کسان تحریکوں میں عوامی سیلاب،کیاملک میں انقلاب آکر رہےگا ؟

کسان تحریکوں میں عوامی سیلاب،کیاملک میں انقلاب آکر رہےگا ؟


✒️سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد
 رابطہ: 8099695186

کسانوں کی تحریک جاری ہے،70 دنوں سے زائد ہوچکےہیں اس تحریک کوشروع ہوکر،26 جنوری کے بعد ایسالگتا تھاکہ اب یہ آندولن ختم ہوجائےگا اور حکومت طاقت کے نشے میں اسے کچل دےگی،لیکن اچانک راکیش ٹکیٹ کے آنسو نے اس تحریک میں نئی جان پیداکردی، اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہرجگہ ہجوم ہے،جم غفیر ہے، عوامی سیلاب ہے،دہلی کےچار بارڈر، غازیپور، سنگھو، ٹیکری اور شاہجہاں پور میں مرکزی احتجاج چل رہاہے اور ان چاروں جگہوں میں روز بروز احتجاجی کسانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے،یہ تحریک جس طرح عوامی حمایت حاصل کررہی ہے ایسا لگتا نہیں ہے کہ بہت جلد یہ تحریک ختم ہوجائےگی،ہرشہر اور ہرجگہ کھاپ پنچایت بھی ہورہی ہے. اس میں بھی لوگوں کا جم غفیر دیکھاجارہاہے. دوسری جانب اب اس تحریک کو عالمی سطح کی حمایت بھی حاصل ہونے لگی ہے،جسے دیکھ کر بھارت کی سنگھی حکومت سکتے میں تو ہے لیکن وہ کسانوں کے تعلق سے تینوں بل واپس لینے کے موڈ میں اب تک دکھائی نہیں دیتی. پارلیمنٹ کااجلاس جاری ہےاوروہاں بھی گرما گرمی دیکھنے میں آرہی ہے. ایوان بالا کی کارروائی کئی بار کئی کئی گھنٹوں کےلئے ملتوی کردی گئی. ارکانِ پارلیمنٹ کے ہنگامے کےبعد حکومت کسانوں کے تعلق سے بحث کرانے پر راضی تو ہوگئی لیکن اس مباحثے کے نتیجے میں حکومت قدم پیچھے ہٹائےگی اس کے امکانات بہت کم ہیں،کئی ارکان کو مارشل لاء کے ذریعے اجلاس سے باہر بھی کردیاگیاہے کسان آندولن کو نئی زندگی دینے والے،کسان مورچہ کے قومی ترجمان راکیش ٹکیٹ بھی اپنے مطالبے پراٹل ہیں. اور بار بار وہ اس بات کو دہرا رہےہیں کہ”بل واپسی نہیں تو گھر واپسی نہیں”مطلب یہ ہے کہ تینوں بل کی واپسی کے علاوہ اور کوئی چیز قابل قبول نہیں. یکم فروری کو جب پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیاگیا،اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے راکیش ٹکیٹ نے کہاکہ”بل واپسی نہیں تو گھرواپسی نہیں، اور کان کھول کرسن لو،یہ لٹیروں کا آخری بادشاہ ثابت ہوگا”. اس طرح کا بیان راکیش ٹکیٹ مسلسل دے رہےہیں، اور اب تو ان کے لہجے میں نمایاں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے. ان کا عزم وحوصلہ بھی پہلے سے زیادہ مستحکم ہوتاجارہاہے. عوامی تائید اور مقبولیت کے نتیجے میں اب یہ تحریک اپنے عروج پر ہے. ہریانہ کے جیند میں کل ٹکیٹ نے کھاپ پنچایت کے ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتےہوئے کہاکہ”ابھی تو خالی بل واپسی کی بات کی ہےلیکن اگر ہم نے ستہ واپسی کی بات کردی تو پھر کیاہوگا؟”اس سبھا میں مردوں کے علاوہ ہزاروں خواتین بھی شامل تھیں، جہاں لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے اسٹیج بھی ٹوٹ کر گرپڑا. اسٹیج پر موجوداکثر لیڈران کو معمولی چوٹ بھی آئی. کسی بڑے حادثے کی کوئی خبر نہیں ہے. کسان لیڈروں نے6 فروری کوپورے ملک میں چکا جام کرنے کابھی اعلان کیاہے. آنے والے اکتوبر تک اس
احتجاج کوجاری رکھنےکا عندیہ دیتے ہوئے ٹکیٹ نے یہ بھی کہا ہےکہ”جب جب راجہ ڈرتاہے قلعے بندی کرتاہے”یہ بھی کہاکہ”گرفتار کئےگئے کسانوں کی رہائی تک حکومت سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی”
اب سوال یہ ہے کہ کسانوں کا بڑھتا ہوا ہجوم کیا ملک میں انقلاب لاکر رہےگا؟ کیا یہ تحریک ملک کی اقتدار پر قابض سنگھی اورفرقہ پرست حکومت کے خاتمے کا ذریعہ بنےگی؟کیا اس تحریک کے ذریعے ملک کے کروڑوں لوگوں کو نجات حاصل ہوگی؟100 سے زائد کسان اب تک جان گنوا چکےہیں،اور تقریباً ڈیڑھ سولوگوں کو پولس نے 26 جنوری کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ہے،ایسے میں کسانوں کا غصہ آسمان پر ہے. جن لوگوں نے لال قلعے پر جھنڈا لہرایا اور جولوگ اصل مجرم ہیں اب تک ان کی گرفتاری نہیں ہوسکی ہے،لیکن سو سے زائد کسانوں کو دہلی پولس نے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا، جن کے بارے میں کسان لیڈروں کا کہناہے کہ ہمارے جتنے لوگوں کو پولس نے گرفتار کیا ہے یہ سب بےقصور ہیں. اصل مجرم آج بھی آزاد ہیں. دہلی کی سرحد غازیپور اور سنگھو بارڈر پر جس طرح بی جے پی اور آرایس ایس کے غنڈوں نے اس احتجاج کوبدنام اور ختم کرنے اور غنڈہ گردی کے جتنے حربے استعمال کئے اور جتنی کوششیں کی گئی یہ سب ناکام ہوچکی ہے،اور اب تو وہاں بیریکیڈنگ کردی گئ ہے وہ بھی ایسی جیسے سرحدوں پر کی جاتی ہے. سڑکوں کو کھودکر موٹے موٹے نوکیلے راڈ کو سمینٹ ڈال کر نصب کردیاگیا ہے،اور اس طرح قلعہ کی گھیرا بندی کی گئی ہے کہ کوئی پیدل بھی اس راستے سے نہ جاسکے. لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب چیزیں حکومت کو بحران سے نکلنے اور حکومتی قلعے کو مضبوط بنانے میں معاون ومددگار ثابت ہوں گی؟کیا اس طرح ایک ایسی حکومت جس نے لوگوں سے مسلسل جھوٹے وعدے کئےاور سبزخواب دکھائے،7سال کے عرصے میں اس حکومت کا ایک بھی ایسا کوئی کام نہیں جس کو سراہا جاسکے، اور عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق ہو ایسا کوئی ایک بھی قدم نہیں جوقابل ذکر ہو،پھرایسی ناکام حکومت کیا ان چیزوں کے ذریعے اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوگی؟بھارت میں اس سے پہلے بھی انقلاب آچکاہے. کہیں ایسا تو نہیں کہ کسانوں کی یہ جاریہ تحریک اسی انقلاب کی دہلیز پر ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ 1974 میں بہار حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی تھی،جسے بہار تحریک کا نام دیا گیا تھا،یہ تحریک اس وقت بہار میں ریاست کی کانگریس حکومت کے خلاف تھی، کانگریس حکومت کے وزیراعلیٰ عبدالغفور تھے،پٹنہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کےطلبہ کی جانب سے اپنے کچھ مطالبات کو منوانے اوراس کی تکمیل کےلئے یہ تحریک شروع ہوئی تھی. اس کو مضبوط کرنے اور اسے بامقصد بنانے کےلئے پوری ریاست کے طلبہ پر مشتمل ایک تنظیم تشکیل دی گئی،اس تنظیم کا نام بہار چھاتر سنگھرش سمیتی رکھاگیا،اور اس کی صدارت کےلئے بہارکے سابق وزیر اعلی لالو یادو کو منتخب کیاگیا،اسی تحریک میں سشیل کمار مودی،رام ولاس پاسوان کےعلاوہ محمد شہاب الدین اوردیگر رہنما شامل تھے،بعد میں اسی تحریک کی قومی سطح پر توسیع کردی گئی،جس کی قیادت جئے پرکاش نارائن کو سونپی گئی،قومی سطح پر جب اس کی تشکیل کردی گئی تو اسے سمپورن کرانتی کانام دیاگیا. یہ تحریک اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوئی کہ اس تحریک نے نہ صرف یہ کہ بہار کی حکومت کو اکھاڑ پھنکا بلکہ اس تحریک کی آندھی نے اس وقت کی سب سے قدآور رہنما اور خاتونِ آہن کہی جانےوالی اندرا گاندھی کی حکومت کو بھی دہلی سے بے دخل کردیا. اس طرح بہار سے اٹھنے والی یہ تحریک دہلی کےقلعے میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہوگئی اور ملک میں انقلاب آگیا. عزم مستحکم اورجہدمسلسل کسی بھی تحریک کو انقلاب کی دہلیز پر پہنچانے میں اہم کردار اداکرتاہے. کسانوں کی جاریہ تحریک جس طریقے سے جاری ہے اگریہ اسی طرح کچھ اور مہینے تک امن وامان کے ساتھ جاری رہی تو ملک میں انقلاب ضرور آئےگا اور مودی کی ہٹلر شاہی حکومت ضرور زوال پذیر ہوگی. اس طرح کی تحریکیں نہ جانے کتنے فرعون، ہٹلر، ظالم وجابر اور بےلگام حکمرانوں کو ان کی اوقات دکھا چکاہے اور تاش کے پتے کی طرح بکھیر کر رکھ دیاہے، ایسی بہت سی مثالیں تاریخ میں مل جائیں گی،جس نے ظالم ومتعصب حکومت کاغرور خاک میں ملاکر رکھ دیا. ان دنوں ملک کی جوحالت ہے ایسا آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہواہے. لوٹ کھسوٹ کا بازار جس تیزرفتاری کے ساتھ جاری ہے ایسا شاید انگریزوں کے دورمیں ہی ہوا تھا، گورنمنٹ انکم کے تمام اہم ادارے بیچے جارہی ہے. اس طرح ملک کو مکمل طور پر کنگال کیاجارہا ہے. عوام بے روزگار ہے،مہنگائی آسمان پرہے،مسائل کاانبار ہے لیکن حکومت ہندومسلم کرنے میں لگی ہے،ایسے میں ملک ترقی کیسے کرےگا یہ بھی ایک اہم سوال ہے؟دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں انقلاب آچکاہے. دس گیارہ سال قبل "بہار عرب”کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی تھی،ایک آواز اٹھی جسے نہ جانے کتںے مسلم ملکوں کو اپنے آغوش میں لےلیا اور برسوں سے قابض کئی حکمرانوں کو اقتدار سے اکھاڑ پھینکا. روس و فرانس کو تو آپ جانتے ہی ہیں. جو صورت حال اس وقت ہمارے ملک کی ہے کبھی یہی صورتحال فرانس اور روس کی بھی تھی،لیکن وہاں بھی انقلاب آیا،آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ روس اور فرانس میں کیاہوا؟ اور وہاں کیسے انقلاب آیا؟ایک ایسے وقت جب کہ پورے ملک میں طوفان برپاہے، انقلاب کی ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے،ایسے میں روس کے انقلاب کو ضرور یادرکھنا چاہئے. روس میں زار کی حکومت تھی،عوام میں اس کے غیض وغضب پر غصہ تھا، پرامن ریلیوں کے ساتھ احتجاج شروع ہوا، شاہی محل کے سامنے ایک پرامن مظاہرے کا اہتمام کیا گیا، مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ اورپولس جوان خوف زدہ ہوگئے،حواس باختہ اور خوف زدہ ہوکر پولس نے فائرنگ کردی،جس کے نتیجے میں ایک ہزار افراد مارے گئے. 23فروری 1917 کو خواتین کا عالمی دن تھا،دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اورخواتین خوراک راشن لینے گئی تھیں،کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیاکہ خوراک ختم ہوچکی ہے،اب کچھ نہیں ملےگا،اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کاآغاز کردیا،جسے تاریخ میں”فروری انقلاب”سے تعبیرکیا جاتاہے،خواتین نے ارد گرد کے فیکٹریوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار مزدور ہڑتال پر چلے گئے،دودن بعد تک سینٹ پیٹرز برگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہوچکے تھے. طلبہ، سفیدپوش ورکرز اور اساتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہوگئے،بالآخر زار کا سورج غروب ہوکر رہا. کبھی یہی صورتحال فرانس کی تھی،جب پانی سرسے اونچا ہوگیا تو عوام نے غصے میں ان شاہی محافظوں کو کچل دیا،جوفرانس کے بادشاہ کے حکم پر ظلم وبربریت کی کہانیاں لکھاکرتے تھے. فرانس میں اس وقت بوربون خاندان کی حکومت تھی، بادشاہ کے اپنے لوگ تھے،اپنا عدالتی نظام تھا، ہر شعبے پر حکومت کا کنٹرول تھا. عوام نے تنقید کاحق کھودیاتھا. فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کردئیے تھے،وہاں کے مال دار تاجر منصبوں اورعہدوں کو خریدتے تھے،اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہیں کم تھیں، جج بادشاہ کی زیرنگرانی کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے،رشوت خوری کابازام گرم تھا،فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتاتھا،یعنی بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا،فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے،فرانس کا بادشاہ پیرس سے 12میل دور”ورساء” کے محل میں رہتاتھا،اس کے دربار میں 18ہزار افراد موجود تھے،شاہی اصطبل میں 1900 گھوڑے تھے. جن کی دیکھ بھال کےلئے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے. اس کے باورچی خانے کاخرچ پندرہ لاکھ تھا. فرانس بھی دیوالیہ تھا،لاکھوں مزدور بے کار تھے،فرانس کے جیل خانے معصوم اوربےقصور لوگوں سے بھرے پڑے تھے،فرانس میں بادشاہ کےخلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہوگئی. 14جولائی 1789 کا دن انقلاب کے اگتے سورج کادن تھا. پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے،پھر اس کے بعد وہاں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کانقشہ بدل دیا. اس طرح ملکوں میں انقلاب آیاکرتاہے. کسانوں کا یہ پرامن احتجاج کیا اسی انقلاب کےدروازے پر تو نہیں کھڑاہے؟بھارت کو اس وقت ایک نئے انقلاب کی ضرورت بھی ہے آئیے. ہم اور آپ مل کر اس انقلاب کےلئے راہ ہموار کریں اور اپنا کردار اداکریں،فرانس بھی دیوالیہ تھا،بھارت بھی دیوالیہ ہے،وہاں لاکھوں مزدور بے کارتھے،یہاں پورا ہندوستان بے کار اور بےروزگار ہے،لیکن حکومت کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. توپھرآئیے کسان تحریک کو مضبوطی فراہم کریں اور اس میں شامل ہوں۔ مظفروارثی نے شاید یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہےکہ
علی الاعلان کیاکرتاہوں سچی باتیں
چور دروازے سے آندھی نہیں آیاکرتی

(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے