ہندستانی سنیما کا تاج محل خاموش!

ہندستانی سنیما کا تاج محل خاموش!

اداکاری کے ایک ایسے دبستان کا خاتمہ ہوا جہاں سے بعد کے ہر ایکٹر نے خوشہ چینی کی۔اردو زبان کاعاشق اور اردو شاعری کا دل دادہ اپنی زندگی کے سوبرس پورے ہونے سے ذرا پہلے رخصت ہوا۔
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو،کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
پچھلے چند برسوں سے بل کہ ایک دہائی سے ایسے خدشات لاحق تھے کہ دلیپ کمار کبھی بھی آخری سفر کے لیے روانہ ہو سکتے ہیں۔صحت سے جنگ کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے اٹھانوے سال خدا کے فضل سے مکمل کرنے میں کام یاب ہوئے۔ان کے عقیدت مند چاہتے تھے کہ خدا انھیں صدی پار لگا ئے لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔گزشتہ دس برسوں میں ان کے بیمار پڑنے، اسپتال تک جانے، اخبار اور سوشل میڈیا میں ان کی موت کی غلط خبر اڑنے اور پھر ان کی بہ صحت واپسی کی عام لوگوں کو ایک عادت ہی ہوچلی تھی مگر اب کی بار ایسا نہ ہوا۔وہ اسپتال پہنچے، پھر وقت سے پہلے ان کی موت کی خبر بھی اُڑی مگر ۷/ جولائی کی صبح سا ری افواہیں حقیقت میں بدل گئیں اور دلیپ کمار نے وہاں کا سفر مکمل کر لیا جہاں سے وہ اس دھرتی پر آئے تھے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پشاور اور لاہور سے پھل بیچنے والے ایک کاروباری کی معصوم سی اولاد یوسف خاں کسی منصوبے یا کوشش کے نتیجے میں فلم انڈسٹری میں نہیں آئے تھے۔ ایسا کچھ ان کا مزاج بھی نہیں تھا۔ شوٹنگ کی بھیڑ میں تماش بیں کے طور پر وہ لڑکپن میں گھومتے پھرتے ایک زمانے کی مشہور اداکارہ دیویکا رانی کو وہ بھا گئے اور انھوں نے فلم میں کام کرنے کے لیے راہیں ہم وار کردیں۔پھر’جوار بھاٹا‘ سے لے کر آج تک کی زندگی وہ سنہری تاریخ ہے جس سے تاب ناک ہندستانی سنیما میں کوئی دوسری صورت نہیں۔ گن چن کر ترسٹھ فلمیں ان سے یاد گا ر ہیں۔ اِس زمانے میں تو دس پندرہ برس میں اس قدر فلمیں مکمل کرکے ایکٹر نمایاں ہوجاتے ہیں مگر دلیپ کمار نے ۴۴۹۱؁ء میں ’جوار بھاٹا‘ سے جو سفر شروع کیا، اس کا انجام ۸۹۹۱؁ء میں ’قلعہ‘ فلم سے ہوا۔انھیں المیے کا بادشاہ کہا گیا۔ انھیں عاشقانہ اداکاری کی منتہا سمجھا گیا۔ سنیماکے سلسلے سے جتنے بڑے انعامات ممکن تھے، وہ انھیں حاصل ہوئے۔ اپنے دور کی ممتاز ادا کاراؤں کو دلیپ کمار کے مقابل کام کرنے کی وجہ سے خاص پہچان ملی۔ خاص طور سے کامنی کوشل، مدھوبالا، مینا کما ری، نرگس، ویجیتنتی مالا، وحیدہ رحمان اور سائرہ بانو کے ساتھ انھوں نے وہ فلمیں مکمل کیں جنھیں عہد ساز اور تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
دلیپ کما ر کو ہندستانی فلم انڈسٹری میں اداکاری کے نئے دبستان کے طور پر قبول کیا گیا۔ وہ جب ہندستا نی سنیما میں داخل ہوئے تھے، اس وقت ڈراما اسٹیج سے نکلے ہوئے افراد بڑی تعداد میں فلم انڈسٹری میں موجود تھے۔ بلند آہنگی اس عہد کی اداکاری اور مکالمہ خوانی کے لیے لازمی جزو تھا مگر دلیپ کمار نے نرم خوئی کے ساتھ اپنے مکالمے ادا کرنے کا ایک فطری رجحان سامنے لایا۔ جملوں کے بیچ گفتگو کرتی ہوئی خاموشی، ٹھہری ہوئی انگلیوں کے اشارے، پیشانی کے بل اور سر جھٹکنے کی ادا۔۔سب میں بات کہنے کا کوئی نہ کوئی سلیقہ موجود ہوتا۔ عوام میں پہلی بار اس انداز کو اس وقت مقبولیت ملی جب’مغل اعظم‘ میں ایک طر ف شیر ببر کی طرح گرجتی ہوئی پرتھوی راج کپور کی آواز تھی اور اسی کے سامنے ایک معصوم اور نرم، ملائم اور کبھی کبھی اپنے آپ سے بولتی ہوئی دلیپ کمار کی آواز تھی مگر کوئی کہہ دے کہ بادشاہ کے جلال کے باوجود شائقین کی ساری ہم دردیاں سلیم اور انارکلی کے لیے مخصوص ہو کر آخر کیوں رہ گئیں۔ قصے کی طاقت اپنی جگہ پر مگر مکالمے کی ادائیگی میں جلال کا لوہا پگھل کر جمال کے سامنے موم بن جاتا ہے. یہ ہندستانی سنیما میں نہ کبھی پہلے ہوا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ مغل اعظم جیسی فلم بھی تاریخ میں ایک بار ہی بن پاتی ہے۔
دلیپ کمار نے اپنی خودنوشت ”حقائق اور پرچھائیاں“ (دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو) میں فلمی اداکاروں کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ انھیں سماج سے بے رخی نہیں برتنی چاہیے اور عام انسانی زندگی کے موافق ذمہ داریاں اٹھانی چاہیے۔ یہ دلیپ کمار کا تصور حیات تھا۔ ان کے والد فلم اور اداکاری کو ہیچ نگاہوں سے دیکھتے تھے اور عام طور سے اس دور میں معاشرے کا یہی رجحان تھا۔ مگر آزادی کے بعد نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل کے سارے کا م نہ صرف پارلیمنٹ ہاؤس اور اسمبلیوں میں ہوئے اور نہ صرف سیاست دانوں نے کیے۔نئے ہندستان کے خواب اور نت نئی تمناؤں کے ساتھ ایک بڑی مضبوط نسل ہندستانی فلموں میں بھی پہنچی تھی۔ دلیپ کمار، راج کپور، خواجہ احمد عباس، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، نوشاد، راما نند ساگر، ایم ایس سیتھو، بلراج ساہنی، بھیشم ساہنی، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی وغیرہ کی ایک طویل فہرست تھی جن کے بارے میں سب یہ بات کہہ سکتے تھے کہ وہ صرف فلم کار اور اداکار نہیں ہیں۔ ’نیادور،‘’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘،’گنگاجمنا‘،’کوہِ نور‘، ’رام اور شیام `جیسی فلمیں بڑے مقاصد کے ساتھ تیار ہوئی تھیں۔ مغل اعظم سے لے کر میرا نام جوکر، شعلے تک ایسی فلمیں آتی رہیں جہاں ملک کے سنجیدہ مسائل زیرِبحث رہے اور ان سے نکلنے کے لیے ایک تڑپ ہمیں وہاں بے چین کر دیتی ہے۔ بے شک ایسے فلم کاروں کے لیے جواہر لعل نہرو کی شخصیت باعث ترغیب تھی۔ سب مل کر نئے ہندستان کی تعمیر وترقی کے لیے اپنے اپنے مورچوں پر سرگرمِ عمل تھے۔
دلیپ کمار ایسے خواب پالنے والی ہندستانی سنیما کی نسل ِنو کے لیے سالارِکارواں تھے۔ اردو زبان اور اردو شاعری سے محبت اور عشق وہ پشاور سے لاہور اور پھر بمبئی تک سنبھالے رہے۔ راج کپور دلیپ کمار کے لڑکپن کے دوستوں میں تھے۔ کہتے تھے کہ دلیپ کمار کو میں ہر جگہ ہرا سکتا ہوں مگر جب وہ اپنی زبان سے لفظوں کی ادائیگی کرتا ہے تو میں اس پر قربان ہوجاتا ہوں۔ لفظوں اور باتوں کے درمیان پھول جھڑنا تو ہم محاورۃََ کہتے رہتے ہیں مگر کسی اسٹیج پر جس نے دلیپ کمار کو سرگرمِ تقریر دیکھا ہو، اسے ہی معلوم ہوگا کہ باتوں سے پھول کیسے جھڑتے ہیں۔ ہر چار بات کے بعد اردو شاعری کی تاریخ سے ایک ایسا شعر وہ جڑ دیں گے کہ آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ کبھی کبھی تو ایسا کھویا ہوا یا نامانوس شعر ان کی زبان سے نکلتا تھا کہ آپ یقین ہی نہیں کر سکتے ہیں کہ یہ ایک فلمی اداکار کی زبان سے ادا ہورہے ہیں۔ دلیپ کمار نے اپنے وجود سے فلم انڈسٹری میں اردو کے مجلسی وقار کو قائم کیا اور اس کے جلال و جمال سے ایک ایسے حلقے کو روشناس کرایا جہاں بہت دیر تک ہماری زبان کا جادو کسی نہ کسی طرح قائم ہے۔
١٩٨٧ء  کی ایک شام تھی۔ بمبئی میں عبد اللہ کمال نے اپنا نیا اخبار شروع کیا تھا، اس کا اجرا عمل میں آنا تھا۔ میں اگرچہ ایم اے کا طالب علم تھا مگر ٹائمس آف انڈیا گروپ میں سب ایڈیٹر کے طور پر میرا انتخاب ہوچکا تھا۔ افتخارامام صدیقی اور ندا فاضلی مرحومین نے مجھے اس جلسے میں مدعو کیا۔ غالبا غیر مقامی ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ پہلی صف میں مجھے بٹھایا گیا۔ اسی بیچ افراتفری کے عالم میں خاص مہمانان کی آمد ہوئی اور حاجی مستان ایک طرف سے حاضر ہوئے اور دوسری طرف سے دلیپ کمار آئے اور پہلی صف میں انہیں بھی کچھ لوگوں کو اٹھا بٹھا کر جگہ دی گئی۔میری قسمت کا ستارہ کچھ عروج پر تھا۔ میری دائیں جانب کرسی پر دلیپ کمار اپنے مخصوص سفید لباس میں آکر بیٹھے۔ اسٹیج سے ابھی کاروائی شروع ہونی ہی تھی، اسی بیچ دیکھتا کیا ہوں کہ داہنی طرف سے میری طرف شفقت آمیز ہاتھ بڑھے اور خود سے تعارف پیش کرتے ہوئے دلیپ کمار نے مجھ سے ہاتھ ملایا کہ میں یوسف خاں ہوں۔ کاٹو تو خون نہیں کہ میری کم آمیزی نے ہندستان کے سب سے بڑے فن کار اور اداکار کو خود سے اپنا تعارف پیش کرانے کاموقع فراہم کیا۔ سوچنے لگا کہ جسے ساری دنیا اپنی سانسوں اور دھڑکنوں میں بسائی ہوئی ہے اور اس کی یہ سادگی کہ پاس میں بیٹھنے والے ایک نوعمر سے اپنا تعارف کرایا۔
دلیپ کمار سب سے آخر میں بولنے کے لیے اسٹیج پر پہنچے۔ اردو صحافت، اردوزبان، ہندستانی مسلمان اور اہالیانِ ممبئی کے ساتھ ہندستانی سیاست کے بہت سارے کڑوے کسیلے ابواب مقررین نے روشن کر دیے تھے۔ دلیپ کمار نے چند جملوں میں سابقہ تقریروں کا خلاصہ پیش کیا اور پھر اپنے مخصوص انداز سے ’مگر‘ کہتے ہوئے اپنا جانا پہچانا اداکارانہ وقفہ دیا۔ ایسا معلوم ہوا کہ ساری تقریریں ہوا ہوگئیں اور اب ان کی گل افشانیِ گفتار اور وہی نرم اور ملائم آواز۔ ملک کا ہر مسئلہ زیربحث ہے اورایک جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دلیپ کمار جب پشاور پہنچے اور وہاں انھیں استقبالیہ دیا گیا تو ان کے استقبال کے لیے انھی کی طرح جادو نگار اور مقبولِ عام شاعر احمد فراز کو موقع دیا گیا۔ احمد فراز سے جب نثر سے کام نہیں چلا تب دلیپ کمار کی شان میں اپنی مشہور غزل ’دیکھتے ہیں‘ ردیف کو نچھاور کرنے کا فیصلہ کیا مگر جب دلیپ کمار کو موقع ملا تو کیا اردو اور کیا انگریزی، ایسی نفیس اور شاعرانہ اور پُر اثر بیان تھا کہ جیسے معلوم ہو کہ آسمانوں سے لفظ وبیان کے گل دستے اتر رہے ہیں۔
دلیپ کمار صرف اداکار نہیں تھے، وہ اس ملک کے سب سے ممتاز شہریوں میں سے ایک تھے۔ ہندستان اور پاکستان کے مابین خوش گوار رشتوں کے لیے جن چند لوگوں کے دل دھڑکتے رہتے تھے اور جن کے خواب کبھی پژمردہ نہیں ہوتے تھے، دلیپ کمار اس قافلے کے امیر تھے۔ خوش ونت سنگھ، کلدیپ نیر، ملکھاسنگھ اور اب دلیپ کمار سب ایک ایک کرکے رخصت ہوئے۔ ہند پاک دوستی کا ٹھوس پیغام اب دونوں ملکوں میں کون پہنچائے گا۔ نفرت کی سیاست کے نگہبان تو دلی سے لے کر اسلا م آباد تک بھرے پڑے ہیں مگر جن کے دلوں میں تقسیم ملک سے پہلے کا ہندستان زندہ تھا، اب وہ نسل ایک ایک کرکے رخصت ہو گئی۔ محبت اور امن و امان اور خیر سگالی کی بنیاد پر جینے والے اب انگلیوں پر گننے کے لائق موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کے بیچ ایسے لوگوں کی ضرورت ہمیشہ قائم رہے گی۔ دلیپ کمار اور ان جیسے امن اور محبت کے پیام بروں کے لیے حقیقی خراجِ عقیدت یہی ہے کہ ہند وپاک میں امن اور محبت کا ماحول قائم ہو اور عوامی زندگی فلاح اور خیر کے راستے پر چلے۔
(مضمون نگار کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ میں شعبۂ اردو کے استاد ہیں۔)
صفدر امام قادری کی گذشتہ عرض داشت : سیاسی اور معیشی ابتری کے بھنور میں ڈوٗبتا ملک: حکومتیں اپنے تماشوں میں مصروف

شیئر کیجیے

2 thoughts on “ہندستانی سنیما کا تاج محل خاموش!

  1. دلیپ کمار کی شخصیت، زبان ،لہجہ اور گفتگو کے درمیان بولتا ہوا توقف کے سبھی دیوانے تھے اور رہیں گے ایک ایسا اداکار، ایک ایسی شضصیت جنہوں نے صرف محبت اوراخوت کی بات کی اور ہمیشہ اس کے خوہاں رہے ۔۔۔اللّٰہ ان کے درجات بلند فرمائے۔۔۔
    بہت خوبصورت اور معلوماتی مضمون ۔۔۔۔عمدہ خراج عقیدت ۔۔۔
    صفدر امام قادری صاحب کو بہت بہت مبارکباد۔

  2. پروفیسر صفدر امام قادری صاحبِ کا یہ مضمون دلیپ کمار کے اُن پہلوؤں کو روشن کیا ہے جس سے اب تک عام آدمی نا آشنا تھا۔انکی تحریر نے قاری کی تشنگی کو ختم کر دیا ہے۔صفدر صاحب جب بھی لکھتے ہیں اسکے اندر پوری زندگی اور تاریخ کو بیان کرتے ہیں۔ اس تاریخی تحریر کے لیے مبارکباد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے