زکوٰۃ کا منظّم اجتماعی نظام خوش حال معاشرے کی تعمیر کرتا ہے

زکوٰۃ کا منظّم اجتماعی نظام خوش حال معاشرے کی تعمیر کرتا ہے

حسین قریشی 

اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں جگہ جگہ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔ نمازباجماعت پڑھنے کا اجر و ثواب بے شمار ہے۔ جماعت کے ساتھ ادا کی گئی نماز اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے تیسرے نمبر کا رکن ہے۔ جو مومنین کے ایمان کی علامت ہے۔ قرآن میں "نماز قائم کرو زکوٰۃ دو” یہ حکم ایک ساتھ بار بار دیا گیا ہے۔ نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکرآنا اس طرف اشارہ ہے کہ دونوں اعمال اجتماعی طور پر روبہَ عمل لائے جائے۔ جس طرح نما ز کے قیام کا جماعت کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا ہے تو پھر زکوٰۃ کی انفرادی ادائیگی پر غور و فکر ہونا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں زکوٰۃ کے معاملہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے ” یہ صدقات تو در اصل فقیروں ، مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کےکام پر معمور ہوں ۔ اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں ۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا دانا و بینا ہے ۔ ” (التوبہ 60) یہاں زکوٰۃ کا بہت تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ ایک حدیث پاک میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو مال اِنسان صدقات و خیرات کی مَدوں میں اللہ کی راہ میں دوسروں پر خرچ کرتا ہے۔ وہی مال دراصل اس کا مال ہے اور جو مال وہ چھوڑ جاتا ہے وہ اس کے وارث کا ہے۔

زکوٰۃ ادا کرنے سے مال و دولت میں برکت ہوتی ہے۔ زندگی پُر سکون گزرتی ہے ۔ ہم زکوٰۃ فرداً فرداً ادا کرتے ہیں۔ لوگ اپنی سالانہ آمدنی کا حساب لگا کر اس کا ڈھائی فی صد رقم بطور زکوٰۃ نکال کر چند مستحقین کو دے دیتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے گاؤں یا محلے یا وارڈ کے چند حضرات مل کر اپنی اپنی زکوٰۃ کی رقم یکجا کریں تو ایک بڑی رقم ہوجائےگی۔ جس سے بہت سے مستحقین افراد کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اجتماعی عمل اللہ عزوجل کو محبوب ہے۔ جس طرح باجماعت کا اجر وثواب ستر گنا ملتا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کا اجتماعی اہتمام بھی مزید باعثِ اجر وثواب ہے۔ ہمیں اس کے مزید فوائد کے بھی حصول ہوں گے۔ ایک تو یہ اس میں زیادہ برکت ہوگی۔ وہ اجتماعی زکوٰۃ جتنے بھی افراد کو دی جائیگی ان تمام کا ثواب ہمیں بھی ملے گا۔ ایک سے ذیادہ افراد زکوٰۃ تقسیم کرنے کا منصوبہ یا مشورہ کریں گے تو وہ اپنے اپنے تجربات سے قریبی اور اصل مستحقین کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اجتماعی طرز سے زکوٰۃ ادا کرنے کے عمل سے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا بہتر انتظام ہوجائے گا۔ زکوٰۃ کا اجتماعی عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے اور صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے رائج ہے۔ اس پر ازسرِنو مستقل و مستحکم عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ملت کے کئی افراد ہماری امداد کے منتظر ہیں‌۔ حاصل یہ کہ زکوٰۃ کا یہ اجتماعی عمل ایک خوش حال و خوش گوار معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔

مزید یہ کہ اجتماعی زکوٰۃ کی کچھ رقم محفوظ رکھ کر پورے سال وقتِ ضرورت مستحق لوگوں کی امداد کی جاسکے گی‌۔ اس طرح اپنے قریبی محلے یا گاؤں میں ایک نظم قائم ہوگا۔ جو پورے سال مفلس ، بیوہ، یتیم اور اصل مستحقین کے لئے فلاحی کا انجام دیتا رہے گا۔ جس سے غریب ، یتیم ، بیوہ اور دیگر ضرورت مندوں کی خدمت ہوگی اور معاشرہ کے خوش حال بننے میں مدد ملے گی۔ زکوٰۃ دینا صدق و ایمان کی دلیل ہے ، اس لئے کہ ہمیں مال و دولت سے بہت پیار ہوتا ہے اور پیاری و محبوب چیز صرف اسی صورت میں خرچ کی جاتی ہے جب اس جتنی یا اس سے زیادہ محبوب چیز کا حصول مقصود ہو بلکہ اس سے محبوب تر چیز کے حصول پر اس پسندیدہ چیز کو خرچ کیا جاتا ہے ، اسی لئے زکوٰۃ کو صدقہ کے نام سے موسوم کیاگیا ہے ، کیوں کہ یہ (صدقہ) زکوٰۃ ادا کرنے والے کی اللہ ﷻ کی رضا کی سچی طلب پر دلالت کرتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مومن کے اخلاق سنورتے ہیں۔ یہ عمل اس کو بخیلوں کے زمرے سے نکال کر اللہ عزوجل کے پسندیدہ سخیوں کے گروہوں میں داخل کرتا ہے ، کیوں کہ جب مسلمان اپنے نفس کو خرچ کرنے کا عادی بنا لیتا ہے ،خواہ علم کا خرچ کرنا ہو یا مال کا صرف کرنا ہو یا جاہ کی قربانی اور یہ خرچ کرنا اس کی عادت اور طبیعت ومزاج بن جاتا ہے حتیٰ کہ جس روز وہ اپنے معمول کے مطابق کچھ خرچ نہیں کرتا تو وہ رنجیدہ اور پریشان ہوجاتاہے ، جیسے وہ شکاری جو ہر روز شکار کرتاہے اگر کسی روز وہ شکار سے پیچھے رہ جائے تو وہ رنجیدۂ خاطر ہوجاتا ہے اور اسی طرح جس شخص نے اپنے نفس کو سخاوت کا عادی بنالیا ہو تو اگر کسی روز اپنے مال یا جاہ یا منفعت سے خرچ نہ کرسکے تو وہ کبیدۂ خاطر ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے اعمال مسلمان کی روح کی غذا بن جاتے ہیں ۔ اعمال نہ سرزد نہ ہونے پر روح بے قرار ہوجاتی ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے اشخاص جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، ان بخیل اشخاص کے مال پر بسا اوقات ایسی چیز مسلط کر دی جاتی ہے جو اس کو ختم کردیتی ہے یا اس کازیادہ ترمال جل کر خاکستر ہوجاتاہے ، یا اسے بہت زیادہ خسارہ ہوجاتا ہے اور اس پر مختلف بیماریاں و امراض حملہ کردیتے ہیں اور وہ علاج کروانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یا اس کا روپیہ فضول جگہوں پر خرچ ہوتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا بہت سا مال اس سے چلا جاتاہے۔ ایسے ہی مسلمانوں کے بارے میں قران کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ”جو زکوٰۃ نہیں دیتے تو وہ بارش سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔” مفہوم یہ ہے کہ وہ رحمت و برکت سے دور ہوجاتے ہیں۔ انھیں تنگ دستی آگھیرتی ہے ۔ اللہ ربّ العزت مجھے اور تمام صاحب استطاعت مسلمانوں کو فرائض اسلام پر عمل کرنے کی توفیق و رفیق عطا فرمائے۔آمین

حُسین قریشی کا پچھلا مضمون یہاں ملاحظہ ہو : ماہِ رمضان کی تیاری: آخرت کی کامیابی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے