اموات کے اعداد وشمار

اموات کے اعداد وشمار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ

کورونا کے بارے میں جو اعداد وشمار حکومتی سطح پر فراہم کیے جا تے رہے ہیں، اس میں ہیرا پھیری ، حقائق کو چھپانے اور موت کے اعداد وشمار کم کرکے دکھانے کے واقعات اس کثرت سے ہوئے ہیں کہ عدالت کو اس سلسلے میں مداخلت کرنی پڑی، مرکزی حکومت سے لے کر ریاستی حکومت تک کا رویہ اس معاملہ میں یکساں رہا ہے، جن ریاستوں نے موت کے اعداد وشمار چھپانے کی غرض سے صحیح اطلاعات عوام تک نہیں پہنچائیں، ان میں مدھیہ پردیش ، بہار ، کرناٹک ، یوپی ، گجرات سرفہرست ہیں، مدھیہ پردیش میں سرکار کی طرف سے جو اموات کی تعداد بتلائی گئی ہے وہ ۲۰۱۹ء میں اکتیس ہزار اور ۲۰۲۰ء مئی میں صرف چونتیس ہزار ہے، جب کہ آزادانہ سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان ماہ وسال میں مدھیہ پردیش میں مرنے والوں کی تعداد تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد تھی، گجرات میں ۱۰؍ اپریل سے ۹؍ مئی کے درمیان پورے صوبے میں صرف تین ہزار پانچ سو انہتر اموات کا اندراج سرکاری طور پر کیا گیا، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ صرف احمد آباد کے اسپتال میں ہی تین ہزار چار سو سولہ اموات ہوئیں، ظاہر ہے پورے گجرات کے اعداد وشمار بتائے ہوئے آنکڑوں سے کہیں زائد ہوں گے۔
اس درمیان یہ سچ بھی سامنے آیا کہ پورے ملک میں کورونا ویکسین لینے کے باوجود چار سو اٹھاسی لوگ موت کی نیند سو گئے اور چھبیس ہزار سے زائد لوگوں پر اس ویکسین کا سائیڈ ایفیکٹ ہوا اور وہ ایڈورس ایونٹ فالوئنگ امیونا ئزیشن (AEFI)کے شکار ہوئے، یہ اعداد وشمار امسال ۱۶؍جنوری سے ۷؍ جون کے درمیان کے ہیں۔
بہار کے افسران بھلا اس میں کیوں پیچھے رہتے، چناں چہ سرکار نے دوسری لہر کے دوران مرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار چار سو بائیس بتائی، جب کہ پٹنہ کے تین شمشان گھاٹوں پر ہی تین ہزار دو سو تینتالیس افراد کی آخری رسوم ادا کی گئی تھیں اور ان میں کورونا پوروٹوکول کو برتا گیا تھا، جب مختلف اخبارات کے ذریعہ آزادانہ جانچ پڑتال شروع ہوئی تو سرکار نے نو ہزار تین سو پچھہتر اموات کو تسلیم کیا، حال آں کہ یہ بھی آدھا سچ ہے، اس لیے کہ یہ اعداد وشمار تو صرف چار بڑے سرکاری اسپتال، ایمس ، پی ایم سی ایچ، این ایم سی ایچ اور آئی جی ایم ایس کے ہیں، سرکار نے بہار میں چھتیس پرائیوٹ ہوسپٹل کو بھی کورونا کے علاج کی اجازت دی تھی، ان ہوسپیٹلوں میں کتنوں نے جان گنوائی وہ اعداد وشمار آنے باقی ہیں، ان اسپتالوں میں اٹھائیس تو پٹنہ کے ہی ہیں، جنھوں نے خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ہے، باخبر ذرائع کے مطابق ۷۲؍ فی صد اموات کو سرکارنے چھپا کر پیش کیا ، اب جب کہ سچ سامنے آیا ہے تو سرکار نے ایسے افسروں پر کارروائی کی بات کہی ہے، جن کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے حکومت کی کِر کِری ہو ئی ہے، سرکار نے اموات کے اعداد وشمار کے صحیح تجزیہ کے لیے ایک تین نفری کمیٹی بنادی ہے، تاکہ پورا سچ سامنے آسکے۔
سرکار نے یہ اعداد وشمار اس لیے چھپائے تاکہ کورونا میں سسٹم فیل ہونے کا جو تصور عوام میں پھیل گیا تھا، اس کے اثرات کو کم کیا جا سکے، کورونا سے مرنے والوں کے لیے امداد کا اعلان بھی سرکار نے کیا ہے، اعداد وشمار کم ہوں گے تو سرکاری خزانے پر بوجھ کم پڑے گا، شاید یہی وجہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے موت ہونے کے سرٹیفیکٹ دینے میں بھی اسپتال والے ٹال مٹول کر رہے ہیں، مرنے والوں کی تعداد کم دکھا کر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ بہار میں اس مرض سے نمٹنے کے اچھے انتظامات تھے،چناں چہ ہماری کوشش بار آور ہوئی، اس لیے اتنی کم موتیں ہوئیں۔
بہارہی نہیں پورے ہندستان کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ یہاں لاشوں اور کفن پر بھی سیاست ہوتی ہے، اعداد وشمار کے اس الٹ پھیر پر بھی سیاست ہو رہی ہے، مرنے والا تو جا چکا ، جس کرب سے وہ گذرا اور جس بے بسی کا سامنا تیمار داروں اور عزیزوں نے کیا، اس کو ذہن سے نکالنا آسان نہیں ہے، مگر ان کے وارثوں کے لیے جوامداد کا اعلان کیا ہے اس میں تو ایمان داری برتو، پورا ہندستان یہی چاہتا ہے اور اس وقت پورا بہار اسی کی آواز لگا رہا ہے۔
ہائی کورٹ نے بھی کورونا سے موت کے اعداد وشمار دوسری ایجنسیوں کے ذریعہ فراہم کرنے پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے، عدالت کا کہنا تھا کہ میڈیا اپنا کام کر رہا ہے، روک کی کیا ضرورت ہے، اسے یہ کام کرنے دیں، عدالت نے سرکار سے یہ بھی پوچھا ہے کہ موتوں کے آنکڑے بدلنے کے لیے کیا پیمانہ بنایا گیا تھا، مرکزی حکومت کی جانب سے بھی ریاستی حکومت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد تاریخ اور ضلع وار پیش کریں، امید کی جاتی ہے کہ بہار سرکار کی طرف سے بھی سچ سامنے لانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔اس درمیان مرکزی حکو مت نے عدالت میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس میں کو رونا سے مرنے والوں کے ورثاء کو چار لاکھ معاوضہ دینے کی اپنی حیثیت سے انکار کیا ہے۔حال آں کہ وزیر اعظم فنڈ میں اربوں روپے کورونا متاثرین کے نام پر ہی جمع کیے گئے تھے.
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں :اتحاد امت وقت کی بڑی ضرورت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے