دین میں نسلی تفاخر و آبا پرستی کی گنجائش ہے؟

دین میں نسلی تفاخر و آبا پرستی کی گنجائش ہے؟



مشتاق نوری

لاہوری قلندر نے کہا تھا

غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو

نسلی تفاخر و آبا پرستی دین میں ایک ایسا اضافہ ہے جو اللہ و رسول کو کبھی مطلوب نہیں رہا۔بحیثیت مومن دین میں یا خیالات میں ایسی چیزوں کو ایڈ کرنا روح اسلام کو زک پہنچانے کے برابر ہے۔حسب و نسب کے افتخار سے دین کی برادرانہ تھیوری بے معنی ہوجاتی ہے۔اسلام کا شعبۂ مساوات مجروح ہوجاتا ہے۔سچ پوچھو تو ورود اسلام و بعثت پیمبر کا اصل مقصد ہی یہی تھا کہ زمین پر پھیلے ہر طرح کے بھید بھاؤ، تعصب و حلقہ بندی کے خلاف رن چھیڑ کر ٹکڑوں میں تقسیم انسانی سماج کو ایک ربانی جھنڈے تلے کھڑا کیا جاۓ۔انصار مدینہ کے دل میں مہاجرین مکہ کے لیے ایسا قلبی تعلق، ایسا اپناپن پیدا کیا جاۓ کہ بیٹھے بٹھاۓ دنیا بھر کو حسن مواخات کا خوش گوار ماحول ہاتھ آجاۓ۔تاریخ کا مستند حوالہ گواہ ہے کہ سرداران قریش کے رہتے،اجلۂ صحابہ کی موجودگی کے باوجود ایک غیر قرشی غیر عربی بلال کو کعبۃ اللہ کی چھت پر چڑھا کر اذان دلوانا کوئی عام بات نہیں تھی۔یہ کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ یہ سماجی مزاج کے خلاف ایسا اقدام تھا جس سے بہتوں کی دیرینہ تقدیس، جاگیردارانہ سسٹم، مالکانہ مزاج اور پدرانہ چودھراہٹ کو براہ راست چیلنج کیا جارہا تھا۔مگر پیغمبر نے یہ بخوبی کیا اور دنیا کو جتا دیا کہ دین ہر قسم کی تفریقی لکیریں مٹانے ہی آیا ہے۔ایسا کرکے نبی نے ایک ہی جھٹکے میں قبائل عرب کے صدیوں پرانے نسلی تفاخر کو پل بھر میں خاک میں ملا دیا، بے وقعت کر دیا ہے۔غرور و تعصب بھرے قبائلی اصنام کو ایک ہی ضرب سے پاش پاش کر دیا ہے۔یہیں سے اسلام کا وہ تاریخی دور جنم لیتا ہے جس کے اصول "ایمانی اخوۃ”کے اقبال کے سامنے قیصرانِ زمانہ کا رعب،کسرایانِ جہاں کا دبدبہ ہوا ہوجاتا ہے۔

بر صغیر پاک و ہند میں حسب و نسب اور رنگ و نسل کی یہ غیر اسلامی سوچ اہل ہنود سے غیر ضروری راہ و رسم اور گہرے میل ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔زمانۂ جاہلیت کا یہ روگ جسے پیمبر نے بالکل ریجیکٹ کر دیا تھا آج ہندوانہ معاشرت کے اثر سے نہ صرف ہم میں پنپ رہا ہے بلکہ تھیلیسیمیا (Thalassemia)کی طرح جسم اسلام کے دوڑتے رنگین لہو کو منجمد و بد رنگ کرتا جا رہا ہے۔نسلی تفاخر خواہ کسی صورت میں ہو وہ راندۂ درگاہ رسالت ہی ٹھہرے گا۔کسی کو چھوٹا کرنا یا حقیر و ذلیل سمجھنا تصور دین کے عین خلاف ہے۔یہ سچائی ہے کہ طبقاتی درجہ بندی کے ہلاکت خیز تصور سے ہی دنیا ڈسٹرب چل رہی ہے۔خود کو اشرف و اعلی سمجھنا مطلب کسی سے خدا کا عطا کردہ انعام و حق دبا کر کھلم کھلا قابض ہوجانا ہے۔یہ اول درجے کے نسلی تفاخر کے زمرے میں آتا ہے۔اشراف و ارذال کی اس جبری تھیوری نے ہی ہندو سماج میں جنمے امبیڈکر کو باغی بنایا تھا۔ورنہ پوری شودر کاسٹ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ نسلی و قومی تفاخر کی دوسری تعبیر برہمن واد ہے یا اس کے برعکس بھی۔وہ برہمنیت ہی ہے جس نے خود کو دھرتی پر ایشور کا اوتار بتا کر دوسرے قبائلی، جنگلی، بے علم و شعور و بھولے بھالے سماج کو شودر بنایا۔ان سے دھارمک حقوق ہی غصب کر لیے۔یہ کسی دھرم کا وہ گھنونا چہرہ ہے جس سے اس کی ساری قامت و حیثیت متعفن ہوجاتی ہے۔پھر اس کے پاس عالمی مسائل کا حل نہیں ہوتا وہ خود ایک عالمی مسئلہ بن جاتا ہے۔

اگر ہم ٹھیک سے خطبۂ حجۃ الوداع کا مطالعہ کر لیں تو ہمارے لیے مسئلہ کی تفہیم مزید آسان ہوجاۓ۔یہاں تقریب ذہن کے لیے خطبے کے صرف دو پوائنٹس کوٹ کیے جارہے ہیں۔

(۱)نسلی تفاخر کا خاتمہ (Eradication of ethnicism)

مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! اِنَّ ﷲَ قَدْ اَذْهَبَ عَنْکُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِیَّۃِ، وَ تَعَظُّمَهَا بِالْاٰبَاءِ. اے اہل قریش! خدا نے تمہارے دور جاہلیت کی نخوت و کبر کو ختم کر ڈالا ہے۔اور باپ داداؤں پر فخر و مباہات کو تم سے دور کر دیا ہے۔

(۲) تصور انسانی مساوات(Concept of human equality)

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ ﷲَ یَقُوْلُ: یٰـٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا. اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲِاَتْقٰـکُمْ. فَلَیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ، وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ، وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ، وَلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی.
اے لوگو! رب کا فرمان ہے کہ لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد ایک ہی عورت سے پیدا کیا ہے۔اور تمہیں جماعتوں ، قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم پہچانے جاؤ۔اللہ کے نزدیک تم میں وہی لوگ باکرامت ہیں جو پرہیز گار ہیں۔تو سن لو! کسی بھی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔نہ کسی گورے کو کسی کالے پر مگر تقوی کے ذریعے۔
یہاں ایک ضروری بات عرض کرتے چلیں کہ جب دین میں حسب و نسب اور رنگ و نسل کا تفاخر نامحمود ہے تو پھر کسی کو بھی یہ لکھنے یا برسر اسٹیج کہنے کی اجازت کیوں کر مل سکتی ہے کہ سید چاہے فاسق و فاجر ہو وہ بہر صورت واجب التعظیم ہے۔(اس سے قطع نظر کہ واجب التعظیم اور لائق تعظیم میں کتنا بڑا فرق ہے) مانا کہ یہ مسئلہ ہماری فقہ و تصوف کی کتب میں مل جاۓ گا مگر یہ مسئلہ تب مزید سنگین ہوجاتا ہے جب یہ کسی عالم دین اہل سیادت کے ذریعے ری پیٹ کیا جاتا ہے۔اس سے عام ذہن کو یہی سبق ملتا ہے کہ دین میں اشرف و ارذل کی تقسیم اہل ہنود و یہود کی طرح واجبی ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ جب جب ایسی باتیں مذہبی اسٹیج سے سنائی دیتی ہیں تو اس سے غیر اعلانیہ برہمنیت کے فروغ کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔کیا ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر حسب و نسب پر فخر کرنے کا پہلا حق کسی کو تھا تو صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو تھا۔مگر انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔

آج جو شیوخ خانقاہ و مجاورین درگاہ علما کو دلت سمجھتے ہیں یا ان کے ساتھ دلتوں جیسا behave کرتے ہیں اس میں ان اشراف فی الاسلام کا کم انہی معتوب علما کا زیادہ قصور ہے۔انہی حضرات نے ان پیران مغاں کی ہر جا بے جا حرکتوں کی ایسی تاویل و تعبیر کی کہ یہ لوگ شریعت پر جری ہوگیے۔خود کو احکام شرع پر مقدم سمجھنے لگے۔شریعت پر کتنا بڑا ستم ہے کہ مذہبی طبقے نے گروہی حلقہ بندی میں اپنے اپنے شیوخ کی ناجائز و بے دین حرکتوں کو بھی عین دین بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔یہ اسی پس ماندہ فکری کا نتیجہ ہے. یہ علما اتباع شریعت و پیروئ اسوۂ رسالت کے بجاۓ برہمن مزاج حلقوں میں دنیا و عقبی کی بھلائی ڈھونڈ رہے ہیں۔
کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ان علما نے جو اصل میں وراثت نبی کے سچے وارث و امانت رسول کے لائق امین ہیں، سلاسل کی پیروی میں از حد غلو سے کام لیا ہے۔ارباب سلاسل کے نقص و عیب پر بات کرنے کو بھی خلاف ادب بلکہ خلاف دین بنا دیا ہے۔گویا یہ بھی مشاجرات کا کوئی دوسرا دور چل رہا ہے۔شیوخ کی بے راہ روی پر ٹوکنا علما کی دینی ذمہ داری ہے، بجاۓ اس کے اس کی من چاہی تعبیر و تاویل گڑھنا ملی وقار کے لیے خطرہ ہے۔

ایک دفعہ شرف دست بوسی کے لیے میں ایک پیر صاحب کی آرام گاہ میں داخل ہوا۔اتفاقا حضرت بشری تقاضے سے حمام گیے ہوئے تھے۔میں غلطی سے پیر صاحب کے بستر کے پائینتی بیٹھ گیا۔ایک منٹ مشکل سے ہوا ہوگا خادم آ دھمکا اور مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوۓ پھٹکارنے لگا۔جیسے میں نے بستر پہ بیٹھ کر کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہو۔میں نے اس وقت اتنی خفت محسوس کی بتا نہیں سکتا۔آخر ان لوگوں میں ایسی سوچ کہاں سے آتی ہے؟ان جاہل قسم کے خدام و مریدین میں ایسی جسارت کون بھرتا ہے؟وہ کون سی سوچ ہے جو انہیں علما دین کو بے وقعت سمجھنے کی تحریک دیتی ہے؟

۲۰۱۰ میں ایک جلسے میں یوپی کی ایک بڑی خانقاہ کے پیر صاحب تشریف لاۓ۔فجر سے ۱۵؍ منٹ قبل حجرے سے اسٹیج پر لاۓ گیے۔دعا کی اور چل دیے۔نذرانے کی رقم تھوڑی سی کم تھی۔پیر صاحب تیش میں پیسے اچھالتے ہوۓ ناراضی ظاہر کرنے لگے۔۔علی الصباح لوگ مدرسے میں آکر شکایت کرنے لگے۔مگر واہ رے ہمارے علما ذوی الاحترام!آپ کی وسیع ظرفی کے صدقے،آپ کی بے لوث دفاعی خدمات کے کیا کہنے!ان بپھرے غصاۓ لوگوں کو ہمارے شیخ جامعہ(جو میرے استاذ گرامی بھی ہیں) نے یہ سنا کر چپ کر دیا اور خوش کر دیا کہ "خسرو نے محض نسبت شیخ کا خیال کرکے اپنی کل جمع پونجی سے اپنے نظام کی جوتی خریدی پھر سر پہ سجاۓ حاضر بارگاہ ہونے کو اعزاز سمجھا ہے تو ہم لوگوں کو بھی ان(پیر صاحب) کے بڑوں کی نسبت کا خیال کرتے ہوئے یہ بھول جانا چاہیے اور ان کی خاطر خواہ خدمت کرنی چاہیے”۔بتائیں یہ کتنی بڑی مذہبی لیپا پوتی ہے، اہل علم و ورع خوب سمجھتے ہیں۔یہ شرعی جرم تھا مگر شیخ استاذ نے معرفت و طریقت کی باتیں سنا کر سارے میٹر پر خالص روحانی غلاف چڑھا دیا، جس سے معاملہ وقتی طور پر رفع دفع تو ہوا مگر اشرف ارذل کی درمیانی خلیج مزید بڑھا دی گئی۔

نسب،نسبت،خانوادہ،اور شیخ کا اتنا اور اس شدت سے ڈنکا پیٹا گیا کہ عام تو عام علما دین جو رات دن کتب شریعت و سیرت پڑھ رہے ہیں وہ بھی محض نسبت و نسب کے پجاری ہو کر رہ گئے ہیں۔یہ کتنا تعجب خیز امر ہے، کوئی عالم بیعت و ارادت کے لیے کسی عالم با کمال کی تلاش کے بجاۓ صرف بڑے بینر، بڑے خانوادہ کے جانشین و وارثین ہی ڈھونڈتا ہے۔
ہمارے علما کی پس ماندگی دیکھیے کہ یہ سب کچھ ہوتے ہوۓ کچھ بھی نہیں ہوتے اور شیخان درگاہ کچھ نہ ہوکر بھی بہت کچھ ہوتے ہیں۔علما نے مدارس و جامعات میں بڑی عرق ریزی اور شدید محنت کی ہے. تب بھی یہ صرف مولوی صاحب یا مولانا صاحب تک ہی رہ جاتے ہیں۔ مگر خانقاہی ہونے کا یہ بڑا فائدہ ہے کہ وہاں بڑے بڑے القاب و آداب، خطابات اپنی اتھارٹی میں ہوتے ہیں۔بڑے خطاب و لقب کے لیے علم و فن ،تقوی و دین داری اتنا ضروری نہیں ہوتا۔کوئی فخر ملت،کوئی غازی ملت، کوئی تاج العلما،کوئی رئیس العلما،کوئی عمید المشائخ،کوئی تاج الشریعہ، کوئی داعئ اسلام، کوئی کنزالحقائق، کوئی معمار قوم و ملت(اور بھی بہت کچھ)۔یہ وہ القاب و خطابات ہیں جو ہمارے مسند نشینوں کے قباۓ فاخرہ پر بصورت تکمہ کئی کئی لگے ہوتے ہیں محض مذہبی دھونس جمانے،خود کو برتر پروف کرنے کے لیے۔(سواۓ دو چار کیس کے)

ابھی غالبا سال بھر پہلے بہار کی ایک خانقاہ کے ولی عہد کا جامعہ اشرفیہ میں داخلہ ہوا تو مریدین و متوسلین نے سوشل میڈیا پر اس خبر کو اس قدر نشر کیا لگتا تھا کہ بہار سے کوئی پہلی بار اشرفیہ میں داخلے کا اہل ہوسکا ہے۔ یا وہ آکسفورڈ ،ہارورڈ یونیورسٹی جیسی کسی بڑی تعلیم گاہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹا ہو۔(میرے والدین کا پیرخانہ ہونے کے باوجود مجھ جیسا حساس طبیعت وہاں بھی خاموش نہ رہ سکا)اتفاق دیکھیے کہ پیر صاحب کا لڑکا، میرا بھتیجا (جو بہترین حافظ و قاری بھی ہے)اور میرے گاؤں کے موجودہ امام صاحب تینوں کلاس میٹ ہیں۔بات چلی تو دونوں نے بتایا کہ پیر صاحب کا لڑکا جماعت میں ۱۳۷؍ ویں نمبر پہ ہے۔اگر منسلکین سلسلہ کو برا نہ لگے تو یہاں ذرا رک کر عرض یہ کرنا ہے کہ کل یہی پیر زادہ آۓ گا اور پھر مقتدائی و پیشوائی فرماۓ گا۔بڑی ایمان داری سے ہمارے علما ہی اسے رئیس العلما ،تاج العلما، فخر الاذکیا جیسا کوئی بڑا خطاب دے دیں گے۔(بیک وقت کئی خطاب بھی مل سکتے ہیں)اور ہم لوگ بڑھ بڑھ کے صرف ہاتھ چومیں گے، خدمت کریں گے، اور منہ تاکیں گے۔آپ کو کیا لگتا ہے، کیا نہیں، مگر مجھے اس طرز فکر و عمل سے سخت الرجی ہوتی ہے۔ارباب حل و عقد کا مزاج بگاڑنے میں ہمارے علما و خطبا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کاش! علما اپنا معیار سمجھ لیں، اپنی اقدار متعین کر لیں تو درجنوں دیگر مسائل کے ساتھ پیری مریدی کا مسئلہ بھی حل ہو جاۓ۔تقوی کو درکنار کرکے خانوادہ یا پدرانہ عظمت پہ اترانا جہالت ہے۔یہ ٹھیک وہی سسٹم ہے کہ برہمن کے بچے کچھ نہیں ہیں تب بھی وہ دان دکشنا کے پاتر (سزاوار) ہیں۔دلت شودر کے بچے اگر مکتی چاہتے ہیں، دھرتی پر ایشور کا وردان چاہتے ہیں تو برہمنوں پروہتوں پنڈتوں سوریہ ونشیوں چندر ونشیوں کی سیوا کریں۔

آج ایجادات و ترقیات کے اس ہوش ربا ماحول میں بھی دنیا کو مذہب کی ضرورت ہے۔اسے ایسا دھرم چاہیے جس میں ذات پات،اعلی ادنی،اونچی نیچ کی طبقاتی کش مکش جیسی کوئی برائی نہ ہو، جس میں دین کی برادرانہ سوچ نمایاں ہو۔ اطراف و جوانب میں "کل مومن اخوۃ” کا دور دورہ ہو۔ایک باوقار و اعلی عہدے والے کو کھیت میں ہل چلا رہے ادنی درجے کے ایک کسان کی ایمانی حیثیت کا نہ صرف ادراک ہو بلکہ قلبی و دماغی داعیہ اسے قبول بھی کرے، یہ اسلام کو مطلوب ہے۔علامہ اقبال کے لفظوں میں

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاںگیری،محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے