انتقال حکمرانی کے بعد کےلئے کچھ غور و فکر کیجئے!

انتقال حکمرانی کے بعد کےلئے کچھ غور و فکر کیجئے!


محمد قاسم ٹانڈؔوی

رابطہ: 09319019005
زرعی قوانین کے خلاف ملک بھر میں چلنے والی کسان تحریک کو 3/ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اس تحریک کے مکمل نتائج کب ظاہر ہوں گے، یہ تو اس کے ختم ہونے پر وقت ہی ثابت کرےگا، مگر پھر بھی اس تحریک نے مرکزی حکومت کے دو اہم ذمہ داروں کے چہرے کا رنگ اڑا کر رکھ دیا ہے اور حکومت کو اس کی پسپائی و ناکامی کا احساس پورے طور پر کرا دیا ہے کہ "حکمرانوں کے مزاج میں بھلے ہی تبدیلی واقع نہ ہوئی ہو یا انہیں اپنے عوام کے احساس و جذبات کا بالکل پاس و خیال نہ ہو مگر بزور طاقت و اقتدار تحریکات کو نہ تو کچلا جاسکتا ہے اور نہ ہی مظاہرین کو منتشر یا ان کو ان کے ارادوں میں پست ہمت کیا جاسکتا ہے؛ گرچہ حکومت ابھی بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑی ہوئی ہے۔
زیر نظر تحریر میں اس بات کا اعادہ بھی افادہ سے خالی نہ ہوگا کہ:
"عوامی حمایت کے حصول، اپنے مدعا کو پختگی کے ساتھ رکھنے اور حکمرانوں کے سامنے پیش کرنے میں آج سب سے زیادہ معاون و مددگار جس طرح سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ثابت ہو رہا ہے، اس کی افادیت و اہمیت سے کسی بھی طور نہ تو انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے استعمال کو ترک کرنے کی گنجائش ہے”۔ اس لئے کہ موجودہ حکومت کے طرز عمل نے اس بات کو مضبوط پیمانے پر عوام کے ذہن نشیں کر دیا ہے کہ تحریکوں کی کارگزاری اور عوامی مسائل کے حل میں اس پلیٹ فارم کے استعمال اور اس سے واقفیت رکھنا ہر شخص کےلئے انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ اسی بنیاد پر محققین و دانشواران اور حالات شناس لوگوں کا یہ کہا جانا ایک لحاظ سے بہتر و مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی تحریک کا انجام اور اس سے مرتب ہونے والے نتائج و ثمرات کو اگر حکومت حامی یہ زعفرانی اور بکاؤ میڈیا دکھانے میں کتر بیونت، بےایمانی اور دوغلے پن سے کام لیتا ہے تو اس کام کی انجام دہی اور مکمل عکاسی کےلئے سوشل میڈیا کے اس پلیٹ فارم کو اس کے متبادل اور قوم و ملت کو نعمت غیرمترقبہ کے طور پر اپنانا چاہئے اور اس سے متصف ہو کر وہ کردار نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے جس سے حکومت کا منظور نظر اور اس کا پروردہ میڈیا منھ موڑ چکا ہے۔
اس لئے کہ ملک کی عوام گذشتہ سات سالوں سے اس بات کا مشاہدہ مسلسل کرتے آ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا جو میڈیا عوامی مسائل کی آواز بلند کرنے میں کبھی آزاد و بےبیباک ہوا کرتا تھا اور رعایا کے حقوق و مطالبات کی پاسداری کرنے میں پوری امانت و دیانت کے ساتھ حکمرانوں کے سامنے وکالت کیا کرتا تھا، مگر افسوس! سکوں کی کھنک اور پیسے کی چمک میں آج کا ہمارا یہ میڈیا اس فریضہ کو نبھانا بھول چکا ہے اور مودی سرکار کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے گودی میڈیا میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں ملک کی عوام کا مزاج و مذاق میں تبدیلی آنا یقینی تھا سو اب لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کی اکثریت وقت کے ساتھ خود کو بدلنے اور حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے والے بکاؤ میڈیا کو اس کی اوقات بتا کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے اور خود کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے متصف و مربوط کرکے ملک اور حکومت کی سرگرمیوں سے واقف ہونا چاہتی ہے۔ اس لئے کہ اسے اس بات کا شدت سے احساس ہو چکا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں صرف سوشل میڈیا کے توسط سے ہی صحیح معلومات کا حصول اور مبنی بر صداقت خبریں ہم تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس اعتبار سے اگر غور و فکر کیا جائے تو بہت حد تک یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ادھر تو خوشامدی میڈیا سے عوام کا اعتماد متزلزل اور اس کی صداقت کے تئیں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور ادھر سوشل میڈیا کے دائرہ کار اور اس کی مقبولیت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو ایک خوش آئند امر ہے۔
مگر اس سلسلے میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کا یہ پلیٹ فارم اپنی تمام شاخوں کے ساتھ جو اب تک آزاد تھا اور اس کے استعمال کو اظہار رائے کی آزادی کا سب سے زیادہ مؤثر و مقبول طریقہ تصور کیا جاتا تھا، شاید اس کی یہ خصوصیت باقی نہیں رہےگی، اور اسے بھی اب حکومت کے اشارے پر محدود و مقید کئے جانے اور اسے لگام دینے کی کوششیں کی جانے لگی ہیں۔ اور اس سلسلے میں ہماری حکومت کے دو مرکزی وزیروں (وزیر قانون روی شنکر پرساد اور پرکاش جاویڈکر) نے گذشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اعادہ اور اعلان کیا ہے کہ: "آئندہ تین مہینوں کے اندر سوشل میڈیا کے متعلق تجویز کیا ہوا قانون نافذ کردیا جائےگا”۔ مزید "سوشل میڈیا” کے استعمال کے سلسلے میں وزیر موصوف نے کہا تھا کہ: "تمام کمپنیز کو ایک ضابطہ یہ بھی مرتب کرنا ہوگا اور برابر بتاتے رہنا ہوگا کہ کتنی شکایتیں آئیں اور ان پر کیا کارروائی ہوئی؟ یہاں تک کہ اگر کسی نے کوئی قابل اعتراض مواد یا عوامی تشدد کو بڑھاوا دینے والی پوسٹ اپ لوڈ کی ہے تو متعلقہ کمپنیاں اس بابت تحقیق کرکے بتائیں گی کہ اس سلسلہ کا سب سے پہلا میسج چلا کہاں سے ہے؟
حکومت کے اس نئے اور مخصوص قانون میں مزے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اس قانون کی ضرب اور اس کی شکن سے ملک کی سیاسی جماعتیں بھی آزاد و محفوظ نہیں رہیں گی، اور خلاف ورزی کی صورت میں انہیں بھی قانون کے دائرے میں لا کر جواب دہی کا مکلف بنایا جائے گا۔
اب آپ یہیں سے اندازہ لگا لیجئے کہ عوام اپنی بات رکھنے میں کتنی آزاد ہے اور حکومت کے ایوانوں تک اپنی رائے پہنچانے میں ہم کتنے محفوظ ہیں؟ ہاں ان تمام باتوں اور قانونی موشگافیوں کے تناظر میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے ہمیں نہ صرف مقید و محدود کر دیا ہے بلکہ ایک طرح سے ہمارے اوپر ایمرجنسی بھی نافذ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے؛ کہ جو کوئی بھی حکومت کے خلاف یا اس کی پالیسیوں سے اختلاف و انحراف کرےگا، اس کا ٹھکانہ ہماری حکومت میں کال کوٹھری ہوگا اور جب تک ہم چاہیں گے اسے وہاں مہمان بنا کر رکھیں گے۔ مگر شاید ہمارے حکمراں یہ بھول رہے ہیں کہ موسم بہار سدا کےلئے نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کا عروج و زوال دائمی اور پائیدار ہوتا ہے۔ بلکہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اور زمام اقتدار کا مالک کوئی بھی بنا بیٹھا ہو، وہ وقت اور وہ شے اس کےلیے امتحان و آزمائش کے طور پر آتی ہے ، جہاں اسے اپنی حکمرانی کا سکہ جمانے، رعب و دبدبہ کا زعم قائم کرنے اور مطلق العنانی کا ثبوت یا انانیت و ہٹ دھرمی کا تصور قائم کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایسے مواقع اپنی عوام کی دل جوئی، ہم دردی و خیرخواہی اور ملک و ریاست میں آباد تمام طبقات و افراد کے ساتھ یکساں سلوک اور ان کے اوپر پیار و محبت کے جذبات انڈیلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ تاکہ بعد رخصت یا انتقال حکمرانی کے بعد ہم اپنی عوام کے ذہن و دماغ میں مکمل طور پر رچے بسے رہیں اور موقع بہ موقع عوام کے نزدیک ہم اپنی موجودگی حسین پیرایوں کے ساتھ درج کراتے رہیں۔ ورنہ تو اس دنیا کی حیثیت آنے جانے والی شے کے ساتھ متصور کرائی گئی ہے؛ بایں معنی کہ یہاں جو آیا ہے، سو اس کو یہاں سے رخصت بھی ہونا ہے، مگر اپنے جانے کے بعد اپنی موجودگی کا احساس وہی لوگ کراتے ہیں جو اپنی طاقت و اقتدار کی حالت میں عوام کے دلوں پر راج کرنے اور ان کو جیتنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اس نقطے پر آکر حکومت اور اس کے لیڈران کو از خود سوچ لینا چاہئے کہ کون سی صورت اور کون سا طریقہ ہمیں اختیار کرنا چاہئے تاکہ وہ طریقہ ہمیں لوگوں کے دلوں میں آباد رکھ سکے. 
(mdqasimtandvi@gmail.com

صاحب مضمون کا گذشتہ مضمون : ویلنٹائن ڈے: فریب خوردہ ذہنیت کے غلاموں کا دن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے