کووِڈ کی مارا مار اور لٹّھے پر سوار سرکار

کووِڈ کی مارا مار اور لٹّھے پر سوار سرکار

مسعود بیگ تشنہ
مرکزی وزیرِ معاشیات، بھارت سرکار مسز نرملا سیتا رمن کے شوہر پراکلا پربھاکر نے جو خود بھی ایک ماہرِ معاشیات اور سیاسی و معاشی مبصر ہیں، پرنٹ میڈیا میں مرکزی سرکار کی اچھی خبر لی ہے. انھوں نے بڑے صاف صاف الفاظ میں اور مدلل انداز میں کووِڈ 19 کی وبا کے بندوبست کے تناظر میں مرکزی سرکار کی ناکامیوں سے پردہ اٹھایا ہے. اس مضمون کو پڑھنے کے بعد اور کچھ کہنے کے لئے باقی نہیں رہ جاتا ہے. انہوں نے ہمت دکھائی کہ خود مودی سرکار کی کمزوریوں، غلطیوں اور بُرے ارادوں کا پردہ فاش کیا جس سرکار کی نمائندگی انکی اہلیہ وزیرِ معاشیات کے طور پر کرتی ہیں.
اب جب کہ سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں، کووِڈ سینٹروں میں بھیڑ بے انتہا بڑھ گئی ہے، اب لاشوں کے اعداد و شمار دیکھے جا رہے ہیں اور معاملات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں، تب یہی بڑے بڑے اسپتال کے ڈاکٹر کہتے پھر رہے ہیں کہ گھر پر آسان (یعنی خرچیلے طریقے) سے خود علاج کرو یا پھر اپنے فیملی ڈاکٹر سے صلاح لے کر کرو اور اس طرح گھر پر ہی مریض کو مینیج کرو، اس کی دیکھ بھال کرو اور انتہائی صورت میں ہی اسپتال کا رخ کرو. جانتے ہیں یہ فیملی ڈاکٹر کون ہیں؟ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو آیورویدک اور یونانی ڈاکٹر ہیں. اور ان میں سے بھی بیشتر کامیابی کے ساتھ ایلوپیتھک علاج بھی چلاتے ہیں. سب سے سستے میں علاج کر دیتے ہیں. دوائی کی دکانوں پر بِناء نسخے کے برسوں سے لوگ ایلوپیتھک دوائیں لیتے آئے ہیں . یہ سب وسیلے سستے اور برسوں کے بھروسے پر ٹکے ہوئے ہیں، گو کہ قانونی نظر سے غیر قانونی ہو سکتے ہیں. لیکن ہیں ہمارے سسٹم کا حصہ ہی. وہ بھی بڑا حصہ جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. وہ بھی ہمارے ملک کے ہیلتھ سیکٹر کی ریڑھ کی ہڈی ہیں. سرکار نے سب سے پہلا کام انہی فیملی ڈاکٹرس پر روک لگانے کا کیا. اتنا بڑا غلط فیصلہ!. یہ بڑے بڑے گیان بانٹتے والے بڑے بڑے اسپتالوں کے ڈاکٹر تب کہاں گئے تھے؟ کیا تب وہ کم سے کم جینوئن آیورویدک اور یونانی ڈاکٹروں کی حمایت میں آواز نہیں بلند کر سکتے تھے. کیوں کرتے کہ تب بڑے بڑے اسپتالوں کا انتظامیہ موقع کو بھنانے کے فراق میں کمر کس چکا تھا. بیمہ کمپنیوں کی چاندی کٹ رہی تھی کہ لوگ اونچے پِریمیم پر ہیلتھ ہالیسی لے رہے تھے. پرائیویٹ اسپتال اور بیمہ سیکٹر مل کر رقم اُگاہی میں لگ چکے تھے. انہیں خون لگ چکا تھا.
ادھر وزیراعظم مودی جی نے باہر سے آئی وبا کو ملک میں اندر آنے کا وقت پر پختہ انتظام نہیں کیا، جو ہوائی سفر کرنے والوں سے ہی آ سکتی تھی. ملک میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے احمد آباد میں ہندوستانی شو کے منعقد ہونے کے بعد دھیرے دھیرے کم و بیش سارے ملک میں پھیل گیا. مودی سرکار نے صحت سیکٹر کو دائمی طور مضبوط کرنے یعنی سرکاری صحت خدمات کا پھیلاؤ کرنے کے بنیادی پرو جیکٹ ہی نہیں بنائے. الیکشن جیتنے کے لئے اوباما ہیلتھ کئیر کی طرز پر کثیر رقم خرچ کر کے صحت بیمہ یوجنائیں نکالیں جس کے پریمیم کا فائدہ ایک بڑی غیر ملکی کمپنی کو ہوا. کووِڈ مینجمنٹ میں سب کام عارضی طور پر بڑے بڑے ٹھیکوں پر کیا گیا اور اس اکیلے مد پر بِنا روک ٹوک پی ایم کئیر فنڈ سے بے دریغ خرچ کیا گیا اور بے دریغ سرکاری شخصی و مالی وسائل اس تام جھام، اعداد و شمار کی اطلاعات، اور اس کی رپورٹنگ پر لگائے گئے . لاک ڈاؤن سے افرا تفری مچ گئی، ہجرت کرنے والے مزدوروں کاریگروں کا شہر سے گاؤں کا سفر مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ، ریلیں بند کر دی گئیں. پھل سبزی فروش دھندا کھو بیٹھے اور کسانوں، پھل سبزی فروشوں کے نقصان کے ساتھ عام جنتا کو ہر چھوٹی موٹی چیز بھی آن لائن خریدنے پر مجبور ہونا پڑا. اس ساری قواعد کے سیدھے فائدے زیادہ تر باہر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملتے رہے. الغرض دیس کا پیسہ ودیسی کمپنیاں بٹورنے لگیں . چینی آن لائن پیمینٹ پلیٹ فارم کمپنی پے ٹی کا پرچار تو خود مودی جی کے فوٹو لگا کر ہوا. ہوٹلیں بند کروا کر زیادہ چینی زومیٹو جیسی کئ کمپنیوں کو فروغ دیا گیا. کُل ملا کر ایسا کھیل کھیلا گیا جس میں روزگار کے مواقع لاکھوں کی تعداد میں گنوانے کے اسباب بنائے گئے اور سلیکٹیو طریقے پر آن لائن سسٹم کو رواج دیا گیا.
اس دوران صوبائی چناؤ بے روک ٹوک ہوتے رہے سارے سیاسی تماشے چلتے رہے، ایسے حالات میں اسمبلی ممبران کی خرید فروخت ہوتی رہی ، صوبائی حکومتیں بدلی گئیں. نئے ریاستی چناو کرائے گئے اور چناوی ریلیوں میں جم کر کووِڈ گائڈ لائن کی دھجیاں اڑائی گئیں. پی ایم مودی مصیبت میں موقع کی تلاش کے اصول پر اپنے منھ لگے سرمایہ داروں کا بھلا کرتے رہے، آنگن باڑیاں بند کردی گئیں، دیہی علاقوں کے غریب بچے اس وجہ سے غذائی کمی کا مزید شکار ہوتے رہے. غریب خاندانوں کے بچوں کا اسکول چھوٹا، متوسط طبقوں کے بچے گھروں میں موٹے ہوتے رہے اور آن لائن کلاسوں میں آنکھیں پھوڑتے رہے. ضرورت تھی ایسی وبائی آفت سے نپٹنے، اپنا ماڈل بنانے اور اور اس پر عمل کرنے کی. ماڈل اپنایا ترقی یافتہ ملکوں کا اس ابھاؤ بھرے دیس میں، جہاں آج بھی غریبی اور امیری کا فرق کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے، اڈانیوں، امبانیوں اور ان جیسے بڑے سرمایہ داروں نے اپنی ساری کمائی کے ریکارڈ توڑ دیئے، اسے کہتے ہیں مصیبت میں فائدہ اُٹھانا. نیا پی ایم ریلیف فنڈ بنا کر آئینی سرکاری آڈٹ سے چھوٹ دے کر بڑا کھیل کھیلا گیا. پارلیمنٹ کو کافی عرصے تک بند رکھا گیا. ان کی مرضی کے قوانین روا روی میں پاس کرائے گئے، اور موقع پڑنے پر، راشٹرپتی ادھیادیش(صدارتی حکم نامہ) سے نافذ العمل بنائے گئے. جمہوریت کو تار تار کرنے کا سارا کھیل چلا، جس میں شہریت ترمیمی قوانین کی مخالفت کرنے والے، دانش ور اور طلباء اور سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، فرقہ وارانہ کشیدگی کو دہلی میں ہوا دے کر اصل مدّعا یعنی متنازعہ شہریت ترمیمی قوانین، اور این پی آر کے لئے ہوا موافق کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور عالمی شہرت یافتہ شاہین باغ آندولن کو کمزور کیا گیا . مودی حکومت کی طرز پر، دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال نے بھی باقاعدہ ایک مسلم علاقے کا نام لے کر کووڈ پھیلانے کا ٹھیکرا مسلمانوں کے پر پھوڑا، اور جانے انجانے میں مسلمانوں کے خلاف جذبات  بھڑکانے اور شروع کے دو تین دن فرقہووارانہ دنگوں پر چپی سادھ کر، اس کھیل کے ماسٹر مائنڈ کہے جانے والے مرکزیووزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کی. اسی طرح جمع خوری کے قوانین میں ترمیم کر کے بڑے سرمایہ داروں کے حق میں لایا گیا اور تین نئے زرعی قوانین بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری کو زراعت کے سیکٹر میں فروغ دینے کے لئے جلد بازی میں پاس کرائے گئے اور کسان آندولن میں انتہا پسند گھس پیٹھیوں کی شرکت کراکے اسے بدنام کر کے، اس کو بھی شاہین باغ آندولن کی طرح کمزور کیا گیا. ان معاملات اور اس سے پہلے بابری مسجد رام مندر تنازعات میں عدالت عالیہ کے فیصلوں کو اپنے حق میں کراتی گئی سرکار. سب سے بڑا دور رس سیاسی اور آئینی قدم بھی اٹھایا گیا یعنی ریاست جموں و کشمیر کو کشمیر(وادی) ، لداخ اور جموں کے تین حصوں میں بانٹنے کا خواب بھی پورا کیا اور ستم یہ کہ کشمیر (وادی) کو اختیارات میں کم تر درجے کا کردیا اور مرکزی حکومت کے زیرِ اختیار کر دیا. کشمیر کی وادی کے تقریباً سبھی بڑے سیاسی رہنماؤں کو بے مدت نظر بند کردیا.، مبینہ طور پر انسانی حقوق کا استحصال کشمیر کی وادی میں اور بڑھا. سیاسی قائدوں پر پابندیوں کے ساتھ وادی میں دیہی پنچایتی چناؤ بھی کرا لئے. پرٹش میمبرس آف پارلیمنٹ یورپین یونین کے چنندہ مندوبین کو کشمیر دکھایا گیا جیسا حکومت دکھانا چاہتی تھی.
اب خود کووِڈ 19 کی مہاماری کے بدتر مینجمنٹ کے لئے جنتا کی عدالت کے کٹگھرے میں کھڑی ہے. اب یہ جگ ظاہر ہو گیا ہے کہ اس مہاماری (وبا) کے پہلے دور میں عوام کا کتنا بُرا ہوا اور بڑے سرمایہ داروں کا کتنا بھلا. اس مہاماری کے دوسرے دور کو روکنے میں سرکار پوری طرح ناکام ہے. سچ تو یہ ہے کہ وہ وہی لاک ڈاؤن کے حالات پیدا کرنے پر مجبور ہو گئی ہے جس کے برے معاشی نتیجے عوام الناس پہلے بھی بھگتتے آئے.الزام تو یہ بھی ہے کہ اب یہ سرکار لاشوں کی صحیح گنتی بتانے سے بھی گریز کر رہی ہے. ادھر عوام علاج کے لئے بھٹک رہی ہے. لوگ اکھڑتی سانسوں کے دوران بےکسی میں آکسیجن سلنڈروں کی کمی اور کالا بازاری دیکھ رہے، اور بِنا علاج کے مر رہے ہیں. اب پھر لاکھوں لوگ شہر چھوڑ کر بےمحابا اپنے اپنے دور دراز کے گاؤں لوٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں. کم و بیش وہی منظر ہے ،بلکہ اس سے بھی ہول ناک کہ اب وبا نے واقعی پیر پسار لئے ہیں. اگر سرکار سخت لاک ڈاؤن اختیار کرتی ہے تو اندیشہ ہے کہ ہر طرح کی معاشی، نفسیاتی مار جھیل رہے عوام الناس سرکار سے بد دل ہو کر متشدد ہو جائے.
آسام اور مغربی بنگال کے حالیہ ریاستی چناؤ چاہے جو نتیجے دیں. آئندہ عام چناؤ جیتنا خود مودی سرکار کو آسان نظر نہیں آتا ہے.
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے دیس کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں دے دی ہے جو ملک کو بیچنے پر تُلے نظر آتے ہیں، دیس کے قدرتی ذخائر کے خزانوں کو لُٹاتے نظر آتے ہیں ، دیس کے سرکاری مالی خزانے کو جو ریزرو بینک کے پاس ہے، ہر صورت ہڑپتے نظر آتے ہیں. جاننے کے حق کو پلیتہ لگاتے ہیں،اظہارِ رائے کی شخصی آزادی کو سلب کرتے نظر آتے ہیں. حقوقِ انسانی، مساوات اور اظہارِ خیال کی آزادی کے حمایتی کارکنوں، مخالف سیاسی کارکنوں کو جیل کی ہوا کِھلاتے نظر آتے ہیں. سرکار نے گذشتہ چھ سال میں تعلیم کا بجٹ کم سے کم کر دیا ہے اور صحت کے سیکٹر میں پرائیویٹ سیکٹر کو بالواسطہ اور بلا واسطہ لوٹنے کے پورے مواقع فراہم کر دیے ہیں. مستقل سرکاری اسپتالوں کے قیام کے بجائے مفت صحت بیمہ کو ہی بیماری کا علاج سمجھ لیا. یہ سب تام جھام تعلیم کی فراہمی کی قیمت اور عوام کی صحت کی قیمت پر کیا گیا ہے.
مودی سرکار کی بھارت کی ٹیکہ کمپنی کو وقت پر اور ملک کی ضرورت کے مطابق بڑا آرڈر نہ دے کر، اور دوسری ٹیکہ کمپنی کو ٹرائل کی اجازت نہ دے کر اور ہندوؤں کے لاکھوں کی تعداد والے مذہبی انعقادات پر روک نہ لگا کر اور اس سے پہلے چناوی ریلیوں کو رد نہ کروا کر جو  مجرمانہ  غفلت سے کام لیا ہے، اس کی تلافی ناممکن ہے.یہ  ایسی تاریخی غلطی ہے جسے  مہاماری کے اتیہاس میں کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا. مودی پوری طرح ملک کو موت کے منھ میں ڈھکیلنے کے ذمہ دار بن گئے ہیں. اب مودی سرکار کووِڈ کی مصیبت کے بھنور میں بُری طرح پھنس گئی ہے. مودی سرکار جس لٹّھے پر سوار ہوکر اس بھنور سے نکلنا چاہ رہی ہے، وہ کب اس کا ساتھ چھوڑ دے کہا نہیں جاسکتا؟ جب ملک تین ہزار کروڑ کے زرِ کثیر سے سردار پٹیل کی آہنی مورت کی شکل میں آسمان چھوتی یادگار بنائے اور اب ہزاروں ہزاروں کروڑ روپیوں کی لاگت سے فی الحال غیر ضروری نیا پارلیمنٹ ہاؤس اور متعلقہ عمارات بنانے کا عزم کرے اور تعلیم اور صحت عامہ کے ٹھوس سرکاری اور مستقل وسائل نہ کھڑے تو ایسی سرکار کس طرح ایک مثالی ریاستِ رفاعِ عامہ کا ماڈل کہلا سکتی ہے. کس طرح سب کے وِکاس (ترقی) کا دعویٰ کر سکتی ہے؟… جب کہ آخری صف کے شخص کو کوئی فائدہ پہنچانے یا اس کا بھلا کرنے میں کامیاب نہ رہے، بلکہ بُری طرح فیل ہو جائے.

(29 اپریل 2021 ،اندور)
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش یہاں ملاحظہ فرمائیں : علامہ اقبال کی نذرایک غزل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے