امام جعفر صادق: اخلاق و ارشادات

امام جعفر صادق: اخلاق و ارشادات


احمد رضا مصباحی(کوشامبی)
موبائل نمبر: 9112534330


تعارف :۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ، امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے اور سیدالمتقین امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب سرور کائنات ، تاج دارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پانچ مبارک واسطوں سے جا ملتا ہے۔ آپ 17/ ربیع الاول ، 80/ ہجری ، دوشنبہ کے روز ، مدینۃ الرسول کی مبارک سر زمین میں حضرت ام فروہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاکیزہ بدن سے تولد ہوئے ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بے شمار فضائل و کمالات کے مالک ہیں ۔ آپ فقہ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر وغیرہ متعدد علوم میں اچھا ملکہ رکھتے ہیں۔ آپ کا علمی مقام بہت بلند ہے ۔ خود سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ آپ کے شاگرد اور آپ کی درس گاہ کے فیض یافتہ ہیں ۔ اکثر زندگی عبادت و ریاضت اور خلق خدا کی ہدایت و اصلاح میں گزاری ہے ۔ طریقت و ارادت سے متعلق بے شمار إرشادات و اقوال آپ کی زبان فیض ترجمان سےصادر ہوئے ، جو آج سالکین طریقت کی زبان زد ہیں ، اس لیے آپ کو طریقت کے امام ، اور عابدوں اور زاہدوں کے رہنما کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے ۔ آپ پوری زندگی شریعت اسلامیہ کے علم بردار اور اخلاق نبویہ کے پیکر مجسم اور عوام الناس کے لئے نمونۂ حسن تھے ۔
اخلاق و صفات :۔ اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے : ” بے شک تمہاری خُو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے” (القلم/4) ، اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں فرماتی ہیں : ” کان خلقہ القرآن” کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن پاک ہے ۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ اور صفات حمیدہ کا ترجمان مکمل قرآن پاک ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع اور تعلیمات قرآن کے متبع اور اس کا عکسی نمونہ تھے۔ آپ کے اخلاق و صفات نہایت ہی اعلی اور بلند تھے ، ہر چیز میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی سختی سے عمل پیرا ہوتے ، صبر و تحمل ، عفت و پاک دامنی ، عفو و درگذر ، تواضع و انکساری اور جود و سخا جیسے عمدہ اوصاف آپ میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ آپ کے اخلاق و اوصاف کی کچھ جھلکیاں درج ذیل ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
خشیت الہی:  آپ رضی اللہ عنہ ایک عابد و زاہد ، مقبول بارگاہ خداوند اور نیک سیرت انسان تھے ، مزید یہ کہ آپ خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تھے۔ پھر بھی ہمہ وقت آپ کے قلب مبارک میں خشیت الہی اور خوف آخرت کا شعلہ مشتعل رہتا تھا ۔ تذکرہ مشائخ نقشبندیہ میں مرقوم ہے کہ ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی نے امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے فرزند رسول ؛ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ؟ کیون کہ میرا دل سیاہ ہو گیا ہے ۔ فرمایا : یا ابا سلیمان ؛ آپ زاہدِ زمانہ ہیں، آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے ؟! داؤد نے عرض کیا : اے فرزند رسول ؛ آپ کو سب پر فضیلت حاصل ہے ، اس لیے آپ پر واجب ہے کہ آپ سب کو نصیحت کریں ۔ فرمایا: یا ابا سلیمان ؛ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قیامت کے روز میرے جد بزرگوار میرا دامن نہ پکڑیں اور یوں فرما دیں کہ میرا حق متابعت کیوں ادا نہ کیا ؟ کیون کہ یہ کام نسب کی شرافت پر موقوف نہیں ہے ، بلکہ درگاہ رب العزت میں عمل کی پسندیدگی معتبر ہے ۔ یہ سن کر داود بہت روئے ۔ ( تذکرہ مشائخ نقشبندیہ ، صفحہ 56)

عبادت : آپ بڑے عبادت گزار اور پرہیزگار تھے ۔ زندگی کے زیادہ تر لمحات لوگوں سے الگ رہ کر عبادت و ریاضت میں گزارتے تھے ۔ حضرت امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک زمانے تک میں آپ کی خدمت میں آتا رہا، مگر میں نے ہمیشہ آپ کو تین عبادتوں میں سے ایک میں مصروف پایا ، یا تو آپ نماز پڑھتے ہوتے ، یا تلاوت میں مشغول ہوتے ، یا روزہ دار ہوتے ۔ ( تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ ، صفحہ 156- 157)
ادب رسول : امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کہ میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی زیارت کرتا تھا، جلوت میں حسن خلق کے سبب سے ان کے مزاج میں مزاح اور تبسم بہت زیادہ تھا ۔ مگر جس وقت ان کے سامنے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا ، تو ان کے چہرہ  کا رنگ زرد ہو جاتا ۔ میں نے ان کو حدیث شریف بیان کرتے وقت بے وضو نہیں دیکھا۔ ( تذکرہ مشائخ نقشبندیہ صفحہ 59) اس سے معلوم ہوا کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے قلب مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک اور حدیث پاک کا بہت احترام تھا۔
تواضع : امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ تواضع و انکساری جیسے محبوب کردار و سیرت کے پیکر تھے ۔ نہ نسب کی شرافت و بلندی کا گھمنڈ اور نا ہی مال و دولت کا غرور تھا۔ ایک مرتبہ آپ اپنے غلاموں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، اور ان سے کہ رہے تھے کہ آؤ اس چیز کا عہد کریں، اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر واضح کریں  کہ قیامت کے روز ہم میں سے جو کوئی نجات پائے وہ باقی سب کی شفاعت کرے گا ۔ ان لوگوں نے کہا : اے ابن رسول ؛ آپ کو ہماری شفاعت کی کیا حاجت ہے ! اس لیے کہ آپ کے نانا جان تو خود تمام مخلوق کی شفاعت کرنے والے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا: مجھے شرم آتی ہے کہ اپنے اعمال کے ساتھ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے سامنے جاکر ، اس سے آنکھیں چار سکوں۔ ( تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ ، صفحہ 156 )
سخاوت : ایثار و قربانی آپ کے خاندان کے اسلاف کرام کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایثار کا تذکرہ قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے : ” کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو” ( الدھر / 8 ) ۔ آپ بھی بڑے غریب پرور اور خدمت خلق کے خوگر تھے ۔ ایک مرتبہ ایک شخص کی دینار کی تھیلی کم ہوگئی، اس نے آپ کو پکڑ کر  کہا : میری تھیلی آپ نے لی ہے ؟ اس بے خبر نے آپ کو پہچانا نہیں اور بلاوجہ الزام لگا دیا ۔ آپ نے فرمایا : بتاؤ تمہاری تھیلی میں کتنی رقم تھی ؟ اس نے کہا : اس میں ایک ہزار دینار تھے ۔ آپ اس کو اپنے دولت خانے پر لے گئے اور ایک ہزار دینار اسے مرحمت فرمائے ۔ اس کے بعد اس نے لوگوں سے دریافت کیا ، کہ آپ کون ہیں ۔ لوگوں نے بتایا  کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ۔ آپ کی ذات سے وہ شخص واقف ہوا تو بڑا نادم ہوا ۔ (تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ ) اس واقعہ سے آپ کی نرم طبیعت ، حسن طینت اور ایثار و قربانی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ارشادات : بزرگان دین اور مشائخ ملت اپنے مریدین و متوسلین کی نصیحت و اصلاح اور ہدایت و رہنمائی کے لئے کچھ اہم باتیں بیان فرماتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے مریدین اور ماننے والوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے بہت سے رہنما اقوال بیان فرمائے ہیں ۔ کچھ ارشادات مندرجہ ذیل ہیں :
( 1) آپ نے فرمایا: جس مصیبت سے قبل انسان میں خوف پیدا ہو وہ اگر توبہ کر لے تو اس کو اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ اور جس عبادت کی ابتدا میں مامون رہنا ، اور آخر میں خود بینی پیدا ہونا شروع ہو تو اس کا نتیجہ بعد الہی (خدا سے دوری) کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ جو شخص عبادت پر فخر کرے وہ گنہ گار ہے اور جو معصیت پر اظہار ندامت کرے وہ فرماں بردار ہے۔ (2) فرمایا : کہ نیک بختی کی علامت یہ بھی ہے کہ عقل مند دشمن سے واسطہ پڑ جائے ۔ (3) فرمایا: کہ پانچ لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرنا چاہئے ، اول: جھوٹے سے، کیوں کہ اس کی صحبت فریب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ دوم : بیوقوف سے، کیوں کہ جس قدر وہ تمہاری منفعت چاہے گا اسی قدر نقصان پہنچے گا۔ سوم: کنجوس سے ، کیوں کہ اس کی صحبت سے بہترین وقت رائیگاں ہو جاتا ہے۔ چہارم: بزدل سے، کیوں کہ یہ وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ پنجم: فاسق سے، کیوں کہ وہ ایک نوالہ کی طمع میں کنارہ کش ہوکر مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ( 4) فرمایا: مومن کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنے مولا کی اطاعت میں ہمہ تن مشغول رہے۔( تذکرہ اولیاء ، صفحہ 10 ) (5) جو شخص ہر کس و نا کس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ، وہ سلامت نہیں رہتا ہے ۔(6) جو برے راستے پر جاتا ہے اسے اتہام لگتا ہے۔ (7) جو اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا پشیمان ہوتا ہے ۔ (تذکر مشائخ قادریہ162)۔

صاحب مضمون کی پچھلی نگارش : میرے خواجہ کی تاثیر نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے