وفاقی نظام کی واپسی

وفاقی نظام کی واپسی

مسعود بیگ تشنہ
مغربی بنگال اسمبلی چناؤ اور ملکی حالات :
مغربی بنگال کے حالیہ اسمبلی انتخابات نے مودی آندھی کو سارے ملک کو اپنے لپیٹے میں لینے سے روک دیا ہے اور وفاقی نظام کی طرف پھر ملکی سیاست کو موڑ دیا ہے. یہ ایک فالِ نیک ہے. ایک نیشن ایک پارٹی، ایک کلچر ایک نظام کا مودی کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے. مودی چلے تھے چین کے سنکی آمریت پسند سابق صدر ماؤزے تنگ کے تہذیبی انقلاب کی طرز پر، جہاں ایک پارٹی، ایک رہنما کی سنک کے آگے سب ہیچ تھا. ریپبلک آف چائنا (چین)کے ماڈل پر جہاں سب کچھ ہے مگر جمہوریت نہیں ہے. مودی چھ سال میں دھیرے دھیرے کر کے عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا، الیکشن کمیشن، سی اے جی، ریزرو بینک پر حکومت اور پارٹی کا قبضہ اور پکڑ بتدریج مضبوط کرتے چلے گئے مگر اچانک مغربی بنگال کے چناؤ میں جو ‘ممتا بنام مودی’ ہوتا گیا تھا، مودی جی نے کووِڈ کی وبا کے بڑھتے خطرات کے بیچ اپنی اور شاہ کی ریلیوں میں لاکھوں کی بھیڑ جمع کروائی. ایک غیر ذمہ دار ملکی سربراہ کے بطور پورے ملک و قوم بلکہ دنیا کے سامنے ان کا بِنا ماسک کا اصلی چہرہ سامنے آیا. اس طرح مودی سب طرف نشانے پر آئے. مودی جی کی آندھی پر بھی بریک لگ گیا اور مغربی بنگال فتح کرنے کا مودی جی کا سپنا چکنا چور ہو گیا.
ملک کے جمہوری وفاقی نظام پر حملے : آئینی اعتبار سے بھارت ایک وفاقی جمہوریہ ہے. جمہوری وفاقی نظام میں صوبوں کے علاقائی مسائل و وسائل کو آگے رکھا جاتا ہے. اور اس کی بہتر سیاسی صورت گری کی جاتی ہے. الگ الگ اوقات میں وفاقی اسمبلیوں کے انتخابات سے ملکی سطح پر کسی ایک ملک گیر پارٹی کے غیر جائز اور غیر ضروری دبدبے کی کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی صوبے میں کاٹ ہو جاتی ہے. اور ایک نیشن ایک پارٹی کے قیام کے عمل کو جھٹکا پہنچتا ہے. اپوزیشن فری نیشن کے جنون کی آندھی مغربی بنگال میں جس طاقت سے مرکزی سرکار نے چلائی، دنیا کی تاریخ میں ایسی نظیر نہیں ملتی. ترنمول کانگریس کی سُپریمو ممتا دیدی کے جگر، حوصلہ مندی اور حکمت عملی نے نہ صرف اس آندھی کی ہوا نکال دی ہے ، بلکہ مستقبل کے بہتر انڈیا کے لئے بھی نئے راستے کھول دیئے ہیں. غیر ضروری اور غیر منظم نوٹ بندی، غیر منظم ادھکچری جی ایس ٹی، سرکاری اداروں کو کمزور کرکے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے حوالے کرنا، بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی سے ہاتھ کھینچنا، تعلیم اور صحت کے بنیاد شعبوں میں سرکاری سرمایہ کاری کم سے کم کرتے جانا اور انہیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر جھوڑتے جانا اور ان کے مفادات کے محافظ اور ایجنٹ کے طور پر کام کرنا. مودی جی یہ سب کام چھ سال میں باوجود اپوزیشن کی مخالفت کےآسانی سے کرتے رہے. ڈیفینس جیسے معاملے میں بھی ہوائی جہاز اور ہوائی ساز و سامان بنانے والی سرکاری نامی کمپنی ایچ اے ایل کے بجائے، ایک چہیتے سرمایہ دار کی کمپنی کو رافیل ایر کرافٹ سودے میں پیچھے کے دروازے سے داخلہ دلوایا گیا جو ابھی وجود میں ہی نہیں آئی تھی. فرانس کی حکومت کے ساتھ سودے کی بنیادی شرائط کو بدلوالیا گیا اور رافیل سودے کو اور مہنگا کرکے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچایا گیا . ریزرو بینک سے لگاتار اوور ڈرافٹ لے کر ملک کے سرمائے کو جوکھم بھرے بازار میں ڈالا گیا. حکومت کی نااہلی سے حکومت کا دیوالیہ نکال کر، نقصان کا سارا بوجھ ریزرو بینک پر ڈال دیا گیا. چند بڑے گنے چنے سرمایہ داروں کو زراعت کے میدان میں داخلے اور ایک طرفہ اجارہ داری کے لئے تین نئے زرعی قوانین عجلت میں پاس کرا کر لائے گئے اور پنجاب سے اٹھے ملک گیر کسان آندولن کو سی اے اے مخالف ‘شاہین باغ آندولن’ کی طرز پر بدنام کیا گیا.
جھوٹے وعدوں کی آڑ میں عوام کو نوٹنکی باز اداؤں میں الجھا کے رکھا گیا. مسلم دشمنی کو کھلے عام فروغ دینے کے لئے گئو رکشا، شمشان قبرستان ،رام مندر، تُشٹی کرن جیسے فرقہ وارانہ بیانوں کو لبھاؤنی تقریروں، مذہبی نعروں اور اشارے و کنایوں سے خوب خوب ابھارا گیا. اکثریت کو ایک طرفہ سوچ پر ڈھال دیا گیا. وہ سوچ بھی ایسی کہ جو ذہنوں کو مفلوج کر دے بلکہ سوچ کے راستے ہی بند کردے. اکثریت سوچنا ہی بند کردے. سی اے اے پر مخالف اظہارِ رائے کرنے پر نئی نسل کے ابھرتے جوانوں کے ساتھ کیا گیا؟ پوری قوم، پورا ملک اور عدلیہ بھی خاموش تماشائی بن گیا. یہ جمہوریت کی بقا کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھا. یہ خطرہ آج بھی ہے. یہ خطرہ ٹلا نہیں ہے. ہاں، دیدی نے دادا کی دادا گری پر قدغن ضرور لگا دیا ہے. مغربی بنگال کے آدھے سے زیادہ ووٹ دینے والوں نے جے شری رام کے وِبھاجن کاری (بانٹنے والے) سیاسی نعرے کی یلغار کے باوجود اپنے حواس نہیں کھوئے اور بانٹنے کی سیاست کرنے والوں اور سونار بنگلا کا جھوٹا سپنا دکھانے والوں کو کرارا جواب دے دیا. مغلوں کے دور حکومت میں سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک کے سونے کے پر نوچنے والے ہوس ناک حاکم کی نیت وقت رہتے مغربی بنگال کی غالب اکثریت نے بھانپ لی. چھ سالوں کی کتنی غیر بھاجپائی منتخب صوبائی حکومتوں کو کم زور کر چھل سے پلٹا گیا یہ وفاقی جمہوریت کی بقا کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گیا تھا اور ایک پارٹی نظام کی راہ پر لے جا رہا تھا. بھارت کے وفاقی نظام پر ہو رہے لگاتار حملوں سے دانشور طبقہ سخت فکر مند تھا اور ابھی بھی ہے. مغربی بنگال کے انتخابات نے نئی امید جگا دی ہے اور سارے ملک کی بھلائی سوچنے والوں کو کووِڈ 19 کے وبائی دور میں بھی ہمت دے دی ہے اور بھارت کے بہتر مستقبل کی امید جگا دی ہے.
کانگریس اب کیا کرے : مغربی بنگال میں تِرنموٗل کانگریس کی جیت ہوئی ہے اور انڈین نیشنل کانگریس یعنی کانگریس کا کھاتا بھی نہیں کھل پایا ہے. کانگریس کو اب نئی حکمت عملی کے تحت علاقائی سیاسی پارٹیوں سے تال میل کر کے بھاجپا کا کھیل بگاڑنا ہوگا. اس عمل میں اسے بڑی قومی پارٹی کے غرور سے نکل کر باہر آنا ہوگا. اب قومی سیاست میں صوبائی پارٹیوں کو مزید اندیکھا نہیں کیا جا سکتا ورنہ وفاقی جمہوریت کا ہی خاتمہ ہونے کا امکان اور بڑھ جائے گا. اور اگر ایسا ہوا تو مودی کو ماؤزے تُنگ اور بھارت کو دوسرا چین بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا.
6 مئی 2021، اِندور، انڈیا
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں : کھیلا ہوبے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے