تعزیتی نشست بیاد غافل و یزدانی

تعزیتی نشست بیاد غافل و یزدانی

ڈاکٹر خالد مبشر کی رہائش گاہ پر تعزیتی نشست کا انعقاد
***
۱ – بیاد جناب زبیرالحسن غافل
۲ – بیاد پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی
***
مورخہ ۳۰ ؍ جنوری ۲۰۲۱ ء کو ڈاکٹر خالد مبشر اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی رہائش گاہ واقع شاہین باغ ، نئی دہلی میں شب آٹھ بجے سے تقریبا” دس بجے تک طنز و مزاح کے نام ور شاعر جناب زبیرالحسن غافل اور ایل این متھلا یونیورسٹی کے شعبہء اردو زبان و ادب کے سابق صدر جناب فاراں شکوہ یزدانی کے سانحہء ارتحال پر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا ۔
پروگرام کے کنوینر جناب منظر امام تھے ۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے کہاکہ جناب زبیرالحسن غافل اور پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی کا سانحہء ارتحال اردو زبان و ادب اور خصوصا سیمانچل کا بڑا خسارہ ہے ۔
جناب زبیرالحسن غافل کی مختصر سوانح حیات پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایمان دار اور فرض شناس منصف تھے ۔ ان کی شاعری اس بات کی گواہ ہے کہ وہ سماج میں پھیلی برائیوں ، بدعنوانی ، فرقہ واریت اور رشوت ستانی کے سخت مخالف تھے ۔ اپنی ظریفانہ نظموں کے ذریعہ انہوں نے بدعنوان لیڈروں ، افسروں اور دیگر سرکاری اہل کاروں کی خوب خوب خبر لی ہے حتی کہ منصفوں اور شاعروں کو بھی نہیں بخشا ہے ۔
ان کی شاعری طنز و مزاح کا اعلی معیار قائم کرتی ہے ۔
ڈاکٹر خالد مبشر نے جناب زبیرالحسن غافل کی مشہور نظم ‘ نسخہء لیڈری ‘ کی قرات پیش کی جسے کافی سراہا گیا ، خاص طور پر ‘ معجونِ خباثت ‘ کی ترکیب بہت پسند کی گئ ۔
ڈاکٹر نعمان قیصر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ زبیر الحسن غافل صاحب سائنس کے طالب علم رہے ۔ وہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جیسے مصروف ترین عہدے پر فائز رہتے ہوئے بھی ہمیشہ اردو زبان و ادب کی خدمت میں پیش پیش رہے ، یہ ان کی اردو زبان سے والہانہ لگاؤ کا مظہر ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس خانوادہ سے ان کا تعلق ہے وہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے سیمانچل کا معروف خانوادہ رہا ہے ۔ ان کے والد ظہورالحسن حسن مرحوم اچھے شاعر تھے ۔ ان کا مجموعہ کلام ‘ صحرا بھی سمندر بھی ‘ ان کی وفات کے بعد جناب زبیرالحسن غافل نے شائع کیا تھا ۔ ان کے والد کے چچیرے برادر مظہر القیوم مظہر بھی معروف شاعر گزرے ہیں ۔ ان کا مجموعہ کلام ‘ خیمہء گل ‘ کافی سراہا جا چکا ہے ۔
زبیر الحسن غافل صاحب ایک کہنہ مشق اور قادرالکلام شاعر تھے ۔ طنزومزاح پر مبنی ان کی شاعری گہرے مشاہدے اور فنی لوازمات سے مزین ہے ۔
جناب منظر امام نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جناب زبیرالحسن غافل اور ان کے مجموعہء کلام ‘ اجنبی شہر ‘ کو جیسی پذیرائی حاصل ہونی چاہئے تھی ، ویسی حاصل نہ ہوئی ۔ لیکن اس بات کےلئے دوسروں سے گلہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے زبیرالحسن غافل کے نمائندہ اشعار بھی پیش کئے اور زور دےکر کہا کہ ان کی سنجیدہ شاعری بھی ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری سے کسی طور کم نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شاعری پر مزید کام کیا جائے ۔
مشہور صحافی جناب عابد انور نے جناب غافل سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیمانچل اور خصوصا” ارریہ کی ادبی سرگرمیوں کے تعلق سے ان کی شخصیت ایک مرکز کی حیثیت رکھتی تھی ۔ ہم نے وہ مرکز کھو دیا ہے ۔ وہ تمام لوگوں سے نہایت شفقت اور محبت سے پیش آیا کرتے تھے اور تمام مذاہب و فرقے سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ان کے گرویدہ تھے ۔ ان کی شخصیت ایک ایسے شجر کی سی تھی جو اردو ، ہندی اور دیگر زبانوں کے شعراء و ادباء کو گھنی چھاؤں عطا کرتی تھی ۔
احسان قاسمی نے اپنے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ارریہ قیام کے دوران ان سے میرے گہرے مراسم استوار ہو گئے تھے ۔ وہ تمام لوگوں سے یکساں محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے ۔ ۲۰۰۵ء میں میں نے ارریہ سے جب ایک ادبی رسالہ نکالنے کا ارادہ کیا تو ‘ رابطہ ‘ نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے وہ صدر منتخب کئے گئے ۔ ان کے مشورے سے اس رسالے کا نام ‘ عکس ‘ رکھا گیا ۔ رابطہ کے بینر تلے کئ میٹنگیں اور ادبی نشستیں بھی ہوئیں ۔ میرے افسانوی مجموعہ ‘ پیپرویٹ ‘ کی رسمِ رونمائی میں شرکت کی غرض سے باوجود صحت کی خرابی اور موسم کی سختی کے وہ پورنیہ تشریف لائے جو ان کی شخصیت کے بڑپن کا مظہر ہے ۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن ان کی سنجیدہ اور ظریفانہ شاعری کے علاوہ ان کی نثر میں بھی وہی جاذبیت اور بذلہ سنجی موجود تھی جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔ ‘ پیپرویٹ ‘ پر قلم بند اپنے ایک مضمون میں وہ یوں رقمطراز ہیں ”
تبصرہ نگار وہ ہوتا ہے جو کسی کی تخلیق کو بنا پڑھے تبصرہ کرتا ہے ۔ بقول رضا نقوی واہی ” پڑھ کے لکھا تو تبصرہ کیسا ؟ "چوں کہ میں تبصرہ نگار نہیں ہوں لہذا مجھے ان افسانوں کو پڑھنا ہی پڑا ۔ "
جناب عبدالمنان مدیر یوجنا نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جناب زبیرالحسن غافل کی شاعری طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا اعلی’ نمونہ پیش کرتی ہے ۔ ان کا شمار رضا نقوی واہی اور دیگر چند ایسے شعراء کرام کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ماضی قریب یا زمانہء حال میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا اعلی معیار قائم کیا ہے ۔ ان کی شاعری میں نئے خیالات و مضامین ، الفاظ کی بندش اور نئے تراکیب کا استعمال قاری کو متاثر کرتے ہیں ۔
جناب حقانی القاسمی نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے سوال کیا کہ آخر ہم کب تک تعزیتی نشستوں کا اہتمام کرتے رہیں گے ؟ ہم اپنے بزرگوں اور باصلاحیت لوگوں کی قدر ان کی حیات میں کرنا کب سیکھیں گے ؟
انہوں نے مشورہ دیا کہ ایک ایسے آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے جو سیمانچل سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت لوگوں پر کام کرے ، انہیں پروموٹ کرے اور ہر طرح سے ان کی ہمت افزائی اور عزت افزائی کرے ۔
***
دوسری نشست میں پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی کی حیات اور خدمات پر چرچا کی گئ ۔ جناب منظر امام نے کہا کہ کچھ استاد ایسے ہوتے ہیں جو پڑھنے پڑھانے سے گہرا شغف رکھتے ہیں ۔ فاراں صاحب بھی ایک ایسے ہی استاد تھے ۔ وہ اپنے طلباء کے لئے استاد کے ساتھ ہی ساتھ ایک گائیڈ اور گارجین کی بھی حیثیت رکھتے تھے ۔ لکھنے لکھانے میں دل چسپی تھوڑی کم تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کی واقفیت ان سے کم رہی ۔
ڈاکٹر خالد مبشر نے انھیں ایک باصلاحیت اور مشفق استاد بتایا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ڈاکٹریٹ کا اپنا مقالہ ” پورنیہ میں اردو زبان و ادب ” اپنی حیات میں شائع کرنے سے قاصر رہے ، جب کہ یہ ایک نہایت اہم مقالہ تھا ۔ ان کے اس مقالے کو کتابی شکل میں لانے کی سعی کی جانی چاہئے ۔
جناب عبدالمنان نے بتایا کہ وہ بہت باصلاحیت انسان تھے ۔ متھلا یونیورسٹی میں اپنی بحالی کے وقت انہوں نے اقبالیات پر ایک گھنٹہ بہترین تقریر کی تھی ۔ ان کی تقریر سے وہاں موجود تمام لوگ کافی متاثر ہوئے اور ان کا سلیکشن بطور لیکچرر کر لیا گیا تھا ۔
آخر میں تمام شرکائے نشست نے مرحومین کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ۔
اللہ رب العزت مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات میں بلندیاں عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین !

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے