زنا کا پس منظر

زنا کا پس منظر

محمد شمشاد 
انسانی فطرت کے قریب جو بھی معاشرے ترقی پزیررہے ہیں انہوں نے ہمیشہ زنا کویعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کو جرم اور گناہ سمجھا ہے اور وہ زنا جیسے جرم کے لئے سخت سزائیں بھی مقرر کرتی رہی ہیں. یہی حال اسلام کا بھی رہا ہے. اللہ نے بن بیاہے مرد اور عورت کو ناپسند کیا ہے اور صاف صاف حکم دیا ہے کہ ایسے تمام لوگوں کے نکاح کردیئے جائیں جو بالغ ہو چکے ہوں حتی کہ ان لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے. اتنا ہی نہیں اسلام شروع سے ہی معاشرے سے ان تمام اسباب و جرائم کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے اوراسے متحرک کرنے والے ہوتے ہیں اور اس کے لئے مواقع پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں اور اسی وجہ کراسلام میں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جب بھی وہ اپنے گھروں سے نکلیں تووہ چادریں اوڑھ لیاکریں اوروہ اپنے چہرہ کو ڈھانک کر ہی نکلا کریں. اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کی بھی تنبیہ کی گئی کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کیا کریں. وہ غیر محرم مردوں کے سامنے بن سنور کر نہ جایا کریں. 
ذرا اس بات پر غور و فکر کریں کہ اسلامی معاشرہ کو کس طرح سے تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے. جس نبی محمد ؐ کا گھر مسلمانوں کے لئے نمونہ کے طور پہ پیش کرنا تھا ان کی عورتوں یعنی امم المومنین اور ان کی بیٹیوں کو ہدایت کردی گئی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں وقار اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں. وہ عام طور سے اپنے حسن و جمال اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کیا کریں. اگر باہر کے مرداور دوسرے لوگ ان سے کوئی چیز لینے آئیں تووہ پردے کے پیچھے رہ کر ہی انہیں دیں. دیکھتے ہی دیکھتے یہ نمونہ، رسم و رواج کے طور پر ان تمام صاحب ایمان عورتوں اور پورے عرب میں پھیلتا چلا گیا جن کے نزدیک زمانہ جاہلیت کی بے حیا ئی عام تھی اور جسے معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اب وہی خواتین نبی محمد ؐ کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں. 
لیکن جوں جوں معاشرے میں خرابی آتی گئی توان خرابیوں اور برائیوں کے سبب معاشرتی تمدن میں بھی بگاڑ آنا شروع ہوگیاجس کے نتیجہ میں ان جرائم اور گناہوں کے خلاف کاروائیوں اور سزاؤں میں بھی نرمی برتی جانے لگی. اس معاملے میں اولین تساہل اس وقت آیا جس کا ارتکاب بالعموم یہ کیا گیا تھا کہ محض زنا (Fornication) اور زنا بزور غیر (Adultery) میں فرق کرکے اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی کا نام دے دیا گیا اور صرف موخر الذکر کو ہی جرم مسلتزم سزا قرار دیا گیا. 
محض زنا (Fornication)کی تعریف جو محتلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے ”کوئی مرد خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو، عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے خواہ وہ نا بالغ ہو یا بالغ ہو. قدیم مصر، بابل، آشور (اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی پھلکی ملتی ہے، جسے یونان اور روم اور پھر یہودیوں نے بھی اختیار کرلیاتھا. 
اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیرات کے ہتھیار پر ہی انحصار نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے لئے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیربھی استعمال کرتا ہے اوراسلام نے قانون تعزیرات کو محض ایک آخری چارہ کے طور پر تجویز کیا ہے. اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور ان پر کوڑے برسانے کے لیے  داروغہ مسلط کردئے جائیں بلکہ قانون تعزیرات نافذ کرنے کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں تاکہ کسی کو اس کی سزا دینے کی نوبت ہی نہ آئے. اسلام سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے، اس کے دلوں میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف پیدا کرتا ہے اوراسے آخرت کا احساس دلاتا ہے پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی ان بڑے گناہوں میں سے ایک ہے جن پر اللہ تعلی سخت بازپرس کرنے والا ہے. اس کے بعد وہ انسانوں کے لئے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے اور جائز تعلقات کے مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ایک اچھی اور خوش حال زندگی بسر کر سکیں اور اپنی نسل اور معاشرہ کو پروان چڑھانے میں ایک مثبت رول ادا کر سکیں، لیکن جب ان جوڑوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم نہ ہوسکیں اور ان کے دل نہ ملنے پائیں جن کے سبب ان کی زندگی اجیرن بننے لگے توانہیں ان نا موافق حالات پر طلاق، خلع، پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک رجوع کا راستہ فراہم کردیا ہے، تاکہ یا تو ان کے درمیان مصالحت ہوجائے یا پھر زوجین آزاد ہو کر جہاں ان کے دل ملیں وہ نکاح کر کے سکون کی زندگی بسر کریں. 
ان سب کے بعد جب زنا کی فوج داری سزا مقرر کی گئی تو اشاعت فحش کو بھی روکنے کی کوشش کی گئی. قحبہ گری کی قانونی بندشیں بھی کی گئی،  عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بے ثبوت الزامات لگانے اور چرچے کرنے والوں کے لیے بھی سخت سزا ئیں تجویز کی گئیں. 
سزا کے لئے اصول
قرآن کے مطابق کسی جرم کی سزا کا فیصلہ کرتے وقت مجرم کے ماحول، تربیت اور ذہنیت وغیرہ کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے. اس سے ایک اہم اصول مستنبط ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے لونڈیوں کی سزا نصف مقرر کرکے یہی بات بتانے کی کوشش کی ہے. اور اس سے اس کا مقصد صاف ہے. جب کہ دوسری طرف قرآن نے واضح الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ اگر (بالفرض محال) نبی کی بیوی سے اس قسم کا جرم سرزد ہو جائے تو ان کی سزا دوگنی ہوگی. 
سورۃالاحزاب 33 آیت نمبر 30 ( ینسآء البنی من یات منکن بفا حشۃ مبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین، وکان ذلک علی اللہ یسیرا۰) ”نبی کی بیویو، تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا اللہ کے لئے یہ بہت آسان کام ہے“ (تفہیم القرآن)
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس وقت نعوذ باللہ نبی ؐ کی ازواج مطہرات سے کسی فحش اور نا زیبا حرکت کا اندیشہ تھابلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ نبی ؐ کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ تم دوسری عورتوں کی طرح عام عورت نہیں ہو بلکہ تمہاری زندگی ان دوسری عورتوں کے لئے نمونہ ہے. اسلامی معاشرے میں تمہارا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے تمہاری ذمہ داریاں بھی بہت سخت اور زیادہ بڑھی ہوئی ہیں. اس لئے ازواج مطہرات کا اخلاقی رویہ بھی انتہائی پاکیزہ اور بلند ہونا چاہئے. دوسری طرف انھیں اس بات کی بھی تنبیہ کی گئی کہ تم لوگوں کو اس بھلاوے میں کبھی نہ رہنا چاہئے کہ تم نبیؐ کی بیویاں ہو اور اس وجہ کر تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچنا آسان ہو سکتا ہے یا تمہارے مرتبے کچھ ایسے بلند ہیں کہ ان کی وجہ سے تمہیں پکڑنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش آئے گی. قانون خداوندی کی رو سے ایسا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا اس لئے تم لوگوں کو اس بات کی کسی بھی حال میں اجازت نہیں ہوگی کہ تم لوگ ان کے لئے ایسے حالات پیدا کردو جن سے وہ جو تمہارے زیر اثر ہیں وہ زنا کرنے کے لئے مجبور ہو جائیں. 
اسی وجہ کرمسلمانوں کے لیے جس نبیؐ کا گھر نمونہ تھا اور جن کے نقش قدم پر مسلمانوں کو زندگی گزارنا تھا انھیں ہدایت کردی گئی تھی کہ وہ گھر میں وقار اور سکونت کے ساتھ رہیں. وہ اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کریں. اگر باہر کے مرد ان سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں. یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے ان تمام صاحب ایمان عورتوں میں پھیل گیا جن کے نزدیک زمانہ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبی کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں
سورۃالنساء 4 آیت نمبر 25 (ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المومنت فمن ما ملکت ایمنکم من فتیتکم المومنت، واللہ اعلم بایمانکم، بعضکم من بعض، فانکحو ھن باذن اھلھن و اتو ھن اجور ھن بالمعروف محصنت غیر مسفحت ولا متخذت اخدان، فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ماعلی الحصنت من العذاب، ذلک لمن خشی العنت منکم، وان تصبروا خیرلکم، واللہ غفوررحیم۰) ”اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہیں رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کرسکے اسے چاہئے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں. اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے. تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کردو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائی کریں پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں کے لئے مقرر ہے. یہ سہولت تم میں سے ان لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند ش تقوی کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“ (تفہیم القرآن)
اس آیت سے یہ بات بھی بالکل واضح ہو چکی ہے کہ نکاح کے لئے کسی مرد یا عورت کے انتخاب کرنے کے وقت امیر غریب ذات پات کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرنا چاہئے بل کہ اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو. اس کا صاف مطلب ہے کہ مومن اور غیر مومن کے درمیان کسی بھی حال میں نکاح نہیں ہو سکتاہے. 
یہاں پر خاندانی عورت کو لونڈیوں کے بہ نسبت ترجیح ضرور دی گئی ہے اور اسے افضل اور اولیت بھی دی گئی ہے اور جن وجوہات کے بنا پر انھیں ترجیح دی گئی ہے وہ غور طلب ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ خاندانی عورتیں دو طرح سے محفوظ ہوتی ہیں .  ایک خاندان کی سرپرستی اور حفاظت حاصل ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی محصنہ ہوتی ہیں دوسری شوہر کی حفاظت جس کی وجہ سے اس کے لئے خاندان کی حفاظت پر ایک اور سرپرستی اور حفاظت کا اضافہ ہوجاتا ہے. بخلاف لونڈی جب تک لونڈی ہے محصنہ نہیں ہوتی ہے کیوں کہ اس کو کسی خاندان کی سرپرستی یا حفاظت نہیں حاصل ہوتی ہے البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوجاتی ہے لہذا لونڈی کو جو سزا دی جائے گی وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی مقرر کی گئی ہے. 
زنا کی سزا
زنا بظاہر انفرادی جرم ہے لیکن اس کے اثرات معاشرتی طور پہ رونما ہوتے ہیں. اسی لئے اسے معاشرتی جرم کے طور پرتسلیم کیا گیا ہے اور اس میں (بجز زنا بالجبر کے) مرد عورت دونوں یکساں مجرم ہوتے ہیں
سورۃالنور 24 آیت نمبر 2( الزانیۃ والزنی فاجلدوا کل واحدمنھا ماءۃ جلدۃ ولاتاخد کم بھما رافۃ فی دین اللہ ان کنتم تومنون باللہ و الیوم الاخر، ولیشھد عذابھما طآ ئفۃ من المومنین ۰)” زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو،سوکوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالی اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے“ (تفہیم القرآن)
یعنی قرآن میں اللہ تعلی نے صریح الفاظ میں زانی مرد اور عورت کو سو سو کوڑے سزا کے طور پر مارنے کا حکم بیان کردیا ہے. یہ سزا قانون کا معاملہ ہے اس لئے اس میں کسی قسم کی نرمی نہ برتنے کی بھی تاکید کر دی گئی ہے. ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کویہ بھی یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو (یعنی اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہو کہ یہ احکام خداوندی ہیں اور ان کے نتائج تمہارے سامنے آکر رہیں گے خواہ اس دنیا میں یا اس کے بعد آنے والی زندگی میں) اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اس طرح کی سزا کسی تنہائی میں نہ دی جائے بل کہ اس طرح کی سزا دینے کے وقت مومنین کے ایک گروہ کی موجودگی لازمی ہے جو اس کے گواہ بن سکیں کہ سزا قاعدے کے مطابق دی گئی ہے. 
لیکن قرآن میں اس فعل کے ارتکاب کے ثبوت کے لئے چار عینی شہادت کی شرط نہیں لگائی گئی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا آیت میں کہا گیا ہے زنا جیسے سنگین جرم کی سزا (مرد اور عورت دونوں کیلئے) سو سو کوڑے ہیں لیکن رجم یا سنگسار کرنے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے
محمد شمشاد۔
A-169/2,A.F.Enclave-2,Jamia Nagar,New

صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش : بدکاری کیا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے