تیرگی بھی سکوں  نہیں دیتی

تیرگی بھی سکوں نہیں دیتی

مرغوب اثر فاطمی
تیرگی بھی سکوں نہیں دیتی
چاندنی بھی سکوں نہیں دیتی
بات آگے بڑھی تخیل سے
شاعری بھی سکوں نہیں دیتی
غم میں ڈوبا ہے قبلہء اول
بندگی بھی سکوں نہیں دیتی
باب جڑنے لگے تغافل کے
عاشقی بھی سکوں نہیں دیتی
حسن کو بے رخی کا رونا ہے
تن دہی بھی سکوں نہیں دیتی
سر پٹکتا ہے ضابطہ در پر
عاجزی بھی سکوں نہیں دیتی
بادہء التفاتِ رفتہ کی
کہنگی بھی سکوں نہیں دیتی
پرخچے اڑ گئے تصنٌع کے
سادگی بھی سکوں نہیں دیتی
اس سراسیمگی کی آندھی میں
آگہی بھی سکوں نہیں دیتی
مجھکو اے پیرِ تسمہ پا تیری
پیروی بھی سکوں نہیں دیتی
ناز تھا جسکی شوخ موجوں پر
وہ ندی بھی سکوں نہیں دیتی
تختہء مشق بن کے دیکھ لیا
ساحری بھی سکوں نہیں دیتی
صبر دامن چھڑائے جاتا ہے
خوشدلی بھی سکوں نہیں دیتی
اے غمِ دہر اب تو دے مہلت
سرخوشی بھی سکوں نہیں دیتی
کیا اثر گلشنِ تدبٌر کی
تازگی بھی سکوں نہیں دیتی ؟

علی گنج، گیا، 823001
موبائل۔9431448749

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے