ہڈیاں

ہڈیاں

اسرار گاندھی، الہ آباد

اس کی زندگی ہڈیوں کے درمیان اُلجھ کر رہ گئی تھی۔
ہڈیاں جو اہم بھی ہیں اور غیر اہم بھی۔
جب سے اُس کی زندگی اور زندگی کی تمام خوشیاں ہڈیوں کے درمیان اُلجھ کر رہ گئی تھیں، اسے سوتے جاگتے ہر وقت اپنے گِرد ہڈیوں کا رقص نظر آنے لگا تھا۔
اس کا جسم کبھی سِکڑنے لگتا، کبھی پھیلنے لگتا، کبھی بے جان سا ہو جاتا۔ مگر ہڈیوں کا رقص اسی طرح ہوتا رہتا۔ کبھی آہستہ، کبھی تیز۔
اس کی زندگی ہڈیوں کے درمیان لٹک کر رہ گئی تھی۔
اچانک ایک جٹ تیزی سے اس کے سر پر سے گذرا اور دور خلاؤں میں کہیں گُم ہو گیا۔ اس نے نظریں دور آسمان کی طرف اُٹھائیں تو خلا میں صرف غلیظ دھوئیں کی ایک لکیر رہ گئی تھی جو اب آہستہ آہستہ فضا میں تحلیل ہو رہی تھی۔ مگر اس کے کانوں میں اب بھی جٹ کی آواز گونج رہی تھی۔ اس کے کان بڑے حسّاس تھے اور نظریں بڑی تیز۔ دادی ماں جیسی نہیں، جن کو نہ تو جٹ دکھائی پڑتا تھا اور نہ جٹ کی آواز سنائی پڑتی تھی۔
وہ ہمیشہ سوچتی کہ اس کی دادی ماں کتنی عجیب ہیں۔ بالکل میوزیم میں رکھنے کے لائق اور اسے ہمیشہ اپنے اس خیال پر ہنسی بھی آجاتی۔ اس نے دوبارہ آسمان کی جانب دیکھا تو دھوئیں کی لکیر بھی فضا میں یوں گُھل مل گئی تھی جیسے جسم مٹّی میں گُھل مل جاتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔
وہ جب آنگن سے کمرے کی جانب مُڑی تو اس کی آنکھیں کمرے سے آتی ہوئی دادی ماں کی آنکھوں سے ٹکرا گئیں اور اسے عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی۔ اس کی آنکھیں جب بھی دادی ماں کی آنکھوں سے ٹکرا جاتیں اُسے ہمیشہ یوں ہی بے چینی محسوس ہوتی تھی۔ اسے لگتا کہ جیسے دادی ماں کی آنکھیں پھیل کر بڑی سی اسکرین بن گئی ہوں اور اُس پر ہڈیوں کا رقص ہو رہا ہو۔
اسے اس وقت بھی یوں ہی لگا۔
وہ تیزی سے کمرے میں چلی آئی اور بدحواس ہو کر بستر پر گر پڑی۔ اسے دادی ماں سے چِڑھ سی ہو گئی تھی کہ ہڈیوں کا یہ رقص پہلی بار دادی ماں کی پُتلیوں سے ہی شروع ہوا تھا۔
دادی ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو جٹ کی آواز نہیں سن سکتیں۔
دادی ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو میوزیم میں رکھنے کے قابل ہیں۔
’’اگر دادی ماں مر جائیں تو ہڈیوں کا یہ رقص بند ہو سکتا ہے۔‘‘ اس نے جل کر سوچا مگر دادی ماں مرنے کے بجائے جب خاموشی سے ہاتھ میں کوئی چیز لئے کمرے میں داخل ہوئیں تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور دل چاہا کہ وہ ان کے جُھرّیوں سے بھرپور چہرے کو اپنے نکیلے ناخنوں سے نوچ ڈالے۔
ایسا نہیں تھا کہ اسے بچپن سے ہی دادی ماں سے نفرت رہی ہو۔ اسے تو اس وقت بھی نفرت نہیں ہوئی تھی جب آہستہ آہستہ اسے اپنے جسم میں ایک انجانی سی اُتھل پُتھل محسوس ہونی شروع ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نامانوس سی ایٹھن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میٹھا میٹھا درد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا۔
نفرت تو اسے اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب اچانک ایک دن اس پر ایک اُفتاد ٹوٹ پڑی تھی اور اس کی ماں نے اسے دیر تک سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ اب تمھاری زندگی کا دوسرا دور شروع ہو چکا ہے اور تمھیں بہت سمجھ داری سے رہنا ہوگا۔
نفرت تو اسے اس وقت سے ہوئی جب اچانک ایک دن دادی ماں کے گلے میں ایک سیدھی سی ہڈی اٹک گئی تھی۔
ہڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو صرف ہڈی ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔
ہڈی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو بوڑھوں کے گلے میں اکثر اٹک جاتی ہے۔
ہڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دادی ماں کے گلے میں بھی اٹک گئی تھی اور پھر رقص شروع ہو گیا تھا۔
جون کا سورج اپنی تمام تر خباثتوں سمیت پچھم میں دفن ہو رہا تھا۔ وہ کھڑکی پر کھڑی ہمیشہ کی طرح آج بھی آسودہ نظروں سے سورج کے زوال کو دیکھ رہی تھی۔
کھڑکی کے نیچے سے گذرتی ہوئی سڑک آہستہ آہستہ بارونق ہوتی جارہی تھی۔ کاروں کا شور بڑھنے لگا تھا۔ اچانک اس کی نظریں اس آدمی پر ٹِک گئیں جو سر سے پیرتک ننگا، کالا بھجنگ اور ہٹّا کٹّا تھا۔ اس کے پورے جسم پر بالوں کے گُچھے ہی گُچھے تھے۔
سر پر بالوں کے گُچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چہرے پر بالوں کے گُچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینے پر بالوں کے گُچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینے سے نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جسم پر بالوں کے گُچھے ہی گُچھے تھے۔ منھ سے رال ٹپک رہی تھی اور چہرے پر مکھیاں بھن بھنا رہی تھیں۔ یہ وہی پاگل تھا جو دن بھر اِدھر سے اُدھر گھومتا پھرتا۔
اسے اس آدمی کو دیکھ کر بڑی کراہیت محسوس ہوئی لیکن جیسے جیسے اس کی نگاہیں سینے سے نیچے کی طرف اُتررہی تھیں اسے اپنے اندر ایک بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی جیسے سر سے پیر تک اور پیر سے سر تک چونٹیاں ہی چونٹیاں رینگ رہی ہوں اور جسم کے اندر کوئی گرم گرم سا سیّال دوڑ رہا ہو۔ سارا وجود دھیرے دھیرے بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اسے لگا کہ اس کا پورا جسم کسی رقیق شے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہو اور وہ قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہو۔ چمکتے ہوئے چکنے چکنے قطرے جس پر کوئی پاؤں رکھ دے تو پھسل کر کسی نشیب میں جاپڑے۔
وہ آدمی بھیڑ میں کہیں دور گُم ہو گیا۔
اس کے اندر کا ہیجان اب دھیرے دھیرے ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ ویسے اس کے جسم کے ریشوں ریشوں میں اب بھی ہلکی ہلکی سی تھرتھراہٹ باقی تھی۔ جیسے وِینا کے تار چھو لینے کے بعد دیر تک لرزتے رہتے ہیں۔
وہ اس کیفیت سے چُھٹکارا پانے کے لیے کمرے میں رکھی ہوئی چیزوں کا جائزہ لینے لگی۔ سامنے میز پر ٹیبل لیمپ رکھا ہوا تھا جس کا شیڈ سرخ رنگ کا تھا۔
رات جب بلب روشن ہوتا تو ہر طرف سرخی سی پھیل جاتی اور یہی سُرخی تو اس کے بدن میں بھی دوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔تیز۔۔۔۔۔۔ جلتی ہوئی۔۔۔۔ آگ کی طرح مگر اس میں روشنی کہاں تھی۔ روشنی تو ٹیبل لیمپ کے جلتے ہی بکھر جاتی۔
شیلف پر کتابیں رکھی تھیں مگر ان کتابوں میں اس کے لیے کیا رکھا تھا۔ یہ کتابیں اس کے اندر کی بھبکتی ہوئی جوالا کو نہیں بُجھا سکتی تھیں اور کونے میں رکھا ہوا شمع دان جس میں ادھ جلی سی مومی شمع لگی ہوئی تھی۔ گول۔۔۔۔۔۔۔سڈول۔۔۔۔۔۔۔خوب صورت سی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو تاریکی مٹاتی ہے۔
اور تاریکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس سے ہیجان پیدا ہوتا ہے۔
پھر شمع دان سے اس کی نظریں ہٹیں تو میز پر جا رکیں، جس پر کالے رنگ کا خوب صورت میز پوش بچھا ہوا تھا اور یہی کالا رنگ تو اس پاگل کے بالوں کا بھی تھا جو سر سے پیر تک ننگا تھا۔ جس کے منھ سے رال بہہ رہی تھی اور جس کے جسم پر بالوں کے گُچھے ہی گُچھے تھے۔
سر پر بالوں کے گُچھے۔۔۔۔۔۔۔۔ چہرے پر بالوں کے گُچھے۔۔۔۔۔۔۔۔سینے پر بالوں کے گُچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سینے سے نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔نیچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جسم پر بالوں کے گُچھے ہی گُچھے تھے۔
اس کا جسم پھر بے قابو ہونے لگا۔
اس کی نظروں نے کمرے میں رکھی ہوئی چیزوں کا دوبارہ جائزہ لینا شروع کیا۔
ٹیبل لیمپ اور اس میں لگا ہوا سُرخ رنگ کا شیڈ، شلف میں لگی ہوئی کتابیں، میز پر بچھا ہوا کالا مگر خوب صورت میز پوش اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کونے میں رکھا ہوا شمع دان اور شمع دان میں ایک ادھ جلی، خوب صورت سُڈول مومی شمع۔
اس کی نگاہیں شمع دان پر ٹِک گئیں۔
رات کے ابھی دس ہی بجے تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی اور پورے گھر میں اندھیرا ہو گیا۔ ماچس کے سہارے کوئی شمع دان لینے کمرے میں گیا اور پھر دادی ماں کی بڑ بڑاہٹ سنائی دی۔
’’پتہ نہیں شمع دان سے شمع کہاں چلی گئی۔ شام تک تو تھی۔ اب تو دوکانیں بھی بند ہو گئی ہوں گی۔‘‘
وہ چُپ چاپ خموشی سے اپنے پلنگ پر لیٹی تیز تیز سانسیں لے رہی تھی اور پورا جسم پسینے سے تربتر ہو رہا تھا۔ وہ آہستہ سے بڑ بڑائی۔
’’کمبخت بجلی کو بھی آج ہی جانا تھا۔‘‘

تبصرہ و تجزیہ
نثارانجم
اردو افسانہ نگاروں میں اسرار گاندھی ان معنوں میں منفر د ہیں کہ وہ اس شجر ممنوعہ کی کھٹاس اور اس کی لذت لیلی کو استعارات اور تشبیہات اور نرم لفظیاتی آہنگ کے دبیز پردوں میں اس طر ح پیش کرتے ہیں کہ مہاروں کو بھی خبر نہیں ہوتی لیکن سات پر دوں میں چھپی لذت لیلی بجلی کے گم ہوتے ہی پہچان لی جاتی ہے۔
اسرار گاندھی نے اپنے افسانے میں زندگی کے ایک سلگتے الا ؤ میں لاشعور کی ناکا م خو اہشوں کے پر جلنے کے کرب اور شعور کے در پر خواہشوں کے سر پٹکنے کی بیچارگی کو نادر تشبیہو ں میں بڑی خوب صورتی سے ملفوف کرکے بیان کیا ہے ۔ایک مضبوط ثقافت اور معاشرت والی روایتی آنگن میں اپنے شدید ذہنی اور جنسی خلجان کے سا تھ چن دی جانے والی کس obsessive sexual behaviour مریضہ کی طرح دیکھتی ہے۔ جو اپنی فطری urge کے اخراج کے medium بدلنے کے لۓ مجبور ہے اور اپنی فطری libido کی نا آسودگی کی تسکین میں فطری دیوار پھلانگ آتی ہے۔ زندگی کی بے رحم فطری جنسی سچائی صاف طور پر نظر آتی ہے۔انھوں نے اپنے عہد کے الگ الگ خانوں میں بٹی دیواروں میں چن دی گئ جنسی زندگی کی گھٹن اور ارد گرد کے ماحول سے اپنے افسانے کو بڑی خوب صورتی اور فنی لطافت کے ساتھ بنت کی ہے اور اسے کامیابی کے ساتھ اپنے افسانے میں برتا بھی ہے۔اسرار گاندھی نے لاشعور کی سوکھی گدلی تپتی زمین پر ناکام خواہشوں کی مچھلی کی تڑ پھڑاہٹ ،اضطراب اور خواہشوں کی جھیل سے باہر آکر اپنی تکمیل اور آسودگی کو چرکا لگانے کی کیفیت کی بھی مختلف رنگوں کی مد د سےعکاسی کی ہے ۔کسی زاویے سے hypersexuality دیکھتی ہے ۔انھوں نے آس پاس کی بکھری چیز وں کو استعاروں کے لباس میں نِت نئے تجربے سے پیش کیا ہے۔ جس میں حقیقی معنی سے الگ ایک شہوانی اضطراب تشبیہات اور علائم میں گھل گئے ہیں۔
جنسیات پر اسرار گاندھی نے متعدد افسانے لکھے ہیں۔ جنسیات ایک ننگی تار ہے جو معاشرتی و ثقافتی کھمبوں پر ایک سماجی Taboo کی طرح تان دی گئ ہے ۔ اور ثقافت کے امین کسی بجوکے کی طرح اس ممنوعہ شجر حیات کی کھیتوں کی رکھوالی کے لیے مامور ہیں۔جائز بنیا دی جبلت سے بے بہرہ انسانی جنسی تقا ضوں سے بے خبر بجوکا کھیت کے مرکزی دروازے پر تو نگرانی میں دادی کی طرح چوکس ہے ۔لیکن بجلی گل ہوتے ہی کھیت کے پچھلے دروازے سے خوب صورت ،سڈول مومی شمع لیے شجر ممنوعہ کے کھیت میں داخل ہونے والی پوتی کی بھنک نہ تو بجوکا کو ہوتی ہے اور نہ دادی کو۔
جنس باریک کانچ کی طرح نازک موضوع ہے. اسرار گاندھی نے بڑے احتیاط اور مہارت کے ساتھ اس ننگی تار پر اپنی good conductor فکر کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے۔ احساس کی بجلی اسلوب میں اتر flow بناتی ہے، جھٹکے نہیں دیتی۔ سعادت حسن منٹو کھول دو میں ایک کھڑکی کے کھلنے کے استعارے میں قاری کے سامنے افسانہ ایک ننگی کی حقیقت کی طرح أکھڑاہو جاتا ہے لیکن یہاں افسانہ نگار نے لذت لیلی کے اظہار میں علامت اور استعارے کے سات دبیز پردوں میں متعدد جگہ سو را خ بنا دیے. ہیں قاری ان کھلے رہ گئے سوراخ میں دیکھ کر شمعی موم کا لوکیشن location بڑی آسانی سے trace کر لیتا ہے۔
شمعی موم کو اور زیادہ تفہیمی بنانے میں اس کی خوب صور تی اور سڈول پن کے ذکر میں جنسی چٹخارہ در آیا ہے اور یہیں سے کہانی مصنف پر سوار ہوجاتی ہے ۔منٹو کے فطری اسلوب پر اسراری فکر کی لگام کی گر فت سرکنے لگتی ہے۔افسانے کی پہلی سطر سے ہی سانپ سیڑھی والے کھیل کی بساط پر اشاروں، کنایوں، تشبیہات و استعارات کا باریک جال بن دیا گیا ہے۔قاری اس بساط پر بالغ ہوتی خواہش اور فکری انگڑائی لیتی ہوئی طلب اور urge کی تہذیب کرتی ہوئی ناموسی روایت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کہانی کے اس تدریجی عمل کے سفر پر قاری شمع دان تک تو بڑے لطیف احساس کے ساتھ پہنچ جاتاہے لیکن مومی شمع کی ساخت کی مزید وضاحت کہانی کے لطیف پیرایۂ اظہار کو مجروح کرتی ہے ۔ کہانی وہیں ختم ہوگئ تھی جہاں پر”اس کی نگاہیں شمع دان پر ٹک گئیں”۔
افسانہ نگار نے یہاں تک تو بڑی کامیابی کے ساتھ جنسیات کو زندگی اور اس کی فطری طلب سے سگما بونڈ کرکے پیش کردیا ہے اور جس نفسیاتی بصیرت ، طلبی کیفیت، جذباتی تہہ داری اور فنی نزاکت کے ساتھ برتنے کی ضرورت تھی وہ تمام لفظیات و استعارے بھی اپنے لغوی معنی سے الگ اپنے فطری احساسات کے ساتھ افسانے میں آگئے ہیں ۔
"ماچس کے سہارے کوئی شمع دان لینے کمرے میں گیا اور پھر دادی ماں کی بڑبڑاہٹسنائی دی۔”
"پتہ نہیں شمع دان سے شمع کہاں چلی گئی۔ شام تک تو تھی۔ اب تو دوکانیں بھی بند ہوگئی ہوں گی۔”
یہ یہاں اضافی ہے اس کے بغیر بھی کہانی مکمل ہو سکتی تھی۔
وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے پلنگ پر لیٹی تیز تیز سانسیں لے رہی تھی اور پورا جسم پسینہ سے تر بتر ہو رہا تھا۔ وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔
’’کمبخت بجلی کو بھی آج ہی جانا تھا۔‘‘
یہ افسانے کا دوسرا پنچ لائن ہے ۔طلب کی بے کلی کا اظہار ،اندر کی پیاسی تاریکی کو نگلنے والا وہ روشنی کا tool اور اس کو اندھیرے میں دھونڈتی ہوئی وہ تہذیب جو گھر پر طا ری ظاہری اندھیرے کو دور کرنے کے لئے اسے تلاش کررہی ہے۔
دور کہیں خواہشوں کے سمندر میں کسی ice berg کی ٹپ کی طرح ناآسودہ جذبات اور جنسی محرومی کو لاشعور کے سیکوریٹی سسٹم میں زک دیتا ہوا قاری کو دیکھ جاتاہے۔
اس افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پر جلانے والے اس عمل میں مصنف کا قلم اتنا شاطر ہے کہ وہ ساری باتیں بڑی بے باکی سے کہہ گذرتا ہے لیکن انگلیاں نہیں سلگتیں۔
ایک اچھی کہانی پر مبارک باد
اختلاف کی گنجائش ہے.

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں : 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے