سلیم سرفراز کے حی علی الفلاح کا تجزیہ

سلیم سرفراز کے حی علی الفلاح کا تجزیہ

نثارانجم
ہوڑہ, کولکاتا،مغربی بنگال

سلیم سرفراز ایک کہانی کار ہی نہیں بلکہ ایک اچھا نفسیا تی مصور بھی ہیں۔ کرداروں کا نفسیاتی برتاؤ ,اور گلٹی فیلنگ guilty feeling کے دباؤ میں سوہان روح کی سی کیفیت کو بڑی ژرف بینی اور جزیات نگاری سے بیان کرتے ہیں ۔
قاری اس کرب کو نہ کے محسوس کرتا ہے بلکہ کردار کے
اس کرب اور ذہنی تکلیف کو اپنی جلد پر محسوس کرتا ہے۔اذہنی دباؤ سے نکالنے اور ضمیر کے سینے میں پیوست اس نادیدہ تیر کی تلاش میں کردار کی ہمدردی کی انگلی پکڑ نکل پڑتاہے۔
*میں جلدسےجلداپنےکرب سے نجات پاناچاہتاہوں۔اس کےبعد ہی شایدمیں آرام کرسکوں*۔ ”
کہانی زخمی ضمیر کے محور پر گھومتی ہے۔ایک حساس ضمیر اپنی پیٹھ پر اس گناہ کے کوڑے کی ضرب سے لہولہان ہے۔
"اس سےپہلےکہ وہ کوئی فیصلہ کرپاتا، کاراس شخص سےٹکراگئی۔ ایک دلدوزچیخ ابھری۔اس کاجسم سڑک پرگرااورکاراسےروندتی ہوئی کچھ آگےجاکررک گئی۔ وہ اسٹیرنگ پرڈھے ساگیا اس کے ہونٹوں
سےکپکپاتی ہوئی مبہم سی آوازابھری
“پھرکوئی مرگیا۔میں نےپھرکسی کوماردیا”
یہی وہ نفسیاتی درد پارے تھے جو اس کے وجود پر پچھتاوے اور اس سے نکلنے کی تڑپ کے گرہن کی طرح طاری تھے۔احساس گناہ کے نوکیلے کانچ دار سڑک پر برہنہ پا ضمیر کا نفسیاتی مرہم پاشی کے لۓ خیر اور فلاح کی طرف مراجعتی سفر ہے ۔

زندہ ضمیر ،مردہ ضمیر اور نیم جان ضمیر گناہ سے پہلے، گناہ کے بعد ،گلٹی فیلنگ سے زخمی ضمیر اور تزکیہ کےبعد چھن کے أنے والا ضمیر یہاں قلب کے افق پر ضمیر کا چاند الگ الگ شکل الگ الگ حالات کے تناظر میں مرکزی کردار کے نفسیاتی رویۓ میں نظر اتا ہے۔ افسانہ نگار مرکزی کردار کو ایک ایسے باضمیرانسان کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کرتاہے جس کا ضمیر گناہ کے ارتکاب پر شرمندگی اور ذہنی ابتلا سے گذررہا ہے۔
"اس کےشانےپرہاتھ رکھا تووہ زوروں سےپھپھک پڑی”۔
“میں آپ کواپنےپتاکےسمان سمجھتی تھی…۔۔لیکن آپ…
"وہ میرے دوست کی بیٹی تھی۔میری بیٹی کی سہیلی تھی۔اورمیں نےاس کی عصمت تارتارکردی تھی۔مجھے خودسےکراہیت ہونےلگی۔مجھ سے ایساگناہ سرزدہوچکاتھاجس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں”
یہ وہ ضمیر ہے جوگناہ کو گناہ سمجھنے میں بہت ہی حساس ہے۔یہاں حساسیت کی یہ کیفیت ہے کہ ضمیر کے قلب پر گناہ کی ایک سوئی کے گرنے کی دھمک سے وہ لرز جاتاہے غیر ارادی طور پر گناہ کے بعد پچھتاوے کی برچھی قلب پر ترازو بن گئ ہے۔
"میرےکانوں میں پگھلےہوئےسیسے کی طرح اسکےالفاظ گونجتےرہے”۔
“میں آپ کوپتاکےسمان سمجھتی تھی۔۔لیکن آپ۔۔”
گناہ کا صدور اور نفسیاتی تناؤ سے نڈھال وہ اس برچھی کو احساس کے سینے سے باہر نکالنے کی کوشش میں ہے ۔ برچھی کی موجودگی کا احساس تو ضمیر کو ہے لیکن شعور کی بصارت سے دور یہ اس کےدسترس سےباہر ہے۔
"تم نےاس شخص کوکارسے ٹکراتے ہوئےدیکھا۔اس کی دلدوز چیخ سنی۔ٹھیک اسی طرح میں نے پہلےبھی کسی کوماردیاتھا۔ ”
دراصل یہاں کار کی زد میں أکر دب جانے والا وہ گناہ گار ادمی وہ خودہے ۔جسے گناہ کا احساس کھاۓ جارہا ہے۔۔۔۔۔
"یہ کیاکررہےہیں سر۔۔چھوڑیے مجھے… ”
لیکن مجھ پرتوجیسےشیطان سوار ہوگیاتھا۔وہ چھٹپٹاتی رہی اورمیں اسےبےلباس کرتارہا۔اور پھروہ ہوگیاجونہیں ہوناچاہیئے تھا۔اس شیطانی عمل کے بعدمیں بےسدھ ہوکربسترپرڈھیرہوگیاتھا۔

افسانہ نگار نے گناہ کے احساس سے ٹوٹے نفس , کچوکوں سے چھلنی نفسیاتی واہمے false apprehension اور Hallucination کے اعصابی شعبدے میں گرفتار کردار کو بڑی نفسیاتی ژرف بینی اور عمدہ اظہار بیان کے ساتھ پیش کیا ہے۔ دو گناہوں کے صدور پر احساس ندامت ،ضمیر کی اذیت ناکی ،پچھتاوے اور فلاح کی طرف لپکنے اور پچھاڑے کھانے کی اس کیفیت کو افسانہ نگار نے ایک عمدہ کرافٹ اور اسلوب میں بیان کیا ہے .افسانہ نگار نے واعظانہ اور ناصحانہ رنگ سے بچنے کی پوری کوشش کی ہے۔
یہاں احساس جرم کے بڑے شیطان والے جمرات پر ضمیر کی کنکڑیوں کی مسلسل رمی ہے۔
"جوہوااسکامجھےبےحدافسوس ہے۔اس کےلیےمیں ہرسزابھگتنے کوتیارہوں۔یہ میری زندگی کاسب سےشرمناک لمحہ ہےجومجھے ہمیشہ کرب دیتارہے گا۔”

فجر کے وقت گناہ سے ألودہ ضمیر کی سماعت سے ٹکراتا ہوا یہ پیام ربانی
“حی علیٰ الفلاح…حی علیٰ الفلاح…
دراصل یہ فلاح کی طرف مراجعت کرتے ,تزکیہ طلب ضمیر کی صبح نو ہےاور انسانی کمزوریوں پر کھلنے والی عیب اشنا نئی أنکھیں ملنے کا نوید ہے
*شکر ہےکہ تم ابھی زندہ ہو۔اس بےحس اور پرآشوب دورمیں اپنےزندہ ہونے کو غنیمت جانو۔۔۔۔*“

صاحب تجزیہ کی یہ تحریر بھی پڑھیں : ہڈیاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے