بنگلا دیش کو میں نے دیکھا: ا یک تبصرہ

بنگلا دیش کو میں نے دیکھا: ا یک تبصرہ


محمد عدنان عالم
شعبۂ اردو، بی۔ این۔ کالج، پٹنہ

جہاں گشتی اور جہاں بینی کی تاریخ قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ہر دور میں سیاحوں اور سیلانیوں نے دنیا کے مختلف ملکوں اور علاقوں کا سفر کیا۔ اپنے مشاہدات اوردیدہ حالات کو سپرد قرطاس کر نے کی کوشش کی لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو صرف نظر نہیں کہ عمومی طورپر سیاحوں نے سیر وسیاحت کے لیے ترقی یا فتہ ممالک،خوش حال سلطنتوں اورآباد علاقوں کا انتخاب کیا۔ابن بطوطہ اور ان جیسے چند ایک کو نظر انداز کر دیں تو بہت کم ہی سیا حوں نے مفلسی،خستہ حالی اور غربت کاعذاب جھیل رہے ممالک اور خطّوں کو اپنے سفر کا حصہ بنایا اور ان ممالک کے حالات اور مشاہدات کو قلم بند کرنے کی زحمت اٹھائی۔خاص طورپر برصغیر کے تناظر میں سفر ناموں کی تاریخ سفر ناموں کے شوقین قاری کوبے چین کر دیتی ہے۔بنگلا دیش جسے دنیا ہمیشہ غریبی اور مفلسی کی مثال کے بہ طور ہی پیش کرتی ہے، کے حوالے سے سفری دستاویز کی تعداد قابل رحم ہے۔بالخصوص اردو میں تو تقسیم پاکستان یاقیامِ بنگلا دیش کے بعد اس ملک کے حوالے سے کسی نے شاید ہی کوئی مستند سفری داستان قارئین کے سامنے پیش کی ہو۔ایسے میں حال ہی میں شایع ہوئی پروفیسر صفدر امام قادری کی کتاب’’بنگلا دیش کو میں نے دیکھا“ (امار سونا ر بنگلا) اس طبقے کے لیے سامان ِراحت بن سکتی ہے جو اس ملک کی زیارت، بنگالی حسن،اور وہاں کی تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کوکھلی آنکھوں اور کھلی بانہوں سے دیکھناتو چاہتے ہیں مگر قلت اسباب کی بنا پر وہ اس خواب کو پورا کر پانے سے محروم رہتے ہیں۔
”بنگلا دیش کو میں نے دیکھا“ (امار سونار بنگلا) در اصل یہ بنگلا دیش کی ایک سفری ڈائری ہے۔ دوران سفر قادری صاحب نے جوکچھ محسوس کیا،اس کی تفصیل یہاں پیش کی گئی ہے۔اس کو انہوں نے نہایت ہی شائستگی اور سلیقگی کے عمدہ پیرایے میں ڈھال کر اردو کے قارئین کے سامنے پیش کیا۔اس سفر نامے کا آغاز ۷۱۰۲؁او ر ۰۲۰۲؁میں ڈھاکا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے بین الاقوامی سے می نارمیں شرکت سے ہوتا ہے جس میں قادری صاحب بحیثیت مہمان شریک ہوئے تھے۔ ۷۱۰۲؁میں سفرسے واپسی کے بعدانہوں نے بنگلا دیش کی روداد کو آٹھ قسطوں میں اردو کے مشہور اخبار روز نامہ ’انقلاب‘میں لکھا تھا جسے دوسری بار ڈاکٹر نعیم انیس نے اپنے رسالے”فکرو تحریر“میں شائع کیا تھا۔ پھر جب ٢٠٢٠ ؁ میں دوسری بار بنگلا دیش کے سفر سے واپسی ہوئی تو انھوں نے من و عن جو کچھ دیکھا،سمجھا اور محسوس کیا، اس کو اردو کے قارئین کے سامنے پیش کر دیا۔ اردو کے طالب علموں کے لیے بنگلا دیش کے حوالے سے یہ تحریر کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔چوں کہ یہ سفر ڈھاکا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کی رہین منت تھا،اس لیے انھوں نے اس مختصر سے محبت آمیز گل دستے کو ڈھاکایونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے اساتذہ اور طلبا کے نام معنون کیا۔
اس کتاب کا مقدمہ مشہور ڈراما نگاراور’آوارگی ود دانش‘ کے میزبان(ہوسٹ پرسن)، مقیم حال کنیڈا جاوید دانش صاحب نے لکھا جس میں انہوں صاف لفظوں میں جناب قادری کی شائستہ،شگفتہ اور رواں نثر لکھنے کی مہارت کا اقرار کیا ہے۔اس کتاب کے شائع ہونے سے قبل تک اردو کی ادبی دنیا قادری صاحب کو ایک باغی نقاد،اورعامۃ الناس ایک بے باک صحافی کی حیثیت سے جانتی تھی۔شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ باغیانہ تیور رکھنے والا محقق ونقادسفر نامے کی دنیا میں بھی طبع آزمائی کرے گا۔لیکن اس کتاب سے ان کے مشاہدات کی قوت، اور چیزوں کو باریکی سے دیکھنے،پرکھنے کی صلاحیت جو کہ سفر نامے کی تشکیل میں بنیاد کے پتھرکی حیثیت رکھتی ہیں، نیز ان کی روئیداد سفر رقم کرنے کی مہارت کھل کر سامنے آتی ہے جس سے ا ن کی زندگی کی ایک گم شدہ جہت کا پتا لگتا ہے۔اس کا اعتراف جاوید دانش نے مقدمہ میں ان الفاظ میں کیا ہے :”ان کا سفر نامہ خارجی سے زیادہ داخلی ہوتا ہے۔تجربات کی ندرت اور فکر کی گہرائی ان کے سفر نامے کو ممتاز اور منفرد کرتی ہے“۔
اس کتا ب کا آغاز اگرچہ رابندر ناتھ ٹیگور کی مشہور نظم ”امار سونار بنگلا“ سے ہوئی ہے جس میں ٹیگور نے اپنی دیش بھکتی اور اپنے ملک کی خوب صورتی کو بڑے ہی دل کش انداز میں بیان کیا ہے،لیکن اندورن کتاب میں جو سب سے پہلا عنوان ”اب پسماندگی کی مثال نہیں ہے بنگلا دیش“ نے چونکا کر رکھ دیا۔ اس سے قادری صاحب کی کشادہ دلی اور حقائق کو انصاف کی نظر سے دیکھنے اور قبول کرنے کا مزاج سمجھ میں آتا ہے۔ اس عنوان کے تحت انھوں نے غربت اوروسائل کی کمی کے باوجود وہاں ہو رہے ترقیاتی کاموں کاکھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔کشادہ سڑکوں اور ڈھا کا کی عالی شان عمارتوں کا تذکرہ قاری کو اس با ت کا احساس دلاتا ہے کہ بنگلا دیش جسے اب تک ہم دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک سمجھتے تھے، وہ اب غربت کی حدود کو پھلانگ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔کیسے بنگلا دیش معیشت کے محاذوں پر خود کو سنبھالے ہوئے ہے،ان اسباب کا بھی ایک باریک جائزہ پیش کیا ہے۔کیوں کر ہمارا ملک ہندستان تمام تر سہولیات اور اسباب کی فراوانی کے باوجود اپنی معیشت کو بچا پانے میں کامیاب نہیں، اس پر بھی ایک تنقیدی نوٹ قاری کے سامنے آتا ہے۔معاشی ترقی میں سادگی اور کفایت شعاری کا جو گاندھیا ئی اصول تھا جسے ہندستان کو گرہ میں باندھ کر رکھنا چاہیے تھا،اس نے اسے ترک کردیا جب کہ بنگلا دیش اس سادگی کے اصول کو اپنی ترقی کا راز مانتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ قلت اسباب کے باوجود معیشت وثقافت میں ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔
جس ملک کے قیام میں اردو دشمنی اورلسانی تعصب کے عناصر شامل ہوں، شاید ہی ہند وپاک کے ایک عام اردو طالب علم کے صفحۂ خیا ل میں یہ بات آئی ہوگی کہ وہاں اردو کی تعلیم و تعلم کا رواج ہوگا اور ایسا ہی کچھ گمان اس سفر سے قبل قادری صاحب کا بھی تھا لیکن ڈھاکا یونی ورسٹی کے بین الاقوامی سے می نار میں شرکت سے واپسی کے بعد جو تاثرات انھوں نے وہاں کی اردوآبادی کے حوالے سے دیا، اسے پڑھ کر اردو داں طبقے کا سر افتخار سے ضرور بلند ہو جائے گا کہ ان کی زبان کی دھوم بنگالی ملک میں بھی ہے۔اور داغ دہلوی کے شعر کو کچھ تبدیلی کے ساتھ وہ گنگنائے گا:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
یہ کتاب بنگلا دیش میں موجود اردو آبا دی کااچھا خاصا تعارف پیش کرتی ہے،اور وہاں اردو زبان وادب کے حوالے سے مختلف طرح کی سرگرمیوں کا مکمل جائزہ ہند وپاک کی اردو آبادی کے سامنے فراہم کرتی ہے۔نتیجے کے طورپر بنگلا دیش کی اردو آبادی دنیا کے دوسرے ملکوں میں موجود اردو آبادی سے جڑ جاتی ہے جس کا صاف اثر ڈھاکا یونی ورسٹی کے دوسرے عالمی سے می نار میں دیکھنے کو ملا۔بنگلا دیش میں موجود تحقیق و تنقید کے نئے مواقع کے امکانات کے بارے میں سن کر اردو کے روشن مستقبل کی امید جاگ جاتی ہے۔ڈھاکا یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کی آپسی انسیت اور برتاو کی کہانی سن کر دل میں ایک تمنا پید اہونے لگتی ہے کہ کاش یہ بات ہمارے ہندستانی اساتذہ اور طلبا کو بھی سمجھ میں آجائے۔استاد اور شاگرد کے رشتے کو مالک اور غلام میں نہ تبدیل کیاجا ئے۔یہی وجہ ہے کہ طلبا اساتذہ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔نتیجے کے طوپر تعلیمی اور تر بیتی سطح پر طلبا کا معیار گھٹنے لگا ہے جس کادرد قادری صاحب کی تحریر میں بھی چھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ اس سفر نامے کے ذریعہ ہمیں بنگلا دیش میں اردو کی خدمت کررہے ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے جن میں ارمان شمسی،جلال عظیم آبادی،پروفیسر محمود الاسلام، حفصہ اختر،غلام مولاوغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس کتاب میں اگر چہ دیدہ حالا ت کو پیش کیا گیا جس کا خود قادری صاحب نے ان لفظوں میں ذکر کیا ہے: ”اسے اطلاعات کا پشتارہ سمجھنے کے بجائے دل ونظر کا گہوارہ یا چند موہوم تصویروں کے البم کے طور پر بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے“۔لیکن قاضی نذر الاسلا م کے آستانے پر حاضری کا تذکر ہ پڑھتے وقت قاری محض ان کے مزار کی تفصیل سے ہی واقف نہیں ہوتا ہے بلکہ قاضی نذر الاسلام کی زندگی سے متعلق عام معلومات بھی قاری کے سامنے آجاتی ہیں۔ایک باغی اور انقلابی شاعر جو ۹۹۸۱؁ء میں پیدا ہوتا ہے اور محض بائیس برس کی عمرمیں شاعر ی میں ایسی دھاک قایم کر لیتا ہے کہ جب اس زمانے کے سب سے معتبر شاعر رابند نا تھ ٹیگور اپنا شعری ڈراما”بسنت“ لکھتے ہیں تو اس کی نسبت اس باغی شاعر کی طرف کرتے ہیں جو کہ ان کی کم عمری میں مقبولیت کی انتہا کی دلیل بھی ہے اور ٹیگور کے اپنی نئی نسل کو آگے بڑھا نے کے صادق جذبے کا ثبوت بھی ہے۔ مایوسی اس وقت گھیر لیتی ہے جب اس بے باک شاعر کے شاعرانہ جلا ل کے بارے میں پڑھتے پڑھتے ادھیڑ عمر میں ہی ان کی قوت نطق کے سلب ہونے کا ذکر ہوتا ہے۔قوت گویائی کے سلب ہونے سے قبل محض بائیس برس کی ادبی زندگی میں وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں کہ دنیا انھیں فراموش نہیں کر سکتی۔اسے بنگلا دیشی عوام کی خوش قسمتی ہی سمجھی جائے گی کہ انھوں نے قاضی صاحب کی محبت کو اپنے دلوں میں سنبھال کر رکھا ہے جس کی نمایش وہ کتب خانوں،میوزیم سے لے کربازار میں بک رہے ٹی شرٹ اور شال تک میں قاضی صاحب کی تحریروں کو پرنٹ کر کے کرتے ہیں۔
کوکس بازار،جزیرۂ ٹیک نوف،انائن بیچ اور سمندری علا قوں کی سیر کی منظر نگاری اور تذکر ہ قاری کو بنگلا دیش کی زیا رت کی دعوت دیتا ہے۔لوچا فش،اور وہاں کچھ مخصوص ڈش نے تو اس سفر نا مے کو مزید پرُ لطف بنادیا۔دوران سفر بچوں اور اساتذہ کا موسیقی،رقص اور دیگر تہذیبی سرگرمیاں ڈھاکا یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کی آپسی بے تکلفی کو کھول کر رکھ دیتی ہیں۔جب منتظمین نے قادری صاحب سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو سلیپر بس میں سفر کریں کیوں کہ دوسری بس میں سرود وموسیقی کی محفل جمنے والی ہے تو اس وقت قادری صاحب نہ صرف سرخ رنگ کی بس کا انتخاب کرتے ہیں بل کہ پوری رات بچوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں جس سے یہ سمندری سفر مزید یا دگار بن جاتا ہے۔مزید قادری صاحب کا ایک اور پوشید شوق ہم قارئین کے سامنے آتا ہے کہ وہ نقاد ہوتے ہوئے بھی ایک باذوق اور رعنا صفت انسان ہیں۔
کسی بھی سفر نامے کی تشکیل کے وقت یہ نہایت ضروری امر ہوتا ہے کہ سیا ح اپنی تحریروں میں اس بات کو جگہ دے کہ اس نے اپنے ملک کے مقابلے اُس دیش کو کیسا پایا جس کے لیے اس نے رخت سفر باندھا تھا۔قادری صاحب نے جگہ جگہ اس بات کا التزام کیا ہے کہ وہ بنگلا دیش کا اپنے ملک ہندستان سے موازنہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس کتاب کوپڑھتے ہوئے قاری اس با ت کو ضرور محسوس کرتاہے کہ اس کتاب کا ایک حصہ بنگلا دیش کے سمندری علاقوں کے ذکر سے معمور ہے تو دوسرا حصہ وہاں موجود اردو آبا دی کا تعارف پیش کرتا ہے۔قادری صاحب کی تنقیدی نظر ہر جگہ مقابلہ اور موازنہ کرتی ہوئی دکھا ئی دیتی ہے۔جب وہ ڈھا کا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے اساتذہ،طلبا اور وہا ں ہونے والی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کرتے ہیں تو وہیں لازمی طور پر ہندستان میں پڑھنے پڑھانے والوں کا ذکر کر دیتے ہیں،اور بنگلا دیش کی اردو آبا دی اور ہندستانی یونی ورسٹیوں میں رہ رہے اردو داں طبقے میں بنیا دی کیا فرق ہے، اس کو واضح کرتے چلے جا تے ہیں۔جہا ں بنگلا دیشی اساتذہ اپنے طلبا کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے ہیں اور صبح سے لے کر شام آٹھ بجے تک طلبا کو چیمبرس میں ملنے کی اجازت ہوتی ہے تو وہیں ہندستانی یونی ورسٹیوں کے لوگوں میں یہ صفات گاہے گاہے نظر آتی ہیں۔بنگلا دیش جو کہ کچھ دہائیوں پہلے ہندستان کا ہی ایک ریا ست ہوا کرتا تھا، کیسے اس نے خود کو سنبھا لنے اور مضبوط کرنے میں کامیابی حاصل کی؛جنا ب قادری نے اس کو بیان کردیا۔جب وہ کوکس بازار اور ساحلی علاقوں کی سیر پر نکلتے ہیں تو مقامی اور مڈل کلا س لوگوں کی ایک بڑی تعدا د کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوجا تے ہیں۔بعد میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بنگلا دیش نے اپنے سیاحتی علا قوں کو بہت مہنگا اور ذخیرہ اندوزی کا ذریعہ نہیں بنایا جس سے عوام النا س اور مڈل کلا س فیملی بھی ان سیاحتی مقامات کی زیارت کر سکتی ہے اور نتیجے کے طور پر اس سے بنگلا دیش کی معیشت کو بھی تقویت پہنچتی ہے۔سیاحوں کے لیے بنگلا دیش بڑے بڑے دعوے نہیں کرتا ہے بس اس کا ایک سادہ سا نعرہ ہے WE CARE OUR TOURIST۔جب کہ ہندستان میں مڈل کلا س فیملی مہنگائی کی وجہ سے سیاحتی مقامات کی زیارت اور سیر وتفریح کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
اس مختصر سے تجزیے سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ’بنگلا دیش کو میں نے دیکھا‘(امار سونا ر بنگلا)ایک ادبی اور معلوماتی دستاویز ہے جو بنگلا دیش کے متعلق معلومات کی تشنگی کو دور کرتی ہے۔اس کتاب کے مطالعے کے بعد میری رائے میں قادری صاحب افراط وتفریط کا شکار ہوئے بغیر اپنے محسوسات اور مشاہدا ت کو قاری تک پہنچا پانے میں کامیاب رہے۔آپ ضرور اُن سیاحوں کی فہرست میں آنے سے اپنے کو بچا پانے میں کامیاب رہے جو اپنے اسلامی نظریے کی طرف میلان کے سبب کسی ملک کی اسلامی تہذیب وثقافت کو ہی بیان کرتے ہیں یااپنے ادبی ذوق کی وجہ سے اپنے سفر نامے کو کلی طور پر فکشنائزڈ کر دیتے ہیں۔سفر ناموں میں تاریخی معلومات کو اکٹھاکر نے اور ٹورسٹ گائڈ بنا دینے کی جو بدعت چلی آرہی تھی، وہ خود کو اس رسم بے جاسے محفوظ کر پانے میں بھی کامیاب ہیں۔اس کتاب کامطالعہ کرتے ہوئے قاری جگہ جگہ اس بات کومحسوس کرے گاکہ قادری صاحب کا تنقیدی مزاج اس سفر نامے میں کار فرما ہے۔خوا ہ وہ سڑکوں کی کشادگی کے باوجود گاڑیوں کے کچھوے جیسی چال کا ذکر ہویا پھر ڈھاکا یونی ورسٹی میں تحقیقی مقالے کو بنگلا زبان میں بھی لکھنے کی بدعت۔غرض اس کتاب میں قادری صاحب نے اپنے مشاہدات کے مطابق بنگلا دیش کی حقیقی صورت حال کو پیش کردیاہے۔امید ہے کہ سفر ناموں کے شوقین قارئین کو یہ کتاب پسند آئے گی۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے