خودکلامی اور یادِ ماضی کا آئینہ ”آہٹ پانچویں موسم کی“

خودکلامی اور یادِ ماضی کا آئینہ ”آہٹ پانچویں موسم کی“

(ایک تجزیاتی مطالعہ)
ابراہیم افسر
دورِ حاضر میں جن شاعروں نے اُردو ادب کو اپنی شعری جہات اور کمالات سے مالا مال کیا ہے ان میں ایک نام ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کا بھی ہے۔ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے 1980کے بعد اُردو ادب میں قدم رکھا۔یہ زمانہ شاعری اور نثردونوں کے لیے آزمایش کا رہا ہے۔ایک نسل(ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والے افراد) اس دنیا سے رخصت ہوئی تو دوسری نسل(جدید یت کے زیرِ اثر ادب تخلیق کرنے والے ادبا و شعرا)نے اُردو ادب کی ذمہ داری کی بار اپنے کاندھوں پر لیا۔اس نئی نسل کا زیادہ تر رجحان انسانی زندگی کے مسائل کو اپنے مواد کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ساتھ ہی قارئین تک بے بس و لاچار لوگوں کی کہانیوں کو افسانوں اور شاعری میں پیش کرنا تھا۔1990کے بعد ادب کی اس نئی نسل نے پوری طرح سے ادب کو متاثر کیا اور ناقدین بھی اس نسل کے تخلیق کردہ ادب میں دل چسپی لینے لگے۔2000کے بعد جیسے ہی اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو گذشتہ صدی کے مسائل سے درکنار کرتے ہوئے ادب نے بھی ایک انگڑائی لی اور اب ادب میں مرد و زن کو برابر کا درجہ دیا جانے لگا۔شاعری میں ان دونوں کے مسائل کو بھر پور جگہ دی گئی۔جن شاعروں نے اپنی شاعری کو وقت کے ہاتھوں سپرد کیا اور اکیسویں صدی کے ابتدائی دور میں جدید غزل اور نظم کی ترجمانی اور آبیاری میں کلیدی کردار اداکیا ان میں ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کا نام سر فہرست ہے۔ان کا تازہ مجموعۂ کلام”آہٹ پانچویں موسم کی“میں مذکورہ بالاباتوں کو پیش کیا گیا ہے۔موصوف نے مشرقی روایتوں کی پاس داری اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کو اپنی شاعری میں خاص مقام عطا کیا۔قدیم تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ رثائی ادب کی ترجمانی بھی انھوں نے اپنی شاعری میں خوب سے خوب تر کی ہے۔اپنے آبائی وطن کی یادوں کو (میں اسے یاد ماضی سے تعبیر کرتا ہوں)نظموں میں خوش بو کی طرح استعمال کیا۔ماضی،حال اور مستقبل کوسامانِ زیست قرار دیا۔ الغرض!زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں کو قارئین کے سامنے اس انداز سے پیش کیا گویا وہ عباس رضا نیرؔ کی شاعری کو نہیں،اپنی گم شدہ زندگی کے اوراق کو پلٹ کر پڑھ رہا ہو۔
”آہٹ پانچویں موسم کی“(سنِ اشاعت2016) ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ(پ:30جون1976)صدر شعبۂ اُردو، لکھنؤ یونی ورسٹی،لکھنؤ،کی جدید غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے۔اس مجموعے میں 100غزلیں اور99نظمیں شامل ہیں (کل تعداد199)،صفحات کی ضخامت 316 ہے۔اس مجموعے کی زیادہ تر نظمیں، آزاد اور بابندنظموں کی ہیئت میں ہیں،یہ نظمیں جدیدیت کی علم بردار ہیں،کچھ نظمیں چار،پانچ اورچھ مصرعوں اور کچھ نظمیں آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ڈاکٹرعباس رضانیرؔ نے ”دریچہ“(جسے مقدمہ یا پیش لفظ کہنا مناسب ہوگا)عنوان کے تحت اپنے دل کی باتیں قارئین سے نثری نظم کے انداز میں Shareکی ہیں۔جب قاری”دریچہ“کا مطالعہ کرتا ہے تو نیرؔ صاحب کی نثری باتوں کی چاشنی اور طرز ادا کی کشش میں اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ”دریچہ“ کے دس صفحات کب مکمل ہوگئے۔اس مقدمے کی خاص بات یہ ہے کہ موصوف نے قدیم نثری لب و لہجہ اور اسلوب کو اختیار کر اسے با اثر و با معنی شکل عطا کی۔قدیم لکھنوی انداز نگارش کا رنگ اس مقدمے میں جا بجا دکھائی دیتاہے۔کئی نقادوں کا خیال ہے کہ اس مقدمے میں سب رس،باغ و بہار اور فسانۂ  عجائب کی نثری خوبیاں شامل ہیں۔اس مقدمے کے ذریعے ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی نثری صلاحیتوں کے نئے باب دریچوں سے باہر آئے ہیں۔ ”دریچہ“ میں عباس رضانیرؔ نے اپنے ادبی حالات کے ساتھ اُن پریشانیوں کو بھی قلم بند کیا ہے جن سے موصوف کا سابقہ طالب علمی کے زمانے میں اپنے آبائی وطن قصبہ جلال پور ضلع امبیڈکر نگر(یوپی)سے لکھنؤ آنے تک کے سفر میں ہوا۔شاعری کے ابتدائی زمانے میں موصوف مشاعروں میں نظامت بھی کیا کرتے تھے، ساتھ ہی مشاعروں سے ملنے والی قلیل رقم سے اپنی آگے کی تعلیم کو جاری رکھا۔مشاعروں میں انھیں اکثر لوگ”نیرؔ جلال پوری“کے نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ویسے جلال پور اُردو ادب خاص کر شاعری کے حوالے سے بڑا ہی زر خیز رہا ہے۔اس سر زمین پر اُردو کے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے جنھوں نے شاعری بالخصوص مشاعروں کی دنیا میں علاحدہ پہچان قائم کی۔ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ نے ”دریچہ“ میں اپنی پہلی ملازمت بہ طوراسسٹنٹ پروفیسر اُردو، مہاراجہ ہریش چندر پی جی کالج مراد آباد میں کرنے اور وہاں کے لوگوں،خاص طور پرروہیلہ پٹھانوں کے خلوص، مہمان نوازی اور ایثار و قربانی کے جذبے کا تذکرہ بھی ببانگ دہل کیا ہے۔ذریعۂ معاش اورسنہرے مستقبل کی تگ و دوکے تعلق سے ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
میں دیا ہوں مجھے بجھائے گی
اے ہوا سانس پھول جائے گی
گھر سے نکلوگے تم رستوں میں
دھوپ سائے بجھاتی جائے گی
میں پہلی بار جب اپنے وطن سے نکلا تھا
ڈرا رہے تھے کئی سانپ پھن اُٹھائے ہوئے
موصوف نے اس بات کا اعتراف بڑی طمانیت کے ساتھ کیا کہ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور آبیاری کرنے میں ان کے ناناکیفؔ جلال پوری کاکیا کردار رہا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ موصوف کے شعری شغف اور ذوق کو بامِ عروج تک پہنچانے میں ان کے نانا اور دادا مرحوم دونوں کی تربیت کا خاصا عمل دخل رہا ہے۔اپنے نانا مرحوم کیف ؔجلال پوری کو خراج عقیدت اس شعر کے ساتھ پیش کی ہے:
ہوائیں کیفؔ کو پھر ڈھونڈتی ہیں اے نیرؔ
کہاں ہے وہ مرا مانجھی کوئی خبر آئے
ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ نے اپنے والد محترم(پیشے سے معلم) کی اس دیرینہ خواہش کا بھی احترام کیا ہے کہ ”اپنی زندگی میں کتابوں کی اشاعت کرو تاکہ آنے والی نسل ان کتابوں میں اپنے اجداد کی کاوشوں کو تلاش کرے۔“اپنے والد محترم کی خواہش کو مد نظررکھتے ہوئے موصوف کی مختلف کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں رثائی ادب 2016،خواجہ احمد عباس 2016، تنقیدی بحثیں 2016،آہٹ پانچویں موسم کی 2016(دیو ناگری رسم الخط)،الہام(نظموں کا انتخاب) 2014،شیرِ خدا کی شادی(نظموں کا انتخاب) 2006، ادبی میزان(تحقیقی مقالات کا مجموعہ)2005اور دریا چڑھا لہروں کا اہمیت کی حامل ہیں۔اس کے علاوہ عباس رضا نیرؔ نے جن کتابوں کو مرتب کیا ہے ان میں اودھ اور ادب(مضامین کا مجموعہ)،کلیاتِ کیف2016،اُردو ناول اور اودھ2016،احساس(انٹرویوزکا مجموعہ) 2016، مجروح کچھ یادیں کچھ باتیں 2015،فہرست اُردو مخطوطات(کانگریس لائبریری امریکہ)2015،خطوط بنام ضمیر2015،عظمتِ ابو طالب2009،ابھی سفر میں ہوں 2006،چراغِ ہرا2002،دُرِّ نجف2002،لبِ نیلگوں 2000،نغمۂ توحید1998اور شبیح الحسن نمبروغیرہ کو فوقیت حاصل ہے۔
موصوف نے اس شعری مجموعے میں اپنی زندگی کے چار موسموں (سردی،گرمی،برسات اور موسمِ بہار) پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔دریچہ،ویسے تو نثری نظم میں تحریر کیا گیا ہے لیکن اس میں بھی وہی لطف اور نغمگی ہے جو موصوف کی غزلوں اور نظموں میں موجود ہے۔اپنی بات کوموصوف نے کتنے دل کش انداز میں (نثری نظم) بیان کیا ہے اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
”موجۂ خونِ جگر تو ہی بتا!….لوحِ دل پر نئے حالات،نئے عہد،نئے درد کا ماتم لکھوں….زندگی تجھ کو سجانے کے لیے دنیا میں۔چار موسم ہیں یقیناً لیکن،جانے کیوں ہوتا ہے محسوس کہ انسانوں سے،چاروں موسم ہی خفا ہوں جیسے۔کسی موسم کی کسی شاخ،کسی پھول،کسی پتّے پر،کوئی بھی رنگ نہیں کھلتا ہے۔آنچ دیتا ہوا احساس سوالی ہے کروں کیا آخر…..؟دھوپ کو شبنم لکھوں….؟یا کوئی پانچواں موسم لکھوں…..؟
(آہٹ پانچویں موسم کی،عباس رضا نیر،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2016صفحہ14تا15)
ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ نے اپنے مقدمے میں اس بات کی وضاحت صاٖف لفطوں میں کی ہے کہ ان کی یہ شعری کاوش کسی بڑے شاعریا ان کے کلام کی اتباع نہیں ہے۔موصوف کے دل میں یہ خیال بھی نہیں ہے کہ اس شعری مجموعے کی وجہ سے ان کا نام و نمود ہو۔موصوف کو اس مجموعے کی تشہیر سے بھی کوئی لینا دینا نہیں۔بل کہ ان تمام باتوں کے مد نظر موصوف نے یہ کہا ہے کہ میرا کوئی ارادہ میرؔ،سوداؔ،مومنؔ،غالبؔ، دردؔ، اقبال، جوشؔ،فانیؔ،جگرؔ،حسرتؔ،آتسؔ،فیضؔ،جونؔ،عرفانؔ صدیقی اور ناصرؔکاظمی جیسے جلیل القدر شاعروں کے رنگ میں رنگ کر شاعری کرنے کا نہیں ہے۔موصوف کا ارادہ تو بس اپنے دل میں جذباتوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو قلم بند کرنے کا ہے۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان کی شاعری نے قاری کے دل میں کتنی جگہ بنائی اور ان کی شاعری سے اُردو ادب کو کتنا فائدہ ہوا؟اپنی شعری جہات اور کاوشوں کے بارے میں عباس رضا نیرؔ رقم طراز ہیں:
”اپنے ہاتھوں میں قلم لے کے میں سوچتا ہوں،یہ میرے اپنے جو غم ہیں وہ کہاں ایسے ہیں،خود جن کی میں تشہیر کروں؟،وہ سلیقہ ہی کہاں مجھ میں کہ میں پیروی میر کروں،نہ وہ سوداؔ کا ہے آہنگ نہ مومنؔ کی ہے شوخی مجھ میں اور غالبؔ کی ظرافت بھی مرے پاس نہیں،فلسفہ شعر میں اقبالؔ کا لاؤں کیسے؟دردؔ کے جیسا تصوف نہ جگر ؔ جیسا گداز،جوشؔ کا رنگ مرے پاس نہ فانیؔ کی وہ حسرت نہ وہ آتسؔ کی مرصع سازی،فیض ؔ کی،جونؔ کی ناصرؔ کی نئی شعری روایت بھی مرے پاس نہیں،نمکِ خوانِ تکلم جو ہوا کرتی تھی،وہ فصاحت بھی مرے پاس نہیں ،جس کی ہیبت سے لرزا اٹھتا تھا الفاظ کا رن،وہ بلاغت بھی مرے پاس نہیں….افتخار عارفؔ اور عرفان کے لہجے کی روایت جو ہے طارقؔ کی اساس…..شکر ہے تھوڑی بہت ہے مرے پاس۔مگر اس کوفۂ بیعت میں بھی حرکتنے ہیں؟کون دے سکتا ہے انکار کا ساتھ؟
(آہٹ پانچویں موسم کی،عباس رضا نیر،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2016صفحہ21)
اب میں عباس رضا نیرؔ کے شعری مجموعے ”پانچویں موسم کی آہٹ“ میں شامل کچھ نظموں اور غزلوں پرتنقیدی گفتگو کروں گا۔موصوف نے اپنی بہت سی غزلوں میں زندگی کی بے ثباتی اور لاابالی کے ساتھ زندگی کے کینوس میں ابھرنے والے مختلف رنگوں پر بات کی ہے۔ غزل میں عشق و معشوق کی بات نہ کی جائے تو وہ شاعری بے معنی و بے مطلب سی لگتی ہے، عشقیہ شاعری کے بغیر غزل کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اپنی غزلوں میں عباس رضا نیرؔنے بھی عشق کو اپنے خاص انداز میں استعمال کیاہے۔تقدس اورپاکیزگی کے ساتھ اپنے محبوب کا تذکرہ،پھر آداب وگفتگو میں نفاست و نزاکت کے ساتھ اخلاقی قدروں کی بازیابی اور اپنے محبوب سے نہ مل پانے کی کسک اور اس کے عوض میں رات بھر نیند نہ آنے کی شکایت،جیسے اہم واقعات ان کے اشعار میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ان کے اس انداز پر قاری واہ اور آہ کرنے پر مجبور ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
یہ میرا عشق لے کر آ گیا مجھ کو کہاں نیرؔ
کہ میرے چاند کو گھیرے ہیں ہالے آیتوں والے
٭
عشق کے بھی ادب آداب ہوا کرتے ہیں
گفتگو تجھ سے کرے وہ جسے اُردو آئے
٭
تری چشمِ کرم نے یوں لاج رکھی ہے
مرے چو گرد ہیں مکڑی کے جالے آیتوں والے
٭
آنکھیں ہیں لہو،دل کا برا حال بہت ہے
اس عشق میں بھی جان کا جنجال بہت ہے
اپنی غزلوں کی طرح عباس رضا نیر نے نظموں میں بھی عشق سے متعلق نئے سوال قائم کیے۔جب عشق میں ناکام ایک لڑکی مندر میں بھگوان کے سامنے اپنی عشقیہ منت مانگنے آئی ہے تو شاعر نے مندر میں آئی لڑکی سے معصوم اور خاص طرز ادا سے بے ساختہ ”سوال“نامی نظم میں یہ سوال کیا:
کبھی نہ پوجا کرنے والی
لڑکی کو مندر میں دیکھ کے
اس نے پوچھا
آج یہاں
تم؟
کس سے ملنے آئی ہو؟
عباس رضا نیرؔ نے اپنی نظموں اور غزلوں میں ملک کے سامنے در پیش نا مساعد حالات کا بھی خوب تذکرہ کیا ہے۔گنگا جمنی تہذیب کی پاسبانی ان کی نظموں میں بہ درجہ اتم موجود ہے۔موصوف ہندستان میں پنپنے والی مذہبی فرقہ واریت کے سخت مخا لف ہیں۔ہندستان کے امن چین میں خلل ڈالنے اورآپسی بھائی چارے کی مالا کو تار تار کرنے کی ناپاک سازش کرنے والوں میں موصوف خاکی اور کھادی دونوں کو قصور وار مانتے ہیں۔ موصوف ملک میں امن و امان کا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب حالات میں سیاست داں کشید گی اورزہر گھولنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، تب شاعر کا درد مند دل ان پُرکشیدہ اور عہد حاضر کو متاثر کرنے والے پُر خطرحالات پر ”کھیل سیاست کا“نظم کہنے پر مجبور ہے:
پنڈت جی کو گوشت کھلا کر
مولانا کو جام پلا کر
مذہب کا بیوپار چلے گانفرت کا بازار چلے گا
کرسی کا دربار چلے گا
اچھا کاروبار چلے گا
گائے پھر کوئی زخمی ہوگی
انسانوں کا خون بہے گا
گیتا اور قرآن جلیں گے
ڈاڑھی اور چوٹی کی سازش
کھدر اور خاکی کی لغزش
ایک جنگل آباد کرے گی
شہروں کو بر باد کرے گی
پنڈت جی کو خوب کھلا کر
مولانا کو خوب پلا کر
کھیل سیاست کھیل رہی ہے
بھولی جنتا جھیل رہی ہے
اس مجموعے میں عباس رضا نیر نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے EcoSystemپر اعلا معیار کی غزلیں اور نظمیں کہی ہیں۔ مٹی اور انسان کے حقیقی رشتے کو سمجھانے کے لیے انھوں نے غزل کا سہارا لیا۔مٹی انسان کو اس کا عکس دکھاتی رہتی ہے۔مٹی میں ہی کھیل کود کر انسان جواں ہوتا ہے۔جیسے جیسے عمر میں پختہ پن آتا جاتا ہے ویسے ویسے انسان مٹی کی حقیقت سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔وہ اس حقیقت سے بھی نا واقف ہو جاتا ہے کہ خاکی آدم کا خمیر مٹی سے ہی اُٹھا ہے۔ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ نے اس نظم میں حکیمانہ اور فلسفیانہ طرز اختیار کرتے ہوئے انسان اور مٹی کے مضبوط رشتے کو بیان کیا۔نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:
جو کچھ بھی ہے یہ سارا سامان ہے مٹی کا
ہو لاکھ حسیں لیکن انسان ہے مٹی کا
مجھ کو مرے مالک نے مٹی سے بنایا ہے
چلتی ہوئی سانسوں میں گن گان مٹی کا
سب گیت،غزل نظمیں اک چاک پہ رکھی ہیں
یہ گھومتی دنیا بھی دیوان ہے مٹی کا
مٹی کے بعد شاعر نے اپنی شاعری میں ”پانی جیسی انمول شے کو خاص ترجیح دی ہے۔کیا ہم پانی کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی ہلچل محسوس کر سکتے ہیں؟عباس رضا نیرؔ نے اسی نقطۂ نظر کے تحت ماحولیات سے انسانی چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی تلقین کی اورپانی اور زندگی کے رشتے میں جو طلاطم دکھائی دیتا ہے اسے فلسفیانہ انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا۔اس نظم کو پڑھ کر ہمیں حضرت نوح ؑکی کشتی اور دنیا کے از سر نو آباد ہونے کے تاریخی قصے کی یاد آ جاتی ہے۔پانی کو انھوں نے ایک علامتی استعارے کے طور بھی استعمال کیا ہے۔واقعۂ کربلا میں پانی کی عدم دستیابی کے سبب نواسۂ رسول کا خیمہ پیاسا رہ گیا تھا۔اس نظم میں اس تاریخی واقعے کا بھی علامتی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ موصوف”کشتی بہتی جائے“میں ان تاریخی واقعات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اندر پانی،باہر پانی،پانی چاروں اور
خوب مچائے شور
پانی ہی پانی ہے،پانی کی لہروں پر کشتی بہتی جائے
فنا بقا کی ایک سی لے پر مانجھی گیت سنائے
برس رہی ہے حد نظر تک ایک گھٹا گھنگھور
جس کا اور نہ چھور
اسی طرح اپنی نظم”شجر کٹا تو ہری ٹہنیاں نکل آئیں“ میں موصوف نے ایک زندگی کے ختم ہونے کے بعد دوسری زندگی کے شروع ہونے کے دبیز فرق کو عمیق انداز میں سمجھایا ہے۔در اصل یہ غزلیں اور نظمیں موصوف کا ماحولیات سے لگاؤ اور شغف کی جانب واضح اشارہ کر رہی ہیں۔نظم ”پیپل“میں گاؤں دیہات کی باتوں کے علاوہ جاڑا،گرمی،بسنت بہار،پگڈنڈی کے علاوہ چرندوں اور پرندوں کے آشیانوں کی بات کی گئی ہے۔گاؤں،دیہات میں رہنے والے افراد اس درخت کی اہمیت اور افادیت سے بہ خوبی واقف ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ پیپل کا درخت ان کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔اسی شجر سایہ دار کے نیچے گاؤں کے لوگ اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔پیپل کے درخت کو ہندستان کا ایک بڑا طبقہ پوجتا ہے۔اسی درخت کے نیچے مہاتما بُدھ کو ”گیان“حاصل ہوا تھا۔ماحولیات سے متعلق ان کی یہ نظم ایک بہترین نظم ہے۔نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:
میں پیپل ہوں
بہت پرانا پیپل
جاڑا،گرمی،بسنت،بہار کو ئی موسم ہو
ذات پات کے بھید بھاؤ سے اُٹھ کر میں نے
گاؤں کو دی ہے چھاؤں
پگڈنڈی سے سڑک کے جوڑنے والے موڑ پہ
کھڑے کھڑے دیکھے ہیں میں نے
دکھ سکھ کے برہا کے ملن کے کیسے کیسے موڑ
تتلی،بھونرا،طوطا،مینا،کوئل،فاختہ،گوریااور چیل سبھی کومیں نے دیے بسیرے
عباس رضا نیر نے شخصی نظمیں بھی تحریر کیں۔جون ایلیا سے محبت کے سبب انھوں نے نذرِجون ؔایلیا نظم تخلیق کی۔اسی طرح ”نذر عرفان صدیقی“نظم میں عرفان صدیقی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔اپنی والدہ محترمہ کے نام شاعرانہ انداز میں ”ایک چٹھی ماں کے نام“تخلیق کی۔ماں کی مامتا اور اس رشتے کی اہمیت کو وہی انسان پہچان سکتا ہے جس نے اپنی ماں کی مامتا کو نہیں دیکھا یا ماں کے آنچل کا سایہ پانے سے محروم رہا ہو۔عالمی مسائل کے تناظر میں ڈاکٹر عباس رضا نیر ؔنے ”فلسطین،میزائل اور ماں“نامی نظم کے ذریعے ماں بیٹے کے رشتوں کو صفحۂ قرطاس پر لکھا۔اس نظم میں اپنے بیٹے کی شہادت کودل دوز اور ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اسی طرح ”انما کے لیے“نظم میں باپ، بیٹی کے رشتوں میں جو فطری لگاؤ ہوتا ہے کو اجاگر کیا ہے۔عباس رضانیرؔ نے عالمی مسائل پر بھی نظمیں تحریر کیں۔ان نظموں میں احمد فراز ؔ کی طویل نظموں ”سرحدیں“اور ”کالی دیوار“کا اثر صاف نظر آتا ہے لیکن جب غور سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو عباس رضا نیرؔ کے شعری فکر میں دو ملکوں کے عوام کے درمیان پنپنے والی محبت کا بیان ملتا ہے۔اس وجہ سے یہ نظم علاحدہ رنگ،آہنگ اور فکر لیے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔عباس رضانیرؔ کی نظم ”دیوار“اور احمد فرازؔ کی نظم ’سرحدیں“اور ”کالی دیوار“میں مماثلت نہ سہی،لیکن دونوں نظموں میں انسانی رشتوں اور قدروں کی پامالی اور دوملکوں کے درمیان پھیلی ہوئی کشیدگی کو بہ خوبی بیان کیا گیا ہے۔احمد فراز ؔنے جہاں امریکی دادا گیری کو ہدف کا نشانہ بنایا وہیں عباس رضا نیر ؔنے ہندستان اور پاکستان کے عوام کے دکھ درد کو اپنی نظم میں بیان کیا۔دونوں شاعروں کی ذہنی قربت اور مناسبت کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے میں احمد فرازؔ کی نظم سرحدیں کے آخری دو شعر پیش کر رہا ہوں:
کس نے دنیا کو بھی دولت کی طرح بانٹا ہے
کس نے تقسیم کیے ہیں اثاثے سارے
کس نے دیوار تفاوت کی اٹھائی لوگو
کیوں سمندر کے کنارے یہ پیاسے سارے
اسی تناظر میں احمد فرازؔ کی دوسری نظم ”کالی دیوار“سے بھی دو شعر ملاحظہ کیجیے:
کل واشنگٹن شہر کی ہم نے کی سیر بہت کی یار
گونج رہی تھی سارے جگ میں جس کی جے جے کار
یہ کالی دیوار ہے جو ناموں کا قبرستان
واشنگٹن شہر میں دفن ہیں کس کس کے ارمان
احمدفرازؔکی طرح عباس رضا نیرؔ نے بھی ہندستان اور پاکستان کے عوام کی پریشانیوں،دکھ درد کو اپنی نظم میں ساجھا کیا ہے۔عالمی پس منظر میں لکھی گئی یہ نظم ایک شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے۔اس نظم میں لکھنؤ، کراچی،دہلی اور لاہور میں مقیم ایک دوسرے کے عزیز و اقربا کے رشتوں میں سیاست نے جو خلل ڈالا ہے کو بیان کیا گیا ہے۔تقسیم وطن کے بعد حالات نے جس طرح کروٹ لی ان کا بھی تذکرہ اس نظم میں ملتا ہے۔عباس رضا نیر ؔکی نظم”دیوار‘کا اک بند ملاحظہ کیجیے:

میرے سرحد پار کے ساتھی
شہر کراچی کے بے خواب شبستانوں سے
اسلام آباد اور لاہور کے کاشانوں تک
روشن صبحیں،دل کش راتیں
تیرا لہجہ تیری باتیں
میری یادوں کا انمول خزانہ ہیں
لیکن خوش بو جیسی باتیں کرتے کرتے
جنم جنم کی چاہت کا دم بھرتے بھرتے
آخر کون سے موڑ پہ آ پہنچے ہیں؟
تیرے میرے بیچ یہ کیسی اشکوں کی دیوار کھڑی ہے
عباس رضا نیرؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا افسانہ پڑھ رہے ہوں۔ان کی نثری نظموں میں ”کرب تخلیق کی سر شاری“اور ”شناخت“ ایسی ہی نظمیں ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ اس کے سامنے نثری نظم کی جگہ کوئی رومانی افسانہ ہے۔ان دونوں نظموں کے بول اتنے شیریں، میٹھے اور دل کش ہیں کہ ایک بار نظم کا مطالعہ شروع کیا جائے تو ایک ہی نشست میں اسے ضرورمکمل کرنا ہوگا۔یہ باتیں ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی نثری نظموں کی کامیابی کی صداقت،دلالت اور ضمانت ہیں۔اُردو ادب میں نثری نظم لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ اُردو ادب میں اس صنف میں کام زیادہ نہیں ہوا ہے۔نثری نظم تخلیق کرنے والوں میں خورشید الاسلام،وزیر آغا،وارث علوی،مناظر عاشق ہرگانوی،نذیر فتح پوری، احمد رشید علیگ،احسن امام احسن،ترنم ریاض،رفیعہ شمنم عابدی،پروین شاکر،کشور ناہید،ثریہ صولت حسین،صادقہ نواب سحر،ڈاکٹر بانو سرتاج وغیرہ سر فہرست ہیں۔دور حاضر میں جدیدیت کے علم برداروں نے کئی کامیاب تجربے نثری نظم کے حوالے سے ضرور کیے ہیں لیکن انھیں اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔البتہ ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی مذکورہ بالا دونوں نثری نظموں کو ایک نئے تجربے سے ضرور تعبیر کیاجا سکتا ہے۔”کرب تخلیق کی سر شاری“سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے اور آپ خود اندازہ لگایئے کہ عباس رضا نیرؔ اپنی کاوشوں اور تجربوں میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں:
”نظم لکھتا ہوں تو لگتا ہے کھلی رات کی بانہوں میں اجالوں میں نہائی ہوئی،جل پریاں سمٹ آئی ہوں…؛چاندنی ریشمی آنچل کی طرح چاند کے ماتھے سے ڈھلک آئی ہو…..سب سے سر گوشیاں کرتی ہوئی سانسوں کی امر بیلوں میں،رجنی گندھا کی مہک چھوٹ رہی ہو جیسے ….سنگ مر مر کے پہاڑوں سے کوئی تاج محل پھوٹ پڑا ہو جیسے۔نظم لکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے، مخملی گھاس پہ اڑ اڑ کے چلی آئی ہو بگلوں کی قطار… کہیں نیلے پیلے،کہیں گہرے اودی،مختلف رنگوں میں نکھرے ہیں گل داؤدی….ہار سنگھار کے پیڑوں سے ہوا کھیل رہی ہو جیسے،چاندنی شب میں چٹانوں کو آسمانوں کی بلندی سے اتر آیا ہیتاروں کا چمن….کوئی چشمہ کسی چوٹی سے ابل آیا ہے،نیلا پانی مرے قدموں میں پھسل آیا ہے۔“
(آہٹ پانچویں موسم کی،عباس رضا نیر،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2016صفحہ26)
اسی طرح اپنی دوسری نثری نظم ”شناخت“میں موصوف نے انسان کی پہچان اور اس کے وجود کے ساتھ ساتھ دکھ سکھ پر کھل کر بات کی ہے۔اس نثری نظم کو ایک علامتی نظم کے زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔دراصل اس نظم میں ”شعور کی رو“ تکنیک کا استعمال عباس رضا نیرؔ نے سلیقگی کے ساتھ کیا ہے۔اپنے تصورات میں وہ قاری کو اس قدر باندھ لیتے ہیں کہ اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے مانو وہ ماضی اور حال کی سیر ایک ساتھ کر رہا ہو۔قاری کو بیک وقت مہابھارت، راماین، انجیل اور قرآن کے تاریخی واقعات کی سیر کرائی جاتی ہے۔اُردو ادب میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ نثری نظم میں اس طرح کے تجربات پیش کیے گئے ہوں۔ادب مافیوں اور سماج دشمن عناصر پر نرم لہجے میں زبر دست چوٹ کی گئی ہے۔مصلحت پسندی اور مگر مچھ کے آنسو لیے سیاسی رہ نماؤں پر ظریفانہ انداز میں طنز کیا گیا ہے۔ظالم حکمرانوں (چاہے ان کا عہد قدیم رہا ہو یا جدید) سے لڑنے اور جد و جہد کرنے اور ان کے ستم کو برداشت کرتے ہوئے بے بس انسان کی روداد کو ایک پیرا گراف میں بیان کرنا قابل تعریف ہے۔”شناخت“کا ایک پیراگراف نقل کیا جا رہا ہے تاکہ اس کی ورق گردانی سے موصوف کے قوتِ تخیل کا اندازہ لگایا جا سکے:
”وہ بخت النصر ہو،ہو یا کنس،سب کے اپنے بصرے اپنے کوفے ہیں۔فلسطین،بوسنیا،ہیروشیما،بیروت،ہرزے گووینا میرے مہابھارت ہیں میری کربلائیں ہیں….یہ سب لاشوں کے جنگل،درد کے دریا،لہو کی وادیاں،میرے علاقے ہیں، جنھیں تاراج ہوتے دیکھنے والوں کی مہر خامشی اب تک نہیں ٹوٹی….سناٹوں پر سفر کرتا گیامیں مقتلوں سے قید خانوں تک،تماشہ دیکھنے والوں نے اپنی مصلحت کے روزنوں سے کیا نہیں دیکھا،مگر چپ سادھ لینے کے سوا چارہ نہ تھا [ان] کو،سوائے چند آنسو،چند نوحوں،چند پچھتاووں کے اس دنیا نے آخر کیا دیا مجھ کو؟مرے دکھ کی قیمت کیا ہے؟اور اس دکھ کو کیا نسبت ہے مٹی سے؟بتائے کون؟بتائے کون؟بے حس ڈالروں والی نگاہوں کو؟ ہر اک راون کی اپنی ایک لنکا ہے….وہ بخت النصر ہو،یا کنس،سب کے اپنے بصرے،اپنے کوفے ہیں۔“
(آہٹ پانچویں موسم کی،عباس رضا نیر،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2016صفحہ29تا30)
موصوف کا دل جب دنیا کی بھاگ دوڑ سے اوب جاتا ہے تو تنہائی کے عالم میں صرف کاغذ،قلم کا سہارا لے کر نظمیں تخلیق کرنا بہترین مشغلہ ہے۔یہ نظمیں ہی ان کی ٹوٹی ہوئی ہمت کو سہارا دیتی ہیں۔ان ہی کے سہارے از سرِ نو زندگی میں نئی توانائی محسوس ہوتی ہے،الغرض! ان کی نظمیں انھیں آگے بڑھنے کی ترغیب کے ساتھ قاری کو بھی اپنے ہدف اورمنزل کی جانب چلنے پر ابھارتی ہیں۔ موصوف کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کی نظمیں دشمنوں کی حوصلہ شکنی کا کام کرتی ہیں۔”مری نظم“ میں عباس رضا نیرؔ نے اپنے دل کے جذبات کو منفرد لب و لہجے میں یوں بیان کیا ہے:
میں جب جب ٹوٹتا ہوں
میری نظمیں
مجھ کو تب تب
مامتا کے نرم پھائے میں چھپا کر
میری اک اک پور کو پھر جوڑ دیتی ہیں
مرے دشمن کی ہمت توڑ دیتی ہیں
ویسے ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی شناخت اُردو ادب میں ایک ناقد،مرتب، محقق کے ساتھ مترجم، شاعر، نثار، خطیب اور ناظم مشاعرہ کی ہے،لیکن اس شعری مجموعے کی اشاعت سے ان کی پہچان ایک شاعر کے طور پرضرور مسلم ہو جائے گی،ایسا راقم الحروف کا ماننا ہے۔عہد جوانی میں  موصوف نے شہر شہر قریہ قریہ منعقد ہونے والے مشاعروں میں اپنا کلام پیش کیا ہے،اپنے انھی تجربات اور شعری مشق کی بنا پر ان کی شاعری میں فنی رچاؤ کے ساتھ فنی پختگی کا احساس قاری اس مجموعے میں کرتا ہے۔اس مجموعے کے ظہور سے واقعی ہمیں ”پانچویں موسم کی آہٹ“سنائی دیتی ہے۔اس مجموعے میں بہت سی غزلیں اور نظمیں ایسی ہیں جن کو پڑھ کر قاری کے دل میں اپنی منزلِ مقصود حاصل کرنے کے لیے ایک حرارت اور جنون پیدا ہوتا ہے۔یہ جذبہ اچانک یوں ہی پیدا نہیں ہوتا بل کہ اس کے پیچھے جو عوامل کار فرماں ہوتے ہیں ان کے سبب ہی منزل کی جانب چلنے کے لیے انسان تیار ہوتا ہے۔اس موضوع پر موصوف نے ایک بہترین غزل تخلیق کی ہے۔اس غزل کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے اذہان میں مرحوم بشر نواز کی نظم ”قدم بڑھاؤ دوستو،چلو کہ ہم کو منزلیں بلا رہی ہیں دور سے،چلو کہ سارے راستے دُھلے ہوئے ہیں نور سے“کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔عباس رضا نیرؔ نے اس غزل میں ایسے نوجوانوں سے خطاب کیا ہے جن میں اپنی منزل کو پانے کا جذبہ ہے اور جو مشکل ترین حالات میں بھی اپنا حوصلہ اور ہمت کو بر قرار رکھتے ہیں،جن کے اندر باد مخالف سے مقابلہ کرنے کا مادہ ہے۔جو ستاروں پر کمند ڈالنے کو بے قرار ہیں۔یہی نوجوان تو ملک اور قوم کے امین اور مستقبل ہیں۔ایسے نوجوان اپنی راتوں کی نیندیں اور دن کا آرام،منزل کو حاصل کرنے کے لیے قربان کردیتے ہیں۔اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
منزلوں کی ہے صدا چلتے رہو چلتے رہو
خود بنے گا راستہ چلتے رہو چلتے رہو
تیرگی چھٹ جائے گی یہ رات بھی کٹ جائے گی
آئے گا سورج نیا چلتے رہو چلتے رہو
سب کو اپنے ساتھ لو ہاتھوں میں سب کے ہاتھ لو
سب کا ہو جائے بھلاچلتے رہو چلتے رہو
چلتے رہنا زندگی ہے بیٹھ جانا موت ہے
مان لو یہ مشورہ چلتے رہو چلتے رہو

اک سیدھی رفتار سے رستوں پر چل کر پیار سے
طے کرو ہر فاصلہ چلتے رہو چلتے رہو
باندھ لو سر سے کفن آواز دیتا ہے وطن
مان رکھنا دیس کا چلتے رہو چلتے رہو
منتظر ہیں سر حدیں نیرؔ حفاظت کے لیے
دل میں لے کے حوصلہ چلتے رہو چلتے رہو
عباس رضا نیرؔ نے مرثیۂ غالب از مولانا الطاف حسین حالیؔ ”ایک روشن دماغ تھا نہ رہا،شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا“کی زمین میں ایک غزل کہی ہے۔موصوف کی یہ غزل مسحور کُن ہے۔اس غزل میں ترنم اور نغمگی کا احساس قاری کووقتِ مطالعہ ہوتا ہے۔اس غزل میں لکھنؤ شہر کی عظمت اور برتری کے ساتھ ساتھ اس میں مقیم شاعروں اور ادیبوں کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔یہ غزل گذشتہ یادوں کا حسین مرقع ہے۔جس کے سہارے شاعر اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے روشن مستقبل کی تلاش و جستجو میں محو ہے۔اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
آنے جانے کا بہانا تھا مگر اب نہ رہا
اس کا گھر میرا ٹھکانا تھا مگر اب نہ رہا
لکھنؤ تجھ میں بپا رہتی تھیں گہما گہمی
یہاں اک شخص یگانہ تھا مگر اب نہ رہا
تھیں کبھی خواب سنجونے کی رتیں بھی نیرؔ
کبھی موسم بھی سہانا تھا مگر اب نہ رہا
عباس رضا نیرؔ نے اپنی نظموں اور غزلوں میں تلمیحات اور استعارات کا خوب استعمال کیا ہے۔تاریخی شہروں اور عمارتوں کا ذکر ان کی غزلوں اور نظموں میں جگہ جگہ سبق آموز واقعے کے طور پر ہوا ہے۔مناظرقدرت اور آبشاروں کی جھلکیاں ان کے یہاں جا بجا ملتی ہیں۔ماضی کی یادوں کو حیاتِ نو کے لیے علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔موصوف نے اس بات کی جانب بھی واضح اشارہ کیا ہے کہ انسان اپنی زندگی کو ہمیشہ وقت کے مطابق بدلتا رہے اور ایسا نہ کرنے والے لوگ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔جو لوگ وقت کے مطابق اپنی رفتار کو نہیں بدلتے وقت انھیں بھلا دیتا ہے۔اس ضمن میں ان کا یہ شعر لائقِ تحسین ہے:
جو شاہ تھے کل آج وہی ہو گئے پیدل
شطرنج کی دنیا میں بس ایک چال بہت ہے
عباس رضا نیرؔ نے بڑوں اور چھوٹوں دونوں کے لیے نظمیں تخلیق کی ہیں۔ان کی نظم”شرارتیں“کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نظم ہمیں اپنے بچپن کی یاد دلاتی ہے۔اس نظم میں معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں کو دل کش طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ عہد طفلی میں جنھوں نے خوب شرارتیں کیں اور دوسرے بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی شکایت اپنے والدین سے کرتے تھے،پورا محلہ جن کی شرارتوں کی دھما چوکڑی سے آباد رہتا تھا،ایسے حضرات کے لیے یہ نظم کسی معجزے سے کم نہیں۔بچپن میں ہر بچہ کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کرتا ہے،کبھی کھبی انھیں شرارتوں کے سبب والدین اور پڑوسیوں سے مار بھی پڑجاتی ہے۔ان شرارتوں سے کبھی کبھی بڑا نقصان بھی ہوتا تھا جو بچپن میں کسی کے سمجھ میں نہیں آتا تھا، بس ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہماری کل کائنات تو یہی بچپن ہے جسے بڑے لوگ ہم سے چھیننے پر آمادہ ہیں۔انھی شرارتوں کو شاعر نے اپنی شرارتوں کے ساتھ جوڑ کر صفحۂ قرطاس پر سات رنگوں میں پیش کیا۔یہ شرارتیں ہی انسان کو اپنے بیتے ہوئے کل اور بچپن کی یاد دلاتی ہیں۔عباس رضانیرؔ نے بھی عہد طفلی کی شرارتوں کو بڑے قارئین کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔اس نظم کی ورق گردانی سے یقیناً قاری کوا پنی شرارتیں، جو اس نے اپنے بچپن میں کی تھیں،ضرور یاد آ جائیں گی۔اس نظم کو پڑھ کر آپ بھی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کیجیے:
تالابوں میں کنکر پھینکو
کنویں میں جھانکو
ہو ہو کر کے زور سے چیخو
آم اور جامن کے پیڑوں پر پتھر مارو
باغوں سے امرود بھی توڑو
نیم کے نیچے کنچے کھیلو کٹی پٹنگ پر لنگر ڈالو
دوڑ کے جاؤ
اوک سے اپنی پیاس بجھاؤ
بی آپا کی کالی مرغی انڈا دے تو
اسے چرا کر پر چونی کو بیچ بھی آؤ
موج اڑاؤ
بھوک مٹاؤ
سونوؔ کو چورن تو چٹاؤ،اور چٹاؤ،اور چٹاؤ
ورنہ یہ اماں سے شکایت کر آئے گا
مار پڑے گی
اماں جا کر بی آپا کو
یا تو اٹھنّی دے آئیں گی
اور اٹھنّی نہیں ملی تو
بی آپا سے وعدہ کر کے
سونوؔ تم کو یوں گھوریں گی
جیسے کچّا کھا جائیں گی
اور اب آخر میں،میں اس مجموعے کے انتساب پر بات کرنا چاہوں گا۔ عباس رضا نیرؔ نے مجموعے کا انتساب شاعرانہ صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے ایک نظم کی شکل میں تحریر کیا ہے۔اس انتساب میں موصوف نے اپنی اداسیوں کی کہانی پرقلم اُٹھانے کا تذکرہ،قلم میں روشنائی نہ ہونے کی شکایت،ظالم اور مغرور سپاہیوں کا اجالوں سے دور بھاگنا،اپنے ندامت کے اشکوں کو کاغذ پر گرانے کا واقعہ،روشنی اور اندھیرے کی کش مکش،متاع لوح و قلم کا پروردگار عالم کی امان میں ہونے کی گواہی، اس کے بعد اپنی عبارتوں کو مولا رب کائنات کے حوالے کر دینے کا عریضہ اور اسے ربِ کائنات سے شائستگی سے قبول کر لینے کی التجا کو بہ حسن خوبی بیان کیا ہے۔در اصل یہ انتساب ایک شاعرانہ دعا کی شکل لیے ہوئے ہے۔ شاعر نے اس انتساب میں اپنے مولا کے دربار میں قلمی دعا مانگی ہے۔اُردو کتابوں کے بہت سارے انتساب انوکھے اور دل چسپ ہوتے ہیں لیکن عباس رضا نیرؔ نے اس انتساب میں اپنے قلمی جوہر کو ربِّ دو عالم کے سامنے سر نگوں کیا پھر اپنی بات کو شروع کیا۔یہ انتساب اعتراف نامہ ہے اس بات کا کہ ہر شے اپنے پروردگار کی اطاعت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔موصوف کا قلم بھی رب العالمین کی رحمتوں کا پیاسا ہے۔یہاں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اُردو کے بہت سے شاعروں نے ”دعا“عنوان کے تحت بہت سی نظمیں کہیں ہیں،جن میں فیض احمد فیضؔ کی نظم ”دعا“بہت مشہور ہے۔فیض کی دعا پرمحقق یگانہ رشید حسن خاں نے زبان و بیان کی گرفت کی،اس کے با وجود فیضؔ کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔موصوف کا قلم بھی رب العالمین کی رحمتوں کا پیاسا ہے۔عباس رضا نیرؔ کاانتساب ملاحظہ کیجیے:
اداسیوں کی کہانی رقم کروں کیسے؟
قلم اُٹھاؤں تو کیوں کر؟
کہ روشنائی نہیں
سپاہیوں نے کبھی نور تو نہیں دیکھا
یہ سوچتا ہوں کہ آنسو گراؤں کاغذ پر
جو ایک نام اجالا ہے رونمائی کا
جو ایک نام حوالہ ہے روشنائی کا
متاع لوح و قلم اس کی ہی امانت ہے
سو جان و دل کی عبارت اسی کے نام کروں
یہ آنسوؤں کا عریضہ
قبول ہو مولا
اس مجموعے کے منظر عام پر آنے سے یقیناً پانچویں موسم کی آہٹ کوسنجیدہ قاری ضرور محسوس کرے گا۔کیوں کہ قاری کو اس میں ایسی غزلیں اور نظمیں پڑھنے کو ملیں گی جو اسے اپنی آپ بیتی اور یادِ ماضی کا ترانہ سنائیں گی،گزرے ہوئے لمحات اوراوقات کی یاد دلائیں گی۔قاری اپنے عزیز و اقرباسے بچھڑنے کے کرب کو مجموعے کے اشعار میں تلاش کرے گا۔گر کر سنبھلنا اور سنبھل کر پھر گرنے کی تلقین اور صدائے احتجاج کی گونج بھی اسے عباس رضا نیرؔ کے مجموعے میں ضرور سنائی دے گی۔میرے خیال میں اس مجموعے میں قاری اپنے مطلب کے اشعار ضرور تلاش کرے گا۔یہ سب باتیں اس مجموعے کی مقبولیت میں ضرور اضافہ کریں گی۔میں ڈاکٹر عباس رضا نیر کو اس مجموعے کی اشاعت کے موقع پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر ابراہیم افسر:ایک تعارف

از قلم :ریاض انور اسسٹنٹ پروفیسر ایم۔جی۔ایم۔(پی۔جی۔)کالج،سنبھل

اردو زبان جو آج ہمارے سامنے ایک تناور درخت کی شکل میں نہ صرف ہندوستان کی مشترکہ تہذیب پر سایہ فگن ہے بل کہ یہ زبان اِس تہذیبی وحدت کی امین بھی ہے۔ اس زبان میں تخلیق شدہ شعر و ادب نے اِسے ایک معیار عطا کیا اور نقدِ ادب سے متعلق کاوشوں نے اِس معیار کو بلند تر کرنے کا کارِنمایاں انجام دیا ہے۔اردو زبان وادب کے اس شجرِسایہ دار کی پرورش کسی خود رَو پودے کی طرح نہیں ہوئی،بل کہ اِس کی آبیاری اور معیار بندی مختلف زمانوں میں اِس کے محسنوں اور خدمت گاروں نے اپنی والہانہ خدمات سے کی ہے۔ IYUSA کی اتر پردیش شاخ کے افتتاح کے موقع پر IYUSA کے زیرِ اہتمام عصرِ حاضر کے ادبی منظر نامے پر،اردو زبان و ادب کے خادموں کی صف میں نئے لکھنے والوں پر ایک تعارفی سلسلے کے تحت، ڈاکٹر ابراہیم افسر کا تعارف آپ حضرات کے پیش ِخدمت ہے۔حال کے دنوں میں ڈاکٹر ابراہیم افسرکی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں جس تواتر کے ساتھ ادبی منظر نامے پر آنا شروع ہوئی ہیں،یہ اردو زبان و ادب کے تئیں ان کی محنت، خدمت کے جذبے اور والہانہ لگاؤ کا پتہ دیتی ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم افسر کا تعلق بنیادی طور پر یو۔پی۔ کے ایک تاریخی شہر میرٹھ کے ’سِوال خاص‘ علاقے سے ہے۔ ۵/ مارچ ١٩٧٧ء کو موصوف کی ولادت ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔اِن کا نام ابراہیم ہے لیکن قلمی نام کے طور پر ابراہیم افسر اختیار کرتے ہیں۔بطور قلمی نام ابراہیم کے ساتھ افسر، والدِ مرحوم افسر علی کی مناسبت سے اختیار کیا گیا ہے۔ سوال خاص میں انھوں نے حصولِ تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کئے اور ثانوی و اعلیٰ ثانوی درجات کی تعلیم بھی یہیں رہ کر حاصل کی۔میر ٹھ کالج، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ سے بی۔اے۔ اور ایم۔اے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعدچودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ سے ”احمد فرازؔ کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ(خوابِ گل پریشاں کے حوالے سے)“عنوان کے تحت مقالہ لکھ کر٢٠٠٩ء میں ایم۔فل۔ کی ڈگری حاصل کی۔موصوف نے میرٹھ کالج،میرٹھ سے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری کے لیے ریسرچ کے موضوع کے طور پر اردو ادب کے سچے محسن”خدائے تدوین“رشید حسن خاں جیسی مختلف الجہات ادبی شخصیت کا انتخاب کیا۔بعنوان ”رشیدحسن خاں کی ادبی جہات“اِس موضوع پر انھوں نے انتہائی محنت اور ایمان داری کے ساتھ ریسرچ کا کام مکمل کیااورگذشتہ سال ٢٠١٩ء میں کام یابی کے ساتھ پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔موصوف نے ٢٠١٠ء میں UGC نیٹ کا امتحان پاس کیا، ایس۔ بی۔ آئی۔ انسٹی ٹیوٹ،چینئی،تمل ناڈوسے جرنلزم میں ڈپلوما اورچودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ سے بی۔ایڈ۔ اور ایل۔ایل۔بی۔ کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم افسر فی الوقت دہلی کے محکمۂ تعلیم میں بہ حیثیت ٹی۔جی۔ٹی۔ اردو استاد کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ملازمت کی مصروفیات کے باوجود موصوف ہمہ وقت اردو ادب کی خدمت میں کوشاں و سرگرداں نظر آتے ہیں۔اِس کا اندازہ اِن کے علمی وادبی مضامین اور تحقیقی و تنقیدی مقالات و نگارشات سے لگایا جا سکتا ہے جو ادبی منظر نامے پر بڑی خاموشی اور تواتر کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔لہٰذا نئے لکھنے والوں میں ادبی سرگرمیوں اور کاوشوں کی بِنا پر ڈاکٹر ابراہیم افسر کا نام تیزی سے ابھر تے ہوئے اپنی شناخت قائم کرتا جا ر ہا ہے۔ گذشتہ سال ڈاکٹر ابراہیم افسرکی تین کتابیں ”رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں (جلد اول) و(جلددوم)، ”رشید حسن خاں کے انٹرویوز“ اور رواں سال ٢٠٢٠ ء میں ”نیر مسعود بنام رشید حسن خاں“ اور ”رشید حسن خاں کی غالب شناسی“ منظر عام پر آکر قبولیتِ عام حاصل کر چکی ہیں۔اِن کتابوں کے علاوہ ایک طویل فہرست اُن کتابوں کی بھی ہے جو جلدہی اشاعت کے مرحلے سے گزر کر علم و ادب کا ذوق اور دل چسپی رکھنے والوں کو دست یاب ہو جائیں گی۔اِن کتابوں کی فہرست کچھ اِس طرح ہے: رشید حسن خاں کی ادبی جہات، رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے(جلد اول)تا(جلد چہارم)، رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں (جلدسوم)و(جلدچہارم)، اُردو املا:مسائل و مباحث، رشید حسن خاں کے تحقیقی و تدوینی متعلقات، مشاہیر کے خطوط بنام رشید حسن خاں، غالب اور میرٹھ، میرٹھ میں غالب شناسی کی روایت، فکشن تنقید، تحقیقی مضامین، شعری جہات، نقد و تبصرے، احمد فرازؔ کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ اور ڈاکٹر محمد مستمر کی افسانہ نگاری۔ ڈاکٹر ابراہیم افسرکی علمی و ادبی کاوشوں کے طور پر 60سے زائد مضامین اور 130سے زائد تبصرے، ملک و بیرونِ ملک کے موقر رسائل و جرائد میں اور متعدد ادبی مضامین، دیگر مرتّبین کی کتابوں میں شائع ہو چکے ہیں۔علاوہ ازیں موصوف قومی و بین الاقوامی سیمیناروں میں اہم ادبی موضوعات پر ۵۱ سے زائد مقالے بھی پڑھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم افسرکی متذکرہ بالاعلمی و ادبی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ موصوف اردو کے ایک طالبِ علم بھی ہیں اور معلم بھی اور اِس سے بڑھ کر سچے محبِّ اردو اور اردو ادب کے ایک سنجیدہ اسکالر ہیں۔انھوں نے اِس دوران میں رشید حسن خاں کی ادبی جہات پر جس عرق ریزی اور جاں فشانی سے کام کیا اور اُن کی تحریروں اور ادبی خیالات کو یکجا و مرتَّب کیا ہے اِس حوالے سے ڈاکٹر ابراہیم افسرکا نام از خود ایک حوالے کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے گا۔ ہم امید کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ ڈاکٹر ابراہیم افسر اسی طرح آئندہ بھی اردو زبان و ادب کی خدمت صِدق دلی سے کرتے رہیں گے اور اردو کے ادبی سرمائے میں اضافے کے ساتھ ہی، علمی سرگرمیوں اور ادبی خدمات کی بِنا پر اپنا ایک امتیازی مقام حاصل کریں گے۔ شکریہ 
IBRAHEEM AFSAR,WARD NO-1,MEHPA CHOURAHA NAGAR PANCHAYAT SIWAL KHAS DISTT MEERUT(UP)PIN 250501,MOBILE 9897012528 EMAIL ibraheem.siwal@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے