سانسوں کے درمیان

سانسوں کے درمیان

بیگ احساس

وہ عجیب سی ذہنی حالت میں جی رہا تھا۔
ایسی حالت جس میں وہ معمول کے مطابق ہر عمل کررہا تھا لیکن وہ عمل اس کی یادداشت کا حصہ نہیں بن رہا تھا۔ خواب خواب کیفیت ، جیسے بہت زیادہ نشے میں ہو. سب کچھ یاد رہتا ہے لیکن کہیں کہیں درمیانی کڑیاں غائب ہوجاتی ہیں۔ سب کچھ نظر آتا ہے لیکن دھندلا دھندلا ۔۔۔ وہ گفتگو بھی کرتا تھا۔ جواب بھی سنتا تھا لیکن الفاظ گہرے کنویں میں گرتے جاتے اور آواز اندر سے آتی مبہم مبہم سی ۔۔۔ وہ چلتا تھا لیکن جیسے زمین سے دو اِنچ اوپر چل رہا ہو۔۔۔
وہ آفس میں بیٹھا کسی اہم فائل سے جوجھ رہا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ اس کا فون ہے۔ اس فون کو سننے کے بعد وہ اس کیفیت میں پہنچ گیا تھا ایک عجیب سے زون میں !
دو باتیں پورے حواس پر غالب تھیں۔
ابا پر دورہ پڑا ہے۔ وہ شہر کے سب سے بڑے سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹل کے ICU میں ہیں۔ وہ ہسپتال پہنچا۔ دھندلے دھندلے چہرے ، جانی پہچانی آوازیں ، تسلیاں ، دلاسے ، وارڈ بوائز ، نرسیں ، لفٹ ۔۔۔ آئی سی یو کا دروازہ ، دربان ، ابا کی بند آنکھیں۔ ناک میں نلیاں ، آکسیجن ، ماسک ، گلوکوز ، ڈسپوزیبل انجکشن ، گلاؤزیس ، ای سی جی کے مشین کے اسکرین پر دوڑتی ہوئی ٹیڑھی میڑھی لکیریں۔ نبض کی رفتار بتانے والے ڈوبتے اُبھرتے ہندسے ۔۔۔ پھر ماضی کی مٹی مٹی سے تصویریں ۔۔۔ ہر تصویر ابا کے کلوز اپ پر ختم ہوتی۔ کلوز اپ بڑھتے بڑھتے صرف آنکھیں رہ جاتیں ، بند آنکھیں ۔۔۔!!
پھر ابا نے آنکھیں کھولیں اور آنکھوں نے اسے پہچانا بھی۔ آنکھیں کھلتے ہی منظر واضح ہونے لگا۔ الفاظ کنویں سے باہر آئے۔ آوازیں صاف سنائی دینے لگیں ، ابہام کی تہیں کھلیں۔ لفظوں سے جملے بنے ۔۔۔ اس کے پیر زمین سے لگے۔ پیروں کے نیچے بڑا خوب صورت فرش تھا۔ ٹھنڈا ۔۔۔ !! اب سب کچھ فوکس میں تھا ۔۔۔ وہ کمرہ بہت خوب صورت تھا خوب صورت بیڈ تھا۔ جس پر ابا لیٹے تھے۔ سفید چادر ، نرم تکیے ، ابا کا وجود اب بھی نلکیوں سے جڑا ہوا تھا ، آنکھیں بند تھیں۔ ایک طرف ایک خوب صورت تخت بچھا ہوا تھا۔ ایک گوشے میں ٹی وی رکھا تھا۔ ایک بالکنی جیسا حصہ تھا جس میں بید کی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ شیشے کی ٹیبل پر تازہ پھولوں بھرا گلدستہ ۔۔۔ شان دار پردے ، ایرکنڈیشنر ، اٹیچڈ باتھ روم ، شاور ، گیزر ، ٹائلز ۔۔۔! اس پورے کمرے میں اگر کوئی شے بے تکی تھی اور کمرے کے ساز و سامان کے ساتھ میل نہیں کھارہی تھی تو وہ ان دونوں کے وجود تھے۔ وہ اور اس کی بیوی !! معمولی سے میلے کچیلے کپڑے ، پرانی سستی گھسی ہوئی چپلیں ۔۔۔ اُلجھے ہوئے بال ، ستے ہوئے چہرے۔ اس نے کمرے کو دیکھا۔
’’ہم یہاں کیسے آگئے۔۔۔‘‘ اس نے بیوی سے پوچھا۔
’’ICU سے بابا کو یہاں منتقل کیا گیا ، پیئنگ روم میں‘‘۔ اس کی بیوی نے حیرت سے کہا۔
’’پیئنگ روم میں!‘‘
اس کا ہاتھ بے اختیار اپنی جیب کی طرف گیا۔ کافی اچھی رقم جیب میں موجود تھی۔
دھند چھٹ گئی تو کئی چہرے واضح ہوئے ، اس کی بہن کا چہرہ ، بھانجے کا چہرہ ، دوست کا چہرہ۔۔۔ چھوٹے بھائی کا چہرہ جو ریاض میں رہتا ہے ۔۔۔ ٹیلی فون ، دستک ، ہنڈی والا ۔۔۔ نوٹوں کے بنڈل ۔۔۔ تب ہی تو سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹل ، ICU اور ابا نے آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اس کے پیر بھی زمین سے لگے ورنہ ۔۔۔؟
اس نے کمرے میں لگے آئینے میں خود کو دیکھا ۔۔۔ وہ تو یہاں کے تیسرے درجے کے ملازم سے بھی بدتر لگ رہا تھا۔ اسے بڑی شرم محسوس ہوئی ۔۔۔ اب تو ابا خطرے سے باہر آگئے ہیں۔ اپنی بیوی سے کچھ کہے بغیر وہ نیچے گیا۔ پہلی بار اس نے ہسپتال کی لابی کو غور سے دیکھا۔حالاں کہ وہ ان تین دنوں میں کتنی بار یہاں سے گزرا تھا۔ لیکن اس کا وجود زمین سے دو انچ اوپر تھا ۔۔۔ کیا شان دار ہال تھا۔ چھت سے لٹکا ہوا خوب صورت شینڈلیر ، چکنا فرش ۔۔۔ صوفے ۔۔۔ خوب صورت لڑکیاں اور خوب رو لڑکے مختلف کاؤنٹرس پر بیٹھے تھے بالکل کسی فائیو اسٹار ہوٹل کی طرح ۔۔۔ وہ باہر نکل آیا۔ شیو بنوایا ۔۔۔ کچھ ڈھنگ کے کپڑے ضروری ہیں ۔۔۔ کتنا بُرا لگ رہا ہے ، وہ ہسپتال وہ کمرہ ۔۔۔ اپنے لیے ایک کرتا پاجامہ خریدنے کے لیے دکان میں گھسا تو ایک اچھی سی شرٹ اور پینٹ بھی دکان دار نے پیاک کردیے۔ ایک اچھی سی چپل خریدی۔ بیوی کی چپلیں بھی گِھس گئی تھیں اس کے لیے بھی چپل خریدی۔ ایک اچھی سی میکسی اس کا بھی بھرم رکھ سکتی ہے۔ یہ سب کرکے وہ جلد ہی واپس آگیا۔ پتہ نہیں کب اس کی ضرورت پڑ جائے۔ ابا سکون سے سو رہے تھے۔ پہلے وہ نہانا چاہتا تھا۔ باتھ روم دیکھ کر اسے گدگدی سی ہونے لگی۔ اس نے گیزر آن کیا۔ پہلی بار اس نے خود کو آئینے میں بے لباس دیکھا تھا۔ زمین پر بھیجا ہوا آدم ، شاور کھولا۔ نیم گرم پانی کی بوندیں ایک بے آواز آہنگ پیدا کررہی تھیں۔ اوپر تک یہ آہنگ پہنچا۔ ایک تصویر بنی۔ پتہ نہیں کب سے یہ لاشعور میں آکر چھپ گئی تھی کوئی میگزین ، کوئی فلم کا منظر ۔۔۔ ایک مرد اور ایک عورت شاور کے نیچے بے لباس نہا رہے تھے۔ اسی دھندلی سی کیفیت میں اس نے کمرے میں موجود عورت کو آواز دی۔ بڑے پس و پیش کے بعد وہ تصویر بن پائی۔ شاور کی پھوار کے نیچے دو بے لباس بدن ۔۔۔ اس عورت کے بدن میں کتنا کساؤ ہے۔ وہ کسی کی موجودگی کا خوف بھی دلارہی تھی۔ مزاحمت بھی کررہی تھی اس کی بیوی تو ایک دم سرینڈر ہوجایا کرتی ہے۔ اس پر وہی کیفیت طاری ہونے لگی۔ وہ اس زون میں پہنچ گیا۔ لفظ کنویں میں گرتے جارہے تھے۔ سرگوشیاں گونج میں تبدیل ہورہی تھیں۔ اس کا وجود زمین سے اوپر اُٹھ گیا تھا۔ اس دھندلی فضا میں ایک عورت کا بدن تھا ، صرف بدن ۔۔۔ اسی کیفیت میں بھیگے جسموں کے ساتھ وہ تخت پر گر گئے ۔۔۔ طوفان تھما تو پیر زمین سے لگے۔ اس نے اپنی بیوی کو چادر سے ڈھک دیا خود باتھ روم میں گھس گیا۔ آہستہ آہستہ اپنی دنیا میں لوٹنے لگا۔ اسے احساس ہوا کہ لوگ ہنی مون کیوں مناتے ہیں۔ کتنے عرصے بعد آج وہ ایک حقیقت تک پہنچا تھا۔ کتنے راز عیاں ہوئے تھے۔ کتنے زاویوں سے باخبر ہوا تھا۔ کتنی پرتیں اس نے ہٹالی تھیں۔ یہ لمحے اس کی زندگی میں نہ آتے تو اس کا اپنا سب کچھ اس چھوٹے سے کمرے کی تاریکی میں دفن ہوکر رہ جاتا۔ اچھا ہوا کہ اس پورے عمل میں ابّا بیدار نہیں ہوئے۔ وہ خوف سے کانپ گیا۔ نہاکر اس نے نیا کرتا پاجامہ پہنا ابّا کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ وہ سکون سے سو رہے تھے ۔۔۔ مشین پر بنتی لکیروں کی لہروں میں تناسب تھا۔ وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ ایک نئی قسم کی سرشاری تھی۔ اس کی بیوی بھی نہاکر آگئی۔ نئی میکسی پر بہت جچ رہی تھی۔ اس نے بیوی کو قریب بلایا۔ ایک ہلکا سا بوسہ !!
’’اگر ابّا کی آنکھ کھل جاتی تو ؟‘‘ اس کی بیوی نے شرماتے ہوئے کہا۔
وہ ہنسنے لگا ۔۔۔ ’’آپ پر تو جیسے کوئی بھوت سوار ہوگیا تھا‘‘۔ اس کی بیوی نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
’’تم بیٹھو یہاں میں چائے کے لیے کہہ آتا ہوں۔۔۔‘‘
اس نے باہر نکل کر انچارج نرس سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ وہ فون پر کینٹین کا نمبر ملاکر آرڈر کردے۔ اس نے یہی کیا ۔۔۔ پورا ٹی پاٹ آگیا۔ ڈکاکشن ، دودھ ، چینی ۔۔۔ اس نے دو پیالی چائے پی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بیرہ بل لے آیا۔ اس نے پیسہ دینا چاہا تو بیرے نے کہا وہ صرف سائین کردے حساب بعد میں ہوگا۔۔۔
شام ہورہی تھی ، وزیٹرس ٹائم شروع ہونے والا تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس سے قبل کہ بچے یہاں آجائیں وہ گھر جائے گا۔ بچوں کا حلیہ درست کرنا ضروری تھا ۔۔۔ وہ بچوں کو بازار لے گیا۔ صرف عیدوں کے موقع پر یا خاندان میں کوئی اہم شادی ہو تو وہ کپڑے خریدتے تھے۔ بچوں کو حیرت ہوئی۔ ایک اچھی سی ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان پہنچ کر اس نے بچوں سے کہا کہ وہ اپنے لیے کپڑے پسند کریں۔ اس کی بیٹی نے جھجکتے ہوئے کہا وہ جینس اور ٹی شرٹ خریدے گی۔ کیا حرج ہے اس نے سوچا کالج کی سبھی لڑکیاں پہنتی ہیں۔ ٹی شرٹ اگر لمبی ہو تو دائرے اور زاویے بھی نہیں بن پاتے۔ اس نے منع نہیں کیا ۔۔۔ لڑکے نے بھی دو اچھے جوڑے پسند کیے۔ ڈھنگ کے جوتے خریدے۔ بیٹی نے لڑکیوں کی اور کئی چھوٹی موٹی چیزیں خریدیں ، وہ بے نیازی سے بل ادا کرتا رہا۔ قریبی بیکری میں بچوں کو پزا کھلایا، خود برگر پر اکتفا کیا ، کول ڈرنک ۔۔۔ ! بچے کتنے خوش تھے۔
جب وہ دواخانہ آیا تو بیوی نے بتایا سبھی آئے تھے وقت ختم ہونے تک بیٹھے رہے ڈاکٹر بھی راؤنڈ پر آپا تھا۔
’’کتنے دن رہنا پڑے گا؟‘‘
’’دو تین دن لگ جائیں گے‘‘ بیوی نے کہا اس نے اطمینان کی سانس لی ۔۔۔
بیوی نے بتایا کہ وزیٹنگ آور میں کیا خوب صورت اور اونچے گھرانوں کے لوگ آتے ہیں۔۔۔ پھلوں کی ٹوکریاں اور بکے لیے ہوئے۔۔۔
رات دیر گئے تک وہ ٹی وی دیکھتا رہا۔ آواز اس نے بالکل کم کردی تھی۔ زندگی میں کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ چین سے ٹی وی دیکھتا۔ کیا کیا چیانلس تھے ، کیا قیامتیں تھیں ۔۔۔ بار بار اس کا وجود زمین سے اوپر اُٹھنے لگتا۔ یہ مغربی لڑکیاں ، اخروٹی بال ، درازقد ، متناسب الاعضا ۔۔۔ جسم دکھانے کے فن سے واقف ، میوزک چیانل ، فیشن چیانل ۔۔۔ کمرے میں موجود عورت اس کے شانے پر سر ٹکائے اس کے ساتھ بیٹھی تھی ۔۔۔ بہت رات ہونے کے بعد وہ سوئے ۔۔۔ رات بھر وہ ان حسیناؤں کو اس عورت میں تلاش کرتا رہا۔
صبح دستک پر جاگا۔ اس نے بیوی کا بدن چادر سے ڈھانک دیا۔ نرس تھی۔ نرس نے ٹمپریچر لیا۔ بلڈ پریشر چیک کیا۔ پھر صفائی کرنے والے آئے ۔۔۔ ہاؤز کیپنگ والے آئے۔ چادریں بدل دی گئیں ۔۔۔ دونوں نہاکر تیار ہوگئے۔ ابّا بھی آنکھیں کھولے بیٹھے تھے۔ بات ابھی بھی نہیں کررہے تھے۔ اس نے ناشتے کا آرڈر دیا۔ ڈاکٹر بھی راؤنڈ پر آیا۔ اس نے دفتری انگلش میں ابّا کی حالت پوچھی۔ تشویش کی کوئی بات نہیں تھی. سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ دو تین دن تو آبزرویشن میں رکھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹرکے جانے کے بعد بیوی نے کہا کچھ پیسے چاہیے۔
’’کیوں؟‘‘
’’بیوٹی پارلر جاؤں گی‘‘۔
’’کیوں؟‘‘
’’بال بنواؤں گی۔۔۔ اس لمبی ڈاکٹر کی طرح ۔۔۔ آئی بروز بھی بنوانا ہے۔ مینی کیور ، پیڈی کیور۔۔۔
’’اس کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘
’’یہاں رہنے تک تو بھرم رکھنا ہوگا نا؟‘‘
وہ چپ ہوگیا۔ اس کی بیوی نے پیسوں کے بنڈل سے کتنے نوٹ نکالے اس نے دیکھنا مناسب ہی نہیں سمجھا ۔۔۔ بیوی پیسہ لے کر چلی گئی۔
وہ اپنے والد کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ اسے آنکھیں کھولے ایک ٹک دیکھنے لگے۔ کچھ کہا بھی لیکن اسے سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔ وہ ہولے ہولے سر دبانے لگا۔
وزیٹرس کا وقت شروع ہوا تو سب سے پہلے اس کے بچے آئے۔
’’ڈیڈی ۔۔۔‘‘ لڑکی نے خوشی سے آواز دی ۔۔۔ وہ نظر بھر کر دیکھ نہیں پایا۔ اسٹریچ پائنٹ اور ٹی شرٹ میں سے کتنے چھپے ہوئے راز عیاں ہورہے تھے۔
’’کیسی لگ رہی ہوں‘‘ بیٹی نے قریب آکر پوچھا اور اس سے لپٹ گئی تو وہ جھجک گیا۔
’’ہاؤ اِز گرینڈ پا۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہیں بیٹا سو رہے ہیں‘‘۔
لڑکا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔ اس کی دل چسپی باہر کھڑی نرس میں زیادہ تھی۔
’’بیٹھو۔۔۔‘‘
اس نے فون کرکے کچھ چکن پیٹیز اور کول ڈرنکس کا آرڈر دیا۔ اس کی بہنیں اور بھانجے بھانجیاں بھی آگئیں۔ اس نے چکن پٹینز کی تعداد بڑھادی ، کول ڈرنکس کی جگہ چائے کا آرڈر دیا۔ سب ہاسپٹل کے ڈسپلن اور انتظامات کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ چکن پٹیز بھی سب کو پسند آئیں ، پھوپھیوں نے دونوں بچوں کو پیار کیا۔
’’ہائے بنٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے‘‘ سب کے لہجے بدل گئے تھے۔ سب کتنے مہذب لگ رہے تھے۔
’’کوثر کہاں ہے‘‘ اس کی بیوی کے بارے میں سوال کیا گیا۔
’’گھر گئی ہیں‘‘۔
دیکھتے ہی دیکھتے سارا خاندان جمع ہوگیا۔ اس بار چائے بسکٹ کا دور چلا۔ پورے خاندان میں اس کی بیٹی ہیروئن بنی ہوئی تھی۔ اس کی گفتگو کا انداز ہی بدلا ہوا تھا ۔۔ وہ کمرہ ؟
وقت اتنی جلد ختم ہوجائے گا کسی کو احساس بھی نہیں تھا۔ سب لوٹ گئے وہ اکیلا رہ گیا۔ ابّا نے سب کو آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ آنکھوں میں کبھی شناسائی چمک جاتی اور کبھی اجنبیت کا اندھیرا چھا جاتا۔ ابھی وہ بات کرنے کے موقف میں نہ تھے ۔۔۔
وہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ ترشے ہوئے خوب صورت بال ۔۔۔ اسٹارچ دی ہوئی ساری ، ناف سے نیچی باندھی ہوئی، چھوٹے سلیوس کا چست بلاؤز ۔۔۔ ! وہ بالکل اس لمبی ڈاکٹر کی نقل لگ رہی تھی۔
’’کیسی لگ رہی ہوں؟‘‘
’’بہت خوب صورت ‘‘ اس نے بیوی کو لپٹایا۔
دونوں ٹی وی دیکھتے رہے۔ اپنی بیوی کو اتنا خوش اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ماحول !!
گھر میں کھانا بنانا بندکردیا گیا۔ صبح لڑکا آتا۔ کینٹین میں ناشتہ کرتا۔ گھر کے دوسرے افراد کے لیے پارسل لے جاتا۔ دوپہر ویسے ہی گزار لیتے۔ شام سنیکس اور جاتے ہوئے رات کا کھانا ۔۔۔
وزیٹنگ آور میں سارے خاندان کے لوگ بڑی پابندی سے آنے لگے تھے ۔۔۔ بنٹی کی سہلیاں بھی آجاتیں. وہ انھیں لے کر کینٹین چلی جاتی۔ کبھی لڑکے کے دوست آجاتے۔ لڑکے کی زیادہ توجہ ایک خاص نرس پر تھی۔ اپنے دوستوں کے ساتھ وہ اسے چھیڑا کرتا۔ وہ اپنے دوست سے موبائیل فون بھی لے آیا تھا۔ وہ کہیں بھی رہے ضرور فون کرتا۔ کبھی بچوں کو دواخانے سے فون کرلیتا۔ بڑی سہولت تھی۔ تین دن میں وہ کئی بار ری چارج کروا چکا تھا۔ شام بڑی اچھی گزرنے لگی تھی ۔۔۔ تمام رشتہ دار لڑکیاں، بنٹی کی سہلیاں خوب انجوائے کرتیں۔ جنیفر لوپیز ، رکی مارٹن ، Briteny Spears ، میڈونا اور وینگا بوائز کے نئے گیتوں کی باتیں، ملائکہ ، ایشوریا اور امرتا اروڑہ کی باتیں ، بڑی عمر کے لوگوں کا موضوع ٹی وی سیریلس ہوتے ۔۔۔ پورے ہسپتال کا اسٹاف دوست ہوگیا تھا۔ آتے جاتے وقت سبھی سلام کرتے. اسے شاید بہت بڑا آفیسر سمجھنے لگے تھے۔
اس کی بیوی نے ایک مکسی گرائینڈر بھی خرید لیا تھا۔ ایک کولر اور اسفنج کا گدا ۔۔۔ کچھ بیڈ شیٹس ! ابّا لوٹ کر آئیں گے تو ان کے لیے پھلوں کا رس نکالنا ہوگا۔ آرام دہ بستر بھی ضروری ہے۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ ڈاکٹروں نے ابھی جانے کی اجازت نہیں دی۔ کسی بھی وقت دوبارہ دورہ پڑسکتا ہے۔ پیسہ ختم ہورہا تھا ۔۔۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا ایک اور ٹسٹ لے کر وہ اطمینان کرلیں گے۔ کم سے کم دو دن تو رکھنا ہی ہوگا۔ کینٹین اور دواؤں کا بل دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
لڑکی کو شکایت تھی کہ اس کی ڈریسنگ رپیٹ ہورہی ہے۔ کم از کم دو جوڑے بنائے جائیں۔ بیوی کی ساڑیوں کا اسٹاک ختم ہورہا تھا۔۔۔
شام میں تمام رشتہ دار اکٹھا ہوئے تو اس نے مسئلہ چھیڑا۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔ جو پیسہ دے سکتے تھے وہ پہلے دے چکے تھے۔ دوسرے اس جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔ آفس سے جتنے لون مل سکتے تھے وہ پہلے ہی لے چکا تھا۔ ریاض والے بھائی نے ابّا کی طبیعت پوچھنے کے لیے روز کی طرح فون کیا تو اس نے سچویشن بتائی۔ اس نے بھی مجبوری کا اظہار کیا۔ اب ایک ہی صورت رہ گئی تھی کہ وہ ابّا کو گھر واپس لے جائے۔ سب نے یہی کہا تھا کہ وہ جو مناسب سمجھے کرے ۔۔۔ بڑی بہن چاہتی تھیں کہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق کام ہو ۔۔۔
وہ ڈاکٹر سے ملا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ صرف دو دن وہ اور صبرکرلے ۔۔۔ آبزرویشن ختم ہوجائے گا۔ ان ہسپتالوں کے بارے میں اس نے کیا کیا نہیں سن رکھا تھا۔ جب تک ہزاروں کا بل نہیں بن جاتا وہ کسی پر رحم نہیں کرتے۔
کافی بحث کے بعد ڈاکٹر اس بات پر راضی ہوا کہ وہ اپنی ذمہ داری پر مریض کو لے جاسکتا ہے۔ بل کی ادائیگی کے بعد بہت کم بچا تھا۔ گھر پر بھی تو علاج کروانا ہوگا۔
شام میں وزیٹنگ آور میں صرف اس کی بیٹی اور بہن ہی آئیں۔ ایک سنّاٹا سا تھا۔ اس نے بیٹی سے کہا وہ ابّا کے لیے کمرہ درست کردے۔
’’ڈیڈی کیا ہم دو دن اور نہیں رہ سکتے؟‘‘
’’نہیں بیٹے بہت مشکل ہے۔ کہیں سے پیسوں کا انتظام نہیں ہوا‘‘۔
لڑکی بھی اُداس ہوگئی۔ اِدھر کچھ دنوں سے وہ خود کو اونچے طبقے کے افراد ہی سمجھنے لگے تھے۔ اس نے بیٹی کے لیے چکن پیٹیز اور چائے منگوائی۔
’’ہم کبھی کبھی یہاں سے پیٹیز منگوالیں گے۔۔۔‘‘ اس نے بیٹی کو سمجھایا۔
صبح موٹر کا بھی انتظام کرنا تھا۔۔۔
لڑکی کے جانے کے بعد اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی۔ ایرکنڈیشنز ، ٹی وی ، بالکنی میں رکھی بید کی کرسیاں جہاں سے سارا شہر نظر آتا ہے ، وہاں بیٹھ کر چائے پینے کا لطف ہی کچھ اور ہے ، اٹیچڈ باتھ روم ، شاور ، گیزر ، ٹائلز ۔۔۔
دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد وہ تھک گیا تھا ۔۔۔ وہ نہانے چلا گیا۔ ایک دھندلی سی کیفیت ، اس نے کمرے میں موجود عورت کو آواز دی۔ وہ تصویر جلد بن گئی۔ کسی پس و پیش کے بغیر ۔۔۔ شاور کے نیچے دو بے لباس بھیگتے بدن ، کسی کی موجودگی کا خوف بھی نہیں تھا ۔۔۔ لفظ کنویں میں گرتے جارہے تھے۔ سرگوشیاں باز گشت اور گونج میں بدلتی جارہی تھیں۔ اس کا وجود زمین سے اوپر اُٹھنے لگا۔۔۔ دھندلی دھندلی فضا میں سانسیں بڑی تیزی سے چل رہی تھیں ۔۔۔ اتنی تیز سانسیں کہ پورا کمرہ گونج رہا تھا۔ وہ اس بدن کو سمیٹے تخت پر آیا ۔ سانسیں ۔۔ سانسیں ۔۔ جیسے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔
اس کا وجود دھپ سے زمین پر گرا ۔۔ ابّا کی سانسوں سے پورا کمرہ کانپ رہا تھا، دیواریں لرز رہی تھیں ۔۔ اس نے جلدی جلدی کپڑے پہنے ، پتہ نہیں کب سے وہ بے چین تھے۔ پورا جسم پسینے میں تر تھا۔ آنکھیں چھت کی طرف لگی تھیں۔ زبردست دورہ پڑا تھا۔ اس نے نرس کو پکارا ۔۔ نرس ڈیوٹی ڈاکٹر کو لے آئی۔ سب کچھ پلک جھپکتے ہوا۔ کچھ وارڈ بوائے بھی آگئے۔ لیکن جب وہ بڑے ڈاکٹرس کے ساتھ کمرے میں پہنچا تو سناٹا تھا ۔۔ سانسوں کا شور ختم ہوچکا تھا۔ ای سی جی مشین پر بے ترتیب لکیریں ۔۔ نبض بتانے والے ہندسے ۔۔۔!!
ڈاکٹر نے اس کی طرف مایوسی سے دیکھا ۔۔۔ کچھ کہا بھی لیکن الفاظ کنویں میں گرتے چلے گئے ۔۔۔ اور وہ زمین سے دو اِنچ اوپر اُٹھ گیا۔
*ختم شُد…*

تبصرہ و تجزیہ 
نثارانجم

یہاں تہذیبی زوال کے ملبے پر بیٹھا افسانہ نگار سلگتے احساس کے ساتھ نوحے کرتا ملتا ہے۔
یہ دستک صارفی سماج در فکر پر مسلسل جاری ہے جہاں رشتوں کی عظمت کا چاند ریاکار سماج کی انا کی دھمک اور پرا گندگی سے گہنا رہی ہے ۔اخلاقی قدریں سونے کے بوٹے تلے روندی دی جارہی ہیں ۔ایک تہذیب میجر اٹیک کے بعد نیم مردہ کوما کی حالت میں ’سانسوں کی اتھل پتھل کے درمیاں‘ پڑی ہوئی ہے ۔کوما سے ایک ساعت کے لیے وہ باہر تو آتا ہے لیکن ان سانسوں کے درمیان انسانیت قسطوں پر آہستہ آہستہ مرتی ہے ۔جذبات لہولہان ہوتے ہیں۔ اقدار بھری زندگی کاندھے پر آدمیت، محبت اور انسانیت کی لاش ڈالے جدید معاشرے پر دستک دیتی ہے ۔ لیکن جدید معاشرہ خودغرضی کے ہوس ناک محور پر رقصاں کیف ونشاط کے حمام میں بے لباس اور بدمست اس دستک سے غافل ہے۔
زیر مطالعہ افسانہ اسی دستک کی ایک سرزنش ہے۔
بیگ احساس نے افسانہ ’’سانسوں کے درمیاں‘‘ میں انسانی قدروں سے مزاحم اس صارفینی کلچر کا نقشہ نفسیاتی باریکیوں کے ساتھ باپ بیٹے کے رشتوں میں گوندھ کر پیش کیا ہے۔یہاں اسلوب اور کرافٹ کے ساتھ اس فسوں کو بھی دیکھیں۔جو لفظ کنویں میں گر رہے ہیں اس کا فسوں دیکھیں ۔وہ کیسے ہلکے اور کھوکھلے ہورہے ہیں۔
اسپتال میں باپ موت اور حیات کی کش مکش میں ہے. زندگی کی سانسیں مشین پر ٹنگی ہوئی ہیں. مگر بیٹا اور بہو زندگی سے کیسے pleasure کو نچوڑ کر اس رس رنگ اور لذت کے آخری رس کو بھی کشید کرنے میں جٹے ہیں۔بیٹا بچوں کو بھی کھلا رہا ہے ۔pizza بھی لے رہا ہے۔
یہاں افسانہ نگار کی وہ under lining عنصر کو دیکھیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔ آج کا فرد خودنمائی اور خود ستائی کا کتنا خوگر ہے۔ اپنے مفاد، مسرت اور تقاضوں کے محور پر کیسے محو خرام ہے۔ اس خاندانی نظام شمشی کا ایک فردی سیارہ اس نظام سے ٹوٹ کر ذہنی طور پر الگ ہورہا ہے اور اس کے گرد تابع افراد سیارہ اپنے اپنے مفاد اور مسرت کا چاند بن کر کیسے اپنے ہی orbit life میں مست ہیں۔ نظام زندگی کاوہ مرکزی سیارہ بستر پر پڑا افق زندگی کے آخری کناروں پر شفق الوداع کے رنگ چھوڑ ے جارہا ہے اور اس کے ذیلی سیارے افق میں گھلے ان مسرت بھرے الوداعی رنگوں میں مے گل خم شام سے وہ سارے مے مسرت اپنے حصے میں باندھ لینے کے فریضے میں مست ہیں۔ اس بدمستی کے یہ مناظر دیکھیں اور احساس کریں کہ باپ بستر مرگ پر highly intensive care والے یونٹ میں اپنی سانسوں کو بحال کرنے کی جد وجہد میں ہے۔ اسے Major attack آیا ہے۔اور بیٹا اپنی بیوی کو بیوٹی پارلر بھیج رہا ہے۔ اور ایسے موقعے پر بیوی کی وہ حاتم طائی والی فراخ دلی بھی دیکھنے کی چیز ہے۔
کیسی سنگ دلی ہے۔ کردار کے اس نازک موقعہ پر ذمہ دار ہونے کی ضرورت ہے نہ کہ chicken pastries سے لطف اندوز ہونے کی۔
یہاں بین المتونیت اور اس textuality کو دیکھیں۔جس سماج پر ایک فرض اس کے کاندھے پر ہونا چاہیے جسے اسے حسن وخوبی سے نبھانے کی ضرورت ہے۔لیکن وہ تو خودنمائی اور خود غرضی کی جکڑ بند میں جان کر جکڑا ہوا ہے۔
صارفیت اور Global village کی لائی ہوئی آسائشوں کا معاشرہ addict ہوچکا ہے ۔مادی چکا چوندی اور لذت نفس بھڑکاؤ کی زد پر ہے ۔ نئی تہذیب اب خالی جیب بھی زندگی کو optimist گلاس سے دیکھنے اور ہر جائز اور ناجائز طریقے سے مادی لذت کی عیاشی کی رغبت سے بھراپڑا ھے۔ معاشرے پر مادی رنگا رنگی اور خوش لباسی نے بدمستی کا ایک شامیانہ شوق سوپر ڈی لکس مارکیٹ ، پاپ، مال، والٹ ڈزنی لینڈ کے یووٹوہپین تصور حیات کے ساتھ اپنے اپنے اسٹال لگاۓ زندگی کو دعوت عیش دے رہے ہیں۔
خاندانی نظام شمشی کے ایک بڑے سیارے کے دل پر ایک دورہ ایک گرہن کی طرح آتا ہے۔ رشتوں میں اس درد کا احساس تو ہے لیکن جبلت اور خواہشوں کا اندھیرا رشتوں کے اس پاکیزہ روشنی کو نہ چاہتے ہوۓ بھی نگلتا رہتا ہے. 
"بابا کی أنکھیں کچھ دنوں تک اور بند رہتیں۔۔۔۔۔"کی وہ سنگینی دیکھیں۔
بیگ احساس کے افسانہ کے مطا لعہ کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محرومی کی شکار زندگی کو اچانک أئی سی یو میں  خواہشوں کے مچلتے ارمان کے اخراج اور دبی ہوئی مسرتوں کو کھل کھیلنے کا پورا موقع مل گیا ہے۔ زندگی کے اس آئی سی یو میں مرکزی کردار اپنے تمام افراد خانہ کے ساتھ اس مسرت بخش بیماری کے بعد سابقہ زندگی کے تمام کینچل اتار پھینکتا ہے ۔احساس محرومی ایک گہری کھائی سے خود کو نکال زندگی کے اس حمام میں بے لباس کر دیتی بے اور وہ اس بے لباسی میں خفتہ نفسیاتی مسرتوں کے سوتے پھوٹ اٹھتے ہیں۔جس پر برسوں سے نا مناسب حالات کا بھاری پتھر پڑا ہوا تھا۔ ۔یہاں قاری اس مسحور کن نفسیاتی جبلتوں سے جکڑے ہوۓ اس انسان کو identify  کرتا ہے جو اصل میں وہ ہے۔
افسانہ نگار  یہاں بیانیہ کے وہ مدھم سرے والے چھوٹے چھوٹے جملوں اور فقروں میں قاری کو اپنی کشش سے باندھے رکھتا ہے۔ نفسیاتی ادراک کی ژرف بینی سماجی شعور اور جبلی فطری رویوں کی عکاسی یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہا ں خواہشوں کی تیز آنچ سے جھلسی انسانی نفسیات کا وہ روپ پیش کیا گیا ہے جو قدروں کی پامالی کے بعد بھی کسی guilt میں مبتلا نہیں ہوتا ۔سب کچھ نارمل سا لگتا ہے. قاری کی نفرت کی نشان زدگی کے دائرے میں بھی نہیں آتا ۔لیکن یہاں ہم اس مشرقی قدروں والی دیواروں کے گرنے کی دھمک کو بھی سنتے ہیں، جنسی زندگی پر پنجہ مارنے کے اس کھرونچ کو بھی دیکھتے ہیں، بیوی کے جسم پر چادر ڈالنے کی اس احتیاط اور باپ کے جاگ اٹھنے کے اس معاشرتی ڈر کو بھی، جس کی سانسیں ابھی بھی باقی ہیں۔
شہر کے مشہور ملٹی اسپیشیلٹی اسپتال کے ایک آئی سی یو میں کوما کی حالت میں ہے۔ یہاں گھیسو اور مادھو گرم گرم آلو بد ھیاکی درد زہ جیسا ہی سب کچھ تو ہے ۔اس نئے ماحول میں بیٹا خود کو اور افراد خانہ کو اسپتال کے امیرانہ ماحول سے مانوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تو افسانے کی بین المتونیت کی اوپری پرت ہے لیکن اصل میں احساس محرومی کو لباس مسرت میں ملبوس کرنے کی اس دبی خواہش کی کار فر مائی ہے اپنے لئے اچھے کپڑے ‘ بیوی اپنے لیے میکسی‘ بیٹی خود کے لیے جینس ٹاپس۔ رات دیر تک ٹی۔ وی کو ایک نئے تفریحی زاویے سے دیکھنا، یہ نئی تبدیلی تھی جو سوپر ملٹی اسپتال کی نسبت کی وجہ سے زندگی کے شب وروزکے افق پر نئے ستارے ٹانک گئے تھے۔ خود سے بے خبر بیوی میں بھی ’’بیوٹی پارلر جاکر ’’بال، آئی بروز، مینی کیور‘ پیڈی کیور بنانے اور سنوارنے کی دبی خواہش جاگ گی ہے اور انگڑائی لےکر جوان ہوگئ ہے۔
یہ نئے ماحول سے آشنا اور ایک شناخت کی بھوک کا نظام افراد خانہ کی کارخانہ زندگی میں جاری ہوگیا۔
بیگ احساس نے زیر مطالعہ افسانے میں سماجی بھرم بناتے ہوۓ نئے کلچر کی اس دکھتی رگ پر انگلی رکھی ہے جو انسانی قدروں سی بے نیاز اس صارفی بے روح کلچر کا آہستہ آہستہ حصہ بنتے جارہے ہیں۔ ریا، بھرم اور نمائشی نفسیات کی شکار افراد کو اپنی فکر کا موضوع بنایا ہے۔
صارفینی تہذیپ کے اس روشن نظر آنے والے باطنی انھیروں کا منبع  کھولا ہے. نمائشی زندگی گذارنے والوں کی اس احساس کم تری پر قابو پانے کے ردعملی حرکیات کو طشت ازبام کیا ہے جو اس خود فریبی عمل میں ایک لمبے سفر کے بعد منھ کے بل گرتے ہیں اور وہ بے منزلی کا شکار ہوکر خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ نمائشی زندگی بناۓ رکھنے میں اور سوسائٹی کے معیار پر کھرا اترنے میں مقروض ہو کر رہ جاتے ہیں۔اسلوب کا حسن، کرافٹ کی عمدگی ، textuality کی معنوی تہہ داری، تاثر، فسوں اور اس کی غنائیت، اس کی فنتاسیت، اس کی melody اور عصری بصیرت کے تانے بانے میں پرویا ہوا  معاشرتی شکست و ریخت کی وہ تصویر دیکھیں، 
باپ بستر پر پڑا ہوا ہے۔ اس سے ہٹ کر اس کا جو narration آرہا ہے وہ اس سا ئیکی کو بیان کررہا ہے جو اکسویں صدی کے فرد کی سائیکی ہے۔
اگر باپ کو اس بیماری سے، اسپتال سے، الگ کر کے اس کو پڑھتے ہیں تو اس کا کوئی عصری relevance نہیں رہ جاۓ گا۔
لیکن باپ کے ساتھ اس بیانیہ کوپڑھیے، اس افسانے کے ڈسکورس میں تو قاری کو یہ احساس ہوگا کہ آج کا انسان اتنا self centric ہو گیا ہے کہ وہ صرف اپنے بارے میں ہی سوچتا ہے۔
ما ضی میں مشرقی تہذیب میں اس طرح کے سلوک کی کیا ہم تصور بھی کر سکتے ہیں۔کیا ہم سوچ سکتے ہیں باپ بیمار ہے کوئی پیٹا اور بہو ایسے موقعے پر pleasure حاصل کرے گا۔
کتنے tension میں رہتے ہیں ہم لوگ ۔اس کے باوجود گھیسو اور مادھو کو دیکھیں انہیں درد زہ کی کوئی اہمیت نہیں تھی. ان کو اپنی بھوک مٹانی تھی ۔باپ کو بیٹے پر بھروسہ نہیں. بیٹے کو باپ پر نہیں. اسی خدشے اور عجلت میں حلق جلانے والا وہ آلو بھی نگل جاتے ہیں۔ بیگ صاحب نے ایک عمدہ کرافٹ میں اسی واقعے کو اکسویں صد ی کے کرب کی طرح موضوعاتی تنوع topical subjectivity of diversity کے ساتھ پیش کیا ہے جو post colonial era میں فرد اور معاشرے کی social mental status کو بیان کرنے کی کوشش کی ہےاور اس میں عصری reference کے طور پر وہ سارے مناظر آگئے ہیں، صرف کرداروں نے اپنی جگہ بدل لی ہے۔ استعاراتی اور ابہامی کیفیت سے جس طرح افسانے کو بوجھل بنا کر پیش کرنے کا ٹرینڈ عروج پر ہے اس درمیان یہ ایک ایسا عصری فسوں کاری سے مزین افسانہ ہے جس میں آج کے قاری کے مشاہدے کے لیے super multi specialty Hospital بھی ہے ،icu بھی ہے۔ خوب صورت نرسیں بھی ہیں اور سڈول six pack والے لڑکے  بھی ہیں۔ بیٹا ان خوب صورت نرسوں میں دل چسپی بھی لیتا ہے ۔بیٹی جنس اور ٹاپ میں ملبوس گرانڈ پا بھی بولتی ہے۔ یہ عصر حاضر کا ایک complete package افسانہ ہے.

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ ہو : ظہار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے