گلشن ہستی نکھر کے پھر تر وتازہ ہے اب

گلشن ہستی نکھر کے پھر تر وتازہ ہے اب

مرغوب اثر فاطمی
گیا بہار انڈیا

گلشن ہستی نکھر کے پھر تر وتازہ ہے اب
مطلع فکر رسا شفاف اور سادہ ہے اب

بڑھ رہے ہیں ہاتھوں ہاتھ اب بزم میں جام نشاط
ڈھل رہا آنسو کے بدلے جوش کا بادہ ہے اب

اپنے اپنے راستے ہم چل دیے پھر کیا گلہ
درمیاں ٹوٹے دلوں کے کون سا رشتہ ہے اب

ہاں مگر جن پر کہ تھا تاریخ کا دار و مدار
تنگ ہوتا اُن پہ ہی زنجیر کا حلقہ ہے اب

کھل گئے تھے جب فصیل دل کے دروازے تمام
شہر پر اس ساعتِ نا سعد کا سایہ ہے اب

سوئے تھے صدیوں سے جو کوہِ گراں کی چھاؤں میں
ہاتھ میں اُن کے عمل کا آہنی تیشہ ہے اب

تھے سیاسی زلزلوں کی زد پہ ایوانِ رفاہ
سو کہاں ثابت و سالم ایک بھی پایہ ہے اب

دھند میں ماضی کی گم گشتہ ہوے مال و متاع
افتخارِ حکمت و حرفت ہی سرمایہ ہے اب

شیشۂ ذوقِ ادب پر گرد کی تہہ دیکھ کر
حرفِ جدت کا اثر چہرہ سراسیمہ ہے اب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے