مگر تیری مرگ ناگہاں!

مگر تیری مرگ ناگہاں!

محمد حذیفہ صبیح
متعلم دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاد، ہزاروں دلوں کی دھڑکن، امت کا قیمتی سرمایہ، عربی و اردو کے بے مثال ادیب، جرات مند عالم،غیورشخصیت ، فصاحت و بلاغت کا بحر ذخار،حضرت مولانا نور عالم صاحب، خلیل امینی رحمہ اللہ رمضان کے مبارک مہینے میں بوقت تہجد داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے؛ دل و دماغ ابھی تک اس حادثہ کو قبول ہی نہیں کرپا رہا ہے. اذان کے وقت مصلی پر بیٹھے بیٹھے یہ خبر بجلی بن کر گری، بے اختیار آنکھیں بہہ پڑیں :

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تیری جدائی میں مرنے والا وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

حضرت الاستاذ کی باہمت شخصیت اور بلند کردار سے کون واقف نہیں.آپ؛ شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کے خصوصی شاگردوں میں سے تھے، عربی ادب میں مہارت اپنے استاذ سے ورثہ میں پائی تھی،اردو ادب میں کمال اور جوہر رمز سناشی پیدا کیا، اور زبان وقلم کے میدان میں شجاعت و بسالت کے وہ جوہر دکھائے کہ جس کی مثال بعد والے اب پیش کرنے سے قاصر ہی رہیں گے .(الا ماشاء اللہ) دارالعلوم کے عربی مجلہ "الداعی” کو حضرت مولانا نے اپنی کوششوں، کاوشوں اور زورقلم کے دم پر دنیا میں متعارف کرواکر اس کا لوہا منوایا۔
مولانا دارالعلوم کے عربی ادب کی جان تھے، آپ کی عربی واردو؛ دونوں قسم کی تحریریں کمال فصاحت کی غماز، بلیغ جملوں اورپرمغز تعبیرات سے مرصع ، اعلاء کلمۃ اللہ کے جذبے سے معمور، متلاشیان حق کے لئے مشعل راہ اور روح انسانی کو جھنجوڑ نے والی ہوتی تھیں؛ جن کا قیمتی خزینہ اب مولانا کی کتابوں یا ان کے شاگردوں کے سینوں میں محفوظ ہے.وہ جذبہ و اخلاص جو فقط آہ سحرگاہی اور دعائے نیم شبی سے حاصل ہوتا ہے،آپ کے قلم کی زینت تھا، آپ کی خدمات پر آپ کو کئی قومی ایوارڈز اور تمغوں سے بھی سرفراز کیا گیا ہے.جن میں صدرِ جمہوریہ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
مولانا بہترین استاذ اور اعلی پائے کے محقق ہونے کے ساتھ بہترین شخصیت کے مالک تھے. شخصیت ساز، خوش اخلاق، ملنسار، باکردار اور زندہ دل انسان تھے، دوران درس وملاقات نہایت نادر علمی لطائف اور نایاب فنی دقائق سے طلبا، علما اور شائقین کو مستفید فرماتے رہتے .
دارالعلوم میں مشہور تھا کہ جو شخص خالی گھنٹوں میں حضرت مولانا کے درس میں شریک ہوجایا کرے؛ اسے عربی ادب مستقلا پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی. اخیر عمر کے چند سال علالت میں مبتلا رہے؛ اس کے باوجود سلسلۂ درس و تدریس اور تصنیف وتالیف برابر جاری رکھا . آخری کتاب "من وحی الخاطر” ابھی قریب ہی میں منظر عام پر آئی ہے، جو کم از کم پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، دراصل یہ الداعی میں مولانا کے خصوصی کالم” من وحی الخاطر” کے مضامین کا مجموعہ ہے، جس کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ: یہ کالم تبھی لکھتا ہوں ، جب "آمد” ہوتی ہے. اہل قلم اور اہل اللہ اس جملے کی گہرائی اور مفہوم کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں. اس کے علاوہ بہت سی مشہور زمانہ تالیفات آپ کے قلم سے نکلی ہیں، جن میں ” وہ کوہ کن کی بات، کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟، حرف شیریں، فلسطین فی انتظار صلاح دین، مفتاح العربیہ،اول ودوم (داخل نصاب) تعلموا العربیہ فانھا من دینکم” وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت کی وفات حسرت آیات شائقین علم وادب اور علمی دنیا کے ہم ایسے خوشہ چینوں کے لئے نہایت گہرا خسارہ ہے، اور درحقیقت یہ عالِم کی نہیں ؛ عالَم کی موت ہے. اللہ حضرت کی مغفرت فرماکر لواحقین کو صبرجمیل عطاء فرمائے اور ہم پس ماندگان کو نعم البدل سے نوازے.آمین۔

قیامت کہتے ہیں قائم شرارالخلق پر ہوگی
قیامت سے سوا بس انتقال اولیاء ہوگا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے