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے. پھر جب حضور ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو رمضان کے روزے فرض ہوئے. تب یوم عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا. جس کا جی چاہے وہ یوم عاشورہ کا روزہ رہے اور جس کا جی چاہے وہ نہ رہے (ابو داود ،کتاب الصیام ، باب فی یوم عاشورہ ،غنیہ الطالبین ، جلد 2،ص56 )۔
سلطان الاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام و المسلمین قطب الاقطاب حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے عاشورہ کے روزے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا :
کہ عاشورہ کے روزے میں جنگل کی ہرنیاں بھی خاندان رسول ﷺ کی دوستی کے سبب اپنے بچوں کو دودھ نہیں دیتی پس کیوں ایسے ر وزے کو چھوڑا جائے (راحت القلوب ص 58، شام کر بلا ص 288 ۔287 )
بعض علما و صوفیا نے لکھا ہے کہ اس دن وحشی جانور بھی روزہ رکھتے ہیں۔
نواسہ رسول سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اسلام کی خاطر میدان کربلا میں دس محرم الحرام یوم عاشورہ کو شہید ہوئے واقعہ کربلا کی وجہ سے عاشورہ بہت مشہور و معروف ہوگیا. دور حاضر میں یوم عاشورہ اور حضرت امام حسین کی شہادت کے تعلق سے ہمارا کردار یقینا قابل افسوس اور حیرت ناک ہے۔ جو قوم خیر امت بن کر آئی اور انسانوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا راستہ دکھانے آئی وہی قوم عاشورہ کے دن ہر معروف و خیر کو چھوڑ کر منکرات اور خرافات جس کا نہ ہی اسلام سے ناطہ ہے اور نہ ہی شہادت امام حسین کی محبت سے لگاؤ ہے انجام دیتی ہے۔ ذرا غور کریں محرم الحرام و یوم عاشورہ میں جو کچھ کر رہے ہیں کیا وہ ہمارا اسلامی کردار ہے ؟

جوان بیٹے کے خون سے جو کر بلا لکھے
کتابٍ عشق میں اس کو حسین کہتے ہیں

حضرت امام حسین کے روضۂ اقدس کا فرضی نقشہ بنانا، تعزیہ بنانا، امام حسین کا دلدل (زخمی گھوڑا) بنانا، گلیوں میں گھمانا، باگھ، شیر بنانا، اور ماتم پر بغرض ثواب جانا یا صرف تماشا دیکھنے جانا حرام ہے. کیوں کہ جو کام ناجائز ہے اسے تماشے کے طور پر دیکھنے جانا بھی گناہ ہے. (فتاویٰ رضویہ،ج24,ص: 499) عشرۂ محرم میں کالے کپڑے پہن کر سوگ منانا طرح طرح کی غیر شرعی رسموں کو ماننا، افسوس صد افسوس! آج ملت اسلامیہ محرم الحرام اور یوم عاشورہ کی فضیلتوں، برکتوں، عاشورہ کے دن کی عبادتوں کو پس پشت ڈال چکی ہے. اللہ کے رسول نے فرمایا :جو عاشورہ کے دن چار رکعتیں پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے پچاس برس کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کے لیے نور کا ممبر بناتا ہے۔ اور فرمایا: جو عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت کرے اللہ تعالیٰ اس پر سارا سال و سعت ( برکت) فرماتا ہے( نزھۃ المجالس ، جلد اول ، ص 178۔177، بہیقی، مشکوٰۃ ص170، غنیہ الطالبین ۔جلد2، ص54)
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل ایسے ہی پایا ۔
اس دن کا روزہ چھوڑ کر شب عاشورہ کی عبادت چھوڑکر واہیات رسمیں کرتے ہیں، جن کا تعلق نہ ہی محرم الحرام سے ہے نہ ہی یوم عاشورہ سے نہ ہی شہادت امام حسین سے ہے. حضرت امام حسین کی محبت کا تقاضہ سینہ کو بی اور گریہ وزاری و مرثیہ خوانی نہیں. حضور ﷺ نے مرثیوں سے منع فرمایا: اور مرثیہ سننا یاپڑھنا گناہ و حرام ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ، جلد 9 ص 88، ابن ماجہ ، جلد1۔ص115، باب ماجاء فی البکاء علی المیت )
شہادت امام حسین ہم سب کو یہ درس دیتی ہے کہ حوصلہ اور عزم کو اپنے اندر پیدا کریں جو حق کی حفاظت کے لیے ضروری ہے. اسلام کی سر بلندی کے لیے آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور بتادیا کہ فاسق و فاجر کو پیشوا نہیں مانا جا سکتا. یزید جوا کھیلتا تھا، شراب پیتا تھا، وہ گھمنڈی اور ڈکٹیٹر تھا، آپ نے فرمایا وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا ۔ مسلمانوں کا پیشوا اورخلیفہ وہی ہو گا جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ صالح اور پرہیز گار ہو، اعلان خداوندی ہے اِنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْن (القرآن، سورۃ الانبیاء، آیت105) ترجمہ: بے شک زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ۔
جس طرح ہم کسی نبی کی توہین برداشت نہیں کر سکتے ہیں اسی طرح اہل بیت اطہار، صحابۂ کرام اور دیگر شخصیات اسلام کی توہین برداشت نہیں کرسکتے ہیں. بلا شبہ اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کے اہل بیت اہل خاندان، ازواج مطہرات اور آپ کی تمام اولاد سے محبت کی جائے. حددرجہ ان کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ کیا جائے، کوئی ایساعمل، کوئی ایسی حرکت یا کوئی ایسا فعل صادرنہ ہو جو رسول اکر م ﷺ کی اولاد یا اہل بیت کی شان میں گستاخی اور بے ادبی مانی جاتی ہو. ایک موقع پر آپ ﷺ نے اہل بیت کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سے مشابہت دیتے ہوئے ان کی محبت اور عظمت کو ذریعۂ نجات قرار دیا ہے (مشکوٰۃ ،ص273)
شہدائے کربلا کو خراج تحسین:
عاشورہ کے دن ہمارا اسلامی کر دار اس طرح ہونا چاہئے :
نویں، دسویں محرم کو روزہ کا اہتمام کر نا چاہیے حضرت امام حسین اور دیگر شہیدان کربلا کے ایصال ثواب کے لیے رشتہ داروں، دوستوں کو اکٹھا کر کے قرآن خوانی کا اہتمام کریں، نذر و نیاز اور فاتحہ کے بعد شربت، مالیدہ، کھچڑا، یا جو میسر ہو لوگوں میں تقسیم کریں، شہدائے کربلا یا کسی کے ایصال ثواب کے لیے حلال اور جائز کھانے پر فاتحہ ہوسکتی ہے۔صدقہ و خیرات کا خوب اہتمام کریں. کھانے پینے کی چیز لٹانا، بھیڑ میں پھینکنا اس طرح کے زمین پر گرے اور قدموں تلے روندا جائے. یہ رزق کی بے حرمتی اور بے ادبی ہے اور یہ ناجائز و حرام ہے۔ تعزیہ داری میں باجا گاجا کا اہتمام کرنا یہ حسینی کردار نہیں ہے۔ ذکر امام حسین کی محفلیں قائم کریں کہ صالحین کے ذکر کے وقت رحمت الٰہی کا نزول ہوتاہے، باعث برکت ہے لیکن اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ فرضی قصے کہانیاں، جھوٹی کرامات، و حکایات فاسدہ نہ ہوں۔ اس سلسلے میں خطاب کے لیے ے ذمہ دار علما کا انتخاب کریں۔ سچے عاشقان امام حسین وہ ہیں جو پنج وقتہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ نیز دیگر اعمال صالحہ کرتے ہوں، شراب، زنا، سود، جھوٹ، غیبت سے دور رہتے ہوں، نفرت کرتے ہوں، ان کاموں کا ارتکاب کرنے والے ہرگز ہرگز عاشقان امام حسین نہیں ہوسکتے. صرف الفاظ کے ذریعے محبت کا اظہار کرنے سے محبت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ رب العزت ارشاد فرماتاہے۔ ترجمہ: اللہ نے وعدہ کیا ہے ان سے جو ان میں ایمان والے اچھے کام والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا۔ (القرآن۔سورہ، فتح۔ آیت 29) ایمان و محبت کا دعویٰ عمل کے بغیر صحیح نہیں. حضرت امام حسین کے عمل کو دیکھیں اور عبرت حاصل کریں. دعا ہے کہ ہم سب کو اللہ رب العزت عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق رفیق بخشے اور اللہ کے محبوب بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی قوت عطا فرمائے، قیامت کے دن نبیین، صدیقین، شہدا اور صالحین کے دامن کرم میں ہم سب کا حشر فرمائے اور حسینی کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020,
hhmhashim786@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: ہندستان کی جنگ آزادی میں علما و اسلامی مدارس کا کردار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے