رومانہ

رومانہ

تنویر احمد تماپوری 

یہ موبائل بھی بڑی عجیب چیزہوتی ہے ۔ وہ خوب صورت لڑکی نہ آسمان سے ٹپکی تھی نہ برآمدے میں رکھے کسی گملے میں اگی تھی بل کہ موبائل کے جی پی ایس نے اسے رچمنڈ کے مغالطے میں مجھ تک پہنچایاتھا۔ دھیما لہجہ، ریشمی زبان ، شہد میں ڈوبی اس کی آوازکو میں نے دوسرے کان سے نکلنے نہیں دیا بل کہ پوتر گنگا جل کی طرح سر اور ماتھے پر ملنے لگا۔رچمنڈ میرا پڑوسی اور اس عمارت کا مالک تھا۔ بجائے اس لڑکی کو رچمنڈ کے یہاں بھیجنے کے میں نےاندربلالیا۔ یہ ایک اخلاقی جرم تھا. جھوٹ میرے لئے نئی چیز نہیں تھی لیکن کسی لڑکی کے لئے یہ میرا پہلا جھوٹ تھا ۔ میں نے رچمنڈ کو فون پرخبر کردی، کینیڈا میں جاتی سردیوں کا موسم ویسے ہی گلاب رنگ ہوتا ہے۔ اس لڑکی کے سرخ و سفید سراپے نے اس کو ست رنگی کردیا تھا۔
کب رچمنڈ آیا، کب ان کے بیچ سارے معاملات طے پائے، کب میری گرم کافی ٹھنڈی ہوئی۔ مجھے ہوش تو تب آیا جب وہ میری پڑوسن بل کہ روم میٹ بن چکی تھی۔رومانہ اسی ملک کی باشندہ ہوتے ہوئے بھی ٹورانٹو کے لئے اجنبی تھی۔فرنچ ماں اوردیسی باپ کی کینیڈین لڑکی کا حسن و جمال ایسا خطرناک تھا کہ جیسے رفائل کا دیسی اوتار اڑان بھرنے کے لئے تیار ہو۔ ہم دونوں کے کمرے الگ ہونے کے باوجود برآمدہ بیٹھک اور کچن مشترک تھے۔ ان کی صفائی ستھرائی اور د یکھ بھال میرے راستے کے روڑے تھے ۔ اس کی مشرقی روایات بھی میرے لئے ظالم سماج تھیں ۔ وہ ودیسی ہوکر بھی ٹھیٹھ دیسی تھی ۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی قطب شمالی ،قطب جنوبی کھیلنا اس کی یخ بستہ شخصیت کا ہی کمال تھا۔ رومانہ کی ذات سے رومان کا بس اتنا ہی تعلق تھا کےوہ اس کے نا م میں بستاتھا۔کبھی کبھی مسکرا بھی لیتی تو لگتا بندوق کی نال پر دستخط کررہی ہے ۔ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی چندا ماما کی طرح دور ہی سے درشن دیتی رہی اور میرے سارے چندرائین نامراد لوٹتے رہے۔حال آں کہ باہر کی دنیا مغرب کے کھلے ماحول اور آزاد فضاوں پر مشتمل تھی۔
ایک ویک اینڈ پر اس کےآفس کے کچھ دوست گھر آنے والے تھے۔ میں نے رومانہ کی درخواست پر وہ شام فلیٹ سے باہر گزاردی۔ میری وہ چھوٹی سی مدد اس کی ذات کے گرد بنی دیوار چین میں پہلی دراڑ ڈال گئی ۔ رفتہ رفتہ چہرے کاکرخت پیٹرن ڈھیلا پڑنے لگا۔ اب بیٹھک اور کچن میں آمنا سامنا ہونے پر گولیاں نہیں بل کہ مسکراہٹ چلنے لگی۔ دھیرے دھیرے ماحول بدلنے لگا۔ اس کے جذبات میں پوری طرح حدت تو نہیں آئی تاہم پہلے والی سرد مہری بھی نہ رہی۔ چاروں طرف جمی برف دھیرے دھیرے پگھلنے لگی۔ اب کبھی کبھی ساتھ بیٹھ کر مشروب بھی پیا جانے لگا تھا۔
ایک بار کچھ دن کے لئے رومانہ کے والدین ٹورانٹو آگئے۔ میں نےپھر سے ازراہ ہم دردی اپنا بوریہ بستر سمیٹنا چاہا۔ رومانہ نے روک لیا۔ وہ ایک اچھی ایونٹ مینیجر تھی۔ وہ اپنا کام،والدین اور مجھےایک ساتھ سنبھالنے لگی۔ ماں کو اس نے اپنے کمرے میں شفٹ کرلیا۔ پتامیرے حصے میں آگئے۔ رات کا کھانا سب ساتھ کھاتے تھے ۔ اس کی باورچیانہ صلاحیتوں کا بھی جواب نہیں تھا۔ شام کو اکثر اکٹھے ہی گپیں لگتیں ۔ اس کی ماں کی فرانسیسی نما ہندی قہقہوں کی بنیاد ہوا کرتی تھی۔لیکن زیادہ تعجب مجھے رومانہ کی شدھ ہندی اردوپر ہوا۔ یہ لڑکی قسطوں میں مارنے کی ماہر تھی۔ پانچ دن گزرگئے پتا ہی نہ چلا۔ معلوم تو اس وقت پڑ ا جب اس کی آنکھوں کے بڑے بڑے کٹورے آنسووں سے چھلکنے لگے۔ بھاری من اور بھاری دکھ کے ساتھ رومانہ کے والدین کو وداع کرکے ہم ایر پورٹ سے واپسی پر بالکل چپ تھے۔ گھر پہنچ کر وہ اسی چپی کے لبادے میں سمٹی سمٹائی اپنے حصے میں کہیں غائب ہوگئی۔
اب ہم دونوں عمداً بھی ساتھ بیٹھنے لگے تھے۔چائے اور ٹی وی ساتھ چلنے لگی تھی۔ کبھی آفس کی باتیں کبھی موسم کی گپیں کبھی ہالی وڈ تو کبھی بالی ووڈ کی ۔ اب ہماری گفتگواکثر ہندی میں ہونے لگی تھی۔ چائے کافی کے ساتھ مارٹینی اور وڈکا نے بھی بیٹھک کا راستہ ڈھونڈھ لیا تھا۔ اکثر ڈنر ساتھ ہونے لگا تھا۔پیزا اور برگر بھی ایک دوسر ے کے لئے پوچھ کر منگوانے کا تکلف اب جاتا رہا تھا۔
ایک ویک اینڈ پر میرا قریبی دوست اگروال بار بی کیو کے سارے لوازمات اور اپنی نئی گرل فرینڈ کے ساتھ اچانک آن دھمکا۔ اس طرح کی حرکتیں اسی کا خاصہ تھیں۔ اس اچانک حملے کے لئے نہ میں تیار تھا نی میرا فلیٹ اور نہ رومانہ لیکن اس دن پہلی بار میں نے رومانہ کا ایک اور پہلو دیکھا۔ مہمانوں کی آو بھگت اور دیکھ بھال میں وہ مجھ سے زیادہ فعال نکلی۔ میرا دوست جو کافی حد تک میرے معاملات میں دخیل تھا ۔میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔
"چودھری سالے… بلی مار بھی لی تو نے اور بتا یا تک نہیں۔ " رومانہ بھی اپنے حسن اخلاق کے ذریعےیہ باور کرانے پر تلی ہوئی تھی کے "بلی۔۔۔ تو کب کی ماری جاچکی تھی" اس پارٹی میں وہ پہلی بارمارٹینی سے برانڈی تک پہنچی تھی۔ یہ لڑکی پہلے حیرت کا انیستھیسیہ دیتی تھی پھر جھٹکا کرتی تھی۔

وہ مغرب کی پیداوار ہوتے ہوئے بھی مشرقی قدروں کی امین تھی۔ مگر آج اسے اپنی بنیاد کی طرف لوٹتا دیکھا جا سکتا تھا۔ پارٹی ہر گذرتے لمحے کے ساتھ وائلڈ ہورہی تھی۔ ناچ گانا ،مغربی میوزک، کل ملا کر ایک ہنگامہ بپا رہا۔ بار بی کیو، برانڈی اور بکواس ساری رات حواس پر طاری رہے۔ رات کے آخری پہر اگروال اپنی دوست کو لے کر میرے کمرے کی طرف چل دیا ۔ رومانہ نے مجھے اپنے کمرے میں خوش آمدید کہا۔ اس رات میں نے پہلی بار اس کا کمرہ اندر سے دیکھا تھا۔ وہ بالکل اس کی شخصیت کی طرح صاف ستھرا تھا۔ مہذب رنگوں کا امتزاج، برتنے کا سلیقہ ۔ خواب ناک سی خوشبو، سب نے مل کر دماغ پر چڑھے رومان کو ایڑ لگادی۔ نشے کو پر لگ گئے۔ میری دست درازیاں ، اس کی نیم دل مزاحمت ۔ بہی کھاتے کھل ہی جاتےمگر وہ رومانہ تھی اس کی مشرقی حیاراستے کا روڑہ بن گئی ۔ پھر ماسٹر سائز ہوتے ہوئے بھی اس کا بیڈروم ہمیشہ کی طرح کنچن چنگا کی چوٹیوں کی مانند صاف ستھرا ، یخ بستہ اور مقدس ہی بنا رہا۔

دوسرے دن کی صبح میرے دل میں رومانہ کی قدرو منزلت اور بڑھا گئی۔ سہ پہر کی چائے سے پہلے اگروال اور اس کی دوست جاچکے تھے۔ رومانہ کسی سیپ سے نکلے موتی کی طرح چم کدار لگ رہی تھی۔چکن برگر اور اسٹرانگ چائے، ساتھ میں پیاری سی مسکراہٹ، جینے کو اور کیا چاہیے۔اب ہم لوگ زیادہ وقت اکٹھے ہی گذارنے لگے تھے۔ باہر بھی جانے لگے تھے۔تفریح طبع، خریداری سب کچھ ساجھا ہی چل رہا تھا۔تیرا میرا کی تمیز کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ کیوپڈ دیوتا ہمیشہ ایسے ہی کسی موقعے کے منتظر ہوتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے ترکش کے سب سے فیصلہ کن تیر ہمارے لئے مختص کیے اور اس وقت تک برساتے رہے جب تک دستار بندی نہ ہوگئی ۔شادی کے بعد عموماً لڑکیاں وداع ہوکر سسرال جاتی ہیں۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہوا ۔ فلیٹ کا رومانہ والا حصہ زیادہ رومانٹک تھاسو وداعی میری ہوئی۔ یوں زندگی ایک نئی اور حسین دھج پر رواں ہوئی۔
رومانہ جتنی خوب صورت تھی اس سے زیادہ خوب سیرت نکلی۔ اب راوی نے اپنی سیاہی بدل لی تھی۔ اگلے باب سنہری لفظوں میں ڈھلنے لگے۔ ہم دونوں میں محبت کی مسابقت شروع ہوئی ۔ اتنی احتیاط سے ایک دوسرے کو خرچ رہے تھے جیسے کوئی اپنی تنخواہ کو مہینے کے آخری دنوں میں خرچتا ہے۔ہم دونوں نے میدان بانٹ لئے ۔ گھر کے باہر وہ میری ہتھیلی کا چھلہ تھی، گھر کے اندر میں اس کی آنکھ کا تارہ۔ کئی ماہ تک محبت کی یہ گنگا جمنا تواتر سے بہتی رہی ۔
نیلے آسمان کے نیچے کچھ بھی دائمی نہیں ہوتا۔ایک معمولی سی بات ہم دونوں کے بیچ گہری کھائی بن گئی۔کچھ رشتوں میں جھوٹ کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی غلط فہمی نے ہم دونوں کو ریل کی پٹریوں میں بدل دیا ۔پھر زند گی نے اپنا ڈھب بدل لیا ۔ اس نے اپنی ذات کے گرد گوتم بدھ کی خاموشی اوڑھ لی۔ پہلے پہل بیزاری نےوہاں سیندھ لگائی پھر پیار کی بنیادیں کم زور کرنے لگی۔ عجبب لڑکی تھی، جو سکے اب مشرق میں بے وقعت ہوچکےتھے انہیں وہ مغرب میں چلانےپر بضد تھی۔
ایک دن کام سے واپسی پر میں بہت زیادہ فکر مند تھا۔ آفس کے کچھ مسائل، وطن میں جایداد کو لے کر تناتنی، فلیٹ اور گاڑی کی اقساط ۔ یوں اس طرح چاروں طرف سے ہونے والی یلغار سے طبیعت مکدر ہو رہی تھی۔ ایسے میں رومانہ کی لمبی ہوتی چپی اور نسوانی پنڈار نے حالات کو بے قابو کردیا۔ میں نے بہت احتیاط سے سب کچھ سنبھالنے کی کوشش کی ۔ مگر ہم دونوں کے بیچ وہ قضیہ شیطان کی آنت کی طرح کھینچتا ہی جارہا تھا۔ حال آں کہ میری جانب سے کوششیں تھیں ۔ مگر رومانہ نے ناری ہٹ پکڑ لی تھی اور ہٹ کر نہیں دے رہی تھی۔ جھگڑا لمبا ہوتا گیا، چلتا گیا اور اس وقت تک چلتا رہا جب تک میرے اندر کا مشرقی مرد جاگ نہ اٹھا ۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک تھپڑ۔۔۔ اور سب کچھ ختم ۔ ہماری ازدواجی زندگی کا ختم شد ۔کم سے کم اس کی طرف سے تو یہی کہا گیا تھا۔ جاتے جاتے اس نے عدالت میں ملنے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ وہ ایسی ہی تھی۔ اس کا ہر کا م ایسا ہی تھا۔ اس کی محبت مثالی تھی، اب نفرت کی باری تھی اور مجھے ڈر تھا اس میں بھی وہ بے مثال نہ نکلے۔
کچھ موسم لوگوں کے ساتھ آتے ہیں اور ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ اب وقت کٹ نہیں رہا تھا۔ کاٹا بھی نہیں جارہاتھا۔ فون ، واٹس اپ،انسٹاگرام سب کے دروازوں پر میرے لئے ممنوع لکھا جا چکا تھا۔ میں نے اس کے والدین سے رابطہ کیا ، ان کے جملہ حقوق بھی تسلی دلاسے تک ہی محدود نکلے۔جنگ بندی کی کوئی ترکیب نہ نکال پائے۔ کچھ دن تک میں نے کوشش کی پھر میری اپنی بھی انا چٹان بن کر راستے میں آگئی۔ پیار پر عزت نفس کا دو طرفہ حملہ ہوا۔ سرد جنگ لمبی ہوتی گئی۔ سب کچھ ٹھہر گیا جیسے کرونا نے قرنطینہ کردیا ہو ۔ صبحیں کہیں ہورہی تھیں۔ شاموں کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ہماری شادی کی سال گرہ بھی ہوتی ہے۔ سال گرہ کا سفید جھنڈا ہاتھ لگا تو میں نے نئے سرے سے جنگ بندی کےقواعدشروع کردی۔ چپ چپاتے چوبیس ڈسمبر صبح کی کیوبک سٹی کے لئے بکنگ بھی کرالی۔ اسی تاریخ کو ہماری شادی ہوئی تھی۔ تحفے تحائف اور تیاریوں میں لگ گیا۔
کل صبح تین بجےایر پورٹ کے لئےنکلنا تھا لہذا جلد سونے کے لئے بستر پر چلا گیا۔رات کے دوسرے پہراچانک لگا کوئی دھڑدھڑا کردروازہ پیٹ رہا ہے۔ بے تکے انداز میں ۔۔۔جیسے کوئی بلا پیچھے لگی ہو۔ یا یہ میرے خواب کا حصہ تھا۔ جھنجلاہٹ میں آنکھ کھلی تو معلوم پڑا یہ خواب ہی کا حصہ تھا۔ مگر کال بیل حقیقت تھی اور لگا تار بج رہی تھی۔ میں زچ ہوگیا۔ متواتر بجنے والی کال بیل نے عندیہ دیا کہ یہ اگروال ہی ہوگا ایسی عجیب و غریب حرکتوں کا کانٹریکٹ اسی کے پاس ہوتا تھا۔ میں نہایت غصے میں دانت پیستا ہوا مغلظات کے گھوڑے پر سوار دروازے تک گیا۔ لیکن یہ کیا دروازے پر رومانہ کھڑی تھی۔ میرا سارا غصہ اوراس کے گھوڑے آن کے آن ہرن ہوگئے۔
وہ ایسی ہی تھی۔ متحیر کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ زمانے سے دو قدم آگے رہتی تھی۔ انیورسری کی خاطر میں صبح جانے والا تھا اور وہ رات گیارہ بجے ہی یہاں پہنچ گئی۔جیتنا اس کی عادت تھی، آج بھی جیت گئی ۔ بہت سارے شکوے شکایتیں وہیں کھڑے کھڑےختم ہوگئے۔ سارا کہا سنا معاف۔ پھر بھی بہت کچھ باقی تھا۔ زندگی بھی ساری باقی تھی۔ ابھی سفر سے آئی تھی۔ فریش ہونا بنتا تھا۔ میں مسہری پر نیم دراز اس کے واش روم سے نکلنے کا انتظار کرتا رہا۔اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ کسی اجنبی کال کو رات کے اس پہر انٹر ٹین کرنا میری پالیسی کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن فون پر رومانہ کےپتا جی تھے۔
"ہیلو انکل۔۔۔ "
” کیسے ہو ۔۔۔ بیٹا تم نے ٹی وی پر خبریں دیکھیں "
"نہیں کیوں ؟ ۔۔۔ کوئی خاص بات "
” دیکھ لو بیٹا ۔۔۔۔۔اس وقت سب چینلوں پر وہی خبریں چل رہی ہیں۔ ۔۔۔ "
میں نے جلدی سے ٹی وی آن کیا۔وہاں ہر نیوز چینل پرکیوبک سٹی کے ایک حادثے کی خبر چل رہی تھی۔ آج شام ہوئے ہوائی حادثے میں ایک بدقسمت پرواز کی تفصیل تھی جوکسی تکنیکی خرابی کے سبب ٹار میک کےچھوڑتے ہی حادثے کا شکار ہوگئی تھی ۔ خبروں کے مطابق سارے لوگ جاں بحق ہوچکےتھے۔ مہلوکین کی فہرست اور تفصیلات متواتر دکھائی جارہی تھیں۔ اس میں رومانہ کا نام بھی شامل تھا۔ اس وقت رومانہ یہاں میرے پاس نہ ہوتی تو اس کی تصویر اور تفصیل دیکھ کر میں بھی غچہ کھا جاتا۔ انتظامیہ کی اتنی بڑی غلطی پر میں ششدر تھا۔حیران تھا۔تبھی فون پھر بج اٹھا۔
"جی انکل، دیکھ رہا ہوں لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ رومانہ اس وقت میرے پاس ہے۔ کچھ ہی دیر پہلے یہاں پہنچی ہے”
"کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔ ایرپورٹ پر تو میں خود اسے چھوڑ آیا تھا ۔ ایسا کرو تم یہیں آجاو یہی بہتر رہے گا” انھیں لگا میں شدت غم سے بہک گیا ہوں۔ اول فول بک رہا ہوں۔وہ اپنی جگہ صحیح تھے۔ حالات ہی ایسے بن رہے تھے۔ سب کچھ شاید جیسا تھا ویسا نہیں تھا۔بہت دیر ہوئی رومانہ بھی واش روم سے نکلی نہیں تھی۔اس غیر معمولی دیری نے میرے اندیشوں کی پیٹھ پر خوف کے بچھوچھوڑدیے۔بجلی کی سرعت سے میں واش روم کی طرف لپکا۔ آوازیں دیتا رہا دوسری طرف سناٹا بول رہا تھا۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔ہاتھ لگتے ہی دروازہ کھل گیا ۔ ریڑھ کی ہڈی سنسنانے لگی۔ اندر سے مقفل نہیں تھا،سنسناہٹ بڑھنے لگی۔ وہاں رومانہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ تاہم جا بجا اس کی نشانیاں نظر آرہی تھیں۔طوفان کے بعد کی خاموشی. دل میں دھمک پیدا تھی۔ صابون، شامپواور لوشنوں کی خوشبوکے باوجودرومانہ کی مہک کو میں الگ سے محسوس کررہا تھا۔ اس کے وجود کی خنکی یہیں کہیں اس کی موجودگی کی سرگوشیاں کررہی تھیں۔جاکوزی کے دوسری طرف پڑے ہوئے اس کے کپڑے ماحول کو اور پراسراربنارہے تھے۔ میں حیرت و غم کی مورت بنا چپ چاپ کھڑا ہونقوں کی طرف پلکیں جھپکا رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔ اس کا ہر کا م ایسا ہی تھا۔
۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔

افسانہ نگار کا یہ افسانہ بھی پڑھیں : کیمیا گر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے