شعری و ادبی جمالیات : مفہوم و طریقۂ کار

شعری و ادبی جمالیات : مفہوم و طریقۂ کار

 طفیل احمد مصباحی 



جمالیات ( جس کو انگریزی میں ” Aesthetics ” کہتے ہیں ) یونانی لفظ ” Aistheta ” سے ماخوذ ہے ۔ اس کا لغوی معنیٰ ہے : حواس کے ذریعے حسن و دل کشی سے متعلق مشاہدے میں آنے والی اشیا ۔ حسین اشیا کی اصل یا حسین اشیا سے حاصل ہونے والی مسرت و شادمانی اور زندگی میں حسن و دل کشی کی افادیت ظاہر کرنے والے علم و فلسفہ کو ” جمالیات ” کہتے ہیں ۔ حسن و دل کشی ، خوبی و عمدگی ، نظم و ترتیب اور تہذیب و شائستگی جو کلیتاً یا جزئیتاً اشیا کے مشاہدے سے حواس کو متاثر کریں اور ان کے جزوی و کلی تاثر سے ناظر یا سامع پر فرحت و انبساط کے جذبات طاری ہوں ، اس کو ” جمال ” کہتے ہیں ۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ عرف عام میں ہم جس چیز کو ” جمال ” کہتے ہیں ، اس کی مجموعی کیفیت اور اس سے متعلق علم و فلسفہ کو ” جمالیات ” کہا جاتا ہے ۔

” جمالیات ” کی توضیح و تشریح میں محققینِ ادب کے اقوال و آرا مختلف ہیں ۔ ہر ایک نے اپنے ذوق و وجدان کے مطابق اس کی تعریف و تشریح کی ہے ۔ لیکن ہر ایک کی تعریف میں قدرِ مشترک کے طور پر جو بات سامنے آتی ہے ، وہ یہ کہ ” جمالیات ، حسن اور فلسفۂ حسن بیان کرنے اور اس سے مسرت و شادمانی حاصل کرنے کا نام ہے ” ۔

مجنوں گورکھ پوری لکھتے ہیں :

جس انگریزی لفظ ( Aesthetics ) کے جواب میں یہ اردو لفظ ( جمالیات ) گڑھا گیا ہے ، اس کا یہ صحیح مرادف نہیں ہے ۔ انگریزی زبان میں Aesthetics ، جمالیات سے کہیں زیادہ جامع اور بلیغ ہے ۔ Aesthetics کے لغوی معنیٰ ہر اس چیز کے ہیں جس کا تعلق حِس یا حِس لطیف سے ہو ۔ اس اعتبار سے اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو Aesthetics کے لیے ” حِسّیات ” یا ” وجدانیات ” یا ” ذوقیات ” بہتریں اصطلاح ہو ……………. Aesthetics کا موضوع حسن اور فنونِ لطیفہ ہے ۔ اول اول ہیگل نے اس لفظ کو فلسفۂ فنونِ لطیفہ ( موسیقی ، سنگ تراشی ، شاعری وغیرہ ) کے معنوں میں استعمال کیا ۔ اسی رعایت سے عربی اور اردو میں اس کا ترجمہ ” جمالیات ” کیا گیا اور اب اس کو اردو میں قبول کر لیا گیا ہے ۔ جمالیات ، فلسفہ ہے حسن اور فنکاری کا ۔


( تاریخ جمالیات ، ص : 11 – 12 ، ناشر : انجمن ترقی اردو ہند ، علی گڑھ )


مجنوں گورکھ پوری نے حسن اور فن کاری کے فلسفے کو جمالیات کا نام دیا ہے ۔ راقم کی محدود اور ناقص معلومات کے مطابق ہر وہ چیز جو حسن و جمال اور دل کشی و رعنائی کی مُظہر ہو ، وہ جمالیات کے زمرے میں آتی ہے ۔ جمالیات ایک وصف ہے ، جس سے موصوف ہونے والی اشیا بیشمار ہیں ۔ مثلاً : علم و دانائی ، اخلاقِ حسنہ ، دولت و ثروت ( جب کہ اس کا استعمال جائز طریقوں سے ہو ) فکر و فن ، شعر و سخن ، فنونِ لطیفہ کے سارے اقسام ، انسان کے موزوں و متناسب اعضا ، حسین چہرہ ، حسین طرزِ گفتار و کردار ، خوب صورت اعمال و اشغال ، حسین قدرتی مناظر ، وغیرہ وغیرہ ۔ جس طرح وصف کا اپنا کوئی مستقلاً وجود نہیں ہوتا ، اسی طرح جمالیات کا فی نفسہ کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ یہ جب بھی پائی جائے جائے گی ، کسی حقیقتِ ثابتہ کے ضمن میں پائی جائے گی ۔ حسن و جمال جہاں اور جس چیز سے متعلق ہو گی ، جمالیات بھی اس کے ارد گرد یا اس کے اندر پائی جائے گی ۔

غرض کہ فنونِ لطیفہ کے علاوہ جمالیات کہیں بھی اپنا جلوہ دکھا سکتی ہے ، لیکن اس کا نظارہ کرنے کے لیے ذوق آشنا نظر اور بلاغت آشنا فکر چاہیے ۔ جمالیات کا تعلق شعر و ادب سے کچھ زیادہ ہی رہا ہے ۔ جمالیاتی ادب ، جمالیاتی اسلوب اور جمالیاتی تنقید کی اصطلاح آپ نے بارہا سنی ہوگی ۔ مشہور مفکر ” سارتر ” نے شاعری کو فنونِ لطیفہ یعنی مصوری ، موسیقی اور سنگ تراشی کی مانند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان فنونِ لطیفہ ( Fine Arts ) کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے : تفریحِ طبع ، لطف اندوزی اور فرحت و انبساط کا حصول ۔ انسان گانا سن کر لطف اندوز ہوتا ہے ۔ موسیقی کی راگ اور سریلی آواز سے حظ اٹھاتا ہے ۔ خوب صورت عمارت یا مجسمہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔ انسان کے کانوں میں معنیٰ خیز اشعار جب رس گھولتے ہیں تو وہ مچل اٹھتا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان فنونِ لطیفہ میں ایک غیر مرئی مقناطیسی کشش ہے ، جو انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور اپنا والہ و شیدا بناتی ہے ۔ فنونِ لطیفہ میں موجود اس غیر مرئی مقناطیسی کشش کو ” حسن کاری ” کہتے ہیں ، جس کو ادب کی اصطلاح میں ” جمالیات ” کا نام دیا جاتا ہے ۔ اظہارِ حسن اور حصولِ انبساط ، فنونِ لطیفہ کا بنیادی مقصد ہے ۔ شاعری بھی ایک حسنِ مجسم ہے ۔ اب تنقید نگار کا منصبی فرض بنتا ہے کہ دیگر خوبیوں کے علاوہ شعر میں حسن کے جتنے بھی عناصر موجود ہیں ، ان سب کا پتہ لگائے ۔ جو تنقید اس جہت سے شعر اور شاعر کو پرکھے ، اسے ” جمالیاتی تنقید ” کہا جاتا ہے ۔ جس طرح انسان شاعری سے متاثر اور مسحور ہوتا ہے ، اسی طرح نثر نگاری سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے ۔ نظم کی طرح نثر میں بھی ” جمالیات ” اپنا اثر دکھاتی ہے ۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعر و ادب کا جمالیات سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔ جمالیات کی تفہیم اور اس کے شعور و ادراک کے لیے گہرا علم ، وسیع مطالعہ اور ذوقِ سلیم کی ضرورت ہے ۔

ابو الاعجاز حفیظ صدیقی نے اپنی کتاب ” ادبی اصطلاحات کا تعارف ” میں ان تمام عناصر کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے ، جس سے حسن ( جمالیات ) جنم لیتا ہے اور وہ یہ ہیں :

( 1 ) تناسب و توازن . مثلاً : متوازن حرکت ، موزونیت ، تسویہ و تعدیل ، اجزا کا باہمی تناسب ، خطوط کا تناسب ۔
( 2 ) حواس اور جذبات کو متحرک کرنے کی صلاحیت .
( 3 ) رنگ .
( 4 ) خونِ جگر کی نمود ، فنکار کا خلوص اور محنتِ شاقہ .
( 5 ) لطافت ، ملائمت ، پاکیزگی اور نکہت .
( 6 ) تحیر آفرینی کی صلاحیت .
( 7 ) کمال . مثلاً : کمالِ اظہارِ ، کمالِ فن ، صوری ترکیب کا کمال ، فنی جامعیت ، احساس یا جذبہ کا مکمل اظہار .
( 8 ) افادیت .

جب ہم کسی ادیب و شاعر کو ” باکمال ادیب ” یا ” باکمال شاعر ” کہتے ہیں اور اس کے شعری و نثری جواہر پاروں کو سراہتے ہیں تو اس وقت یہ تعریف و توصیف کبھی محض رسمی یا تاثراتی ہوتی ہے اور کبھی حقیقی ہوتی ہے ۔ ادب پارے کو سراہنے کا ہمارا یہ انداز اگر واقعی علمی و معروضی ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فن پارے میں جمالیات کا کوئی خاص عنصر موجود ہے ، جس کو حفیظ صدیقی نے ” کمال ، افادیت ، لطافت ، فنکار کا خلوص ” جیسے الفاظ سے موسوم کیا ہے ۔ اب اس وقت باکمال شاعر و ادیب کے باکمال فن پارے میں دیکھا جائے گا کہ اس میں فکری و فنی جامعیت کتنی ہے ؟ اس میں تکنیکی اصول کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے یا نہیں ۔ اس کا طریقۂ اظہار ، افادی پہلو اور اسلوبِ بیان کس حد تک ذہن و فکر کو متاثر کرنے والے ہیں ؟ اگر اس فن پارے میں جامعیت و افادیت اور فنی کمال ہو ، موضوع و مواد عمدہ ہو ، اسلوب انوکھا ہو ، جذبات و احساسات کی صورت گری نقطۂ انتہا کو پہنچی ہو تو ہم بلا تکلف کہہ دیں گے کہ یہ شعر یا کلام جمالیاتی نوعیت کا حامل ہے اور اس کا حسن و دل کشی قارئین کے دلوں کو مسحور کر دینے والی ہے ۔ تنقیدی نقطۂ نظر سے شعر و ادب میں دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں ۔ ایک اصل مضمون اور دوسرا طرزِ بیان ۔ شاعری و نثر نگاری میں حسنِ معنیٰ کو جتنی اہمیت حاصل ہے ، اتنی ہی اہمیت حسنِ صورت کو بھی حاصل ہے ۔ حسن کاری ( جمالیات ) کا عمل دخل صرف ظاہری شکل و صورت تک محدود نہیں ، بلکہ معنوی صورت سے بھی یہ سروکار رکھتی ہے ۔ اسی لیے افلاطون نے صدیوں پہلے یہ کہہ کر کہ علوم و فنون اور اعمال و قوانین بھی حسین ( جمالیات سے آراستہ ) ہوتے ہیں ، اس حقیقت کی وضاحت کر دی تھی کہ حسن یا جمالیات صرف پیش کش ( اسلوب ) ہی میں نہیں ، بلکہ جو چیز پیش کی جا رہی ہے ( موضوع و مواد ) اس میں بھی ہوتی ہے ۔ شعر و ادب میں فصاحت و بلاغت ، تخیل و محاکات ، سلاست و روانی ، حسنِ الفاظ و معانی اور اسلوب کی جدت و ندرت ، آہنگ اور خاص طور سے زبان کی صوتیات سے ” جمالیات ” وجود میں آتی ہے ۔ الفاظ ، خیالات کا آئینہ ہوتے ہیں اور جب ادیب و شاعر ان دونوں کے فن کارانہ امتزاج و استعمال سے کوئی ادب پارہ تخلیق کرتا ہے تو اس میں قارئین کو جمالیات کا عکس نظر آتا ہے ۔ اسی لیے ادبی زبان کو ” جمالیاتی زبان ” کہا جاتا ہے ۔ شاعری میں زبان کی صوتیات کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ الفاظ کی آواز ، اس کا مترنم لہجہ اور اس کی اشاریت ، بنیادی تاثر یا شعری تجربہ کی ترسیل کا فریضہ انجام دیتی ہے اور تاثر کو گہرا کرتی ہے ، لیکن اس کے لیے شاعرانہ چابک دستی اور غیر معمولی فنی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم فن کار اپنے شعری و ادبی تجربہ کے لیے انہیں الفاظ کو استعمال کرتا ہے جو صوتی نقطۂ نظر سے موزوں و متناسب ہوتے ہیں ۔

طفیل احمد مصباحی کی یہ تحریر بھی پڑھیں:اردو محاورے کی حقیقت اور اس کی ادبی و سماجی حیثیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے