شاد عظیم آبادی کی شاعرانہ عظمت

شاد عظیم آبادی کی شاعرانہ عظمت

ڈاکٹر احمد علی جوہر
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، جے، این، کالج، نہرا، دربھنگہ، بہار

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا
اس معرکة الآراء شعر جس میں نہ جانے زندگی کے کتنے اسرار و رموز پوشیدہ ہیں کے خالق شاد عظیم آبادی ہیں- ان کا اصل نام ‘علی محمد’ اور تخلص ‘شاد’ تھا- وہ 1846ء کو محلہ پورب دروازہ عظیم آباد، پٹنہ میں پیدا ہوئے- ان کے والد سید عباس مرزا دادا سید تفضل حسین اور نانا نواب مہدی علی خان اپنے وقت کے ذی رتبہ، صاحب ثروت اور عالی مرتبت لوگوں میں تھے- شاد عظیم آبادی نے امارت اور ریاست کی آغوش میں آنکھ کھولی اور عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم اپنے زمانے کے لائق اساتذہ سے حاصل کی۔ شاعری میں الفت حسین فریاد عظیم آبادی کو اپنا استاد تسلیم کیا۔ شاد نے اپنی کچھ غزلوں پر صفیر بلگرامی سے بھی اصلاح طلب کی تھی اور میر انیس اور مرزا دبیر کی صحبتوں سے بھی فیض حاصل کیا تھا۔ حالی اور سرسید سے شاد عظیم آبادی کی ملاقات کا واقعہ بھی اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے۔
شاد عظیم آبادی کو اردو، فارسی اور عربی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ وہ انگریزی اور ہندی زبان سے بھی ضروری واقفیت رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شاد عظیم آبادی نے نظم و نثر کی چھوٹی بڑی تقریباً ساٹھ کتابیں یادگار چھوڑی ہیں. لیکن یہ اب بھی تحقیق طلب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی متذکرہ ساٹھ کتابیں ہنوز دست یاب نہیں ہیں۔ شاد عظیم آبادی کی مطبوعہ کتابوں کی فہرست اس طرح ہے۔ ‘نغمہ الہام’ مرتب حمید عظیم آبادی (1928) فروغِ ہستی ‘ (1957) فکرِ بلیغ (1974) کلامِ شاد مرتبہ قاضی عبدالودود (1995) کلامِ شاد حصہ اول، دوم، سوم (1922) کلیاتِ شاد حصہ اول، دوم، سوم مرتب کلیم الدین احمد (1975-75-78) لمعاتِ شاد مرتبہ فاطمہ بیگم (1964) میخانۂ الہام مرتبہ حمید عظیم آبادی، میخانۂ تغزل مرتبہ سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی (1954) مکتوبات شاد عظیم آبادی (1939) مراثی شاد مرتبہ حمید عظیم آبادی، مثنوی مادرِ ہند (1931) مثنوی نوید ہند (1887) پیر علی (ناول) مرتبہ نقی احمد ارشاد (1993) رباعیات شاد، سروش ہستی (قطعات کا مجموعہ) مرتبہ حمید عظیم آبادی، شاد کی کہانی شاد کی زبانی (خودنوشت سوانح حیات)، صورة الخیال (ناول )، تذکرہ شعراء مرتبہ سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی (1965)، زبورِ عرفان (1961) ظہورِ رحمت (1929) اور شاد عظیم آبادی کے سو شعر مرتبہ حمید عظیم آبادی (1937) وغیرہ۔ شاد عظیم آبادی کی ان تصنیفات کی فہرست سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اردو ادب کی کتنی غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔ اسی غیرمعمولی ادبی خدمات کے صلے میں سرکار نے انھیں ‘خان بہادر’ کے خطاب سے نوازا۔ شاد عظیم آبادی کو اپنے زمانے کا میر بھی کہا گیا۔ ایسے عظیم المرتبت شاعر کی آخری زندگی بڑی عسرت اور معاشی تنگ دستی میں گزری۔ حالاں کہ وہ کئ سال تک پٹنہ میں آنریری مجسٹریٹ بھی رہے۔ دراصل ان کی حد سے بڑھی ہوئی شرافت و حمیت اور خود داری نے انھیں دنیاداری اور دنیا سازی کے فن سے باز رکھا۔ اردو کا یہ عظیم شاعر 7جنوری 1927ء کو بھلے ہی ہمارے درمیان سے رخصت ہوگیا مگر اپنے کلام کے ذریعے وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔
شاد عظیم آبادی کی ادبی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ وہ نظم نگار اور نثرنگار دونوں ہیں۔ نثر میں انھوں نے تذکرہ، ناول اور خودنوشت سوانح عمری میں اپنی دل چسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شعری اصناف میں انھوں نے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، رباعی، قطعات وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ شاد عظیم آبادی نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی ضرور کی ہے مگر اردو ادب میں ان کی اصل حیثیت ایک عظیم المرتبت غزل گو شاعر کی ہے۔ ایسے بلند پایہ شاعر کو ایک زمانے تک اردو ادب میں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ اسی لیے شاد عظیم آبادی کو بھی غالب کی طرح اپنی زندگی میں اپنی ناقدری کا شکوہ رہا مگر ظاہر ہے ایسے بلند قامت شاعر کو آخر کب تک نظر انداز کیا جاتا۔ بالآخر وہ وقت آیا کہ اردو ادب میں شاد عظیم آبادی کے مقام و مرتبہ کو پہچانا گیا اور ان کے کلام کو داخلِ نصاب کیا گیا۔
شاد عظیم آبادی دبستانِ عظیم آباد کے بڑے قادر الکلام شاعر ہیں۔ انھوں نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ اور رباعی میں بھی اپنے کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔ مرثیہ میں انھوں نے میر انیس کا تتبع کیا اور خیال و زبان میں میر انیس جیسی لطافت، چاشنی اور تاثیر پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کی رباعیوں میں عارفانہ، متصوفانہ، فلسفیانہ، اخلاقی و اصلاحی، عشقیہ، خمریہ اور المیہ مضامین، جدت خیال، ندرتِ فکر، کیف و سرور، گہرائی و گیرائی اور لسانی انفرادیت، یہ تمام چیزیں موجود ہیں۔ دیکھیے شاد عظیم آبادی نے اپنی رباعیوں میں رشتوں کی نزاکت اور زندگی کے اسرار و رموز کو کس عمدہ پیرایے میں بیان کیا ہے اور فن رباعی کو کس بلندی پر پہنچایا ہے۔
تنہا ہے چراغ دور پروانے ہیں
اپنے تھے جو کل آج وہ بیگانے ہیں
بیرنگئ دنیا کا نہ پوچھو احوال
قصے ہیں کہانیاں ہیں افسانے ہیں

ساقی کے کرم سے فیض یہ جاری ہے
یا پیر خرابات کی غم خواری ہے
صف توڑ کے بٹ رہی ہے رندوں میں شراب
معلوم نہیں کہ مری کب باری ہے
شاد عظیم آبادی نے مرثیہ، رباعی اور قطعات وغیرہ میں بھی طبع آزمائی اور کمال کا مظاہرہ بھلے ہی کیا ہو لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے۔ وہ ایک منفرد و ممتاز اور اہم غزل گو شاعر ہیں۔ انھوں نے غزل کے علم کو اس وقت بلند کیا جب غزل کی گردن مار دینے کی بات کہی جارہی تھی۔ ایسے وقت میں شاد عظیم آبادی نے اپنے شعری طرزِ احساس، قوتِ متخیلہ اور خیال کی ندرت کے حسین امتزاج سے اردو غزل کو نیا روپ اور نئی شناخت دی۔ ان کا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے دور کے شعری رجحانات کو تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ شاد عظیم آبادی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے سکہ بند انداز میں اپنے آپ کو دلی یا لکھنؤ اسکول میں سے کسی ایک شعری دبستان سے وابستہ نہیں کیا بل کہ دونوں کی خوبیوں کو سامنے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں دہلی اور لکھنؤ کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ انھوں نے غالب اور مومن کے مقبول ترین رنگ کی بھی تقلید کی اور پھر اسی سے اپنا ایک منفرد رنگ پیدا کیا۔
شاد عظیم آبادی کا شمار اردو کے کلاسیکی شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا شعری لہجہ منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ موثر بھی ہے۔ انھوں نے قدیم شعری لہجے کی پیروی بھی کی ہے اور وہ اپنے دور کے جدید طرزِ اظہار سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں۔ شاد عظیم آبادی کی شاعری کا خاص وصف زبان و بیان کی صفائی و سادگی ہے۔ ان کے ہاں بندش میں روانی، چستی اور ہمواری پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جذبات کی پاکیزگی اور لطافت بھی شاد عظیم آبادی کی اہم شعری خصوصیت ہے۔
شاد عظیم آبادی نے غزل میں واردات قلبی کے اظہار کے ساتھ ساتھ اخلاقی، فلسفیانہ، عارفانہ اور توحید سے متعلق موضوعات کو بھی غزل میں سمویا ہے۔ ان کی شاعری میں داخلی رنگ کے ساتھ ساتھ خارجی رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں حمد، نعت اور منقبت کے مضامین کو اس طرح جگہ دی ہے کہ اس سے ان کی غزلوں میں انفرادیت اور ایک نئی معنویت پیدا ہوگئی ہے۔ شاد عظیم آبادی نے غزل کے بنیادی موضوعات عشق و محبت کی باتوں میں بھی اپنی ایک شناخت قائم کی ہے۔ ان کے عشق میں ایک والہانہ پن کی کیفیت ہے۔ وہ بڑی بے باکی سے کہتے ہیں:
ویران کیجئے کہ دلوں کو بسائیے
مے کش تمام آپ کے میخانہ آپ کا
شاد عظیم آبادی محبوب کے اس تجاہل عارفانہ سے آگاہ ہیں جو دلوں کو ویران کرتا ہے مگر ذہن سے اس کی یادیں کسی طرح محو نہیں ہوتیں۔ اس لیے کسی کی یاد شاد کے یہاں نگاہ ناز کی برچھی تو بنتی ہے مگر شاد اس راز سے بھی واقف ہیں کہ نیا فسوں ساز نئے انداز میں جلوہ گر ہوا ہے۔ وہ اپنے محبوب سے شکوہ و شکایت کی بجائے اپنے جذبوں کو اس طرح ادا کرتے ہیں:
پوچھو نہ حال چشمِ دل آویز یار کا
کھولو نہ راز گردشِ لیل و نہار کا
شاد کا عشق اس بنیادی انسانی فطرت سے متعلق ہے جہاں جنس کا ظہور مسلم قوت کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ شاد کی عشقیہ غزلوں میں اس رس کی کیفیت پائی جاتی ہے جو ہندوستانی نظریات کا پر تو ہے۔
جب کسی نے حال پوچھا رو دیا
چشمۂ تر تو نے مجھ کو کھو دیا
تجھ سے مایوس ہزاروں ہیں تصدق تجھ پر
تو سلامت رہے تجھ سے ہے تمنا باقی
شاد عظیم آبادی کی غزلیں سادگی اور گھلاوٹ، ترنم و شیرینی، کیف و سرور اور تازگی و تاثیر کی بدولت بے انتہا توجہ کے لائق ہیں۔ دیکھیے درج ذیل غزلوں میں شاد عظیم آبادی نے انسانی ہستی، اس کی حقیقت، عشقیہ واردات اور زندگی کے مختلف فکر و فلسفوں کو کس سادگی سے دل آویز پیرایے میں بیان کیا ہے۔
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
دل مضطر سے پوچھ اے رونقِ بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
اسیرِ جسم ہوں میعاد قید لامعلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
وہی اک عشق ہے ہرجا وہی اک حسن ہے لیکن
الگ شکلیں ہیں سب کی اور جدا سب کے فسانے ہیں
اپنی تو رات کٹ گئی نالوں کے شغل میں
کیسا رہا مزاج مبارک حضور کا
رہے ہرحال میں جو مطمئن جینا اسی کا ہے
پلائے جس کو خود پیر مغاں پینا اسی کا ہے
مذکورہ اشعار میں شاد عظیم آبادی کی فکری و فنی توانائی، ذہنی پختگی اور سنجیدگی کو بدرجہ اتم محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شاد عظیم آبادی کا اپنا ایک خالص رنگ ہے جو اردو شاعری میں کم یاب ہے۔
ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ترچھی نگاہیں, تنگ قبائیں, اف ری جوانی ہائے زمانے
کالی گھٹائیں, باغ میں جھولے, دھانی دوپٹے لٹ چھٹکائے
مجھ پہ یہ قدغن آپ نہ آئیں اف ری جوانی ہائے زمانے
شاد نہ وہ دیدار پرستی اور نہ وہ بے نشہ کی مستی
تجھ کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
شاد کی یہ پوری غزل اپنا منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے جو بےحد پرکشش ہے ۔ مذکورہ غزلوں کو پڑھ کر کہا جا سکتا ہے کہ شاد کا عشق اسی مادی و فانی دنیا کا عشق ہے لیکن ان کے عشق میں ایک قسم کی طرح داری پائی جاتی ہے ۔ شاد کو یہ احساس تھا کہ اس دنیا کا کاروبار یوں ہی چلتا رہے گا اور اس کی محفل اسی طرح رنگارنگ اور پرکشش بنی رہے گی۔
شاد عظیم آبادی کی غزلیں ان کے ذہن کی پختگی، مزاج کی شائستگی اور طرزِ فکر کی غماز ہیں۔ شاد عظیم آبادی نے عشقیہ مضامین بھی برتے ہیں اور محبوب کی پیکر تراشی بھی کی ہے لیکن انھوں نے معیار و وقار کا دامن تھامے رکھا ہے۔ کہیں بھی کوئی بات حد اعتدال سے متجاوز ہوکر نہیں کی ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے کلام میں متانت و سنجیدگی کی فضا اور پروقار لہجہ کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
شاد عظیم آبادی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زبان کو کبھی بھی دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں میں مقید نہیں کیا، بل کہ دونوں سے زبان کی ہمواری، محاوروں کے استعمال، روزمرّہ کی برجستگی، لفظوں کے دروبست اور ان کی معنوی قدر و قیمت سے بھرپور استفادہ کیا۔ شاد عظیم آبادی صنائع و بدائع کے استعمال کو تو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتے، البتہ کہیں کہیں رعایت لفظی سے کام ضرور لیتے ہیں۔ شاد عظیم آبادی کی غزلوں میں تخیل کی بلندی، بیان کی تاثیر و روانی، نغمگی و نیرنگی، برجستگی، سوز و گداز، فصاحت و بلاغت اور حکیمانہ طرزِ ادا یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ شاد کی غزل گوئی اپنے انفرادی لب و لہجے کے باعث اردو کی غزلیہ شاعری میں ایک اہم اور منفرد آواز بن کر گونج رہی ہے. 
یہ بزمِ مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
یقیناً شاد عظیم آبادی نے غزل کے مے کدہ میں خود بڑھ کر ہاتھ اٹھایا اور غزل کے مینا کو لیے غزل کی دنیا میں اس طرح نمودار ہوئے  اور ایسی چھاپ چھوڑی کہ آج اردو غزل میں ان کی شاعرانہ عظمت مسلم ہے.

صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : نظم "برق کلیسا" کی تشریح

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے