نہ سوزِ جان نہ دردِ دل و جگر ہوتا

نہ سوزِ جان نہ دردِ دل و جگر ہوتا

اشہر اشرف 

نہ سوزِ جان نہ دردِ دل و جگر ہوتا
تمھارے ساتھ میں ہر دن حسیں بسر ہوتا

ہمارا جذبہ جنوں بھی صنم بدل جاتا
تمھارے حُسن میں لیکن کوئی اثر ہوتا

ذرا سا ہی سہی دل کو قرار مل جاتا
میری گلی میں کبھی آپ کا گزر ہوتا

جہانِ عشق میں بیمار بے شمار ملے
اے کاش ان کے لیے کوئی چارہ گر ہوتا

وفا کی بزم میں یہ رسم چلتی رہتی ہے
فریب کھاتا وہی ہے جو معتبر ہوتا

تجھے خدا سے دعا کر کے مانگ لیتا میں
اگر دعاؤں میں میری ذرا اثر ہوتا

کسی مے خانے میں اشہؔر کہیں پڑا رہتا
تری وفا کا نہ یہ آ سرا اگر ہوتا

اشہر اشرف کی یہ نگارش بھی پڑھیں :شاعری کیا ہے؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے