بیکراں کائنات مٹھی بھر

بیکراں کائنات مٹھی بھر

مقصود عالم رفعت

(متفق سب تھے میری باتوں سے
اور ہوئے میرے ساتھ مٹھی بھر
ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ یا چاپلوس ہوتے ہیں یا فریبی. ان کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہوتا ہے. ان میں نفاق کی صفت پائی جاتی ہے. ہمارے زمانے میں ایسے لوگ ہمیں یہاں وہاں مل ہی جاتے ہیں.
مقصود عالم رفعت کا درج بالا شعر ایسے لوگوں کے تجربے پر مبنی ہے. شعر سادہ ہے لیکن بھر پور معنویت کے ساتھ. مقصود عالم رفعت کی غزلوں میں ایسے تجربے جابجا نظر آتے ہیں. معاشرے کی بے چہرگی سے اضطراب کی کیفیت ان کی شاعری کا حاوی مضمون ہے. ان کی شاعری میں حسن و عشق کی باتیں کم کم ہی ہیں. انھوں نے کلاسیکی شعرا سے استفادہ کیا ہے. کئ اشعار کلاسیکی شعرا کے اشعار کے تراجم سے ہیں. ان کے یہاں، علو ہمتی، بلند حوصلگی اور صالح فکر کی نمائندگی ملتی ہے.
مقصود عالم رفعت مدھوبنی، بہار سے تعلق رکھتے ہیں. پی ایچ ڈی کی ہے. پرائمری اسکول میں معلم ہیں.ان کی شاعری کی عمر ابھی دس برس بھی نہیں ہے. ایک مجموعۂ کلام کربلائے زیست بہار اردو ڈائریکٹوریٹ کے مالی تعاون سے شائع ہوا ہے. دوسرا زیر اشاعت ہے.
اشتراک ڈاٹ کام ان کا استقبال کرتاہے اور نیک خواہشات پیش کرتا ہے.طیب فرقانی ) 


بیکراں کائنات مٹھی بھر
*آدمی کی حیات مٹھی بھر*
بے صِفٙت لوگوں سے بھرا ہے جہاں
اور ہیں با صفات مٹھی بھر
دیکھی دریا کی میں نے دریا دلی
بس ادا کی زکوة مٹھی بھر
متفق سب تھے میری باتوں سے
اور ہوئے میرے ساتھ مٹھی بھر
جاں کی بازی لگائی دریا میں
ریت بس آئی ہاتھ مٹھی بھر
نفس کی خواہشات لامحدود
زندگی کا ثبات مٹھی بھر
ہیں سراپا گناہ میں ڈوبے
اور کارِ نجات مٹھی بھر
خواب ہیں بے شمارآنکھوں میں
اور میسر ہے رات مٹھی بھر
زندگی کا اثاثہ ہیں رفعت
بس یہی کاغذات مٹھی بھر

شاعر کا مختصر تعارف :
خاندانی نام: محمد مقصود انصاری
قلمی نام: مقصود عالم رفعت
تاریخ پیدائش:23/02/1971
جائے پیدائش : جرہٹیہ۔مدھوبنی
تعلیم: پی ایچ ڈی اردو
ذریعۂ معاش: معلم۔سرکاری پرائمری اسکول
تلمذ: باقائدہ کوئی استاد نہیں البتہ اپنے ہم عصر شعرا سے تبادلہُ خیال کرتے رہے 
آغاز شاعری: 2014
شعری مجموعے:،1.کربلائے زیست۔2.مٹھی میں آسمان زیر اشاعت
سرکاری انعامات و اعزازات: اردو ڈائرکٹریٹ پٹنہ سے مجموعہُ کلام کی اشاعت کے لئے زر تعاون سنہ 2018
پسندیدہ شعراء : میر ،اقبال،غالب
مشغلہ:کتب بینی
پورا پتہ: مقام۔جرہٹیہ۔پوسٹ۔مقصودہ۔ضلع۔مدھوبنی۔ بہار۔847234
موبائل نمبر: 9708208556
ای۔میل:marifat947@gmail.com

مزید غزلیں :
دیتا رہا فریب سدا رہنما مجھے
منزل سے اس نے دور ہمیشہ رکھا مجھے
آغوش میں لیا جب اجل نے تو یوں لگا
جیسے لگا رہی ہو گلے دلربا مجھے
اہلِ خرد جنوں سے مرے کانپنے لگے
ہاری نہیں تھی بازی، ہرایا گیا مجھے
مشکل تھا امتحان مگر عزم تھا جواں
آخر سمندروں نے دیا راستہ مجھے
رسوائی، جگ ہنسائی، ذلالت، مفارقت
اس عاشقی سے کیا ملا اِن کے سوا مجھے
جس کی ہوئی شکست وہی کامراں ہوا
لگتا عجب ہے عشق کا یہ ضابطہ مجھے
لکھا تھا جو نصیب میں حاصل مجھے ہوا
رفعت ہو زندگی سے بھلا کیوں گلہ مجھے

غزل 2

غزل میں نظم میں شعر و سخن میں زندہ ہے
وه مر چکا ہے مگر اپنے فن میں زندہ ہے
گمان ہوتا ہے شعروں میں اس کے ہونے کا
مرا نہیں ہے وہ نقش کہن میں زندہ ہے
یقیں نہ آئے تو شمش و قمر سے پوچھ لو تم
وہ اٹھ گیا ہے زمیں سے گگن میں زندہ ہے
زمانہ بیت گیا اس جہاں سے گزرے اسے
مگر یوں لگتا ہے اب تک زمن میں زندہ ہے
تمام سازشیں ناکام ہیں حکومت کی
خلوص و مہر و اخوت وطن میں زندہ ہے
ستم سہیں گے نہ ہرگز بھی ہم خموشی سے
ضمیر جب تلک اپنے بدن میں زندہ ہے
سنواری زلف غزل جس نے مر نہیں سکتا
وه جگنو بن کے ادب کے چمن میں زندہ ہے
یقین ہوتا نہیں دل کو چل بسا رفعت
یوں لگ رہا ہے کہ جیسے کفن میں زندہ ہے

غزل 3

ہم سفر آنکھیں راہ بر آنکھیں
آگئیں لے کے اوج پر آنکھیں
عہد طفلی کی یاد جب آئی
ہوگئیں اپنی تر بہ تر آنکھیں
خواب آنکھوں میں گھر نہ کر جائیں
سو میں سوتا ہوں کھول کر آنکھیں
چاند آتا نہیں نظر مجھ کو
ہیں لگی کب سے بام پر آنکھیں
کس قدر ہے جہان بد صورت
ہائے بہتر تھیں بے بصر آنکھیں
جستجو کس کی ہے خدا جانے
کیوں بھٹکتی ہیں در بدر آنکھیں
ذکر تیرا مدام ہوتا ہے
باتیں کرتی ہیں رات بھر آنکھیں
اب خدا ہی مرا محافظ ہے
پھیر لیں مجھ سے چارہ گر آنکھیں
تشنگی دل کی جب بڑھی رفعت
ہم نے رکھ دیں نچوڑ کر آنکھیں

غزل 4

سفر مشکل بھرا ہے اور میں ہوں
کہ رہزن رہنما ہے اور میں ہوں
وہ نظروں سے پلاتے جارہے ہیں
کہ مئے ہے میکدہ ہے اور میں ہوں
یہ بارش اور تنہائی کا عالم
قیامت اک بپا ہے اور میں ہوں
تقاضہ زیست کا ہے سر جھکاوُں
ادھر میری انا ہے اور میں ہوں
چلا تھا جانب منزل میں تنہا
کہ اب اک قافلہ ہے اور میں ہوں
نہیں ہوتا ہوں میں تنہا کبھی بھی
خیال دلربا ہے اور میں ہوں
ہے میرے ہاتھ میں اعمال نامہ
اْدھر میرا خدا ہے اور میں ہوں
تمہاری یادوں کی محفل سجی ہے
فضا نغمہ سرا ہے اور میں ہوں
تلاطم میں پھنسی کشتی ہے میری
تعاقب میں ہوا ہے اور میں ہوں
عمل کا تجزیہ ہے ہونے والا
ادھر وہ پارسا ہے اور میں ہوں
عدو سر پر ہیں رفعت تیغ تولے
مقام کربلا ہے اور میں ہوں

غزل5

کیسے تیور دکھا رہی ہے ہوا
اک قیامت اٹھا رہی ہے ہوا
رقص کرتی ہے بادبانوں میں
کیا تماشا دکھا رہی ہے ہوا
تھر تھرانے لگے در و دیوار
زور یوں آزما رہی ہے ہوا
آخری اک بچی ہے شمع امید
پوری قوت لگارہی ہے ہوا
جل رہا ہے مکان بارش میں
کیا کرشمہ دکھا رہی ہے ہوا
پھول پژمردہ ہوگئے سارے
ظلم کس طرح ڈھا رہی ہے ہوا
آپھنسی ہے بھنور میں کشتی بھی
اور مجھے آزما رہی ہے ہوا
ڈھہ رہا ہے مکان بارش میں
اور تالی بجا رہی ہے ہوا
دیکھ کر میرا آشیاں رفعت
مجھ کو آنکھیں دکھارہی ہے ہوا

غزل6

ہمیشہ غم ترا تازہ رہے گا
مرے دل سے دھواں اٹھتا رہے گا
محبت کب رکی ہے روکنے سے
*یہ دریا دور تک بہتا رہے گا*
ہوائیں زور جتنا بھی لگالیں
چراغ عشق تو جلتا رہے گا
خیالی دہر سے تو آجا باہر
وگرنہ عمر بھر تنہا رہے گا
یہ رہبر راہ میں جب تک رہیں گے
ہمارا کارواں لٹتا رہے گا
دکھائی دے گا کب قانون کو سچ
یہ آخر کب تلک اندھا رہے گا
ہے جب تک جان تن میں میرے رفعت
قلم بس حق سدا لکھتا رہے گا

غزل 7

ہماری راہ میں جب بھی کوئی رخنہ نکل آیا
لیا بس کام ہمت سے نیا رستہ نکل آیا
ڈبونے کی بھنور نے کوششیں پر زور کیں لیکن
جواں تھا عزم میرا سو بھلا چنگا نکل آیا
اٹھا کر تم مرے اسلاف کی تاریخ تو دیکھو
رگڑ دیں ایڑیاں جس جا وہیں چشمہ نکل آیا
مرے احباب تھے جتنے ہوئے غیروں میں سب شامل
جسے میں غیر کہتا تھا وہی اپنا نکل آیا
لگائی نعرہُ تکبیر کی جب بھی صدا میں نے
تو حق کے واسطے گھر سے ہر اک بچہ نکل آیا
نہ جانے کتنے چہرے ہیں چھپے اک چہرے کے پیچھے
اتارا خول جتنی بار اک چہرا نکل آیا
زمیں تھی سخت لیکن ہار مانی میں نے کب رفعت
جگر کے خون سے سینچا تو اک پودا نکل آیا

غزل 8

نہ شمش ہوں نہ قمر ہوں نہ کہکشاں ہوں میں
بس اپنے فن سے زمانے میں ضوفشاں ہوں میں
قدم بڑھایا تھا تنہا ہی جانبِ منزل
یہ اور بات کہ اب میرِ کارواں ہوں میں
وہ میرے عیب و ہنر سے بخوبی واقف ہے
*بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں*
یہاں سبھی مرے کردار سے ہیں ناواقف
کہی گئی نہ جو اب تک وہ داستاں ہوں میں
مجھے گوارہ نہیں ہے کسی کی محکومی
فقیر لاکھ سہی دل کا حکمراں ہوں میں
ہوں وہ زمیں جسے حاجت ہے آبیاری کی
یہ کس نے کہہ دیا تم سے کہ آسماں ہوں میں
یہ میری ماں کی دعاوُں کا فضل ہے مجھ پر
ہر امتحان میں اب تک جو کامراں ہوں میں
یہ کس مقام پہ رفعت حیات لائی ہے
مجھے خبر نہیں خود ہی کہ اب کہاں ہوں میں

غزل 9

بظاہر صورتِ قطرہ رہا ہوں
مگر میں حسرتِ دریا رہا ہوں
دیارِ خویش میں کھوٹا رہا ہوں
جہاں بھر میں کھرا سکٙہ رہا ہوں
الجھ کر گردشِ ایام سے میں
معممہ زیست کا سلجھا رہا ہوں
امیرِ شہر کی بیعت نہیں کی
تو اس کی آنکھ کا کانٹا رہا ہوں
جو اپنے تھے تماشائی بنے تھے
میں تنہا لہر سے لڑتا رہا ہوں
خزاں کی رت ہو یا فصلِ بہاراں
بہر صورت میں خندیدہ رہا ہوں
میں دہشت گرد ہوں اس کی نظر میں
پيامِ امن جو پھیلا رہا ہوں
یہی تو آسماں کو کھل رہا ہے
وه ذرّہ ہوں جو رخشندہ رہا ہوں
عطا کی منزلِ مقصود سب کو
میاں رفعت میں وه رستہ رہا ہوں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے