اسوۂ ابراہیمی اور شیوۂ آزری

اسوۂ ابراہیمی اور شیوۂ آزری

محمد ابوبکر عابدی، قاسمی ندوی
محلہ کریم باغ، گاڑھا پوپری، سیتامڑھی

سیدنا ابراہیم علیہ السلام دنیا میں اس وقت تشریف لائے جب معصیت کا بازار ہر طرف گرم تھا، گھر سے لے کر باہر تک ساری دنیا صرف بت سازی کے کاروبار میں مصروف تھی، خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ آزر بت پرست ہونے کے ساتھ ایک بڑے ماہر بت تراش تھے، پورا ماحول اسی بت پرستی اور بت سازی کی لعنت میں گرفتار تھا، حرص و ہوس سے جکڑے ہوئے اس ماحول میں ابراہیم علیہ السلام نے آنکھ کھولی، انھوں نے اپنی حقیقت آشنا نگاہوں سے اس گھٹتے ہوئے انسان کو دیکھا جو اپنی ساری صلاحیتوں کو پتھر اور لکڑی پر صرف کررہا تھا تو ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خداداد صلاحیت اور اپنی فطری قوت سے ان تمام مادی طاقتوں کو چیلنج کیا اور انھوں نے حرص و ہوس کی اندھی تقلید پر احتجاج کیا اور اپنے باپ آزر کو اس بے راہ روی سے باز رہنے کی فہمائش کی، جس پر آزر نے اپنے بیٹے کی بات ماننے سے انکار کردیا اور یہ صاف صاف اعلان کردیا ” قال اراغب أنت عن آلهتي يا إبراهيم، لئن لم تنته لأرجمنك واهجرني مليا ” ( مریم: 46) لیکن ابراہیم علیہ السلام ہر طرح کی دھمکی اور خطرے سے بے پروا ہوکر اپنے کام میں مشغول رہے.
ابراہیم علیہ السلام نے ہر خطرہ کو دعوت دی اور ہرمخالفت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوئے، آگ کے دہکتے ہوئے شعلوں میں اپنی جان کو فنا کردینے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا، جس کا انجام یہ ہوا کہ مخالفین پسپا ہوگیے، دشمن شکست کھاگیے اور آگ کے دہکتے ہوئے شعلے گل و گل زار بن گیے، ابراہیم علیہ السلام صرف ایک ماحول یا ایک قوم اور معاشرہ کے باغی نہیں تھے بل کہ وہ اس زمانہ کے باغی تھے جو اپنا حقیقی راستہ بدل کر وسائل کی راہ پر گام زن تھا اور اسی کو اپنی معراج اور حقیقی کام یابی کا راستہ سمجھ رہا تھا، تو انھوں نے آکر اعلان کیا کہ اے اہل زمانہ! تم نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ تمہاری خودی اور تمہارے مرتبہ کے کسی طرح شایانِ شان نہیں ہے، تم اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بت سازی و بت پرستی میں مشغول ہو، تم انسان ہوکر ان مجسموں کے آگے جھکتے ہو جو تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتے، بل کہ وہ ہر وقت تمہارے ہی محتاج رہتے ہیں پھر تم کیسے اس کی عبادت کرتے ہو

میرے بھائیو! فتنہ آزری آج سے ہزاروں سال قبل پیدا ہوا تھا، لیکن آج پھر وہ تازہ دم ہے اور ساری دنیا کو اپنے تیز رو سیلاب کی زد میں لے چکا ہے، اگر پہلے ایک آزر تھا تو آج لاکھوں آزر پیدا ہوچکے ہیں، آج کے آزروں کی اولاد مارکس و اسٹالن، خروثحیف و بلگانن ہیں، اگر اس آزر نے سنگ سار کرنے کی دھمکی دی تھی تو آج کے آزر لاکھوں ابراہیمیوں کو گولی کا نشانہ بنا چکے ہیں اور دار کے تختوں پر لٹکا چکے ہیں، اور آزر کا طوفان اتنا بلاخیز نہیں تھا جتنا اس کے متبعین اور آج کے آزروں کا ہے.
اس وقت دنیا مادیت کے سامنے اسی طرح سر بہ سجود اور اسباب و وسائل کی پرستش میں اسی طرح مشغول و منہمک ہے جس طرح ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھی، بل کہ آج اس مادیت کا دھارا پہلے سے زیادہ تیز ہے، پہلے مٹی اور پتھر کے بت پوجے جاتے تھے لیکن آج سونے چاندی کے بت اور تہذیب و تمدن کے بت اور قومیت و وطنیت کے مجسموں کی پرستش میں دنیا پوری طرح ڈوبی ہوئی ہے اور مختلف ناموں سے نفس کی پرستش میں لوگ مصروف ہیں.
آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ہرچیز کی شکل بدل گئی ہے اور ہر پہلو سے آزری فلسفوں کی خدمت ہورہی ہے، یہی وہ وقت ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پیروؤں کو بت شکنی کے لیے کمربستہ ہونا چاہیے، آج ابراہیم جیسا ایمان، ابراہیم کی سی ہمت و جرأت اور ابراہیم جیسا اخلاص چاہیے جو مادیت کے فلسفوں میں جکڑی ہوئی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کا مداوا کرسکے اور اس کو بچا سکے.
موبائل نمبر : 8271507626

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے