رنگ برنگی کرسیاں

رنگ برنگی کرسیاں

(مرحوم مشرف عالم ذوقی کی نذر)

مسعود بیگ تشنہ 
تاحدّ نظر پُرسکون، دل کش اور ہرے بھرے پیڑوں سے بھرا وسیع و عریض باغ نظر آ رہا ہے. لگ بھگ ہاتھ بھر کے فاصلے سے رنگ برنگی خوب صورت کرسیاں، قطار در قطار رکھی ہوئی ہیں مگر یہ کیا؟ سب کی سب کرسیاں خالی پڑی ہیں! تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ عرش کی کرسی پر بیٹھے خدا نے یہ کرسیاں ان مرنے والوں کے لئے لگائی ہیں جو دھرتی پر کووِڈ کی وبا کے دوران مرے یا مارے گئے ہیں. جس کا جیسا عقیدہ اسی عقیدے کے رنگ کی کرسی اس کے انتظار میں. مگر یہ کیا! ان کرسیوں پر بیٹھنا منع ہے!!. یہ سب کرسیاں ان کی روحوں کو دکھانے کے لئے لگائی گئی ہیں کہ دنیا میں اپنے عقیدے کی کس کرسی پر بیٹھ کر مرے ہو. ان کا عقیدہ تو مرنے کے بعد بھی زندہ ہے، ان کی آتما کی طرح. بس کرسی خالی کرنی پڑی ہے کہ اب ان کا شریر فنا ہو گیا ہے اور اب وہ محض آتمائیں ہیں.
روزِ حشر وہ واپس انہی کرسیوں پر بیٹھا دیے جائیں گے مگر انہیں اپنے نیچے سے کرسی کھسکتی محسوس تو نہیں ہوگی مگر کرسی بری طرح ہل رہی ہوگی. وہ اپنے عقیدے کی کرسی سے پیچھا چھڑانا چاہیں گے مگر مجبور ہوں گے. جو عقیدے کے سچے ہوں گے، عمل کے پکّے ہونگے وہ مطمئن بیٹھے رہیں گے. باقی اپنی اپنی کوششوں میں پسینہ پسینہ کہ کب ان کو اپنے عقیدے کی کرسی سے نجات ملے اور وہ سب سے چمکیلی سب سے خوب صورت کرسی پر جاکر بیٹھ جائیں…. روزِ حشر کرسی دوڑ شروع ہو جائے گی اور سب اپنے اپنے پسینے میں غرق اس چمکیلی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کریں گے جس پر لکھا ہوگا خدا کا نمائندہ.
سحری پر جگانے والے کی آواز کے ساتھ میری آنکھ کھلتی ہے. وہ رنگ برنگی کرسیاں ابھی تک میری آنکھوں میں گھوم رہی ہیں. میری کرسی کون سی ہے؟. مجھے اب فکر عقیدے کی کرسی سے زیادہ اس خوب صورت چمکیلی کرسی کی ہو رہی ہے.
(20 اپریل 2021، اِندور، انڈیا) 

مسعود بیگ تشنہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں : وفاقی نظام کی واپسی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے