سنت ابراہیمی قربانی کی احتیاط ہم کیا کریں کیا نہ کریں

سنت ابراہیمی قربانی کی احتیاط ہم کیا کریں کیا نہ کریں

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور*

دنیا کے سبھی مذاہب میں عبادت کا تصور پایا جاتا ہے اور سبھی مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذاہب کے اعتبار وعقیدے اور احکام کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ عبادت کو سمجھنے کے لیے لفظِ ’’عبادت‘‘ کو سمجھنا ہوگا،عربی میں’’عبد‘‘ غلام اور بندے کو،’’عبادت‘‘ غلامی اور بندگی کو کہتے ہیں، قرآن مجید کی مشہور آیت مبارکہ: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ والْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْ نِ :۔ ترجمہ: اور میں نے جن اورآدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔(القرآن،سورہ الذاریت،:51آیت56)۔
اس کی ترجمانی مولانا رومی علیہ الرحمہ یوں فرماتے ہیں کہ زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شر مندگی
بندے کو اللہ رب العزت سے اِنتہائی درجے کی محبت ہو، اُس سے انتہائی درجے کی عاجزی وانکساری ہو، بندہ اللہ کے سامنے بچھ جائے، اپنے آپ کو اس کے آگے پست کردے، اس کے ہر حکم کے سامنے بہت عاجزی سے ہاں کردے وغیرہ وغیرہ۔
عبادت کی بہت سی قسمیں ہیں،’’قربانی‘‘ بھی عبادت ہے، مذہبِ اسلام کا شعار ہے،سنت ابراہیمی ہے۔ اسلام کے بہت سے ارکان اس کے ماننے والوں سے قربانی چاہتے ہیں جیسے حج، حج کی حقیقت قربانی ہے۔ حج کے لیے آدمی سفر کرتا ہے جو وقت کی قربانی ہے، اس کے اخراجات برداشت کرتا ہے جو مال کی قربانی ہے، جانور ذبح کرتا ہے جو جان کی قر بانی ہے، سعی،طواف اور عبادت جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی توجہات، رغبت ہر طرف سے سمیٹ کر صرف اور صرف ایک اللہ کے لیے وقف کردے. یہی قربانی ہے جس کا اعلان آپ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فر مایا.
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ۔۔۔۔۔۔ الخ۔ ترجمہ: میں نے ہر باطل سے جدا ہوکر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔(القرآن سورہ الانعام،6: آیت 79)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹے معبودوں سے بیزاری ظاہر کر نے کے بعد اپنا عقیدہ اور دینِ حق کا اعلان فر مادیا!۔ تو رب تبار ک وتعالیٰ نے بھی اُن کے پاس ہونے اور اِمتحان میں کام یابی کی خوش خبری سنائی! وَاِذِابْتَلٰٓی اِبْرٰھِمَ۔۔۔۔۔ الخ۔تر جمہ: اور یا دکرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انھیں پورا کر دیا( اللہ نے) فر مایا: میں تمھیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔(ابراہیم نے) عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی۔: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔(القر آن، سورہ البقر،2:آیت124)۔
یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فضل وشرف کے معترف اور آپ کی نسل میں ہونے پر فخرکرتے ہیں۔ اِبتلا آزمائش کو کہتے ہیں،خدائی آزمائش یہ ہے کہ بندے پر کوئی پابندی لازم فرما کر اس کے کھرے کھوٹے ہونے کا اظہار کر دیا جائے۔
آپ کی آزمائش کی ایک لمبی داستان ہے جو ایک چھوٹے سے مضمون میں ممکن نہیں۔ آپ کی آزمائش میں بہت سے شرعی احکام بھی ہیں جو اس وقت کے شرکیہ ماحول میں بہت مشکل تھے، لیکن آپ نے اللہ کے حکم پر عمل فر مایا، راہِ خدا میں آپ کی ہجرت (وطن کو ہمیشہ کے واسطے چھوڑ دینا، کنبہ سے جدا ہونا،) بیوی بچوں کو بیابان میں تنہا چھوڑنا، بیٹا کی قربانی وغیرہ وغیرہ سب شامل ہیں۔
امامت سے مراد نبوت نہیں، کیوں کہ نبوت پہلے ہی مل چکی تھی۔ تبھی تو آپ کا امتحان لیا گیا، بل کہ اس امامت سے مُراد دینی پیشوائی ہے۔ (لمبی تفسیر جلالین شریف میں صاحبِ جلالین نے بیان فرمائی ہے)۔
قربانی سُنتِ ابراہیمی ہے: آقا ﷺ سے پوچھا گیا: ماھذہ الاضیاحیہ:قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمِ۔تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔(احمد،نسائی، ابن ماجہ) رب تبارک وتعالیٰ نے آقا ﷺ کو قر بانی کا حکم دیا۔ فَصَلِّ لِرَبِّک وَانْحَرْ۔تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (القرآن،سورہ الکوثر:108آیت:2۔کنز الایمان)۔
نبی کریم ﷺ نے قربانی کی سنت ابراہیمی پر مُداومت (ہمیشہ کرنے والا عمل، کسی عمل پر قائم رہنا، پابندی کرنا۔) فرمائی حضور ﷺ نے فر مایا: عید کے دن خطبہ دیتے ہوئے فر مایا کہ پہلا کام جو ہم آج کے دن (عید الاضحٰی)میں کرتے ہیں، یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آکر قربانی کریں ۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہمارے طریقے پر چلا۔( صحیح بخاری،حدیث:951,5545,)۔
حجۃالوداع کے موقع پر آپ نے حج کی قربانی کی پھر آپ ﷺ نے 100سو اونٹ ذبح کر نے کے ساتھ عید الاضحٰی کی قربانی بھی کی۔ اپنی طرف سے ایک بکری، ازواجِ مطہرات کی طرف سے ایک گائے ذبح فر مایا۔
قر بانی کے بے شمار فضائل ہیں، اس پر بہت ثواب کی بھی خوش خبری ہے۔(زیادہ جان کاری کے لیے بہار شریعت، ج15، کا مطالعہ فر مائیں) قربانی کے جانور کی تین قسمیں ہیں(1)اُونٹ(2) گائے(3) بکری۔ چاہے یہ سب نَر ہوں یا مادہ، خصی ہو یا غیر خصی، بھینس گائے میں شمار ہے اور بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہے، ان کی بھی قربا نی جائز ہے۔
ملک کے موجودہ حالات میں ہم قربانی کیسے کریں؟
ہمارے ملک کا قانون ہر شخص کو مذہبی آزادی دیتا ہے، دیتا تھا. افسوس اب یہ صرف قانونی جملہ بن کر رہ گیا ہے. (اس پر بہت کچھ لکھا گیا لکھا جانا چاہیے)۔ قربا نی کے بڑے جانوروں میں گائے بیل بھی آتے ہیں، پہلے ان کی قربانی عام طور سے ہوتی تھی، زیادہ دشواری نہیں تھی، لیکن اب اس معاملے نے بہت ہی خطر ناک رُخ اختیار کر لیا ہے. ذرا ذرا سی بات میں گائے بیل کے نام پر مسلمانوں کو بے دردی سے لنچینگ(قانونی اختیار کے بغیر کسی کو جان سے ماردینا)، جان سے ماردینا ایک عام بات ہوگئی ہے.
سینکڑوں مقد مات عدالتوں میں چل رہے ہیں، انصاف کی اُمید فضول ہے. کیوں کہ اب عدلیہ بھی فرقہ پرست کے ہا تھوں دبی کراہ رہی اور سسکیاں بھر رہی ہے. زیادہ تر سخت عناصر منصف من مانی کررہے ہیں ۔آپ دن رات دیکھ اور سن رہے ہیں۔
پہلی بات عبادت کا طریقہ یہ ہے کی خوش دِلی اور صاف وشفاف طریقے سے حلال وحرام کی تمیز کے ساتھ عبادت کے ارکان اداکرے. جب گائے اور بیل کے ذبیحہ پر پابندی ہے تو پھر کیوں چوری چھپے ایسی قربانی کرتے ہیں، کچھ لوگ ان ممنوعہ جانوروں کی قر بانی چوری سے کرتے ہیں اور بعد میں بڑی بڑی ڈینگیں مارتے ہیں. ہم نے ایسا کیا ویسا کیا، کئی سالوں سے اس جرم میں نادان مسلمان پکڑے جارہے ہیں.
گزشتہ سال جھار کھنڈ، رام گڑھ کے گاؤں گوپال پور میں، لاتیہار بہار، اُناؤ یوپی، مہاراشٹر میں کئی جگہ بھولے بھالے، نادان، ناسمجھ،( یہ سب غلط،ضدی،ہٹ دھرم لوگوں) نے ممنوعہ جانوروں کی قر بانی کی، خود بھی قانونی چارہ جوئی میں پھنسے، کئی لوگوں کی جانیں گئیں اور فسادات میں مسلمانوں کی تباہی الگ ہوئی۔ خدارا، خدارا، خدارا ایسی بے وقوفی قطعاً، ہرگز، ہرگز نہ کریں۔
قربانی کی عبادت آپ پر حیثیت کے اعتبار سے واجب ہے، نہ ہی قرض لے کر قربانی کرنا ہے، نہ ہی چوری چھپے قربانی کرنا ہے، نہ ہی دکھاوا کے لیے قربانی کرنا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:لَنْ یَّنَا للّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا۔۔۔۔۔الخ۔ترجمہ: اللہ کے یہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، البتہ تمھاری طرف سے پرہیز گاری اس کی بار گاہ تک پہنچتی ہے۔(القرآن،سورہ،حج22: آیت37)۔
آپ کاتقویٰ، آپ کی نیک نیتی، آپ کا خلوص بار گاہِ الٰہی میں پہنچتاہے۔ اور وہ نیتوں کو خوب جاننے والاہے۔
ممنوعہ جانوروں کی قربانی ہرگز نہ کریں:
جن جانوروں پر حکومت ہند اور عدلیہ کی جانب سے پابندی ہے، قطعی، قطعی، اِن جانوروں کی قربانی نہ کریں، خواہ بنگال ہو، یا کیرل ہو، کب کہاں آگ لگ جائے کہا نہیں جاسکتا. گزشتہ سال بنگال کا واقعہ عبرت کے لیے کافی ہے۔
جن جانوروں کی قر بانی کی اجازت ہے اُس جانور کو بھی آپ تماشہ نہ بنائیں، بکرا خریدیں، گڈ ڈے بسکٹ خرید کر کھلائیں، فوٹو لیں اخباروں میں شائع کرائیں، سو شل میڈیا میں ویڈیو ڈالیں ،اس طرح آپ کی قربانی رائیگاں جائے گی. خدا کے واسطے خوش دلی، سمجھ داری سے قربانی اور قربانی کے گوشت میں برادرانِ وطن کو حصہ نہ دیں، نہ کھلائیں کہ ان کو کھلائیں گے تو وہ ہمارے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے یہ بالکل غلط سوچ ہے۔
گذشتہ سال یوپی، راجستھان اور کئی جگہوں سے لوگوں نے پوچھا کہ پڑوسی ہندو ہے اسے قر بانی کا گوشت دے سکتے ہیں یا پکاکر کھلا سکتے ہیں، مجبوری ہے. استغفراللہ، استغفراللہ!۔ ایسانہ کریں اس قوم سے بھلائی کی امید آج کے ماحول میں بالکل نہ کریں، اپنی سمجھ داری، ہوشیاری، تیاری سے رہیں نہ کہ دلی فساد کی طرح لوگ گھیر کر مار کاٹ کریں، آپ رحم کی بھیک مانگتے رہیں؟
اللہ پر بھروسہ رکھیں، ان سے رواداری، رعایت کا رویہ، اخلاق ضرور برتیں اسلام میں اخلاق کی بہت اہمیت ہے۔ نہ کہ عبادت میں شمولیت. یہ رواداری نہیں، خداکے واسطے ماڈرن افطار پارٹیوں کی طرح نہ کریں. افطار میں علاقہ کے ہندو نیتاؤں کو بلائیں خوب ٹھوسائیں(کھلائیں) پھر وہ آپ کے ساتھ نماز میں بغل میں کھڑے ہو جائیں اور آپ خوب بلے ،بلے کریں، فوٹو دیکھاتے پھریں، سوشل میڈیا میں اپ لوڈکریں ،صرف جھوٹی واہ واہی لیں’’نعوذبااللہ من ذالک‘‘ ایسی عبادتیں منھ میں ماردی جائیں گی اللہ قبول نہیں فر مائے گا۔
قربانی ضرور کریں اس کا نعم البدل نہیں:
فتنہ کا زمانہ ہے. نئے نئے مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں، قربانی کیا ضروری ہے، مسلمان اس رقم سے ہاسپیٹل تعمیر کریں، فلاں فلاں کام کریں جیسے بی جے پی کی لیڈر نجمہ ہبت اللہ نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اعلان کیا تھا، یا اور لوگ بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں کہ میں قربانی نہیں کروں گی وغیرہ۔
یہ سب تک بندی شریعت اسلامی میں نہیں چلتی ، ایک قربانی نہ کرنے والا سینکڑوں غریبوں کو کھانا کھلا دے، کیا قربانی نہیں کرنے کا وہ بدلہ ہوجائے گا کبھی نہیں۔
کیا ایک وقت نماز نہیں پڑھنے والا کروڑوں روپیے غریبوں کو بانٹ دے تو نماز چھوڑنے کا بدل ہو جائے گا، ہر گز ہر گز نہیں، کیا جس پر حج فرض ہے اور وہ حج جیسی فرض اہم عبادت کو نہ کر کے ایک اسکول بنادے کہ قوم کے بچے تعلیم حاصل کریں گے۔کیا حج معاف ہوجائے گا یا وہ اسکول اس کا نعم البدل ہو جائے گا. ہرگز ہرگز نہیں، کیا لاکھوں روپیے زکوٰۃ نہ دینے والا پچاسوں ہزار روپیے کسی غریب کے علاج پر خرچ کردے، توزکوٰۃ نہ اداکرنے کے گناہ کا بدل ہو جائے گا؟ العیاذ باللہ کبھی نہیں ہر گز ہرگز نہیں.
اسی طرح جس پر قر بانی واجب ہے ،وہ قربانی نہ کر کے کسی غریب کی بچی کی شادی کرادے تو اس کی قر بانی نہ کرنے کا گناہ اس کو بچالے گا؟ مذہب اسلام کا قانون شریعت کسی کے باپ کی جاگیر نہیں جیسے چاہے اس کوبدل دے، شریعت کسی کی طبیعت کا نام نہیں، اسلام کا قا نون ہے۔
رسول کریم ﷺ نے فر مایا جس پر قربانی واجب ہے اور اس نے قربانی نہیں کی وہ ہماری عید گاہ نہ آئے، توبہ، توبہ اللہ بچائے، آپ ﷺ نے فر مایا ابن آدم کو کوئی عمل عید کے دن قربانی سے افضل نہیں(فرائض عبادت کو چھوڑ کر)۔
قربانی کا تصورہندو مذاہب میں بھی موجود ہے:
’’رامائن میں راون کے دست برد سے واپس آنے پر گنگا کے کنارے پانچ سو گائے قربان کرنے کا ذکر موجود ہے مطالعہ کریں،(ماڈرن ہیلتھ واسلامی ذبیحہ کی حکمتیں سائنس کی روشنی میں۔سہ روزہ دعوت دہلی،17اپریل1997،فلسفہ قربانی کی بہت معلوماتی اور دل چسپ باتیں موجود ہیں) اللہ پاک ہم سب کو اسلامی شعار قربانی کرنے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین.

*خطیب و امام مسجد ہا جرہ رضویہ
اسلام نگر کپالی وایا مانگو
جمشیدپور جھارکھنڈ، پن کوڈ 831020
hhmhashim786@gmail.com
رابطہ :09279996221

صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں : کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ،صحت کے لیے اِنتہائی خطرناک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے