بابائے اردو مولوی عبدالحق : حیات و خدمات

بابائے اردو مولوی عبدالحق : حیات و خدمات

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور 244901 یو.پی،انڈیا
موبائل نمبر:9719316703
واٹس ایپ:9520576079
ہندوستان کا سب سے مردم خیز علاقہ،صوبۂ اترپردیش!
جس میں قائم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اسلامی علوم کا مرکز دارالعلوم دیوبند، محبت کی حسین ترین یادگار آگرہ کا تاج محل، عالمی شہرت یافتہ ندوۃ العلماء لکھنؤ، قلعہ معلی رام پور کی نہایت دیدہ زیب عمارت حامد منزل میں قائم دنیا کی عظیم الشان رضا لائبریری، بنارس کی من موہنی پاکیزہ صبح، اودھ کی سنہری اور دل کش شام لائق دید ہیں۔ جہاں علامہ شبلی نعمانی، رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر، شاعر خمریات اصغر گونڈوی، مجاہد آزادی حسرت موہانی، ترقی پسند تحریک کے اہم شاعرکیفی اعظمی، شہنشاہ تغزل جگر مرادآبادی، ماہر غالبیات مولانا امتیاز علی خاں عرشی، حسرت ویاس کے شاعر فانی بدایونی، رئیس امروہوی، اردو افسانہ کے شہنشاہ منشی پریم چند، ماہر لسانیات شیخ غلام ہمدانی مصحفی، خواجہ حیدر علی آتش، فراق گورکھ پوری، تدوین متن کے ماہر اور ماہر لسانیات رشید حسن خاں، جوش ملیح آبادی، اکبر الہ آبادی، مرزا رجب علی بیگ سرور، نظیر اکبر آبادی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، علامہ نیاز فتح پوری، مرزا محمد ہادی رسوا، مولانا اسماعیل میرٹھی، میر ببر علی انیس اور شمس الرحمان فاروقی جیسے ہزاروں مشاہیر علم و ادب پیدا ہوئے۔ اسی اترپردیش کے مشہور ضلع میرٹھ کے قصبہ ہاپڑ میں ٢٠/مارچ ١٨٧٠ ء کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ولادت ہوئی۔
دنیا جانتی ہے کہ ایک زمانہ بیت گیا ہے لیکن ہاپڑ کے پاپڑ کی شہرت میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس ضمن میں عوام و خواص کی پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ ’ہاپڑ کے پاپڑ‘ ایک محاورہ بن کر رہ گئے ہیں لیکن ہاپڑ جیسے چھوٹے سے قصبے کو جو شہرت دوام اور عزت لازوال بابائے اردو مولوی عبدالحق کی وجہ سے حاصل ہوئی وہ ایک ایسا لاثانی اور لافانی اعزاز ہے کہ جب تک پروردگار عالم چاہے گا اردو زبان زندہ رہے گی اور اردو کے ساتھ بابائے اردو اور ہاپڑ کا نام بھی زندہ و تابندہ رہے گا اور یہاں کے رہنے والے بجا طور پر اس بات پر نازاں و فرحاں رہیں گے کہ اردو کا وہ عظیم محسن اس سر زمین اور اس وطن میں پیدا ہوا تھا جس نے گیسوئے اردو کو سنوارنے اور سجانے اور اسے اعلیٰ مقام دلانے کی خاطر اپنی ساری زندگی قربان کر دی۔ اس سراپا ایثار ہستی کا نام آتا ہے تو ہر اردو داں شخص کا دل اس انسان کے احترام میں سراپا سپاس نظر آتا ہے۔
بابائے اردو کی ابتدائی زندگی کے حالات بہت کم منظر عام پر آئے ہیں اور ان کی حیات کا یہ دور قدرے تاریکی میں ہے، تاہم ان کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ مراحل اپنے قصبے ہاپڑ اور پھر صوبۂ پنجاب میں طے کیے اور اس ضمن میں پنجاب کے جن شہروں کا حوالہ ملتا ہے ان میں فیروز پور، گوجرانوالہ اور گجرات کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہاں سے تعلیم کی فراغت کے بعد عبدالحق ١٨٨٨ء میں علی گڑھ آگئے جہاں سے انہوں نے بی.اے کی ڈگری حاصل کی۔زمانۂ طالب علمی میں ہی ان کو سرسید جیسے مصلح قوم اور حالی و محسن الملک جیسے عالم و فاضل اور قوم وملت کے ہم درد صاحبان علم و بصیرت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ ان کی شخصیت پر ان مشفق اور بے غرض و بے لوث لوگوں کی شخصیت کے جو اثرات مرتب ہونے تھے وہ ہوئے. یعنی مولوی عبدالحق کو بھی تصنیف وتالیف کے کاموں میں نہایت لگن اور شوق پیدا ہوگیا۔
اردو نثر نگاری کی تاریخ میں اس کی سلاست، سادگی، روانی، دل کشی، رعنائی اور اس کے اسلوب کا جب بھی ذکر آئے گا تو میر امن کی باغ و بہار، مرزا غالب کے خطوط، سرسید احمد خاں کے مضامین، مولانا حالی کا اسلوب نگارش، عبدالماجد دریا بادی کی تحریر کی دل کشی، مولانا ابوالکلام آزاد کی نثرکی رعنائی اور شبلی نعمانی کی عالمانہ تحریر ضرور ذہن میں ابھر کر آئے گی اور ساتھ ہی مولوی عبدالحق کی خدمات بھی سامنے آئیں گی۔
دنیا کا قاعدہ ہے کہ عام طور سے ایک نوع کی کسی چیز کا ایک ہی نام رکھا جاتا ہے لیکن دنیا میں صرف ایک چیز یا زبان ایسی ہے جس کے دو نام ہیں۔ ایک کا نام ہے اردو اور دوسری کا نام ہے بابائے اردو۔ ایک روح ہے اور دوسرا جسم، ایک لازم ہے اوردوسرا ملزوم، ایک پھول ہے اور دوسرا اس کی پتیوں میں سمائی ہوئی خوش بو، ایک ہیرا ہے تو دوسرا اس کی چمک اور ایک پانی ہے تو دوسرا اس کی روانی۔ جس طرح پھول سے اس کی خوش بو اور دوسری چیزوں سے ان کی فطرت اور صفات کو الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ اردوکا نام آئے اور بابائے اردو کا نام نہ آئے، بابائے اردو کا تذکرہ ہو اور اردو کو فراموش کر دیا جائے۔
عملی زندگی کے لحاظ سے مولوی عبدالحق کی ملازمت کا سلسلہ حیدرآباد سے شروع ہوا جہاں وہ بحیثیت ایک مدرس مقرر ہوئے۔ اس کے بعد انسپکٹر مدارس کے عہدہ پر ان کی ترقی ہو گئی۔ البتہ اسی زمانہ میں ان کی وابستگی انجمن ترقی اردو سے بھی ہو گئی اور وہ انجمن کے سکریٹری مقرر ہوئے اور دن و رات کی بے پایاں لگن، محنت اور کوششوں سے انھوں نے انجمن ترقی اردو کو ترقی کی انتہائی اور قابل رشک بلندیوں تک پہنچا دیا۔ عبد الحق کچھ عرصہ اورنگ آباد کالج میں پرنسپل کے عہدے پر بھی فائز رہے لیکن دراصل قدرت کی طرف سے ان کی منزل کچھ اور مقرر تھی۔لہٰذا وہ عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر مقرر کیے گئے۔ جہاں انھوں نے اردو کی ترویج و ترقی کے لیے اپنی اعلا خدمات پیش کیں۔ عام طور سے ملازمت سے سبک دوشی کے بعد لوگ سکون اور آرام کی زندگی گزارنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کی یہ خواہش اور آرزو پوری بھی ہو جاتی ہے لیکن عبدالحق نے اپنے ذہن و دل میں اردو کی توسیع و اشاعت اور ترویج وترقی کے لیے بہت کچھ کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔
اس طرح سبک دوشی کے بعد وہ دہلی آ گئے، جہاں انھوں نے بڑے پیمانے پر اردو کتابوں کی اشاعت کا کام شروع کیا اور اہم واعلا کتابوں کی شکل میں ایک بڑا خاص سرمایہ انجمن ترقی اردو کے کتب خانہ کے لیے جمع کر دیا. لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ آج کی طرح اُس وقت بھی مسلمانوں اور اردو دشمنوں کی کمی نہیں تھی۔ اس لیے ان منافق اور فرقہ پرست لوگوں نے موقع ملتے ہی ١٩٤٧ء کے فسادات کی آڑ میں بابائے اردو اور ان کے رفقائے کار کی برسوں کی محنت شاقہ اور بے لوث خدمات کو برباد کر دیا اور انجمن ترقی اردو کے ذخیرہ کتب کے بیش تر حصہ کو نیست ونابود اور برباد کر ڈالا……خدا لعنت کند ایں دشمنان خاک طینت را……!
بابائے اردو ایک باہمت انسان تھے۔ ان کا عزم و حوصلہ کوہ گراں کی مانند مضبوط اور بلند تھا۔ بہ حکم ربی دنیا کی کوئی بھی باطل طاقت ان کے پائے ثبات اور ہمت و استقلال کو متزلزل اور مجروح نہیں کر سکتی تھی۔ چڑھتی ندی کے تیز دھارے کو روکنا کبھی ممکن نہیں ہوتا البتہ صرف اس کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔ بابائے اردو کے دل میں بھی اردو کی محبت اور اس کی خدمت کا جذبہ چڑھتی ندی یا ابلتے چشمے کے مانند موج زن تھا۔ چوں کہ اب حالات ناگفتہ بہ اور مسدود ہو چکے تھے اوراس پر وسائل بھی محدود تھے۔ اس لیے اب وہ یہاں رہ کر اسی جوش وجذبہ کے ساتھ انجمن ترقی اردو کی خدمت نہیں کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک نئے عزم بالجزم کے ساتھ پاکستان چلے گئے اور وہاں انجمن ترقی اردو کا کام نئے سرے سے شروع کیا۔
انھوں نے کراچی میں اردو کا ایک کالج قائم کیا اور جی جان سے اردو کی خدمت کے کاموں میں لگ گئے لیکن یہاں بھی ان کے مخالفین کی کمی نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آدمی جتنے زیادہ کام کرتا ہے یا جس قدر مقبول ہوتا جاتا ہے اس کے مخالفین اور دشمنوں اور اس کے کاموں میں روڑے اٹکانے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ عبد الحق کسی ایک شخص یا کسی فرد واحد کا نام نہیں تھا. کیوں کہ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔ ایک جیتی جاگتی تحریک کی مانند تھے. اس لیے باد مخالف کے ہزار جھونکوں کے باوجود وہ اپنے کام میں منہمک رہے اور دنیا جانتی ہے کہ ایک روز انھوں نے اپنا لوہا منوا کر ہی دم لیا۔
اردو کے تئیں بابائے اردو کی محبت، خلوص، جوش و جذبے اور لگن نے انھیں ایک بلند مقام پر لا کھڑا کیا تھا۔بابائے اردو اس انتہائے کمال کی ایسی جیتی جاگتی تصویر اور ایسا واضح نمونہ تھے کہ اگر کسی کو اپنے نصب العین اور اپنے کاز سے دلی لگاؤ اور کسی پاکیزہ مقصد کو حاصل کرنے کی واقعی لگن ہو تو اس کو پروردگار عالم کی تائید اور اور کام یابی کی ضمانت ضرور مل جاتی ہے۔ لہٰذا یہ سچ ہے کہ ایک شوق سفر راستے کی ہزار دشواریوں، پریشانیوں اور صعوبتوں پر غالب آجاتا ہے اور محض ایک ذوق طلب ہر اس سعی کو کام یاب بنا دیتا ہے، جو محکم یقین اور مسلسل عمل کے جذبے کے تحت کیا جاتا ہے۔
بابائے اردو نے کم وبیش ستر سال تک اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے جد و جہد کی اور اس کام کو انھوں نے ایک مقدس فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ اردو کو ایک قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے اور اس کے لیے انھوں نے ایک ادیب، ایک مجاہد، ایک فلسفی، ایک محقق، ایک صحافی اور ایک رہ نما کی طرز پر مختلف اور گوناگوں کارنامے انجام دیے۔ یہ شاید ان کی اور ان کے پرستاروں کی ہی کوششوں اور بے انتہا سعی کا نتیجہ ہے کہ آج اردو بین الاقوامی زبانوں میں شمار کی جاتی ہے اور دسیوں ایسے ممالک ہیں جن میں اردو لکھی، پڑھی اور بولی و سمجھی جاتی ہے۔
خود بابائے اردو کے بارے میں ہند و پاک میں اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بر صغیر کے ممتاز اہل قلم نے اب تک ہزاروں مقالات ومضامین لکھ کر اس عظیم انسان کے شاندار کارناموں کو اجاگر کیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو ادب میں سب سے زیادہ مرزا غالب اور علامہ اقبال کے بارے میں لکھا گیا ہے اور ان دونوں عظیم المرتبت اور مسلم الثبوت شاعروں کے بعد جن چند لوگوں پر سب سے زیادہ تحریری کام ہوا ان میں میر تقی میر، میر انیس، نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری کے ساتھ بابائے اردو مولوی عبد الحق کا نام نامی اسم گرامی بھی شامل ہے۔
اردو زبان و ادب کی خدمت کا بیڑا جس طرح انھوں نے اٹھایا اور جوانی سے ضعیفی تک اس کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے حیدرآباد سے دہلی اور دہلی سے کراچی، راولپنڈی اور مختلف شہروں تک پھرتے رہے، یہ اور کسی شخص کے بس اور بساط کی بات نہیں تھی۔ جس طرح اس کائنات کی وسعت کا راز اس کے مستقل ارتقا میں مضمر اور پوشیدہ ہے اسی طرح وہ بھی اس پر گام زن رہے اور اپنے کام کو وسعت دیتے اور لوگوں کو اس کی طرف راغب اور ملتفت کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمانہ کی ترقی کبھی نہیں رکے گی کیوں کہ اس کا قدم ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ کے اس مبارک قول کو بھی اپنی زندگی میں اتار لینا چاہتے تھے اور اس کا ایک نمونہ پیش کرنے کی سعی کرتے تھے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص انتہائی نادان، بے وقوف اور بد نصیب ہے جس کے دو دن دنیا میں یکساں گزر جائیں. یعنی آج ہمارے پاس جو علم ہے آنے والے کل میں ہر حالت میں اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔
اردو دنیا اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ مولوی عبدالحق اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے۔اردو کے کاز اور اس کی خدمت کے لیے ان کے جیسا نڈر، جری، بہادر، بے باک اور انتھک کام کرنے والے دوسرے کسی شخص کا نام شاذ و نادر ہی لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے عمر بھر تجرد اور ذاتی طور پر تنہائی میں زندگی بسر کی۔ اردو زبان کی ترقی کو ہی انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ اردو ان کی جان اور آبرو تھی۔ ان کے سینے میں دل اردو کی محبت لیے ہوئے دھڑکتا تھا۔اردو کے مسئلے اور اس کی حمایت میں وہ بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اردو ان کے لیے ایک خوب صورت دلہن اور عروسۂ نو بہار تھی، جس کی مہکتی زلفیں ان کے مشام جاں کو معطر و معنبر کرتی تھیں۔
لہٰذا عظیم تھے بابائے اردو، محسن اردو اور بہت اہم ہیں وہ لوگ بھی جو اردو کے اس مقدس انسان کو دل کی عمیق گہرائیوں سے چاہتے اور یاد کرتے ہیں. کیوں کہ ہمارا خیال ہے کہ دنیا میں ہمیشہ وہ قومیں سرخرو اور کام یاب ہوتی ہیں جو اپنے بزرگوں اور برگزیدہ اسلاف اور ان کے شان دار کارناموں اور اپنے درخشاں ماضی کو یاد رکھتی ہیں اور اپنے اخلاف کے لیے ایک نمونہ چھوڑ جاتی ہیں۔ پاکستان میں ان کی وفات کے بعد ان کی سب سے بڑی اور ذی شان یادگار ’انجمن ترقی اردو‘ نام سے ایک اہم ادارہ ہے۔ جس کے قیام کے سلسلے میں دو بڑے مقاصد مولوی عبدالحق کے پیش نظر تھے۔ اول تو یہ کہ اردو زبان و ادب سے متعلق کاموں کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ہمارے قدیم اور کلاسیکل ادب سے متعلق یا پھر عام آدمی سے متعلق ہوں اور ان کے کاز کا دوسرا اہم مقصد یہ تھا کہ اردو کو دیگر علوم وفنون کی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے۔ ایسے بڑے کام محض چند برسوں کی محنت کا ثمرہ نہیں ہوتے۔ اس لیے اس سلسلے میں بہت پہلے سے اور بہت زیادہ محنت کی جاتی ہے۔ لہٰذا ان اعلا مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے متحدہ ہندوستان میں بھی عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام بہت سا کام کیا تھا اور پھر قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد جب ١٩٤٨ء میں وہ پاکستان چلے گئے تو انھوں نے کراچی میں اردو کالج قائم کرکے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا اہم کام کیا۔
انسانی فطرت اور جبلت کے عین مطابق بابائے اردو کی خواہشیں بھی کسی ایک منزل پر رکنے اور تھمنے کا نام نہ لیتی تھیں، لیکن ان کی یہ تمنائیں محض اپنی ذات اور اپنی غرض کے لیے مختص نہیں تھیں۔ ان کے دل میں نہ صرف مسلمانوں بل کہ اردو جاننے والے ہر شخص کے لیے ہم دردی اور محبت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اب وہ کراچی کے اردو کالج کو یونی ورسٹی کے درجے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اس بڑے اور خاص کام میں ان کو کتنی دشواریاں پیش آئی ہوں گی ان کو، قوم کا درد رکھنے والاہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے لیکن اس مرد آہن کے پائے صداقت اور قدم ہائے استقامت میں کبھی ذرا لغزش نہیں آئی۔
آخر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بابائے اردو کا یہ خواب کراچی یونی ورسٹی کی شکل میں انجمن ترقی اردو کے صدر اختر حسین اور ان کے دوسرے بے غرض مخلصین کی کوششوں سے شرمندۂ تعبیر ہوا۔ مشہور واقعہ ہے اور اس کا تذکرہ اکثر کتابوں اور رسالوں میں ملتا ہے کہ یونی ورسٹی کے قیام کے سلسلے میں ایک مرتبہ بابائے اردو نے اعلان کیا کہ میں اردو کالج کو یونی ورسٹی بنانا چاہتا ہوں اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ مجھے روپوں کی ضرورت ہے۔ اگرچہ روپیہ مجھے حکومت وقت بھی دے سکتی ہے لیکن اردو عوام کی زبان ہے اور اردو یونی ورسٹی عوام کے لیے ہی تیار کی جائے گی۔ اس لیے مجھے روپیہ بھی عوام سے ہی چاہیے۔
جاں نثاران اردو کے لیے اس اعلان میں ایک تڑپ اور چبھن تھی، ایک خاص پیغام تھا جو خلوص و محبت پر مبنی تھا. اس لیے لوگ اس سے بہت متاثر ہوئے تھے۔مزید یہ کہ ابراہیم جلیس نے اس موقع پر عوام سے روپیہ جمع کرنے کے لیے ایک اسٹیج ڈرامہ بھی تحریر کیا اور جس رات اس ڈرامہ کو افتتاحی شو کی حیثیت سے پیش کیا جانا تھا اس رات کو اچانک بابائے اردو کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اس شان دار اور خاص تقریب کے مہمان خصوصی سید ہاشم رضا تھے، لیکن میزبانی کے فرائض انجام دینے کی ذمہ داری بابائے اردونے خود اپنے اوپر لے رکھی تھی۔ بابائے اردو کی اس ناسازئ طبع کے باعث ابراہیم جلیس نے ان سے التماس کیا کہ ایسے لاکھ ڈرامے آپ پر نثار ہیں۔ آپ اس تقریب میں تشریف لانے کی قطعی زحمت نہ فرمائیں اور گھر پر ہی آرام فرمائیں، لیکن ابراہیم جلیس کی بات کو بابائے اردو نے مسترکر دیا اور نہایت شفقت سے فرمایا تم نے محض میری فرمائش پر اردو یونی ورسٹی کے لیے اتنی محنت سے یہ ڈرامہ لکھا اور بڑی دشواریوں کے بعد اسے اسٹیج کر رہے ہو تو کیا میں صرف دو گھنٹے کرسی پر بیٹھ کر ڈرامہ نہیں دیکھ سکتا۔ بہرحال بابائے اردو اس تقریب میں تشریف لائے اور آدھی رات تک یہ ڈرامہ دیکھتے رہے اور رخصت ہوتے وقت بڑی شفقت سے ابراہیم جلیس کو گلے لگا کر فرمایا: ”دیکھو اب میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں. جو کام اردو کی بقا اور اس کی زندگی کے لیے کیا جاتا ہے وہی تو میرے ہر درد کا درماں ہے۔“
اگرچہ ہر علاقائی زبان کی اپنی ایک انفرادی اور مسلمہ حیثیت ہوتی ہے اور اسی بنا پر علاقائی ادب کی بھی عام لوگوں بل کہ خاص کر محققین اور اسکالرز طلبا کے لیے بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن اردو کی علاقائی حیثیت اب بالکل ختم ہو چکی ہے. کیوں کہ موجودہ دور میں یہ آفاقی وسعت، عالمی شہرت اور عالم گیر افادیت کی زبان بن چکی ہے۔ اردو ادب آج دنیا کے ہر کونے میں پڑھا جاتا ہے اور اس کے قلم کار بیش تر ممالک میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اردو میں دنیا کی دیگر زبانوں کے مقابلے متفرق الفاظ کو اپنے دامن میں نہ صرف سمیٹ لینے بل کہ اپنے رنگ میں رنگ لینے کی صلاحیت بھی سب سے زیادہ، منفرد اور دل چسپ ہے۔ مثال کے طور پر مشین انگریزی کا لفظ ہے اور اردو میں اس کو اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی جمع بھی مشینز کے بجائے اردو کے قاعدے اور اصول کے مطابق مشینوں استعمال کی جاتی ہے۔ اس طرح کی دسیوں اور سیکڑوں نہیں بل کہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
اردو زبان کا رنگ و آہنگ، اس کا مزاج، اس کی نغمگی اور اس کا حسن و جمال عربی اور فارسی کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ دنیا کی چاہے کوئی بھی زبان ہو اور کسی بھی خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہو، یہ ایک فطری امر اور قدرتی عمل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو دیا گیا ایک بہترین عطیہ ہے۔ لہٰذا کسی بھی زبان کو پروردگار عالم کی دوسری بے شمار نعمتوں کی طرح آزاد اور سب کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اردو کو محدود زبان سمجھنا، اس کی توسیع و اشاعت میں روڑے اٹکانا، اس کے ساتھ دشمنی رکھنا ہمارے نزدیک قابل مذمت اور لائق نفریں عمل ہے۔
اردو کے لیے لسانیاتی جھگڑے کھڑے کرنا، اردو کی اعلا سرکاری کرسیوں پر جان بوجھ کر غیر اردو داں حضرات کا تقرر کرنا اردو سے دشمنی کا کھلا ہوا اور بین ثبوت ہے. اور یہ ہمارا محض خیال نہیں بل کہ مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ اردو سے دشمنی کا ایک خاص سبب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کا بیش تر ذخیرہ آج اردو زبان میں موجود اور آسانی سے دست یاب ہے۔ اردو کی بقا اور ترقی کے لیے اس کو روزی اور روٹی سے جوڑنا مسئلہ کا ایک خاص حل ہے۔ ہندستان میں جو سرکاری یا غیر سرکاری ادارے اردو کو نیست و نابود کرنے پر کمر بستہ ہیں اور اس کو برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اردو سے دشمنی ایک دن خود ان کو فنا اور ملیا میٹ کر دے گی. کیوں کہ اردو کے ادیبوں اور شاعروں میں ایک بڑی تعداد غیر مسلموں کی بھی ہے۔
یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے ورنہ ان کے نام گنائے جائیں تو اس مقالہ کے دس بیس صفحات مزید بڑھ جائیں گے، تاہم آئندہ سطروں میں ہم کچھ غیر مسلم اردو ادیبوں کے نام ضرور پیش کریں گے۔ اردو وہ زبان ہے جس نے گورے فرنگیوں کے خلاف ہندستان کی جنگ آزادی میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس لیے جو شخص بھی محض مخاصمت اور دشمنی کے باعث روز روشن کی طرح اس حقیقت سے انکار کرتا ہے تو ہم اس کو ملک و قوم اور زبان کا دشمن ہی نہیں بل کہ احسان فراموش بھی سمجھتے ہیں۔
بابائے اردو نے اس زبان کو اپنی فراموش کردہ تاریخ سے روشناس کرایا تھا۔ انھوں نے اردو کی مدد اُس وقت اور اُس پُر آشوب دور میں کی تھی جب کہ بہت سے لوگ اس وقت کی سیاسی اور سماجی مصلحتوں اور کچھ ذاتی مجبوریوں کے باعث اپنے اجلے اور صاف ستھرے دامنوں کو بچائے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے. لیکن بابائے اردو ایک فولادی انسان کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
ہم بلا خوف تردید یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ بابائے اردو کی زبان اور ان کے نوک قلم سے نکلا ہوا ہر حرف اردو کے تئیں ان کی خود داری، ان کی غیرت وحمیت، ان کی بے لوثی اور بے غرضی کی گواہی دیتا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ متحدہ ہندستان کے ایک قومی رہ نما نے آزادی سے قبل اردو زبان کے لیے ’ہندوستانی زبان‘ کی اصطلاح ایجاد کی، یہاں تک تو چلو ٹھیک اور گوارہ تھا لیکن اس ایک فقرہ کے ساتھ اردو دشمنی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا کہ اردو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے۔ مسلمان بادشاہوں نے اسے اپنے زمانہ میں ہندستان میں پھیلایا ہے اور یہ قرآن پاک کے حرفوں میں لکھی جاتی ہے. اس لیے مسلمان چاہیں تو اسے باقی رکھیں اور چاہیں تو نہ رکھیں۔
بابائے اردو نے ان چلتے پھرتے اور سازشی جملوں کی اس طرح گرفت کی کہ باقاعدہ ایک مہم کا آغاز کردیا۔ جس کے نتیجے میں یہ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ وہ زبان جس کے ماضی قریب اور ماضی بعید کے شاعروں، ادیبوں، افسانہ و ناول نگاروں اور صحافیوں میں درگا سہائے سرور، منشی پریم چند، منشی نوبت رائے نظر، منشی تلوک چند محروم، منشی نول کشور، سورج نرائن مہر، کالی داس گپتا رضا، پنڈت برج نرائن چکبست، پنڈت دیا شنکر نسیم، جگت لال رواں، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، گلزار دہلوی، لبھو رام جوش ملسیانی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری، رام رکھا خوشتر گرامی، موہن سنگھ دیوانہ، بال مکند عرش ملسیانی، پنڈت آنند نرائن ملا، جگن ناتھ آزاد، منشی دیا نرائن نگم، امرتا پریتم، بشیشور پرشاد منور لکھنوی، دیوان بریندر ناتھ ظفر پیامی، پنڈت گوپی ناتھ امن لکھنوی، شیام موہن لال جگر بریلوی، رام لعل، پرتاپ چندر آزاد، اوپندر ناتھ اشک، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، پریم پال اشک، جگیشور ناتھ بیتاب بریلوی، تارا چرن رستوگی، مالک رام، راجندر سنگھ بیدی، راج بہادر گوڑ، شانتی رنجن بھٹاچاریہ، سری نیواس لاہوٹی، گوپی چند نارنگ، نریش کمار شاد، شیام لال کالرا عابد پیشاوری، ٹی.آر.رینا، گیان چند جین، حکم چند نیر، ویریندر پرشاد سکسینہ اور دوسرے بہت سے سیکڑوں ممتاز اہل قلم تھے، واقعی صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی، یا یوں کہیے کہ محض مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی۔
الغرض ہندستان کی آزادی اور قیام پاکستان کے بعد جب مولوی عبدالحق وہاں تشریف لے گئے تو ہندستان میں اردو کے بدخواہوں اور دشمنوں کو اردو دشمنی کے بہتر مواقع نظر آنے لگے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولوی عبدالحق کسی ایک فرد واحد کا نام نہیں تھا بل کہ وہ تو ایک تحریک تھی جو بابائے اردو کے نام سے باقی اور اس کا دھارا جاری و ساری تھا۔ افراد کسی مجبوری، سیاسی یا سماجی یا معاشی حالات کے تحت اپنی مستقل جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں لیکن ان کی شروع کردہ تحریکیں اس مقام پر برگ وبار لا کر رہتی ہیں۔
بہر حال اہل علم اور اہل قلم حضرات نے اردو کے تئیں کی جانے والی ان سازشوں کا مقابلہ کیا اور اردو کی حیثیت کو کسی صورت میں بھی کم نہ ہونے دیا۔ ایسے سارے لوگ ہماری آج کی نئی نسل کے لیے قابل مبارک باد اور لائق تقلید نمونہ ہیں۔ اگرچہ اردو دشمنی نئے نئے چولوں کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہے. جیسے اردو رسم الخط کو بدلنے کی آواز اٹھا کر آج بھی اردو کو زک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے. لیکن چوں کہ اردو جاننے والا ایک بہت بڑا طبقہ اردو کے خلاف رچی جانے والی سرکاری اور غیر سرکاری، قومی اور بین الاقوامی سبھی سازشوں سے بخوبی واقف ہے، اس لیے اس باطل ٹولے کا ہر وار خالی جاتا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی اضافی گفتگو ہے، چوں کہ تذکرہ بابائے اردو کا ہے اس لیے ان کے تعلق سے اردو کے بارے میں لکھنا یا موجودہ صورت حال سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو کی برائے نام مخالفت اور معمولی سی نکتہ چینی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اردو سے متعلق کوئی ناخوش گوار بات برداشت کر لینا ان کے مزاج کے خلاف تھا. لیکن شاید یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ان کی یہ جذباتیت اکثر ان کے اعلا مقاصد کی راہ میں رکاوٹ اور سد راہ بھی بنتی تھی۔ بابائے اردو کے عقیدت مندوں اور چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن ان پر اعتراضات اور غلط بیانی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی. اگرچہ یہ بات سو فی صد درست تھی کہ بتقاضائے بشریت بابائے اردو سے کوئی غلطی ہوئی بھی تو اس میں ان کی نیت کی خرابی یا ان کی کسی ذاتی غرض کا کوئی دخل نہیں تھا۔ ان کی ساری دوستی اور دشمنی اردو کے لیے تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی چھوٹی بڑی کسی غلطی سے بھی کوئی شخص ان پر حصول دولت و شہرت یا کسی ذاتی اور انفرادی غرض کے چکر میں مبتلا ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا۔
آخر اس سے بڑی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اردو کا بول بالا کرنے کے لیے اپنی ذاتی امنگوں اور آرزوؤں کو بھی قربان کر دیا اور اپنی شادی تک نہیں کی۔ ان کا اوڑھنا بچھونا، ان کا کھانا پینا اور سونا جاگنا سب اردو سے منسلک اور اردو کے لیے تھا۔ اردو ان کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوئی تھی اور وہ جس نصب العین کے پرستا ر اور جس نظریے کے علم بردار تھے اور جس تحریک کے سپہ سالار تھے اس پر اپنے دم واپسیں تک گام زن رہے۔
بابائے اردو کی زندہ دلی، ہم دردی، خلوص و محبت اور غریب پروری کے بہت سے واقعات مشہور ہیں۔ وہ غریب طلبا، مستحق خواتین، نادار و مفلس لوگوں اور بہت سے دوسرے ضرورت مندوں کی سیکڑوں حاجتوں کو نہایت خاموشی اور خندہ پیشانی سے تکمیل تک پہنچا دیا کرتے تھے۔ وہ انسانی عظمت کے علم بردار اور انسانیت کے آئینہ دار تھے۔ وہ ادبی اور لسانی تحریکات کے علاوہ شرافت، اخلاق اور صداقت کی روشنی میں بہت سے اجتماعی اور انفرادی مسائل کو حل کرنے میں پوری دل چسپی لیتے تھے۔
ان کی وفات کے تعلق سے کتابوں اور رسائل میں جو کچھ لکھا گیا ہے اور جو ہمارے مطالعہ میں آیا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بستر مرگ پر بہت کم لوگوں کو مسکراتے ہوئے دیکھا گیا ہے لیکن بابائے اردو کی بات یہاں بھی جدا تھی۔ موت کا فرشتہ گویا ان کے پاس ہی کھڑا تھا۔ پلنگ کے اطراف ان کے دوست احباب، رفقائے کار اور دنیا میں ان کے سب سے قریبی رشتے دار یعنی طالب علم بیٹھے ہوئے تھے اور ایسی صورت حال میں بابائے اردو اگرچہ بظاہر وہاں موجود لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے لیکن ان کا خطاب غالباً موت کے فرشتے سے تھا۔ اس لمحہ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا میں کسی ایسے مہینے میں مرنا چاہتا ہوں جس میں کوئی بڑا آدمی نہ مرا ہو. لیکن سوائے مئی، جولائی اور اگست کے کوئی مہینہ خالی نظر نہیں آتا اور میں مئی، جولائی اور اگست کے ان بے حد گرم مہینوں میں مرنے کو سخت بد مذاقی سمجھتا ہوں۔ تاہم مجھے اگست کے مہینے کو منتخب کر لینا چاہیے کیوں کہ اس کے بعد کوئی مہینہ کسی بڑے آدمی سے خالی نہیں۔ وہاں موجود اکثر لوگ ان کی یہ عجیب باتیں سن رہے تھے۔ لہٰذا ان لوگوں کی پریشانی دیکھ کر بابائے اردو نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ انھیں سمجھانا شروع کیا : ’جنوری کا مہینہ مولانا محمد علی جوہر کی وفات سے منسوب ہے اور فروری مرزا غالب، مارچ سرسید احمد خاں، اپریل علامہ اقبال، جون نواب بہادر یار جنگ، ستمبر محمد علی جناح، اکتوبر لیاقت علی خاں، نومبر مولانا ظفر علی خاں اور دسمبر مولانا الطاف حسین حالی کی وفات کا مہینہ ہے۔‘
اس تفصیل کے بعد انھوں نے فرمایا تھا کہ ہمیں اگست کا مہینہ ہی بہتر معلوم دیتا ہے اور ہم اگست میں ہی کسی روز اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ بات کے دھنی بابائے اردو نے زندگی کے نصب العین اور اردو کی تعمیر و ترقی کے لیے جب بھی اور جو کچھ بھی کہا اس کو پورا کر دکھایا تھا، اس لیے مولائے کریم جس نے اپنے ایک مخصوص بندے کو دنیا میں ایک اہم خدمت کے لیے بھیجا تھا اس نے اپنے اس غلام کی آخری خواہش کو بھی رد نہیں کیا اور دنیا کی تاریخ اور تقویم میں اب اگست کا مہینہ بابائے اردو کے نام سے منسوب ہے اور ١٦/اگست ١٩٦١ کا وہ دن پوری اردو دنیا میں نہایت سوگوار تھا جب بابائے اردو کے کہے گئے الفاظ سچ ثابت ہو گئے۔١٦/اگست کی وہ تاریخ جہاں سے بابائے اردو کی حیات جاوداں کے نئے سفر کا آغاز ہوا اور ١٦/ اگست کا وہ یوم غم جب اردو کا ایک سچا خادم، لاثانی اور مقدس جسم ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا اور ١٦/اگست کا وہ یوم الحزن جب ٩١ سال کا وہ نحیف و نزار پیکر ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
بابائے اردو بہت بڑے محقق، ادیب، صحافی، زبان داں، زبان شناس، ماہر لسانیات، خاکہ نگار، نقاد، انشا پرداز، مقدمہ نگار اور انگریزی و اردو لغت کے مؤلف تھے۔ ان کی تحریر میں سادگی، روانی، شیرینی اور دل کشی بدرجہ اتم موجود تھی۔ وہ صاف ستھری، شستہ اور بامحاورہ زبان استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے ادب، انشا اور زبان کی شان دار خدمات انجام دیں۔ مولوی عبدالحق نے کئی برس ایک سہ ماہی رسالہ ’اردو‘ کے نام سے شائع کیا تھا جس کے لیے وہ خود بھی اعلا قسم کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھتے تھے اور دوسرے اہل قلم حضرات سے بھی مضامین لکھواتے تھے۔ ان کے رسالے کی پورے ملک میں بڑی عزت و وقعت تھی اور اس پرچہ کو اردو رسائل کی ادبی و صحافتی تاریخ میں ایک منفرد اور نمایاں مقام حاصل تھا۔
بابائے اردو کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے بہت سے قدیم دکنی مخطوطات کی دریافت اور کھوج کرکے ان کو شائع کیا جس میں صحت متن کا خصوصی خیال رکھا اور ضروری توضیحات نیز اپنے مفید حواشی کے ساتھ ان کو شائع کیا۔ بابائے اردو کے اس اہم کام پر نہ صرف اردو ادب بل کہ پورا ملک ان کا یہ احسان کبھی فراموش نہیں کر سکتا. کیوں کہ محض بابائے اردو کی کوششوں سے دکنی ادب کا بہت سا حصہ صحیح متن کے ساتھ محفوظ ہو گیا۔
مولوی عبدالحق نے مختلف اوقات میں متعدد کتابوں پر جو تقاریظ، دیباچے اور پیش لفظ لکھے وہ دو جلدوں میں ’خطبات عبدالحق‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ تحقیق، تنقید اور تدوین کے معاملے میں وہ بڑی صائب اور متوازن رائے رکھتے تھے اور افراط و تفریط کے قطعی قائل نہ تھے اور اپنی بات اور اپنا نظریہ بغیر کسی جھجک اور لاگ لپیٹ کے پیش کرتے تھے۔ بابائے اردو کے یہ مضامین مختلف موضوعات پر ہیں، جن سے ان کی ذہانت و ذکاوت اور فکر و نظر کی گہرائی اور وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ ان مضامین میں انھوں نے بہت سے ایسے حالات، واقعات اور مشاہدات بھی مجتمع کر دیے ہیں جن کے وہ عینی شاہد تھے یا جن کا علم ان کے علاوہ شاذ و نادر ہی کسی دوسرے کو تھا۔ غرض یہ کہ بابائے اردو کی کوششوں اور صلاحیتوں سے اردو ادب میں مختلف موضوعات پر تحقیقی کام کرنے والوں کو نہایت اہم اور بہترین مواد مل سکتا ہے۔
بابائے اردو چوں کہ تنقید کی فنی بصیرت کے ساتھ اعلا تحقیقی ذہن بھی رکھتے تھے اس لیے ان کا نظریہ تھا کہ قدما کی بیان کردہ روایات کو تحقیق کی کسوٹی پر جانچے اور پرکھے بغیر من و عن قبول نہیں کرنا چاہیے۔یہی وجہ تھی کہ وہ کسی بھی اہم ادبی واقعہ کی صداقت جاننے کے لیے مستند قدیم کتابوں سے تحقیق کرکےحقیقت حال کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے تھے۔مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب’آب حیات‘ میں بیان کردہ میر تقی میر کے حالات و واقعات کی صحت و اصلیت جاننے کے لیے انھوں نے کافی تحقیقی کام کیا۔اس کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب ’مسدس حالی‘ اور ’علامہ اقبال کے نام عطیہ بیگم کے خطوط‘ اور میر امن دہلوی کی ’باغ و بہار‘ پر مقدمات بابائے اردو کی گہری فکر کی غمازی کرتے ہیں۔ ان کی تنقیدی بصیرت اور فکری صلاحیت کے باعث ان کے خطبات اور مقدمات اردو ادب میں بیش قیمت اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مولوی عبدالحق کا ایک اور بڑا کارنامہ انگلش -اردو ڈکشنری کی ترتیب ہے۔ اس کا نام ہےStudent’s Standard English Urdu Dictionary۔ اس وقت میرے پیش نظر اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو ١٤٨١ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کو جے.ایس.سنت اینڈ سنز چوڑی والان، دہلی نے شائع کیا ہے اور جس پر انجمن ترقی اردو پاکستان کے معتمد اعزازی کا مختصر سا پیش لفظ بھی لکھا گیا ہے. جس پر یکم /اکتوبر ١٩٥٠ء کی سنہ درج ہے اور ابتدا میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا لکھا ہوا دیباچہ بھی موجود ہے،جس میں آپ فرماتے ہیں: ”کالج اور مدارس کے طالب علموں، عام پڑھنے والوں، نیز ترجموں کے لیے یہ ڈکشنری بہت کار آمد ثابت ہوگی کیوں کہ اب تک کوئی انگریزی -اردو ڈکشنری اس جامعیت اور صحت کے ساتھ ہماری کسی زبان میں نہیں لکھی گئی۔“
اس ڈکشنری میں مولوی عبدالحق نے انگریزی الفاظ کے اردو مترادفات بڑی چھان بین اور دقت نظر سے کام لے کر جمع کیے ہیں۔ لہٰذا ہند و پاک میں بابائے اردو کے اس عظیم المرتبت کام کی بڑی پذیرائی کی گئی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اتنی ضخیم یعنی ١٤٨١ صفحات کی ڈکشنری کی قیمت صرف ١٥ روپے درج ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بابائے اردو طالب علموں کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔
اردو زبان اور ادب پر بابائے اردو نے جو احسانات کیے ہیں ان کی فہرست بہت طویل ہے. اس لیے اس مقالہ میں ان کے کاموں کا تذکرہ اختصار میں ہی کرنا ممکن ہے۔ انگلش-اردو ڈکشنری کے تعارف کے بعد بابائے اردو کی اردو-انگلش ڈکشنری کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کا نام ہےStandard Urdu English Dictionary۔ یہ ڈکشنری بھی جے.ایس.سنت اینڈ سنز چوڑی والان، دہلی نے شائع کی ہے۔ اس پر سنہ اشاعت درج نہیں، لیکن بڑے سائز کے ٨٣١ صفحات کی اس ڈکشنری کی قیمت بھی چوں کہ بہت کم ہے، اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس ڈکشنری کی طباعت بھی تقریباً ٧٠ سال پہلے ہوئی ہوگی۔ زیر نظر ڈکشنری اردو سے انگریزی الفاظ بتانے والی انسا ئیکلو پیڈیا ہے. یعنی کس اردو لفظ کی انگریزی کیا ہے، اس ڈکشنری کی ترتیب اردو حروف تہجی کے لحاظ سے کی گئی ہے۔
غرض یہ ڈکشنری علمی دنیا میں ایک زبردست اضافہ ہے جس سے اب تک لاکھوں طالب علم اور ہزاروں تشنگان علم و ادب فیض یاب ہو چکے ہیں۔ اس ڈکشنری میں اردو الفاظ کا انگلش میں تلفظ یا Pronunciation بڑے کام کی چیز ہے۔ اس ڈکشنری کے پبلشر نے ابتدا میں ایک بہترین بات لکھی ہے: ”ہندوستان میں آجکل اس قسم کی ڈکشنری کی سخت ضرورت ہے جو اردو داں عوام و خواص کو اردو کے الفاظ انگریزی میں سمجھنے اور سمجھانے کے لیے رہبر اور معلم ثابت ہو کیونکہ انگریزی کے سیکڑوں الفاظ اردو میں داخل ہو گئے ہیں اور ان کا کوئی بدل بھی نہیں اور بدل کی ضرورت بھی نہیں۔“ ان دونوں ہی ڈکشنریوں کے بارے میں، میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ مولوی عبدالحق اگر اور کوئی بھی علمی و ادبی کام نہ کرتے تو صرف یہ کام ہی ان کا نام باقی رکھنے کے لیے کافی تھا۔
اردو کی نثری اصناف ادب میں خاکہ نگاری کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ کئی قلم کاروں نے اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ ایسے خاکے لکھے ہیں جو اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو کے خاکہ نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، انشاء اللہ خاں انشاء، مولانا محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، خواجہ حسن نظامی، عبدالماجد دریا بادی، رشید احمد صدیقی، عرفان عباسی، غلام رضوی گردش، عابد سہیل، شوکت تھانوی، مولانا محمد علی جوہروغیرہ کے نام شامل ہیں لیکن ان لوگوں میں سے کچھ نے باقاعدہ خاکہ نگاری کو اختیار کیا اور اسے عروج کمال تک پہنچایا اور باقی نے صرف چند ہی خاکے لکھے۔
بابائے اردو چوں کہ ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے اس لیے انہوں نے اپنے قلم سے فن خاکہ نگاری کو بھی محروم اور تشنہ نہیں رکھا۔ ان کی تصنیف ’چند ہم عصر‘ خاکہ نگاری کا شاہ کار ہے اور یہ کتاب اردو میں ایک نمائندہ تصنیف کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب ’چند ہم عصر‘ میں بابائے اردو کے تحریر کردہ ایک درجن سے زیادہ خاکے شامل ہیں۔ جن میں تین شعرا مولانا الطاف حسین حالی، امیر مینائی اور غلام قادر گرامی۔ پانچ اہل علم یعنی مولوی چراغ علی، رشید علی بلگرامی، مولوی عزیز مرزا، وحید الدین سلیم اور مرزا حیرت۔ چھ رہ بران قوم یعنی سید محمود، نواب محسن الملک، خواجہ غلام الثقلین، مولانا محمد علی جوہر، حکیم امتیاز الدین اور انور خاں کے نام شامل ہیں۔ یہ کتاب علمی اور ادبی اعتبار سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔
ان خاکوں اور ان خاموش تصویروں میں بابائے اردو کے بہترین اسلوب نگارش نے گویا جان ڈال دی ہے۔ ان خاکوں میں محبت اور عداوت سے بلند ہو کر غیر جانب داری سے شخصیات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ بابائے اردو نے ہر جگہ انسان کی محنت، جفاکشی، راست گفتاری، وضع داری اور جذبۂ خدمت کو جگہ دی ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ بابائے اردو اس فن اور اس صنف ادب میں بھی پوری طرح کام یاب رہے ہیں۔
بابائے اردو نے ایک کتاب ’قواعد اردو‘ بھی تحریر کی تھی۔ اس کتاب کی اہمیت نہ صرف طلبا، ادیبوں اور شاعروں بل کہ باذوق قارئین کے لیے بھی بہت زیادہ ہے۔یہ کتاب اردو ٹائپ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ اس کا سائز ڈیمائی ہے اور مجلد کتاب کی قیمت محض دو روپے ہے۔میرے پیش نظر ’قواعد اردو‘ کا تیسرا ایڈیشن ہے جس پر ١٩٣٦ء کی سنہ درج ہے۔ اس وقت عبدالحق انجمن ترقی اردو کے آنریری سکریٹری تھے۔ یہ کتاب انجمن اردو پریس، اردو باغ، اورنگ آباد دکن نے شائع کی ہے۔ کتاب کی پشت پر انگریزی میں پرنٹر کا نام مظفر حسین شمیم درج ہے۔ اس کتاب میں صفحات کی تعداد ٣٢٤ہے۔ کاغذ اور طباعت بہترین ہے اور ٢٣ صفحات پر مشتمل مقدمہ مولوی عبدالحق نے خود ہی تحریر کیا ہے۔
’قواعد اردو‘ بڑی معرکۃ الآرا کتاب ہے جس میں بابائے اردو نے جدید انداز سے قواعد اور صرف ونحو کے مسائل سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اپنی جامعیت کے لحاظ سے یہ کتاب بڑی اہمیت وافادیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مولوی عبدالحق نے اردو قواعد کے اصول ذہن نشین کرانے کے لیے ہندی، سنسکرت، فارسی اور عربی زبانوں کے قواعد کے اصول بھی بطور حوالہ پیش کیے ہیں۔ نیز یہ کہ اس کتاب میں اردو کو عربی اور فارسی سے الگ زبان مان کر اس کے صرف و نحو کی تشریح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کے چند عنوانات اس طرح ہیں: اعراب، اسم، صفت، ضمیر، فعل، تمیز، مشتق اور مرکب الفاظ، نحو، صرف، عروض، بحریں، اوزان رباعی وغیرہ۔ غرض یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے۔ اگرچہ قواعد سے متعلق اب تک اور بھی بہت سی کتابیں تصنیف و تالیف کی گئی ہیں لیکن ایسے خشک موضوع کے لیے اتنی سہل اور سادہ زبان استعمال کر کے بابائے اردو نے اسے قواعد اردو کی تاریخ میں اپنی انفرادیت اور اپنے طرز کا نقش اول اور سنگ میل بنا دیا ہے۔
مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ بابائے اردو نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے جن میں سے چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں : اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام، مرحوم دہلی کالج، صرف و نحو اردو، مراٹھی زبان پر فارسی کا اثر، انتخاب کلام میر، تذکرہ ریختہ گویاں گردیزی،. مخزن الشعرا فائق، تذکرۂ ہندی مصحفی، ریاض الفصحامصحفی، عقد ثریا مصحفی، دیوان اثر، مثنوی خواب وخیال اثر، چمنستان شعرا مشفق، مخزن نکات قائم، تذکرہ شعرائے اردو، میر حسن وغیرہ۔
اس طویل گفتگو کے بعد آخر میں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ بابائے اردو ہماری پیاری زبان کے محسن تھے۔ وہ ہمارے محسن تھے اور ہم ان کے ادبی، لسانی، تحقیقی، تنقیدی اور سماجی احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ جب تک اردو زبان کی کسی کتاب کا ایک ورق بھی موجود ہے بابائے اردو کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ جس شخص کو بھی اردو زبان سے دل چسپی ہے اور اس کے دل میں اردو سے محبت جاگزیں ہے وہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بابائے اردو کے تذکرے کے بغیر اردو کی مختصر سے مختصر تاریخ بھی نامکمل اور ادھوری سمجھی جائے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ موجودہ نسل کو زیادہ سے زیادہ بابائے اردو کے نام اور ان کے سنہرے کارناموں سے روشناس کرایا جائے۔ بابائے اردو نے اردو زبان کی بقا اور اس کے استحکام کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ تاریخ زبان اردو اور تاریخ ادب اردو میں ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
بابائے اردو کو یاد کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کہیں بھی رہتے ہوں لیکن تمام لسانیاتی اختلافات بھلا کر اردو کے لیے کام کریں۔ ہمیں ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا چاہیے جن کے لیے بابائے اردو زندگی بھر سرگرداں اور کوشاں رہے. کیوں کہ یہی کام ان کی زندگی کا مشن اور یہی ان کی تعلیمات کا ماحصل تھا۔ اس سلسلہ میں ایک اہم کام یہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر سال میں ہمارے علمائے ادب، اہل علم، اہل قلم اور علمی و ادبی اداروں نے اردو کی ترقی اور اس کے فروغ کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ان کی فہرست مرتب کی جائے۔ کتنی نئی کتابیں کن موضوعات پر شائع ہوئیں۔ کن موضوعات پر کس کس یونیورسٹی میں ایم.اے، ایم.فل، ڈی.فل، پی ایچ.ڈی، ڈی.فل اور ڈی.لٹ کے لیے تحقیقی مقالے لکھے گئے اور ان تحقیقی مقالوں کی اشاعت کس طرح یقینی بنائی جائے۔
سال بہ سال کن موضوعات کی کتنی کتابیں شائع ہوئیں ان کی مکمل کتابیات پروفیسر مظفر حنفی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کئی جلدوں میں پیش کی ہیں لیکن یہ سلسلہ مستقل جاری رہنا چاہیے۔ پروفیسر مظفر حنفی نے گزشتہ ٢٥ سالوں میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان کی فہرست کو ایک ضخیم کتاب کی شکل میں ’کتاب شماری‘ نام سے الگ سے بھی شائع کر دیا ہے۔ اس کتاب میں سولہ ہزار سے زیادہ کتابوں کی تفصیل درج ہے۔ طلبا اور اسکالرز کے لیے یہ ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔ مذکورہ بالا جن تحقیقی کاموں کا حوالہ میں نے دیا ہے اس سلسلے میں پروفیسر گیان چند جین نے بھی بہت تفصیل سے اپنی بیش قیمت کتاب ’تحقیق کا فن‘ میں تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب سات سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔
چوں کہ انھوں نے امریکہ میں کافی وقت گزارا اور وہاں کی لائبریریوں کو بھی کھنگالا اور اس کی تفصیل بھی لکھی ہے کہ وہاں ہر سال کی مطبوعہ کتابوں کی فہرستیں مرتب کی جاتی ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ کام جب امریکہ جیسے ملک میں کیا جا سکتا ہے جہاں کی قومی زبان بھی اردو نہیں ہے تو ایسا اہم کام ہندستان اور پاکستان میں کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ بھلے ہی امریکہ جیسے کام کا ہم مقابلہ اور موازنہ نہیں کر سکتے کیوں کہ ہمیں وہ سہولیات میسر نہیں جو امریکہ میں اسکالرز اور محققین کو حاصل ہیں پھر بھی کچھ نہ کچھ خامیوں کے باوجود اس کام کو ضرور کرتے رہنا چاہیے۔ دہلی کا سہ ماہی رسالہ ’اردو بک ریویو‘ بھی اپنے ہر شمارہ میں درجنوں تبصروں کے ساتھ ایم.فل اور پی ایچ.ڈی کے تحقیقی مقالوں کی فہرست شائع کرتا ہے۔
پاکستان میں اسلام آباد کا تحقیقی ادارہ بہت کام کرتا ہے. وہاں کی شاندار تحقیقی کتابیں میں نے رضا لائبریری میں نہ صرف دیکھی ہیں بل کہ ان سے استفادہ بھی کیا ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا یہ سارے کام ملکی پیمانے پر کرنے کے بجائے علاقائی سطح پر کیے جا سکتے ہیں اور یہ کام پورے خلوص اور پوری لگن سے کیے گئے تو امید واثق ہے کہ اس سے نہ صرف زبان اردو کو بل کہ پورے اردو داں طبقے کو بھی فائدہ حاصل ہوگا۔ بہرکیف کسی طرح بھی ہو، ہر حالت میں اردو زبان کی ترقی ہونی چاہیے کیوں کہ اس مقصد کے لیے بابائے اردو نے اپنی ساری زندگی وقف اور صرف کی۔ یوں تو اردو زبان و ادب کو اپنے سبھی جاں نثاروں اور قلم کاروں پر ناز ہے لیکن ان میں بابائے اردو کا نام سر فہرست ہے!
………………
(۳/جون ٢٠٢١ء) 
 آپ یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں : سوانحی و ادبی تعارف

شیئر کیجیے

One thought on “بابائے اردو مولوی عبدالحق : حیات و خدمات

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    خدا کرے مزاجِ عالی بخیر وعافیت ہوں
    بابائے اردو مولوی عبدالحق رحمۃاللہ علیہ کے متعلق آپ کے اس تحقیقی، ادبی، اثر آفریں، اور مہمیز کن مضمون سے احقر کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا، جس کیلئے میں محترم کا دل کی گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہوں،
    خاکم بدہن ایک عرضداشت پیش کرنا تھی کہ آپ نے بابائے اردو کی جائے پیدائش صوبۂ اترپردیش کے ضلع میرٹھ کا قصبہ ہاپوڑ تحریر کیا ہے جبکہ یہ ایک عام غلط فہمی کہیں یا مشہور ہو گیا، دراصل بابائے اردو کی جائے پیدائش *قصبہ سراوہ* ہے جو کہ ہاپوڑ شہر سے مغربی سمت میں تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، سراوہ کا ماضی قریب تک ضلع میرٹھ ہی ہوتا تھا لیکن اب ہاپوڑ کے ضلع منتخب ہونے پر *ہاپوڑ* ضلع ہو گیا ہے،
    بابائے اردو کی جائے پیدائش کا ساکن اور اردو کا ادنیٰ طالب ہونے کی وجہ سے میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ یہ بات آپ جیسی شخصیات (جنھوں نے بھی بابائے اردو پر کچھ کام کیا ہے) کے سامنے رکھی جائے تاکہ آئندہ مضامین وغیرہ میں ترمیم و اضافہ کی گنجائش نکل سکے، گستاخی کیلئے معذرت خواہ ہوں، والسلام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے