” آئینہ" : ایک مطالعہ

” آئینہ" : ایک مطالعہ

( قاری جمشید جوہر کی نعتوں، غزلوں اور نظموں کا مجموعہ)
عبد الرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیاوی

ابھی میرے سامنے مداح رسول، مقبول عام و خاص، منفرد کمالات کے مالک، میرے محترم محب، صوفی حافظ قاری جمشید جوہر صاحب کی نعتوں، نظموں، غزلوں منظوم کلاموں کا حسین گل دستہ یعنی ان کا شعری مجموعہ آئینہ ہے، یہ مجموعہ ٢٤٧صفحات پر مشتمل ہے، کمپوزنگ کا کام محمد سراج صاحب نے کیا ہے، اسے آپ بھی محض ١١٠روپیہ دے کر مصنف موصوف سے اور مدرسہ تعلیم الدین برونی بیگو سراۓ، علی نگر بائی پاس روڈ دھنباد سے حاصل کرسکتے ہیں، کتاب کا انتساب شاعر موصوف نے والدین اور پیر و مرشد کے نام کیا ہے جو بڑی سعادت کی بات ہے، کلمات تبریک حضرت الحاج سید شاہ احمد نصر صاحب بنارسی نے لکھا ہے، جو تین صفحات پر مشتمل ہے۔
شیخ کی برکت سے کیسے در کھلے
واہ جمشید اب ترے جوہر کھلے
امید نہیں بل کہ یقین ہے کہ جناب جمشید جوہر صاحب کا یہ مجموعہ قبولیت عامہ حاصل کر لے گا اور جناب جوہر صاحب کے لیے ذخیرہ آخرت بھی بنے گا. اس کے بعد محمود احمد دانا اعظم پوری صاحب نے بھی صفحہ نمبر ٩ پر اپنے تاثرات آئینہ کے لکھے ہیں. اس کے بعد صفحہ ١١ پر منظوم تاثرات محمود احمد دانا صاحب نے پیش کیا ہے، جو بہت ‌خوب ہے. پھر قاری جمشید جوہر صاحب نے”حرف تمنا" کے عنوان سے دو صفحہ لکھا ہے وہ بھی بہت خوب ہے. اس کے بعد حمد پاک ہے جن کی تعداد ١٥ہیں جو صفحہ ١٥ تا٢٥ تک ہیں۔
زباں سے میری ان کا ذکر جو ہر آن ہو جائے
الہی مغفرت کا بس یہی سامان ہوجائے
یہی اب آخری جوہر کا ارمان ہے مولا
شریعت اور سنت پر یہ جان قربان ہوجائے
اس کے بعد نعت پاک ہے جس کی تعداد ٩٤ہے، صفحہ نمبر ٢٧ سے ١٢٠ تک ہے، کچھ نعت کے اشعار پیش خدمت ہیں، صفحہ نمبر ٣٠ پر ہے۔
جو نعت نبی سننے کو تیار نہیں ہے
در اصل وہ جنت کا طلب گار نہیں ہے
وہ شہر مدینہ بھی عجیب؟ شہر ہے جوہر
اس شہر میں بیمار بھی بیمار نہیں ہے
صفحہ نمبر ٥٥ پر آپ کی ایک مشہور نعت ہے۔
آج اشکوں سے دامن بھگو لینے دو
ان کی یاد آئی ہے مجھ کو رو لینے دو
ان کی مدح سرائی کروں بعد میں
پہلے اشکوں سے دل اپنا دھو لینے دو
میری نعتوں میں جوہر اثر دیکھنا
پہلے طیبہ کی گلیوں سے ہو لینے دو
صفحہ نمبر ٨٤ پر ایک نعت کے چند اشعار۔
دیکھا ہے کسی نے نہیں آئینہ
آپ کی زندگی سا حسیں آئینہ
نقش پا آئینہ ہے جس میں آئینہ
پڑ گیا نقش پا ان کا جوہر جہاں
وہ جگہ آیئنہ وہ زمیں آئینہ
اس کے نعتیہ،یورپی گیت ہیں جس کی تعداد بھی چھ ہے جو صفحہ نمبر ١٢٢سے ١٢٧تک ہے. اس کے بعد قطعات ہیں جو تین صفحات پر ہیں، جن کی تعداد ١٦ہے. 
اس کے بعد اصلاحی منظومات ہیں، جن کی تعداد ٤١ ہے اور صفحہ ١٣٥ تا ١٧٤ تک ہے اس کے بعد حاملین قرآن، عظمت قرآن، اور مدارس اسلامیہ کے لیے کہی گئی نظم ١٠ کی تعداد میں ہے، اس کے بعد عرفان عشق کے تحت ١٩٤ صفحہ تک ایک سالک کا شکریہ نامہ بنام سرپرست و کامل دو صفحہ پر ہے، شیخ طریقت کے نام بھی ایک صفحہ منظوم کلام قاری صاحب نے لکھ دیا ہے، اس کے بعد غزلیات کا باب شروع ہوتا ہے، جس کی تعداد ١٩ ہے، اور ٢١٣صفحہ تک ہے، ایک غزل کے چند شعر۔
اپنی غزلوں کو بھلا ہم گنگنانا چھوڑ دیں
کیا کسی کے ڈر سے ہم بھی مسکرانا چھوڑ دیں
جو ہمارے واسطے مرنے کو بھی تیار ہے
سوچیے کہ اس کے گھر میں آنا جانا چھوڑ دیں
موت تو آنی ہے جوہر آہی جائے گی کبھی
کیا اس کے ڈر سے ہم میداں میں آنا چھوڑ دیں
اس کے بعد اتحاد ملت اور قومی یک چہتی کے لیے کہی گئی نظم دو صفحہ پر ہے. ٢٢٥ صفحہ سے خراج عقیدت چند شخصیات کو پیش کیا گیا ہے،اپنے بھائی جان کے نام ٢٢٧صفحہ پر لکھا ہے، ٣٣٠پر غلام ربانی قاصر بھاگلپوری مرحوم کے انتقال پر پورا ایک صفحہ لکھ دیا، اس سے پہلے بھی نغمات جوہر، جذبات جوہر، سوغات جوہر منظر عام پر آکر مقبول ہوچکی ہے، قاری صاحب کے پڑھنے کا اپنا ایک الگ ہی انداز ہے، کلام میں گہرائی اور گیرائی ہے۔
جہاں تک میرا علمی شعور کام کر رہا ہے اور بصیرت ساتھ دے رہی ہے میں یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ یہ ترنم، یہ انداز، یہ کلام، یہ بالیدگی ان کا خود کا مجاہدہ اور پیرو مرشد حضرت مولانا احمد نصر بنارسی کی توجہ، کامل عنایت اور اللہ جل جلالہ کی طرف سے خاص انعام الہی ہے، جو ہر کسی کو نہیں ملا کرتا، خدا سے دعا گو ہوں کہ مداح رسول قاری جمشید جوہر کی صحت، عمر میں برکت عطا فرمائے اور اس مجموعہ کوخاص و عام کے درمیان مقبولیت عطا فرمائے آمین۔
📞9308426298
📧 abdurrahim.darbhnga@gmail.cim

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے