دعوت وتبلیغ وقت کااہم تقاضا

دعوت وتبلیغ وقت کااہم تقاضا


انوارالحق قاسمی نیپالی

آج مسلمانوں کاایک بڑاطبقہ رفتہ رفتہ دین اسلام سےدورہوتاچلاجارہاہے،جہاں مسلمانوں کاغلغلہ اوربول بالاہے بالفاظ دیگر جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے،وہاں کےمسلمان توکسی حدتک اسلامی شریعت پر قائم نظرآتےہیں ،وہ قرآن واحادیث کےمطابق تواپنی زندگی گذارتےہیں ؛مگر جہاں مسلمانوں کی قلت ہے ،وہاں کے مسلمانوں میں تودین نام کی کوئی چیزہی نظر نہیں آتی ہے. وہ زندگی اس طرح بسرکرتےہیں کہ ان کےحلیےاور بشرے سے معمولی بھی یہ خیال نہیں ہوتاہے کہ یہ مسلمان ہیں، یہ دین محمدی کے پیرو ہیں ۔
موجودہ صورت حال کودیکھتے ہوئے ضرورت اب شدید سے شدیدترہوچکی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے ،وہاں عموما اورجہاں مسلمانوں کی قلت ہے ،وہاں خصوصادعوت وتبلیغ کو عام کیاجائےاور عالم کےکونےکونے میں دعوت وتبلیغ کی خوب محنت کی جائے اورمسلمانوں کو راہ راست پر لایاجائے اورانہیں پکامومن اورسچامسلم بنایاجائے،تاکہ عالم میں جومسلمانوں سے اللہ تبارک وتعالی کی نافرمانیاں ہورہی ہیں ،ان کاخاتمہ ہوسکے۔
اسی عظیم مقصد کی خاطر اللہ تبارک وتعالی نے انبیاء کرام کومبعوث فرمایااور انبیاء کرام کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد امت محمدیہ کےحکمرانوں ،علماء وفضلاء کوخصوصااورامت کےدیگر افراد کوعموما اس کامکلف ٹھہرایاہے۔
قرآن وحدیث میں اس فریضہ کو اس طرح اہمیت دی گئی ہے کہ تمام مومن مردوں اورتمام مومن عورتوں پر اپنےاپنےدائرہ کار اوراپنی اپنی استطاعت کےمطابق امربالمعروف اورنہی عن المنکر پر عمل کرناواجب ہے۔
امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کاحکم دینا اورنہی عن المنکر کامطلب ہے برائی سے روکنا۔
یہ بات تو ہرآدمی جانتاہے کہ اللہ تعالی نیکی اور نیک لوگوں کوپسند کرتےہیں ،برائی اوربرے لوگوں کوناپسند کرتےہیں ؛اسی لیے اللہ تبارک وتعالی چاہتے ہیں کہ دنیامیں ہرجگہ نیک لوگ زیادہ ہوں اور نیکی کاغلبہ رہے ،برے لوگ کم ہوں اور برائی مغلوب رہے۔
چناں چہ حق جل مجدہ نے اہل ایمان کو محض خود نیک بن کر رہنے اور برائی سےبچنےکا حکم ہی نہیں دیا ،بل کہ ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کاحکم دینے اوربرائی سے روکنے کاحکم دیاہے۔
تبلیغ کی دوصورتیں ہواکرتی ہیں :ایک جوہرجگہ اورہرشخص پر ہے. یہ کسی فرد سے ختم نہیں ہوتی ہے. دوسرا وہ جوصرف علماء کرام پر واجب ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ولتکن منکم امة یدعون إلى الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنكر وأولئك ھم المفلحون.
ترجمہ :اور تم میں ایک جماعت ایسی ہوناضروری ہےکہ (اورلوگوں کوبھی )خیر کی طرف بلایاکریں اورنیک کاموں کے کرنے کوکہاکریں اوربرے کاموں سے روکاکریں اورایسے لوگ (آخرت میں ثواب سے)پورے کامیاب ہوں گے۔
اللہ جل شانہ نے آیت مذکورہ میں جس تبلیغ کاحکم دیاہے ،وہ یہ ہے کہ امت میں سے ایک جماعت اس کام کےلیے مخصوص ہو کہ وہ اسلام کی طرف لوگوں کو بلایاکرےاورجن کودین کےبارے میں معلومات نہیں ہیں ،ان کو دین کےبارے میں بتلائے۔
ارشاد ربانی ہے:کنتم خیر امة أخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر.
ترجمہ :تم بہترین امت ہو جولوگوں کےلئے نکالی گئی ہے؛کیوں کہ تم نیک کاموں کالوگوں کو حکم کرتےہو اوربرے کاموں سےروکتےہو۔
یہاں مسلمانوں کوصرف ایک امت نہیں بل کہ امت خیر کے معززترین لقب سے ملقب فرمایاگیاہےاور یہ اعزاز صرف اس امت کوحاصل ہواہے۔
اس اعتبار سے امت محمدیہ پہلی تمام امتوں پر برتر اور فضیلت کی حامل قرار پائی ہے،جس کی تین بنیادی وجوہات ہیں :(1)اللہ تعالی پر کامل اوربلاشرکت غیر ایمان لانا(2)نیکی پرعمل پیراہوکر دوسروں کو اس کی دعوت دینا (3)برائی سےبچنا اورلوگوں کو اس سے منع کرنا،یہی امت کااجتماعی فریضہ ہے۔
عن أبي سعید الخدری ؓعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال :من رأى منکم منکرافلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانه فإن لم یستطع فبقلبہ وذلك أضعف الإيمان (رواہ مسلم )۔
ترجمہ:حضرت ابوسعید خدری ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کرتےہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سےجوشخص خلاف شرع امر کو دیکھے،تواس کوچاہیےکہ اس چیز کو اپنےہاتھوں سے بدل ڈالے،اوراگر ہاتھوں کےذریعہ اس کونہیں بدل سکتاہو ،توزبان کے ذریعہ اسے بدل دےاور زبان سے اسےبدلنے کی طاقت نہ ہو،تو دل ہی دل میں اسےبراسمجھے۔
برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے تین درجے بیان کئے گئے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے، بشرطے کہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلاف شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے. اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے ۔
واضح رہےکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم بھلائیوں یا برائیوں کی حیثیت کے تابع ہوتا ہے یعنی اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہے کہ اس کو اختیار کرنا واجب ہے تو اس کو اختیار کرنے کا حکم دینا (یعنی امر بالمعروف) بھی واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مستحب ہوگی تو امر بالمعروف بھی مستحب ہوگا، اسی طرح اگر کوئی خلاف شرع چیز حرام کا درجہ رکھتی ہو تو اس سے روکنا یعنی نہی عن المنکر واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مکروہ ہو تو اس صورت میں نہی عن المنکر بھی مستحب ہوگا۔
موجودہ دورمیں ہربینا یومیہ مشاہدہ کررہاہے اورسن رہاہے کہ عالم کےکونےکونے میں اس کرۂ ارضی پر اللہ تبارک وتعالی کی کثرت سےنافرمانیاں ہورہی ہیں. اس لیے ضرورت ہے کہ کثرت سے علماء کرام دعوت وتبلیغ سےجڑیں اور پھر اپنی لازوال محنتوں کے ذریعہ پوری دنیاسے برائیوں کاخاتمہ کرکے دم لیں.

اگرہمت کرے توکیانہیں انسان کےبس میں

یہ کم ہمتی جوبےبسی معلوم ہوتی ہے۔

ہمت کیجئے ،میدان میں آئیے،پھردیکھیے کہ کس طرح باری تعالی آپ سےاشاعت دین کاکام لیتاہےاور آپ کےذریعہ کتنے لوگوں کو راہ راست پر لاتاہےاورکس طرح قدم قدم پر آپ کی نصرت فرماتا ہے ۔
اگر آپ دعوت وتبلیغ کے مشن کو لےکر اٹھ کھڑے نہیں ہوئےاورامت کو گم راہیوں میں بھٹکتاہوادیکھ کر آپ کےدل میں یہ خیال نہیں آیاکہ آپ امربالمعروف اورنھی عن المنکر کے مکلف ہیں ،توپھر قیامت کےروز باری تعالی کےحضور آپ کیامنہ دکھلائیں گے؟ اور اس وقت اللہ کوکیاجواب دیں گے؟۔
اس لیے دعوت وتبلیغ کامزاج بنانے کی ضرورت ہے اورعلوم شرعیہ کوجاننے والاہرشخص پہلے اپنے گھروالوں کو حکمت وبصیرت کےساتھ نصیحت کرے ،ان کودین کے راستے پر لگائےاور اپنے نفس وذات کی اصلاح کی فکر کرے ،اس کے بعد اپنےپڑوس،محلہ والوں کےدین وایمان کی فکر کرے اورجب ان لوگوں کی اصلاح ہوجائےاور یہ لوگ راہ راست پر آجائیں ،توپھر دنیامیں گھوم گھوم کر مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کاکام کریں اورمسلمانوں کوجادۂ مستقیم پر لانے کےلیے خوب محنت کریں ،ان شاء اللہ ضرور بالضرو سارے مسلمان ایک روز راہ راست پر آجائیں گےاور پکےمومن اور سچے مسلمان ہوجائیں گے۔

صاحب مضمون کی گذشتہ تحریر : مولاناریاست علی ظفر بجنوری: مختصر حیات وخدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے