مشتاق احمد نوری کے افسانہ لمبے قد کا بونا کا تجزیہ

مشتاق احمد نوری کے افسانہ لمبے قد کا بونا کا تجزیہ

نثارانجم

اونچے قد کے “بونے” لوگ
لب پر میٹھے میٹھے بول

دل میں کینہ، بُغض، ریا لفظوں کا بیوپار کریں
نیت میں ازلوں سے کھوٹ مطلب ہو تو پیار کریں

جھوٹے دعوے یاری کے
شُعبدے ہیں مکاری کے

وقت پڑے تو کُھلتے ہیں
اونچے قد کے “بونے” لوگ
(نا معلوم شاعر)

مشتاق احمد نوری اردو ادب میں جمالیات کے ایسے "جادوگر” ہیں جو "جاڑے کی گلابی رات” میں بھی "کیل کیل اندر” باطن میں اتر اس "تاریک اجالے” کا "چہرہ چہرہ "خوابوں کے کینوس” پر بڑی مہارت سے زندگی کا "دردصلیب” پر اتار لیتے ہیں۔ زندگی کی "چھت پر ٹہری دھوپ” میں کھڑے "لمبے قد کے بونا” اور سر پر منڈلاتے مضحکہ خیز کوے کی "کائیں کائیں” کی آوازوں کے "حصار” میں قید ایک "اشرف المخلوقات” کی حاشیے پر دراز معاشرتی رویوں کا نوحہ اس نفسیاتی کرب کے ساتھ صفحہ قر طاس پر بکھیرتے ہیں کہ "ٹوٹے پتے کا دکھ”چڑمڑاہت کے ساتھ روح کو بھی چھلنی چھلنی کردیتا ہے۔چشم زدن میں امنگوں سے بھری زندگی مسرت کے جھولے سے "کانٹے کی خوشبو” پر آگرتی ہے۔ ناظرین کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں ایک "سچ” اپنے جائز ارمانوں کے ساتھ راستے کے کانٹوں کی طرح صاف ہوجاتا ہے۔ لاشعور کے "کمرے کے تنہا روشن دان ” میں دردسے نڈھال انسانی کڑوا ‘سچ” کسی سرکس کے جھولے سے گر خون بھری "تھوک” اگلتاہے۔ کیل زار حالات کے دار پربلند ہوتا "بند مٹھی کا نوحہ” قلت کے قفس میں "نظر بند” اس کی خاردار تیلیوں پر "خودکشی”کے ارادے سے سر ٹکراتی زندگی لہو لہو ملتی ہے۔ سرکس کے پردے کے پیچھے بنا گیا شازشوں کا ‘لہو لہو اندھیرا” "گہن چاند” کی طرح” وہ ایک لمحہ” راجن کی زندگی میں آتاہے اور شیرا کی رقابت کا شکار بن جاتاہے۔ کسی شمائلہ صفت "سوکن” معشوق کی سنہری زلفوں کے "پھندہ” میں الجھ شیرا جیسے "وہا ئٹ کلر” رقیب کی بدنیتی بھری "لمحوں کا اسیر” ہوجا تا ہے۔
افسانہ نگار ادراک کے پر باندھے اسلوب کی ندرت اور جاذب لباس میں فنی جمالیات اور مطالعاتی وصف نقوش کے ہم راہ فکری اڑان  بھرنے کے لیے "جن کی سواری” ساتھ لیے ایک dwarf کی نفسیاتی زندگی کی "تلاش” مین "بند آنکھوں کے سفر” پر نکل پڑتا ہے۔
مشتاق احمد نوری کے یہاں فنی تجربات کے نمونے ان کی کہا نیوں میں ہمہ رنگ اسلوب کے ساتھ بکھرے پڑے ہیں ۔ انہیں کسی ایک اسلوب کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔ کردار اور موضوع کے ساتھ اسلوب بھی نئے رنگوں اور تراکیب کے ساتھ آتے ہیں۔ ان کی کہانیاں ذہین قاری کے لے بھی ہیں اور عام قارئین کے لیے مسرت اور بصیرت کا سامان بھی فکر کےشمامہ میں ٹانکے رکھتے ہیں ۔ان کے یہاں فکر کی الگ الگ رنگا رنگ کھونٹیاں تو ہیں لیکن ان کے اسلوب پر ایک برانڈ کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا۔ ترسیل کے المیے سے بچنے میں سادہ بیانیہ، جدت اور سہل نگاری ان کے خصوصی تیشہ فکر واسلوب ہیں جو مختلف مکتبہ ہاۓ فکر کے قاری کو اپنے حصار میں باندھے رکھتا ہے۔ اردو ادب میں سراج انور کی liliput اور blefusco کی کہانیوں کے بعد بونے قد پر راست بیانیہ انداز میں ایسی کہانی لکھی نہیں گئی ہے جس میں سماج کی بے اعتنا عی کی شکار اور حاشیے پر سسکتی مگر امنگوں سے بھری ایک dwarf کی زندگی کے نفسیاتی کرب کو زندہ حقیقت کی طرح بیان کیا گیا ہو۔سرکس کے کھیل کی پوری جذات نگاری کے ساتھ جیسے ایک بازیگر اپنے سر پر طشتری پر طشتری اس خوبی سے رکھتا جاتاہے کہ ایک سانس کی چوک سے طشتری زمین پر گر کر چھناک سے ٹوٹ جاۓ ۔بالکل یہی احتیاط نثر کی سادگی اور روانی میں کہانی کی سانسوں میں پرو دیا گیا ہے۔
مطالعاتی وصف اور ترسیل میں اس چھناک سے ٹوٹنے کی چوکسی پر افسانہ نگار نے تکنیک اور اسلوب کے پہرے بٹھا رکھے ہیں۔
پریوں کی کہانی اسنو وائٹ snow white میں سات بونوں والی کہانی تو نظر سے گذری ہے ۔ والٹ ڈزنی کی 1937 میں بننے والی فلم بھی ،بونوں کی کہانی پر مبنی ہے۔جسے اب animation اور تھری ڈی میں پیش کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ جدید کہا نیوں میں زیادہ تر بونے” جے آر آر ٹالکین” کے لارڈ آف دی رنگ lord of the ring میں دیکھنے کو ملتے ہیں "کرانیکل آف نارنیا” chronicle of Narania میں بھی ایسے بونے کردار ملتے ہیں۔
19 ویں صدی کے ایڈیڈا کی شاعری والیسوپسی (1895) کے ایڈیشن میں دو بونے دکھائے گئے ہیں۔مگر یہ  Willing suspension of disbelief کی طرح واقعات ہیں۔لمبے قد کے بونے کی طرح survive کرتے حقیقی کردار نہیں ہیں۔افسانہ نگار نے سرکس کے کھیل میں ایک بونے کی زندگی کی جدو جہد، دوسروں کی زندگی میں اعتبار اور شناخت بنانے اور اس کی زندگی میں ان کہے رومانی احسا سات کو بڑے لطیف اور نفسیاتی پیراۓ میں بیان کیا ہے۔
اس کشاکش بھری زندگی کی ننگی حقیقت کو اس فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ طوالت کا بوجھ بھی ذہن پر گراں نہیں گذرتا۔
مشتاق احمد نوری کے اسلوب وتکنیک میں جدت بھی ہے اور موضوعات کی رنگا رنگی بھی ہے۔ یہ کہانی سرکس کے مزاح کے پیچھے روتے کڑھتے دل کے آہو ہیں۔ حسرتوں کی آنچ کو جلاۓ رکھنے کی تڑپ ہےاور تفریحی معاشرے کے قہقہوں کے پردے کےپیچھے بلند ہوتی وہ گھٹی گھٹی آہیں ہیں جنھیں ہم تفریح سمجھ کر خوش ہولیتے ہیں۔ تفریح کے ذریعہ مسرت بانٹنے والوں کا استحصال ہے جس پر سے مشتاق احمد نوری نے اس کلون clone کو اتا را ہے ۔اس کی نقاب کشائی کی ہے جو تفریح مہیا کرنے والے کرداروں پر مسرت کے مکھوٹے کی طرح معاشرے نے اپنی طبعیت سے چڑھا دیا ہے۔ یہ صرف ایک dwarf کی طنز و مزاح کے تیروں سے چھیدی زیست کی کہانی نہیں ہے بل کہ معاشرے کی بے حسی کی چادر چاک کرنے کی جراءت بھی ہے۔معاشرے کے ذریعہ مسلسل نظر انداز کیے جانے والے physically challeged اور عام انسانوں کی طرح جینے کی امنگوں سے لیس زندگیکو افسانہ نگار نے ایک چبھتا ہوا سوال بنا کر پیش کیا ہے۔جس کا جواب ناظرین کی تالیوں کی گونج میں کہیں گم ہوگیا ہے۔ ہمیں وہی دکھایا جارہا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔جب کہ سر کس کے جھولے پر کرتب بازوں کی ٹولی میں وہ شازشی بازی گر بھی ہیں۔
مشتاق احمد نوری ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ ’’تلاش‘‘ اور ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘ ان کے فکری پڑاؤ کے دو نشان میل ہیں جن میں زندگی اپنے الگ الگ رنگوں اور نظریوں کے نقوش کے ساتھ ملتی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے میں ان کے فکری حرکی احسا سات پر اسلوب فنی جمالیاتی حس کا ادراک اور نظریہ زیست کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ مشتاق احمد نوری کی کہانی ’’لمبے قد کا بونا” میں ایک dwarf کے ذہنی کچوکوں، ذہنی پیچیدگیوں کو تحلیل نفسی اور napoleon complex کے تناظر میں فن کارانہ نفسیاتی ژرف پاروں کے ساتھ ہم دیکھ سکتے ہیں۔
نیپولین کمپلیکس ایک نظریاتی احساس کم تری کمپلیکس ہے جس میں چھوٹے قد کے لوگ نفسیاتی طور پر ایک نفسیاتی کمی میں گر فتار رہتے ہیں۔ یہ معا شرے کے جارحانہ رویے اور ذہنی چھیڑ چھاڑ اور معاشرتی طرز عمل سے ٹارچرڈ پر سا نالٹی tortured personality کا نفسیاتی دکھ ہے ۔ نفسیات میں ، نپولین کمپلیکس Napolean complex کو ایک توہین آمیز معاشرتی دقیانوسی رویہ تصور کیا جاتا ہے۔جس میں پستہ قد بونے کے احساسات کو زخمی کیا جاتا ہے۔سماجی اور معاشی سطح پر ان کا استحصال کیا جاتا۔معاشرہ میں نارمل زندگی جینے کے تمنا ئی بونے ان کے تفریحی ٹوائز بن کر رہ جا تے ہیں۔
نپولین سے لے کر ٹام کروز Tom cruse تک مرد ‘شارٹ مین سنڈروم’Short man syndrome کے شکار تھے. 
شارٹ مین سنڈروم ، جسے نپولین کمپلیکس بھی کہا جاتا ہے ، جو بونے قد کی شب و روز کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔بونے پن کی نفسیات کو میڈیکل سائینس میں
نپولین کمپلیکس کہا جاتاہے یہ فرانسیسیوں کے پہلے شہنشاہ نپولین کے نام پر رکھا گیا ہے۔ نپولین نے طاقت ، جنگ اور فتح کے حصول کے ذریعہ اس کمی کی تلافی کی۔
ایسی معذوری جو معاشرتی نظام کے عام پیٹرن social pattern میں فٹ نہ بیٹھے اور ایسی شخصیت جو بار بار زندگی کے ہر موڑ پر تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنے، کسی شخص کے جذبات پر بہت سخت اور تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ ان مسائل کے حامل افراد کو معاشرہ "معمول” کی طرح نہیں لگتا۔ social anxiety جیسی نفسیا تی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ذہنی صحت اور نارمل زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ بونا ایک ایسی حالت کی ایک مثال ہے جو جذباتی درد emotional pain and turmoil کا سبب بن سکتی ہیں۔
یہاں سرکس بطور استعارہ ایک سماج ہے اور یہ بونے اس معاشرے کے قلت زدہ اقلیت ہیں۔ راجن، ذہین با علم ہے ۔وہ اپنی صلاحیت و لیاقت سے سب پر بھاری ہے. وہ شیرا کے مقابلے میں ہر لحاظ سے دی بیسٹ The best ہے۔یہ آج کے عصر ی دور کا سوشل اکٹیوسٹ Social activist ہے ۔اپنے ارد گرد نڈھال ستائی ہوئی زندگی کا گراف اوپر اٹھا نے کا تمنائی ہے ۔ یہ کردار دن کے اجالے میں کھچا کھچ ناظرین کے سامنے ایڈمنسٹریشن کی ناک کے نیچے بڑی ہنر مندانہ کرتب بازی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے ۔ناظرین کی تالیوں کی گڑ گڑ اہٹ میں قاتل پر کسی کی نگاہ بھی نہیں جاتی۔
راجن کا یہ کردار آج کے دور میں اقلیت کی تر جمانی کرتا ہے جو بہت ساری صلاحیتوں کے باوجود بھی سماج کے نئے ڈھانچے کے حا شیے پر ایک چبھتا ہوا سوال بن کر ابھر رہا ہے۔۔2000 کے جنوری کے شب خون میں یہ کہانی شاٸع ہوئی تھی جس کا تجزیہ کرتے ہوۓ پروفیسر شکیل الرحمن نے اسے بونے کی (ساٸیکی) نفسیات پر اردو کی پہلی مکمل کہانی قرار دیا تھا. 
گرچہ یہ کہانی پرانی ہے جس میں سماجی سسٹم سے مطابقت کرتے ہوے اپنے جیسے سماجی دھارے سے کٹے لوگوں کے حصے کی شناخت کے لیے جد وجہد کرتے مگر طاقت ور لوگوں سے ہارتے ایک بونے کو دکھایا گیا ہے۔لیکن وہیں آج کے تناظر میں کہانی کے بینالسطور between the lines پر ایسے افراد کے بونے افکار کی قلعی بھی کھولتی ہے جو اپنے دراز قد کے ساتھ سماجی نظام کی کبڑی بلندیوں پر کھڑے ہیں۔

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں : َحسین الحق کے افسانہ مردار رڈار کا تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے