َحسین الحق کے افسانہ مردہ راڈار کا تجزیہ

َحسین الحق کے افسانہ مردہ راڈار کا تجزیہ

نثارانجم
بے حس معاشرے کی ضمیر پر ایک ضرب ہے جس کی چٹاخ کی آواز کا المیہ اس افسانے کی رگ و پے میں دوڑ رہا ہے۔
بے حسی ایسی کہ جیسے کتے کے پلے کی آواز کی طرح تیز سے مدھم اور مدھم تر اور پھر گم۔۔۔
معاشرے کی ادراکی حسیات ایسی کہ بے حسی کا گراف نوے ڈگری زاویہ قائمہ سے زیرو ڈگری اور احساس مردنی کا شکار ہوکر dead zone میں تبدیل ہوجاۓ ۔ افسانہ نگار نے سماجی حسیات کے اسی رڈار کی غیر فعالیت کو تمثیل کے پیراے میں پیکر افسانہ میں ڈھالا ہے ۔انہوں نے اشارے و کنا یے میں علائم کے سہارے ایسے سماج کا فکری ڈھانچہ سوچ کی خراد پر کھڑا کیا ہے جہاں معاشرہ اپنے مفاد کے خول میں بند ہے۔سماجی کوڈ آف کنڈکٹ انتشار کا شکار ہے۔صالح اخلاقی اقدار مٹ رہی ہیں اور بے حسی بڑھ رہی ہے۔نیا معاشرہ بے حسی کے کو کونcocon سے نکلنے کی کوشش میں بھی وہ تڑپ نہیں رکھتا جو تڑپ اس پلے کی ہڈی چیرتی ہوئی أواز میں ہے۔
زیر مطالعہ افسانے میں بے حسی کی چادر اوڑھے ایک معاشرہ مسلسل اس آواز کو ان سنی کر رہا ہے جو ہمارے اپنے زندہ معاشرے کےگھروں کے عقب سے آرہی ہے۔ جہاں زندگی معاشرتی بے اعتنائی کی نجاست پر پسری مفلسی کے دل دل میں پھنسی کراہ رہی ہے۔ تہذیبی شکست و ریخت معاشرے کے اسپائنل کوڈ spinal cord میں سرایت کرچکا ہے ۔افسانہ نگار معاشرے کے کھوۓ ہوۓ اقدار پر اس طرح نوحہ خواں نظر آتاہے  جس طرح طاہر اپنے intellectuality کے رعب کو سماج کے شناخت اور تکریم والے status کے طور پر اپنی شخصیت کے ساتھ بناۓ رکھنا چاہتا ہے۔
مادیت اور مغربی اقدار پوس آبادی میں تیزی سے غلبہ پا رہا ہے ۔ ثقافتی یلغار اور اس کے شور میں اس قدر آلودہ فکر ہے کہ یہ تمیز محال ہے کہ معاشرتی نجاستی دل دل میں پھنسے کسی ذی روح کی آواز انسان کے بچے کی ہے یا کتے کے پلے کی یہ کو ئی جا ننا نہیں چاہتا۔
پوس کالونی والے اپنے تہذیبی کوڑے کے جماؤ میں اس طرح گھرے ہوۓ ہیں کہ ایک مثبت اور صالح فکر آج بھی عمل بننے سے قاصر ہے کہ کون سا نظام تعلیم وضع کیا جا ۓ، جو نئی نسل کی صحیح خطوط پر تربیت کرسکے، جس عمل کے نتیجے میں پوس کی آبادی کو ذمہ دار شہری میسر آۓ۔ ایک تغفن زدہ  بے حسی نے معاشرے کے شعور کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ جس سے پاکیزہ قدروں کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے،اور بکری اور کتے میں فرق کے logic کا مطالبہ کرتاہے ۔ مغربی معاشرتی عقلی تہذیب معاشرہ خیر کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔جس کے نتیجے میں پوس آبادی بے حسی، بے عملی , انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔جسے افسانہ نگار نے تمثیلی اشاریے میں بڑی ندرت فکر سے بیان کیا ہے۔جس تیزی سے کتے کے پلے کی آواز دل کو چیر تی ہوئ پوس کالونی میں گونج رہی ہے ۔کریمی لیئر creamy layer کے ساتھ متوسط طبقے کی معاشرتی زندگی میں بھی گراوٹ
آرہی ہے۔
معاشرتی بے توجہی کا کچرا انبار بن رہا ہے ۔اور اس انبار پر بیٹھ ہم کاغذی گھوڑے بنارہے ہیں جس کے پاؤں بے عملی کے دل دل میں گھٹنے تک پہنچ گیا ہے۔ اس کے سدباب اور اصلاح معاشرہ کے لیے طاہر علی کی کو شش ایک متضاد عمل کا شکار ہے۔ جس میں باس کی وہ دفتری مداخلت بھی ہے اور عمل میں آنے سے رہ جانے والے وہ کا غذی scope لائحہ عمل بھی جو زیادہ مربوط ہوکر عمل کی دست رس میں نہیں آرہا ہے۔ معاشرے کا وہ صالح فرد جو شرافت و دیانت کے ساتھ جینا چاہتا ہےاسے اس قول اور فعل کے تضاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملک و ملت کا حقیقی درد رکھے بغیر ایک صالح معاشرہ کا نہ تو وجود عمل میں آسکتا ہےاور نہ ایسے افراد جو طاہر علی سےاوپر اٹھ کر کوئی کام کرسکیں۔

صاحب تجزیہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : نئے پرانے اوراق

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے